Professor Khan Episode 11 to 16 - Season 2 by Zanoor Writes
View:
Professor Khan
Zanoor Writes
Episode 11
(Series 2 in Professor Shah Novel)
وہ یونیورسٹی آتی قدرے ویران جگہ پر درخت کر نیچے بیٹھی ہوئی تھی۔دل عجیب سا بےچین تھا۔آنکھوں میں برسوں کی تھکن تھی۔وہ خاصی مایوس لگ رہی تھی۔کئی سالوں کا فاطمہ بیگم کا ٹارچر اب آہستہ آہستہ زہر کی طرح اس کے اندر اترتا اسے ختم کرنے لگا تھا۔ اپنے پیچھے کسی کی موجودگی محسوس کرکے بھی وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلی تھی۔کسی نے پیچھے سے اس کی گردن پر گن رکھی تھی۔ نورے کی نظر بےساختہ اوپر کو اٹھی تھیں۔اپنے سامنے اس شخص کو دیکھتے اس کی آنکھیں ایک دم پھیل گئی تھی۔وہ وہی شخص تھا جو اسے پہلے بھی مارنے کی کوشش کر چکا تھا۔ "کیا بگاڑا ہے میں نے تمھارا ؟ کیوں میرے پیچھے پڑے ہو؟" نورے نے بےخوف انداز میں پوچھا تھا۔ "تم نے میرا چہرہ دیکھ لیا ہے یہ ہی تمھاری سب سے بڑی غلطی ہے۔۔" وہ شخص سرد لہجے میں بولا تھا۔ "مجھے مارنا چاہتے ہو؟" اس نے بےتاثر انداز میں پوچھا تھا۔ "ہاں۔۔" اس شخص نے سرد لہجے میں جواب دیا تھا۔ "مار دو۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بےخوف انداز میں بولتی مقابل کو حیران کرگئی تھی۔وہ آنکھیں بند کرتی درخت سے ٹیک لگا گئی تھی۔ "ٹھاہ۔۔" ایک دم کسی چیز کے زمین پر گرنے کی آواز سے اس نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولی تھی۔شازل کو اپنے سامنے کھڑا دیکھتے ناجانے کیوں اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ امڈ آئی تھی۔ شازل نے ایک کٹیلی نظر اس پر ڈالتے فون نکال کر عسکری کو کال ملائی تھی۔اس آدمی کے بارے میں بتاتے وہ نورے کو اپنی نظروں کے حصار میں رکھے ہوئے تھا۔اسے پاگلوں کی طرح مسکراتے دیکھ کر اسے شدید غصہ آرہا تھا۔ وہ کھینچ کر اس آدمی کو درخت کے ساتھ لگا کر بیٹھا چکا تھا اس کے سر میں زور سے پسٹل مار کر وہ اسے پہلے ہی بےہوش کرچکا تھا۔ "بہت شوق ہے نہ تمھیں اپنی جان دینے کا ؟ " شازل نے نورے کو بازو سے کھینچتے کھڑا کرکے درخت سے لگایا تھا۔ "ہاں جیسے آپ کو شوق ہے میرے راستے میں آنے کا۔۔" وہ شازل کی گن پر نظریں رکھے سرد آواز میں بولی تھی۔اس کا منہ دبوچتے شازل نے اس کی آنکھوں سے اپنی آنکھیں ملائی تھیں۔ "میرے ہاتھوں سے مرنا چاہتی ہو؟" وہ سرخ آنکھوں سے اس کی سپاٹ نظروں میں دیکھتے پوچھ رہا تھا۔ "ہاں۔۔" اس نے لاپرواہی سے جواب دیا۔شازل ایک ہاتھ درخت پر رکھتا اس کے اوپر جھکا تھا۔اس کی ٹھوڑی کو تھامتے وہ پراسرار سا مسکرایا تھا۔ "آئی لائک یور اٹیٹیوڈ۔۔گرل" وہ اس کے چِن کے نشان پر انگوٹھا پھیرتا گھمبیر لہجے میں بولا تھا۔نورے کو اپنی تیز ہوتی دھڑکن اپنے کانوں میں محسوس ہونے لگی تھی۔ شازل کی گہری نیلی آنکھوں میں دیکھتے نورے کھو سی گئی تھی۔اچانک اس کے کندھے پر سر رکھتے وہ سسک اٹھی تھی۔ شازل اس کے آنسو اپنے کرتے پر محسوس کرتا ایک پل کو پریشان ہوگیا تھا۔ "نورے۔۔" اس نے دھیمی آواز میں اسے پکارا تھا۔جس کی سسکیاں اونچی ہوتی جارہی تھیں۔نورے نے دھیرے سے سر اٹھاتے بھیگی آنکھوں سے شازل کو دیکھا تھا۔ "میں تھک گئی ہوں۔۔" اپنے دائیں ہاتھ سے چہرہ صاف کرتے وہ معصوم بچوں کی طرح بولی تھی۔شازل سپاٹ نظروں سے اس کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا جو رونے سے سرخ ہوچکا تھا۔وہ پلکوں کی جھالر کو اٹھاتی گراتی مقابل کو اپنا اسیر بنا رہی تھی۔شازل نے اپنے دوسرے ہاتھ سے آہستہ سے اس کی نم پلکیں چھوئیں تھیں۔ "کیوں تھک گئی ہو؟" اس نے کچھ حیرت سے سوال کیا تھا۔ "کچھ نہیں۔۔" وہ ایک دم ہوش میں آتی تیزی سے پیچھے ہٹتی دیوار سے چپک گئی تھی۔ "یو آر میکنگ می کریزی۔۔" وہ بڑبڑایا تھا۔نورے سے دور ہٹتے اس نے عسکری کے بھیجے گئے ساتھیوں کو دیکھا تھا۔انھیں دیکھ کر وہ دیوار بن کر نورے کے آگے کھڑا ہو گیا تھا۔ "اسے عسکری پاس لے جاو اور کسی کی نظر میں مت آنا۔۔" شازل سرد لہجے میں بولا تھا۔وہ دو لوگ تھے جو سر ہلاتے بےہوش شخص کو اٹھاتے وہاں سے چلے گئے تھے۔ "تم اپنی کلاس میں جاو۔۔" وہ درخت سے ٹیک لگا کر کھڑی نورے کو دیکھتا بولا تھا۔ "میں یہاں ہی بیٹھوں گی کیا کرلیں گے آپ ؟" وہ زمین پر بیٹھتی ضدی لہجے میں بولی تھی۔شازل نے اسے گھور کر دیکھا تھا۔جس کا دماغی توازن آج بگڑا ہوا نظر آرہا تھا۔ "کوئی نشہ تو نہیں کرکے آئی۔۔؟" شازل نے اس کے قریب پنجوں کے بل بیٹھتے خاصی سنجیدگی سے پوچھا تھا۔نورے کا موڈ بگڑا تھا۔فاطمہ بیگم کی وجہ سے وہ واقعی پاگل ہونے والی ہوگئی تھی۔ "آپ کا کوئی لیکچر نہیں۔۔؟" نورے نے الٹا اس سے سوال کیا تھا۔ "میرے ایک سوال کا جواب دے دو میں یہاں سے چلا جاوں گا۔۔" وہ نورے کی طرف جھکتا بولا تھا۔نورے نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔ "تم نے اس شخص سے بچنے کی کوشش کیوں نہیں کی ؟" شازل کا سوال سن کر وہ مسکرائی تھی۔اس نے ہاتھ کے اشارے سے شازل کو اپنی جانب جھکنے کا اشارہ کیا تھا۔شازل اس کے آگے جھکا تھا وہ اس کے کان کے قریب جھکتی بےتاثر انداز میں بولی تھی۔ "کیونکہ مجھے جینے کی خواہش نہیں ہے۔۔وہ میرا کام آسان کر رہا تھا۔۔" اس کے جواب نے شازل خان کو ساکت کردیا تھا۔اس نے نورے کو حیرانی سے دیکھا تھا۔جس کی آنکھوں میں ناجانے کونسا ڈر تھا۔اس کے دل کو کچھ ہوا۔۔ "اگر کسی نے کچھ کہا ہے تو مجھے بتاو۔۔" اس نے بےساختہ نورے کی ٹھوڑی کو جکڑتے پرتپش لہجے میں پوچھا تھا۔اس کا جواب سن کر ناجانے کیوں دل جل سا اٹھا تھا۔ "کیا کرلیں گے آپ ؟ کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔۔" وہ اس کی نیلی آنکھوں میں دیکھتی مایوسی سے بولی تھی۔شازل کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔ "تم جو کہو گی میں وہ ہی کروں گا۔۔ایک بار بول کر دیکھو۔۔" شازل نے سنجیدگی سے کہا تھا۔وہ پراسرار سی مسکرائی تھی۔ "سچی ؟" اس نے چمکتی آنکھوں سے پوچھا۔شازل بنا سوچے سمجھے اپنے بھڑکتے دل کو ٹھنڈک پہنچانے کے لیے سر ہلا گیا تھا۔ "مجھ سے نکاح کرلیں۔۔" اس کی بات نے شازل کو ساکت کردیا تھا۔اس نے بےیقینی سے نورے کو دیکھا تھا۔ "نہیں کرسکتے نہ ؟ آپ بھی باقیوں کی طرح جھوٹے ہیں۔۔" وہ سلگتے لہجے میں طنزیہ ہنس کر بولی تھی۔ "مجھے کچھ ٹائم چاہیے سوچنے کے لیے۔۔" وہ لب بھینچ کر بولا تھا۔اب بات کی تھی تو اپنی انا کی خاطر اس پر قائم بھی تو رہنا ہی پڑنا تھا۔ "آپ رہنے دیں میں اعمار سے بات ک۔۔" اس کی بات منہ میں ہی دب گئی تھی جب شازل نے اس کی گردن کو دبوچتے اس کا چہرہ اپنے چہرے کے بےحد پاس کیا تھا۔ "اس کے بارے میں سوچنا بھی مت۔۔" وہ غصے سے دھاڑا تھا۔نورے کی آنکھیں چمک اٹھی تھی۔اس کی جیلسی دیکھ کر دل پر ٹھنڈی پھوار برس پڑی تھی۔ "آپ نہ سہی تو کوئی اور سہی۔۔اور مجھے لگتا ہے آپ سے زیادہ اچھا آپشن اعمار ہے۔۔" وہ اس کے سرخ چہرے کو دیکھتی مزید اس کے غصے کو ہوا دے رہی تھی۔غصے سے اس کی گردن کی رگیں پھول گئی تھیں۔ماتھے پر تیوری چڑھ گئی تھی۔آنکھوں میں لال ڈورے سے ابھرنے لگے تھے۔ "میں تم سے نکاح کروں گا کسی دوسرے مرد کا خیال بھی اپنے ذہن میں مت لانا۔۔" شازل کی جھلسا دینے والی سانسیں اسے اپنے چہرے پر محسوس ہورہی تھی۔اس کا جنونی انداز دیکھ کر وہ ایک پل کو ڈر بھی گئی تھی۔لیکن اس نے ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔ "اب جب تم نے یہ نکاح کی پیش کش مجھے کر ہی دی ہے تو اس کا اب دوبارہ کسی کے آگے ذکر کرنے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔" اس کے بالوں کو مٹھی میں جکڑتا وہ اسے اچھے سے وارن کرگیا تھا۔نورے اس کی تکلیف سخت پڑتی محسوس کرتی جھٹ سے سر ہلا گئی تھی۔ "فورا اٹھو اور کلاس میں جاو۔۔کل تمھارے گھر رشتہ پہنچ جائے گا۔۔" وہ اسے بازو سے پکڑتا کھڑا کرچکا تھا۔اس کے لہجے میں کوئی گنجائش نہیں تھی تبھی وہ جھٹ سے وہاں سے رفو چکر ہوگئی تھی۔اس کی بات سے دل میں خوشی سے کونپلیں کھلنے لگی تھی۔چہرے پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔ شازل نے اس کے جانے کے بعد غصے سے اپنے بال زور سے مٹھی میں بھینچے تھے اس کا کسی دوسرے شخص کا ذکر کرنا ہی اسے پاگل کر رہا تھا۔ وہ کیسے برداشت کرلیتا اسے کسی اور کے ساتھ دیکھنا جب اس کا نام ہی کسی دوسرے شخص کے نام کے ساتھ جڑا سن کر اس کے دل میں آگ سی لگ گئی تھی۔
ہر چھ مہینے بعد دانین کا تھرپی سیشن ہوتا تھا۔آج اس کا سیشن تھا لیکن وہ جانا نہیں چاہتی تھی۔اس کے ذہن میں یہ ہی تھا سب بھول گئے ہیں مگر ملائکہ کو یاد تھا۔ "دانین بیٹا تیار ہوجاو۔۔تمھیں پتا ہے نہ یہ سیشن کتنا ضروری ہے۔۔" ملائکہ اس کے سر پر کھڑی اسے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی جو کمبل سر پر تانے ضدی بن کر لیٹی ہوئی تھی۔ "میرا دل نہیں کر رہا۔۔آج کینسل کردیں۔۔" وہ منہ بگاڑ کر کمبل کے اندر سے بولی تھی۔ "دانین کیوں مجھے اتنا تنگ کر رہی ہو اٹھ جاو نہیں تو میں آغا خان کو کال کردوں گی۔۔" ملائکہ کی دھمکی پر بھی اسے کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ "مجھے نہیں جانا۔۔ مجھے نہیں جانا۔۔۔ بس نہیں جانا۔۔" وہ ضدی لہجے میں بول رہی تھی۔ملائکہ نے ہار مانتے ایک گہری سانس خارج کی تھی۔وہ جانتی تھی اب بس اسے روحان ہی منا سکتا ہے۔۔یہ سیشن اس کے لیے بےحد ضروری تھا وہ نہیں چاہتی تھی دانین اسے مس کرے۔۔اور اپانٹمنٹ بھی بےحد مشکل سے ملتی تھی۔ "روحان پلیز اسے جاکر سمجھاو۔۔آج اس کا تھرپی سیشن ہے جو اس کے لیے بہت ضروری ہے۔۔مگر وہ ضد لگا کر بیٹھی ہے کہ نہیں جانا۔۔" وہ پریشانی سے بول رہی تھی۔ "کیسا سیشن ؟" روحان نے حیرت سے پوچھا تھا۔ "یہ جب تم دانین سے پوچھو گے تب تمھیں ہتا چل جائے گا۔۔بس اتنا جان لو یہ اس کی مائینڈ کنڈیشن کو ٹھیک اور نائٹ میئرز کو دور کردے گا۔۔" ملائکہ کی بات سن کر اس نے جبڑے بھینچتے سر ہلایا تھا۔ "وہ تمھاری بات مانتی ہے تبھی تمھیں بول رہی ہوں ایک گھنٹے بعد اس کی اپائنمنٹ ہے۔۔اسے جلدی سے منا لو۔۔" ملائکہ نے پرامید لہجے میں کہا تھا۔وہ خاموشی ست سر ہلاتا اوپر چلا گیا تھا۔ دروازہ ناک کرتا وہ دانین کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔اسے کمبل کے اندر چھپا دیکھ کر اس کے ہونٹ بےساختہ مسکرا اٹھے تھے۔ "دانین۔۔فورا باہر نکلو۔۔" اس کی سخت آواز سن کر وہ جھٹکے سے باہر منہ نکال چکی تھی۔آج پہلی بار روحان نے سختی سے اسے بلایا تھا۔ "جلدی سے اٹھ کر فریش ہوجاو ہمیں ڈاکٹر پاس جانا ہے۔۔" روحان کی بات سنتے اس نے ناک سکیڑی تھی۔اس کا بالکل بھی دل نہیں تھا۔ "میرا دل نہیں کر رہا۔۔" وی بچوں کی طرح معصوم منہ بنا کر نم آنکھوں سے بولی تھی۔روحان اس کا چہرہ دیکھ کر پگھل گیا تھا مگر پھر اچانک ملائکہ کی بات یاد آتے اس نے سنجیدگی سے دانین کو دیکھا تھا۔ "اگر تم میرے ساتھ جاو گی تو پھر واپسی پر میں تمھیں آئس کریم کھلاوں گا۔۔" وہ اسے بچوں کی طرح لالچ دے رہا تھا جو کام بھی کر گیا تھا۔اس کی آنکھیں بچوں کی طرح روشن ہوگئی تھیں۔ "اب اپنی بات ہر قائم رہیے گا۔۔" وہ تیزی سے بولتی فریش ہونے چلی گئی تھی۔ٹائم سے تیار ہوتی وہ روحان کے ساتھ ہوسپٹل چلی گئی تھی۔
"کافی دن ہوگئے ہیں نورے سے بات نہیں ہورہی آج بھی ڈنر کرنے نہیں آئی۔۔" شاہزیب افرحہ کی گود میں سر رکھے لیٹا ہوا تھا۔افرحہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلا رہی تھی۔ "ہاں میں نے بھی اسے نہیں دیکھا اپنے کمرے میں ہی زیادہ بند رہتی ہے یونیورسٹی کے کام سے مجھے فرصت ہی نہیں ملتی ورنہ میں اس سے بات کرلیتی۔۔آپ جائیں اس کے ساتھ تھوڑا ٹائم سپینڈ کریں اس سے پوچھیں کیوں نہیں آئی ڈنر پر کیا آنٹی نے تو اسے کچھ نہیں کہا ؟؟" افرحہ اس کے چہرے پر نظریں ٹکائے بولی تھی۔شاہزیب افرحہ کی بات سنتا اٹھ بیٹھا تھا۔اس کے ماتھے کو چومتا وہ مسکرا اٹھا تھا۔ "تھینک یو جانم مجھے گائیڈ کرنے کے لیے میں کچھ دیر تک واپس آتا ہوں۔۔" وہ افرحہ کے گال ہر بوسہ دیتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔افرحہ نے شاہزیب کو مسکراتے ہوئے فلائنگ کس پاس کی تھی۔جسے اس نے کیچ کرتے اپنے دل کی طرف اچھال دی تھی۔اس کے ڈرامائی انداز پر وہ کھلکھلا اٹھی تھی۔ شاہزیب کمرے سے نکلتا نورے کے کمرے کی جانب چل دیا تھا۔دروازے پر ناک کرتا وہ کمرے میں داخل ہوا تھا۔نورے بیڈ پر لیٹی ہاتھ میں کوئی کتاب پکڑے پڑھ رہی تھی۔شاہزیب کو دیکھتی وہ سیدھی ہوکر بیٹھ گئی تھی۔ "کیسا ہے میرا بچہ ؟" شاہزیب نے اس کے پاس بیڈ پر بیٹھتے پوچھا تھا۔ "ٹھیک ہوں۔۔" اس نے سپاٹ انداز میں جواب دیا تھا۔ "کیا اس عورت نے تمھیں کچھ کہا ہے ؟" شاہزیب اس کا بےرخی والا انداز دیکھتا پوچھنے لگا تھا۔ "آپ کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔آپ اپنی لائف انجوائے کریں۔۔" وہ کتاب پر نظریں ٹکائے بےتاثر انداز میں بولی تھی۔ "نورے۔۔ بچے مجھے تمھاری فکر ہے۔۔ جو بھی بات ہے مجھ سے شئیر کرو۔۔" شاہزیب نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ "میں کسی کو پسند کرتی ہوں۔۔" وہ لب کاٹتی دھڑکتے دل سے بولی تھی۔خوف سے دل کانپ بھی رہا تھا کہ نہ جانے شاہزیب کا کیا ریکشن ہوگا۔۔ "کس کو؟" شاہزیب نے حیرانی سے اس کی جانب دیکھا تھا۔وہ جانتا تھا غصہ کرنا جائز نہیں جب اس نے پسند کی شادی کی تھی تو اس کی بہن کا بھی ہورا حق تھا اپنے من چاہے شخص سے شادی کرے۔۔ "آپ غصہ نہیں ہیں؟" نورے اس کے پرسکون انداز پر حیرت میں ڈوبتی پوچھ رہی تھی۔ "نہیں۔۔ اس میں غصہ ہونے والی کیا بات ہے ؟ جب میں نے افرحہ سے اپنی پسند کی شادی کی ہے تو تمھارا بھی پورا حق ہے اپنی پسند سے شادی کرو۔۔لیکن میری ایک شرط ہے وہ لڑکا اچھا ہونا چاہیے۔۔" شاہزیب نے اس کے دونوں ہاتھوں کو شفقت سے چومتے کہا تھا۔نورے کی آنکھیں بےساختہ نم پڑ گئی تھیں۔ "و۔۔وہ بہت اچھا ہے۔۔کل میرے لیے رشتہ لانا چاہتا ہے۔۔" اس نے شاہزیب کے ہاتھوں پر گرفت مضبوط کرتے لب کاٹتے بتایا تھا۔ "اوکے۔۔ تو اس میں گھبرانے والی کیا بات ہے گڑیا میں سب سنبھال لوں گا۔۔اگر لڑکا اچھا ہوا تو میں تمھیں مکمل سپورٹ کروں گا اور بابا کو بھی میں خود مناوں گا۔۔" شاہزیب کی بات پر وہ کھل کر مسکرا اٹھی تھی۔ "لڑکے کا نام کیا ہے ؟" شاہزیب نے نرم لہجے میں پوچھا تھا۔ "شازل۔۔" اس کے منہ سے شازل کا نام سن کر شاہزیب ساکت ہوگیا تھا۔ "شازل خان ؟" شاہزیب نے کنفرم کرنا چاہا تھا۔ "ج۔۔جی" اس نے کانپتی آواز میں تصدیق کی تھی۔اسے شاہزیب کے سنجیدہ تاثرات سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ "آپ پلیز ایک بار میری خاطر ان سے مل کر دیکھ لیں۔۔" اس نے نرمی سے التجا کی تھی۔ "اوکے گڑیا پریشان مت ہو۔۔" شاہزیب نے نرمی سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔اپنی بہن کے لیے وہ شازل جیسا کڑوا گھونٹ بھی بھر سکتا تھا۔ "تھینک یو سو مچ بھیا۔۔۔" وہ خوشی سے چہکتی شاہزیب کے گلے لگ گئی تھی۔ "خوش رہو گڑیا۔۔" شاہزیب نے اس کے گرد حصار باندھتے اس کے بالوں پر لب رکھے تھے۔اپنی بہن کی خوشی دیکھ کر وہ بھی بےحد خوش تھا۔
روحان ویٹنگ ایریا میں بیٹھا دانین کا انتظار کر رہا تھا۔اس کا ایک گھنٹے کا سیشن تھا جو ختم ہونے والا تھا۔دانین کے باہر نکلتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ "کیسا رہا سیشن ؟" روحان نے اسے دیکھتے ہی پوچھا تھا۔ "بس ٹھیک تھا۔" اس نے ناک چڑھائی تھی۔وہ روحان کے ساھ چلتی باہر نکلی تھی۔باہر کی ٹھنڈی ہوا سے اس کی ناک سرخ پڑ گئی تھی۔ "افف اتنی ٹھنڈی ہوا۔۔" سردی سے اس کے دانت آپس میں بجنے لگے تھے۔ "ایک منٹ رکو۔۔" روحان نے اسے روکتے اپنے گلے سے اپنا مفلر اتارتے اس کے گلے کے گرد دھیرے سے باندھ دیا تھا۔ "تھینک یو۔۔ کیا آپ کو ٹھنڈ نہیں لگ رہی ؟" اس نے مشکور کن نظروں سے روحان کو دیکھتے پوچھا تھا جو اس کی کلائی پکڑے اسے تیزی سے گاڑی کی طرف لے گیا تھا۔ گاڑی کا دروازہ کھولتے اس نے دانین کو فرنٹ سیٹ پر بیٹھاتے اس کی بیلٹ بند کی تھی۔اس کے جھکنے پر وہ اپنا سانس روک گئی تھی۔روحان نے پیچھے ہٹتے اس کے ماتھے پر انگلی سے فلِک کیا تھا۔ اپنے ماتھے پر بےساختہ ہاتھ رکھتے اس نے تیزی سے ڈرائءونگ سیٹ سنبھالتے روحان کو گھور کر دیکھا تھا۔ "آپ نے پرامس کیا تھا آئس کریم کھلائیں گے۔۔" اس نے اپنی سرخ چھوٹی سی ناک چڑھاتے روحان سے کہا تھا۔روحان نے باہر دیکھا تھا جہاں موسم کب اپنے تیور بدل جائے کوئی خبر نہیں تھی۔ لیکن اس دشمنِ جان سے بھی تو وعدہ کیا ہوا تھا۔ "کونسا فلیور لو گی ؟ " اس نے آئس کریم پالر کے باہر گاڑی روکتے پوچھا تھا۔ "چاکلیٹ اینڈ ونیلا۔۔" اس نے مسکا کر جواب دیا۔روحان سر ہلاتا اس کے لیے آئس کریم لینے چلا گیا تھا۔ "یہ لو آئس کریم مگر ساری مت کھانا دوبارہ بیمار پڑ جاو گی۔۔" اس نے کچھ پریشانی سے کہا تھا۔دانین نے آئس کریم پکڑتے لاپرواہی سے اپنا سر ہلایا تھا۔ "آپ نے آئس کریم نہیں کھانی ؟" اس نے روحان کے خالی ہاتھ دیکھتے پوچھا۔ "نہیں میرا دل نہیں کر رہا تم کھاو۔۔" اس کے نرمی سے بولنے پر وہ سر ہلاتی آئس کریم کھانے لگی تھی۔ آدھی آئس کریم کھاتے اس نے روحان کی طرف بڑھا دی تھی۔ "باقی آپ کھالیں۔۔" اس نے مسکراتی نظروں سے روحان کو کہا تھا۔جو پرحدت نگاہوں سے اسے دیکھتا اس کے ہاتھ سے آئس کریم تھام گیا تھا۔ "آپ کیسے کھائیں گے ؟" اس نے ڈرائیو کرتے روحان کو کہا پھر آئس کریم پکڑتی خود اسے اپنے ہاتھوں سے کھلانے لگی تھی۔روحان اس کے ہاتھ سے آئس کریم کھاتا اس کو اپنی نظروں کے حصار میں رکھے ہوئے تھا۔اس کا مکمل فوکس سے آئس کریم کھلانا اسے مسکرانے پر مجبور کر رہا تھا۔
"مجھے بس ایک بات جاننی ہے تم نورے کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہو؟ جبکہ تمھاری دشمنی مجھ سے ہے۔۔" شازل اس شخص کے سامنے بیٹھا تھا انھیں پتا چلا تھا اس کا نام ارسل تھا۔ "میں تجھ جیسے (گالی) کو بتانا پسند نہیں کرتا۔۔" اس کے جواب پر طیش میں آتے شازل نے اس کے زخمی منہ پر ایک زوردار مکہ دوبارہ مارا تھا۔کرسی سے بندھا وہ زخمی شخص مار کھانے کے بعد بھی اپنا منہ کھولنے ہر راضی نہیں تھا۔ "تم جیسوں کو سیدھا کرنا مجھے آتا ہے۔۔" شازل نے بولتے ہوئے اپنی گن نکالتے اس کے گھٹنے پر نشانہ لیا تھا۔وہ تکلیف سے بلبلا اٹھا تھا۔ "چل بتا کس کے لیے کام کر رہا ہے ؟" شازل نے طیش میں پوچھا تھا۔وہ شخص تکلیف سے دہرا پڑ رہا تھا۔ "میں نہیں بتاوں گا۔۔لیکن یاد رکھنا جو حال تیری بہن کا ہوا تھا وہ ہی حال اب اس لڑکی کا ہوگا۔۔" نورے اور اپنی بہن کا ذکر سن کر اس نے خود پر سے قابو کھو دیا تھا وہ گولیوں کی بوچھار مقابل پر کر گیا تھا۔ "یہ کیا کیا تم نے شازل؟ اب ہمیں کیسے پتہ چلے گا یہ کس شخص کے لیے کام کر رہا تھا۔۔؟" حیدر سلطان نے ملامتی نظروں سے شازل جو دیکھتے کہا تھا۔ "شٹ اپ۔۔ جو شخص میرے خاندان کے بارے میں غلط بولے گا اس کا یہ ہی حشر ہوگا۔۔" وہ اشتعال انگیز لہجے میں پھنکارا تھا۔حیدر سلطان سختی سے لب بھینچ گیا تھا۔ "اب اس کا کیا کریں ؟" حیدر کے بےوقوفانہ سوال پر اسے جی بھر کر غصہ آیا تھا۔ابھی اسے گھر جاکر اپنے پیرنٹس سے بھی نورے کے بارے میں بات کرنی تھی۔وہ یہ جان گیا تھا کہ نورے کی حفاظت کی ذمہ داری اب صرف و صرف اس کی ہے۔ "عسکری سے پوچھ لینا میں گھر جارہا ہوں۔۔" وہ ٹارچر سیل سے نکلتا پہلے اپنے اپارٹمنٹ میں گیا تھا وہاں سے کپڑے چینج کرتا وہ ایک بہت بڑا پہاڑ سر کرنے کے لیے گھر گیا تھا۔
ہر چھ مہینے بعد دانین کا تھرپی سیشن ہوتا تھا۔آج اس کا سیشن تھا لیکن وہ جانا نہیں چاہتی تھی۔اس کے ذہن میں یہ ہی تھا سب بھول گئے ہیں مگر ملائکہ کو یاد تھا۔ "دانین بیٹا تیار ہوجاو۔۔تمھیں پتا ہے نہ یہ سیشن کتنا ضروری ہے۔۔" ملائکہ اس کے سر پر کھڑی اسے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی جو کمبل سر پر تانے ضدی بن کر لیٹی ہوئی تھی۔ "میرا دل نہیں کر رہا۔۔آج کینسل کردیں۔۔" وہ منہ بگاڑ کر کمبل کے اندر سے بولی تھی۔ "دانین کیوں مجھے اتنا تنگ کر رہی ہو اٹھ جاو نہیں تو میں آغا خان کو کال کردوں گی۔۔" ملائکہ کی دھمکی پر بھی اسے کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ "مجھے نہیں جانا۔۔ مجھے نہیں جانا۔۔۔ بس نہیں جانا۔۔" وہ ضدی لہجے میں بول رہی تھی۔ملائکہ نے ہار مانتے ایک گہری سانس خارج کی تھی۔وہ جانتی تھی اب بس اسے روحان ہی منا سکتا ہے۔۔یہ سیشن اس کے لیے بےحد ضروری تھا وہ نہیں چاہتی تھی دانین اسے مس کرے۔۔اور اپانٹمنٹ بھی بےحد مشکل سے ملتی تھی۔ "روحان پلیز اسے جاکر سمجھاو۔۔آج اس کا تھرپی سیشن ہے جو اس کے لیے بہت ضروری ہے۔۔مگر وہ ضد لگا کر بیٹھی ہے کہ نہیں جانا۔۔" وہ پریشانی سے بول رہی تھی۔ "کیسا سیشن ؟" روحان نے حیرت سے پوچھا تھا۔ "یہ جب تم دانین سے پوچھو گے تب تمھیں ہتا چل جائے گا۔۔بس اتنا جان لو یہ اس کی مائینڈ کنڈیشن کو ٹھیک اور نائٹ میئرز کو دور کردے گا۔۔" ملائکہ کی بات سن کر اس نے جبڑے بھینچتے سر ہلایا تھا۔ "وہ تمھاری بات مانتی ہے تبھی تمھیں بول رہی ہوں ایک گھنٹے بعد اس کی اپائنمنٹ ہے۔۔اسے جلدی سے منا لو۔۔" ملائکہ نے پرامید لہجے میں کہا تھا۔وہ خاموشی ست سر ہلاتا اوپر چلا گیا تھا۔ دروازہ ناک کرتا وہ دانین کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔اسے کمبل کے اندر چھپا دیکھ کر اس کے ہونٹ بےساختہ مسکرا اٹھے تھے۔ "دانین۔۔فورا باہر نکلو۔۔" اس کی سخت آواز سن کر وہ جھٹکے سے باہر منہ نکال چکی تھی۔آج پہلی بار روحان نے سختی سے اسے بلایا تھا۔ "جلدی سے اٹھ کر فریش ہوجاو ہمیں ڈاکٹر پاس جانا ہے۔۔" روحان کی بات سنتے اس نے ناک سکیڑی تھی۔اس کا بالکل بھی دل نہیں تھا۔ "میرا دل نہیں کر رہا۔۔" وی بچوں کی طرح معصوم منہ بنا کر نم آنکھوں سے بولی تھی۔روحان اس کا چہرہ دیکھ کر پگھل گیا تھا مگر پھر اچانک ملائکہ کی بات یاد آتے اس نے سنجیدگی سے دانین کو دیکھا تھا۔ "اگر تم میرے ساتھ جاو گی تو پھر واپسی پر میں تمھیں آئس کریم کھلاوں گا۔۔" وہ اسے بچوں کی طرح لالچ دے رہا تھا جو کام بھی کر گیا تھا۔اس کی آنکھیں بچوں کی طرح روشن ہوگئی تھیں۔ "اب اپنی بات ہر قائم رہیے گا۔۔" وہ تیزی سے بولتی فریش ہونے چلی گئی تھی۔ٹائم سے تیار ہوتی وہ روحان کے ساتھ ہوسپٹل چلی گئی تھی۔
"کافی دن ہوگئے ہیں نورے سے بات نہیں ہورہی آج بھی ڈنر کرنے نہیں آئی۔۔" شاہزیب افرحہ کی گود میں سر رکھے لیٹا ہوا تھا۔افرحہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلا رہی تھی۔ "ہاں میں نے بھی اسے نہیں دیکھا اپنے کمرے میں ہی زیادہ بند رہتی ہے یونیورسٹی کے کام سے مجھے فرصت ہی نہیں ملتی ورنہ میں اس سے بات کرلیتی۔۔آپ جائیں اس کے ساتھ تھوڑا ٹائم سپینڈ کریں اس سے پوچھیں کیوں نہیں آئی ڈنر پر کیا آنٹی نے تو اسے کچھ نہیں کہا ؟؟" افرحہ اس کے چہرے پر نظریں ٹکائے بولی تھی۔شاہزیب افرحہ کی بات سنتا اٹھ بیٹھا تھا۔اس کے ماتھے کو چومتا وہ مسکرا اٹھا تھا۔ "تھینک یو جانم مجھے گائیڈ کرنے کے لیے میں کچھ دیر تک واپس آتا ہوں۔۔" وہ افرحہ کے گال ہر بوسہ دیتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔افرحہ نے شاہزیب کو مسکراتے ہوئے فلائنگ کس پاس کی تھی۔جسے اس نے کیچ کرتے اپنے دل کی طرف اچھال دی تھی۔اس کے ڈرامائی انداز پر وہ کھلکھلا اٹھی تھی۔ شاہزیب کمرے سے نکلتا نورے کے کمرے کی جانب چل دیا تھا۔دروازے پر ناک کرتا وہ کمرے میں داخل ہوا تھا۔نورے بیڈ پر لیٹی ہاتھ میں کوئی کتاب پکڑے پڑھ رہی تھی۔شاہزیب کو دیکھتی وہ سیدھی ہوکر بیٹھ گئی تھی۔ "کیسا ہے میرا بچہ ؟" شاہزیب نے اس کے پاس بیڈ پر بیٹھتے پوچھا تھا۔ "ٹھیک ہوں۔۔" اس نے سپاٹ انداز میں جواب دیا تھا۔ "کیا اس عورت نے تمھیں کچھ کہا ہے ؟" شاہزیب اس کا بےرخی والا انداز دیکھتا پوچھنے لگا تھا۔ "آپ کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔آپ اپنی لائف انجوائے کریں۔۔" وہ کتاب پر نظریں ٹکائے بےتاثر انداز میں بولی تھی۔ "نورے۔۔ بچے مجھے تمھاری فکر ہے۔۔ جو بھی بات ہے مجھ سے شئیر کرو۔۔" شاہزیب نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ "میں کسی کو پسند کرتی ہوں۔۔" وہ لب کاٹتی دھڑکتے دل سے بولی تھی۔خوف سے دل کانپ بھی رہا تھا کہ نہ جانے شاہزیب کا کیا ریکشن ہوگا۔۔ "کس کو؟" شاہزیب نے حیرانی سے اس کی جانب دیکھا تھا۔وہ جانتا تھا غصہ کرنا جائز نہیں جب اس نے پسند کی شادی کی تھی تو اس کی بہن کا بھی ہورا حق تھا اپنے من چاہے شخص سے شادی کرے۔۔ "آپ غصہ نہیں ہیں؟" نورے اس کے پرسکون انداز پر حیرت میں ڈوبتی پوچھ رہی تھی۔ "نہیں۔۔ اس میں غصہ ہونے والی کیا بات ہے ؟ جب میں نے افرحہ سے اپنی پسند کی شادی کی ہے تو تمھارا بھی پورا حق ہے اپنی پسند سے شادی کرو۔۔لیکن میری ایک شرط ہے وہ لڑکا اچھا ہونا چاہیے۔۔" شاہزیب نے اس کے دونوں ہاتھوں کو شفقت سے چومتے کہا تھا۔نورے کی آنکھیں بےساختہ نم پڑ گئی تھیں۔ "و۔۔وہ بہت اچھا ہے۔۔کل میرے لیے رشتہ لانا چاہتا ہے۔۔" اس نے شاہزیب کے ہاتھوں پر گرفت مضبوط کرتے لب کاٹتے بتایا تھا۔ "اوکے۔۔ تو اس میں گھبرانے والی کیا بات ہے گڑیا میں سب سنبھال لوں گا۔۔اگر لڑکا اچھا ہوا تو میں تمھیں مکمل سپورٹ کروں گا اور بابا کو بھی میں خود مناوں گا۔۔" شاہزیب کی بات پر وہ کھل کر مسکرا اٹھی تھی۔ "لڑکے کا نام کیا ہے ؟" شاہزیب نے نرم لہجے میں پوچھا تھا۔ "شازل۔۔" اس کے منہ سے شازل کا نام سن کر شاہزیب ساکت ہوگیا تھا۔ "شازل خان ؟" شاہزیب نے کنفرم کرنا چاہا تھا۔ "ج۔۔جی" اس نے کانپتی آواز میں تصدیق کی تھی۔اسے شاہزیب کے سنجیدہ تاثرات سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ "آپ پلیز ایک بار میری خاطر ان سے مل کر دیکھ لیں۔۔" اس نے نرمی سے التجا کی تھی۔ "اوکے گڑیا پریشان مت ہو۔۔" شاہزیب نے نرمی سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔اپنی بہن کے لیے وہ شازل جیسا کڑوا گھونٹ بھی بھر سکتا تھا۔ "تھینک یو سو مچ بھیا۔۔۔" وہ خوشی سے چہکتی شاہزیب کے گلے لگ گئی تھی۔ "خوش رہو گڑیا۔۔" شاہزیب نے اس کے گرد حصار باندھتے اس کے بالوں پر لب رکھے تھے۔اپنی بہن کی خوشی دیکھ کر وہ بھی بےحد خوش تھا۔
روحان ویٹنگ ایریا میں بیٹھا دانین کا انتظار کر رہا تھا۔اس کا ایک گھنٹے کا سیشن تھا جو ختم ہونے والا تھا۔دانین کے باہر نکلتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ "کیسا رہا سیشن ؟" روحان نے اسے دیکھتے ہی پوچھا تھا۔ "بس ٹھیک تھا۔" اس نے ناک چڑھائی تھی۔وہ روحان کے ساھ چلتی باہر نکلی تھی۔باہر کی ٹھنڈی ہوا سے اس کی ناک سرخ پڑ گئی تھی۔ "افف اتنی ٹھنڈی ہوا۔۔" سردی سے اس کے دانت آپس میں بجنے لگے تھے۔ "ایک منٹ رکو۔۔" روحان نے اسے روکتے اپنے گلے سے اپنا مفلر اتارتے اس کے گلے کے گرد دھیرے سے باندھ دیا تھا۔ "تھینک یو۔۔ کیا آپ کو ٹھنڈ نہیں لگ رہی ؟" اس نے مشکور کن نظروں سے روحان کو دیکھتے پوچھا تھا جو اس کی کلائی پکڑے اسے تیزی سے گاڑی کی طرف لے گیا تھا۔ گاڑی کا دروازہ کھولتے اس نے دانین کو فرنٹ سیٹ پر بیٹھاتے اس کی بیلٹ بند کی تھی۔اس کے جھکنے پر وہ اپنا سانس روک گئی تھی۔روحان نے پیچھے ہٹتے اس کے ماتھے پر انگلی سے فلِک کیا تھا۔ اپنے ماتھے پر بےساختہ ہاتھ رکھتے اس نے تیزی سے ڈرائءونگ سیٹ سنبھالتے روحان کو گھور کر دیکھا تھا۔ "آپ نے پرامس کیا تھا آئس کریم کھلائیں گے۔۔" اس نے اپنی سرخ چھوٹی سی ناک چڑھاتے روحان سے کہا تھا۔روحان نے باہر دیکھا تھا جہاں موسم کب اپنے تیور بدل جائے کوئی خبر نہیں تھی۔ لیکن اس دشمنِ جان سے بھی تو وعدہ کیا ہوا تھا۔ "کونسا فلیور لو گی ؟ " اس نے آئس کریم پالر کے باہر گاڑی روکتے پوچھا تھا۔ "چاکلیٹ اینڈ ونیلا۔۔" اس نے مسکا کر جواب دیا۔روحان سر ہلاتا اس کے لیے آئس کریم لینے چلا گیا تھا۔ "یہ لو آئس کریم مگر ساری مت کھانا دوبارہ بیمار پڑ جاو گی۔۔" اس نے کچھ پریشانی سے کہا تھا۔دانین نے آئس کریم پکڑتے لاپرواہی سے اپنا سر ہلایا تھا۔ "آپ نے آئس کریم نہیں کھانی ؟" اس نے روحان کے خالی ہاتھ دیکھتے پوچھا۔ "نہیں میرا دل نہیں کر رہا تم کھاو۔۔" اس کے نرمی سے بولنے پر وہ سر ہلاتی آئس کریم کھانے لگی تھی۔ آدھی آئس کریم کھاتے اس نے روحان کی طرف بڑھا دی تھی۔ "باقی آپ کھالیں۔۔" اس نے مسکراتی نظروں سے روحان کو کہا تھا۔جو پرحدت نگاہوں سے اسے دیکھتا اس کے ہاتھ سے آئس کریم تھام گیا تھا۔ "آپ کیسے کھائیں گے ؟" اس نے ڈرائیو کرتے روحان کو کہا پھر آئس کریم پکڑتی خود اسے اپنے ہاتھوں سے کھلانے لگی تھی۔روحان اس کے ہاتھ سے آئس کریم کھاتا اس کو اپنی نظروں کے حصار میں رکھے ہوئے تھا۔اس کا مکمل فوکس سے آئس کریم کھلانا اسے مسکرانے پر مجبور کر رہا تھا۔
"مجھے بس ایک بات جاننی ہے تم نورے کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہو؟ جبکہ تمھاری دشمنی مجھ سے ہے۔۔" شازل اس شخص کے سامنے بیٹھا تھا انھیں پتا چلا تھا اس کا نام ارسل تھا۔ "میں تجھ جیسے (گالی) کو بتانا پسند نہیں کرتا۔۔" اس کے جواب پر طیش میں آتے شازل نے اس کے زخمی منہ پر ایک زوردار مکہ دوبارہ مارا تھا۔کرسی سے بندھا وہ زخمی شخص مار کھانے کے بعد بھی اپنا منہ کھولنے ہر راضی نہیں تھا۔ "تم جیسوں کو سیدھا کرنا مجھے آتا ہے۔۔" شازل نے بولتے ہوئے اپنی گن نکالتے اس کے گھٹنے پر نشانہ لیا تھا۔وہ تکلیف سے بلبلا اٹھا تھا۔ "چل بتا کس کے لیے کام کر رہا ہے ؟" شازل نے طیش میں پوچھا تھا۔وہ شخص تکلیف سے دہرا پڑ رہا تھا۔ "میں نہیں بتاوں گا۔۔لیکن یاد رکھنا جو حال تیری بہن کا ہوا تھا وہ ہی حال اب اس لڑکی کا ہوگا۔۔" نورے اور اپنی بہن کا ذکر سن کر اس نے خود پر سے قابو کھو دیا تھا وہ گولیوں کی بوچھار مقابل پر کر گیا تھا۔ "یہ کیا کیا تم نے شازل؟ اب ہمیں کیسے پتہ چلے گا یہ کس شخص کے لیے کام کر رہا تھا۔۔؟" حیدر سلطان نے ملامتی نظروں سے شازل جو دیکھتے کہا تھا۔ "شٹ اپ۔۔ جو شخص میرے خاندان کے بارے میں غلط بولے گا اس کا یہ ہی حشر ہوگا۔۔" وہ اشتعال انگیز لہجے میں پھنکارا تھا۔حیدر سلطان سختی سے لب بھینچ گیا تھا۔ "اب اس کا کیا کریں ؟" حیدر کے بےوقوفانہ سوال پر اسے جی بھر کر غصہ آیا تھا۔ابھی اسے گھر جاکر اپنے پیرنٹس سے بھی نورے کے بارے میں بات کرنی تھی۔وہ یہ جان گیا تھا کہ نورے کی حفاظت کی ذمہ داری اب صرف و صرف اس کی ہے۔ "عسکری سے پوچھ لینا میں گھر جارہا ہوں۔۔" وہ ٹارچر سیل سے نکلتا پہلے اپنے اپارٹمنٹ میں گیا تھا وہاں سے کپڑے چینج کرتا وہ ایک بہت بڑا پہاڑ سر کرنے کے لیے گھر گیا تھا۔
Professor Khan
Zanoor Writes
Episode 12
(Series 2 in Professor Shah Novel)
Shazil Nooray Nikkah Special
وہ ڈنر کے وقت گھر واپس آیا تھا۔ اس کا ارادہ گل خان اور محب خان دونوں سے ایک ساتھ بات کرنے کا تھا۔ "اسلام علیکم!" وہ سلام کرتا محب خان کے دائیں جانب موجود خالی کرسی کو کھینچ کر بیٹھ گیا تھا۔ "یقینا ماں باپ سے کوئی کام پڑ گیا ہوگا تبھی اپنا چہرہ دکھانے آگئے ہو۔۔" کھانا کھاتے محب خان بول اٹھے تھے۔گل خان نے نفی میں سر ہلاتے انھیں چپ رہنے کا کہا تھا۔مگر وہ کہاں چپ رہ سکتے تھے۔وہ بھی تو شازل خان کے باپ تھے۔ان سے زیادہ خون گرم و جوش رکھتا تھا۔ "جی بالکل ٹھیک سمجھا آپ نے ڈیڈ۔۔" وہ اپنی پلیٹ میں کھانا ڈالتا صاف گوئی سے بولا تھا۔محب خان نے آنکھوں کے اشارے سے طنزیہ اشارا کیا تھا۔کہ دیکھ لو تمھارا بیٹے کی رگ رگ سے واقف ہوں۔ "کیا حکم ہے ہمارے لیے ؟" محب خان نے طنزیہ پوچھا تھا۔ "محب۔۔ پلیز چپ کرجائیں۔۔اسے پہلے کھانا کھانے دیں۔۔" گل خان نے ان کا ٹیبل پر پڑا ہاتھ تھام کر التجائیہ کہا تھا وہ لب بھینچ کر خاموش ہوگئے تھے۔ "مجھے ایک لڑکی پسند ہے اس سے شادی کرنا کا خواہش مند ہوں میں چاہتا ہوں آپ لوگ کل اس کے گھر رشتہ لے کر جائیں۔۔" وہ سپاٹ انداز میں بولا تھا۔گل خان کے ہاتھ سے بےساختہ چمچ چھوٹ کر پلیٹ میں گرا تھا۔محب خان کا غصہ سے چہرہ سرخ پڑا تھا۔ "تمھاری ایک منگ ہے تم یہ کیسے بھول سکتے ہو؟" وہ اپنی کرسی سے کھڑے ہوتے چلائے تھے۔شازل بےتاثر سا بیٹھا رہا تھا۔ "میں نے اس بات سے انکار نہیں کیا۔۔؟ جب وقت آئے گا اس سے بھی شادی کرلوں گا ابھی اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔" اس کی بات نے محب خان کو مزید طیش دلایا تھا۔ "ہمیں یہ منظور نہیں۔۔" وہ غصے سے چلائے تھے۔گل خان منہ پر ہاتھ رکھے بےیقنی سے شازل کو دیکھ رہی تھیں۔انھیں امید نہیں تھی وہ ایسا بھی سوچ سکتا ہے۔ "آپ سے کسی نے رضامندی پوچھی بھی نہیں۔۔" اس کے لاپرواہ انداز نے انھیں آگ بگولا کیا تھا۔وہ اسے گریبان سے پکڑتے کھینچ کر کھڑا کرچکے تھے۔ "تم میرا ضبط آزما رہے ہو شازل خان۔۔میرے زندہ رہتے ہوئے تمھاری شادی اپنی منگ کے علاوہ کسی سے نہیں ہوگی۔۔" وہ دھاڑے تھے۔شازل نے سرد نظروں سے انھیں دیکھا تھا۔ اس نے جھٹکے سے اپنی ویسٹ سے گن نکالی تھی۔گل خان کی آنکھیں حیرت حیرت سے پھیل گئی تھیں۔محب خان سپاٹ نظروں سے اپنے صاحبزادے کو دیکھ رہے تھے۔ "تمھیں پال پوس کر اسی لیے بڑا کیا تھا تاکہ مجھ پر گن تان سکو۔۔" وہ سرد لہجے میں بولے تھے۔ "نہیں یہ آپ کے لیے نہیں ہے۔۔" شازل نے نفی میں سر ہلاتے گن اپنے سر پر رکھی تھی۔ "اگر آپ کل رشتہ نہ لے کر گئے تو میں خود کو کچھ کرلوں گا۔۔اور اس کے ذمہ دار صرف و صرف آپ لوگ ہوں گے۔۔" اس کی دھمکی نے انھیں پتھر کا کردیا تھا۔ان کا ہاتھ بےساختہ اٹھا تھا اور شازل کے چہرے پر چھاپ چھوڑ گیا تھا۔گل خان افسوس سے دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ "میری نظروں کے سامنے سے چلے جاو۔۔ نہیں تو تمھاری جان میں اپنے ہاتھوں سے لے لوں گا۔۔" محب خان نے اشتعال انگیز لہجے میں کہا تھا۔ "آپ لوگ کل رشتہ لے کر میرے ساتھ جائیں گے ورنہ اگر آپ لوگوں کو میری پرواہ نہیں تو میں اس لڑکی کو مار دوں گا اگر وہ میری نہ ہوسکی میں اسے کسی کی نہیں ہونے دوں گا۔" اس کے لہجے کی وحشت اور شدت نے انھیں حیران کر دیا تھا۔لیکن وہ تو بس انھیں کسی بھی طرح رشتہ لے کر جانے کے لیے راضی کرنا چاہتا تھا۔ "مجھے شرمندگی ہے تم میرے بیٹے ہو۔۔" اب کی بار ساکت ہونے کی باری شازل خان کی تھی۔ "تم نے ہمیں بہت مایوس کیا ہے شازل۔۔" گل خان مایوسی سے بولتی کھانا چھوڑ کر کھڑی ہوگئی تھیں۔شازل لب بھینچتا لمبے لمبے ڈھگ بھرتا اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔
وہ دونوں شازل خان سے شدید ناراض تھے۔اس کی دھمکی پر دونوں وقت سے تیار ہوگئے تھے۔محب خان کا تو بس نہیں چل رہا تھا۔اس کو پکڑ کر کسی طرح اچھے سے سبق سکھا دیں۔ دوسری جانب نورے کے بتانے پر شاہزیب میر شاہ سے رات کو ہی بات کرچکا تھا۔فاطمہ بیگم تو اس بات پر بالکل بھی خوش نہ تھیں۔البتہ افرحہ نورے کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔ شازل نے عسکری کی مدد سے نورے کا نمبر حاصل کرتے اسے میسج کرکے اپنے آنے کا انفارم کردیا تھا۔نورے بھی اس بارے میں شاہزیب کو بتا چکی تھی۔شاہزیب البتہ شازل کا نام سن کر خوش نہ تھا مگر اپنی بہن کے سامنے اس نے واضح نہیں ہونے دیا تھا۔ شازل اور اس کی فیملی کے آتے ہی سب لوگوں نے ان کا استقبال کیا تھا۔گل خان سے افرحہ اور فاطمہ بیگم ملی تھیں جبکہ محب خان میر شاہ سے سے ملنے کے بعد شاہزیب سے ملے تھے۔ شاہزیب آخر میں مرتا کیا نہ کرتا مجبورا اس سے گلے ملا تھا۔ "دشمن سے سیدھا سالے صاحب بننے والے ہو۔۔" سب کے سامنے گلے ملتا شازل استزائیہ لہجے میں شاہزیب سے بولتا اسے شدید غصہ دلا گیا تھا۔ "اپنی بکواس بند رکھو مکہ مار کر منہ توڑ دوں گا۔۔" شاہزیب مسکراتا ہوا محب خان کی جانب دیکھتا شازل سے بولا تھا۔دل تو کر رہا تھا مقابل کو اچھے سے سبق سکھائے مگر بہن کی خاطر ضبط کر گیا تھا۔ "ہمت ہے تو مار کر دکھاو۔۔" وہ چلنج کرنے والے انداز میں شاہزیب سے بولا تھا۔وہ لوگ لاونچ میں بیٹھ چکے تھے۔بدقسمتی سے دونوں ایک ساتھ بیٹھے تھے تبھی ایک دوسرے کے گریبان تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ شاہزیب نورے کو آتے دیکھ کر خاموش ہوگیا تھا۔وہ سب کو چائے سرو کر رہی تھی۔سکن کلر کے چکن کے خوبصورت کرتے اور ٹراوزر میں وہ بے حد پیاری لگ رہی تھی۔میر شاہ محب خان سے بات کر رہے تھے۔فاطمہ بیگم گل خان کے ساتھ باتوں میں لگی ہوئی تھیں۔جبکہ افرحہ بھی ان کے ساتھ بیٹھی باتوں میں مصروف تھیں۔ "ایک راز کی بات بتاوں۔۔" شازل نے آگے کی جانب جھکتے کچھ رازدانہ انداز میں کہا نظریں سامنے نورے کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔شاہزیب نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا تھا۔ "تمھاری بہن کے کہنے پر اس سے نکاح کرنے کے لیے راضی ہوا ہوں ورنہ تم جیسے منہ لگانے تو کیا رشتہ جوڑنے کے قابل نہیں ہوتے۔۔" بس یہاں تک ہی ضبط تھا شاہزیب کا وہ ایک دم کھڑا ہوتا شازل کا گریبان دبوچ چکا تھا جبکہ شازل بھی اس کے شرٹ کے کالر کو دبوچ گیا تھا "میری بہن کی فیلنگز کے ساتھ کھیل رہے ہو؟ میں جان لے لوں گا تمھاری۔۔" شاہزیب اونچی آواز میں چلایا تھا۔سب ان کو دیکھتے اپنی نشستوں سے کھڑے ہوچکے تھے۔نورے آنکھیں پھیلائے ان دونوں کو دیکھ کر معاملہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ "بھیا۔۔" اس نے شاہزیب کو پکارا تھا۔جو خونخوار نظروں سے شازل کو گھور رہا تھا۔ "میں نے بس سچائی بتائی ہے۔۔" وہ اسے تپانے کو کندھے اچکاتا لاپرواہی سے بولا تھا۔ "شاہزیب شازل کو چھوڑو۔۔" میر شاہ سختی سے بولے تھے۔محب خان تو اپنے بیٹے سے عاجز ہوچکے تھے تبھی بےفکر ہوکر کھڑے تھے۔ "کوئی رشتہ نہیں ہوگا نکلو یہاں سے۔۔" شاہزیب اسے دھکا دیتا بولا تھا۔کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا بات کیا ہے۔۔ "شادی تو تمھاری بہن کی مجھ سے ہی ہوگی شاہزیب میر حاتم شاہ۔۔ روک سکتے ہو تو مجھے روک لو۔۔" وہ شاہزیب کو چیلنج کر رہا تھا۔نورے دونوں کو بےیقنی سے دیکھ رہی تھی دونوں اپنی لڑائی میں سب کے سامنے اس کی ذات کو بےمول کر رہے تھے۔وہ ایک نظر دونوں پر ڈالتی تیزی سے اپنے کمرے میں بھاگ گئی تھی۔افرحہ اس کے پیچھے جانا چاہتی تھی لیکن شاہزیب کی وجہ سے رک گئی اسے پتا تھا شاہزیب کو صرف وہ ہی سنبھال سکتی ہے۔۔ فاطمہ بیگم ہلکی مسکان کے ساتھ گھر میں ہونے والے تماشے سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ "تم جیسے گھٹیا انسان کی یہاں کوئی جگہ نہیں نکل جاو اور میری بہن کی شادی تم سے زیادہ اچھے شخص سے ہوگی میں بھی دیکھتا ہوں تم کیا کرسکتے ہو۔۔" وہ شازل کو دھکا مارتا بولا تھا۔شازل نے طنزیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا۔نورے کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ سوچتے اس کی شریانیں ابھر پڑی تھیں۔ "جسٹ ویٹ اینڈ واچ تمھاری ناک کے نیچے سے تمھاری بہن سے شادی کروں گا تم روک نہیں پاو گے۔۔" وہ اپنا غصہ چھپاتا ہنستا ہوا بولا تھا شاہزیب اس پر جھپٹنے والا تھا جب افرحہ نے معاملہ بگڑتے دیکھ اس کے بازو پر ہاتھ رکھتے اسے روکا تھا۔ "چلیں موم ڈیڈ۔۔" شازل کے بولنے سے پہلے ہی وہ دونوں باہر نکل چکے تھے۔اپنے بیٹے کی وجہ سے انھیں بےحد شرمندگی ہوئی تھی۔ "اس جیسی اولاد سے بہتر ہے ہماری اولاد ہی نہ ہوتی۔" گاڑی میں بیٹھتے محب خان غصے سے بولے تھے جبکہ ان کی بات سنتی گل خان تڑپ اٹھی تھی۔شازل اپنی گاڑی میں آیا تھا تبھی وہ سکون سے انھیں بےسکون کرتا واپس چلا گیا تھا۔
شازل کے جانے کے بعد شاہزیب کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو وہ افرحہ کے کہنے پر نورے سے بات کرنے گیا تھا۔ "نورے میری بات سنو۔۔وہ شخص اچھا نہیں تم اس سے کئی زیادہ اچھا انسان ڈیزرو کرتی ہو۔۔" وہ نورے کے دروازہ نہ کھولنے پر باہر سے ہی بولنے لگا تھا۔ "مجھے آپ کی شکل بھی نہیں دیکھنی اکیلا چھوڑ دیں مجھے۔۔" وہ سپاٹ انداز میں بولی تھی نہ چیخی تھی نہ چلائی تھی۔ "میری بات کو سمجھو نورے اس شخص نے جو کہا مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔۔" شاہزیب کی بات سنتے اس نے جھٹکے سے دروازہ کھولا تھا۔ "کیا کہا تھا اس نے۔۔ ؟ میں جاننا چاہتی ہوں۔۔" وہ سرد لہجے میں ہوچھ رہی تھی جاننا چاہتی تھی کہ شازل کا کتنا ظرف ہے۔۔کیا اہمیت ہے اس کی نظروں میں نورے کی۔۔ "اس نے کہا وہ تمھارے کہنے پر تم سے نکاح کر رہا ہے۔۔" اس کی بات نے نورے کا دل توڑ دیا تھا۔ "آپ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے آپ لوگ تو اپنی انا کی جنگ میں جیت ہی جائیں گے اس سب میں صرف میری ذات بےمول ہوئی ہے۔۔ مجھے اب آپ سے کوئی بات نہیں کرنی مجھے دوبارہ ڈسٹرب مت کیجیے گا۔۔" وہ وحشت زدہ لہجے میں بولتی دروازہ واہس بند کرتی اس سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھی۔ ایک ہفتے وہ پورے ایک ہفتے کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی۔کھانا اگر ملازمہ اس کے دروازے کے باہر رکھ جاتی تو وہ کھا لیتی ورنہ پانی کے لیے بھی کسی کو نہ کہتی۔افرحہ، شاہزیب اور میر شاہ تینوں اس سے باری باری بات کرنے کی کوشش کرچکے تھے لیکن وہ کچھ سننے کو تیار نہیں تھی۔شازل کے ڈھیروں میسجز اور کالز اس کے موبائل پر آرہی تھی۔ مجال ہے جو اس نے کوئی میسج پڑھا ہو یا کال ریسیو کی ہو بس سارا دن بیڈ پر بےجان سی لیٹی رہتی یا کوئی کتاب نکال کر گھنٹوں ایک ہی صفحے کو تکتی رہتی تھی۔سب اس کے لیے کافی پریشان تھے۔ شاہزیب آج صبح صبح ہی میٹنگ کے سلسلے میں کراچی گیا تھا۔وہ اکیلا نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ اسے تین سے چار دن لگ جانے تھے تبھی وہ ساتھ افرحہ کو بھی لے گیا تھا۔گھر میں صرف نورے ، فاطمہ بیگم اور میر شاہ ہی موجود تھے۔ نورے آخرکار شام کو اپنے کمرے سے نکل ہی آئی تھی۔ڈنر کے ٹائم وہ آکر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ چکی تھی۔اس کی حالت دیکھ کر میر شاہ تڑپ اٹھے تھے۔زرد رنگت اور آنکھوں کے گرد گہرے سیاہ ہلکے اس کی گزری راتوں کے قصے سنا رہے تھے۔ "میری بیٹی کی طبیعت کیسی ہے ؟" میر شاہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے پوچھا تھا۔ "میں بہت ڈھیٹ ہوں مجھے کچھ نہیں ہونے والا۔۔" وہ بےرخی سے بولی تھی۔فاطمہ بیگم نے اس کے جواب پر آنکھیں گھمائی تھی۔اس کے ڈرامے سے اب وہ تنگ آنے لگیں تھیں۔ "نورے بچے ایسے مت کہا کرو۔۔" میر شاہ نے اسے پیار سے ڈپٹا تھا۔نورے نے اچانک کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تھا جب اچانک لاونچ سے آتی آوازیں سن کر وہ خاموش ہوگئی تھی۔ میر شاہ اور فاطمہ بیگم شور سنتے لاونچ میں گئے تھے وہ بھی متجسس سی ان کے پیچھے لاونچ میں چلی آئی تھی مگر اپنے سامنے شازل خان کو دیکھتے اس کا موڈ بگڑا تھا۔ "تم یہاں کیا کر رہے ہو؟" میر شاہ نے سختی سے پوچھا تھا۔ "آپ کی بیٹی سے نکاح کرنے آیا ہوں۔۔" اس نے مسکرا کر استزائیہ لہجے میں کہا تھا۔میر شاہ نے غصے سے اسے دیکھا تھا۔ شازل اپنے ساتھ حیدر سلطان ، عسکری اور مولوی صاحب سمیت مزید چند لوگوں کو لے کر آیا تھا جو اس کی ٹیم کا ہی حصہ تھے۔ "آپ کس غلط فہمی کا شکار ہیں ؟ میں آپ سے کبھی نکاح نہیں کروں گی۔۔" نورے کی اونچی آواز سن کر وہ اس کی جانب مڑا تھا اس کی بکھری حاہت دیکھتے اس نے سختی سے لب بھینچ لیے تھے۔ "نکاح تو ہمارا ہوگا وہ بھی ابھی اور اسی وقت۔۔" شازل نے بولتے ہی حیدر سلطاناور عسکری کو اشارہ کیا تھا جنھوں بے فورا گنز نکالتے فاطمہ بیگم اور میر شاہ پر تان لی تھیں۔نورے بےتاثر انداز میں کھڑی تھی۔ "چلو آو شاباش اچھے بچوں کی طرح یہاں آکر بیٹھ جاو اور تین بار قبول ہے بول دو۔۔" اس کے ایسے بولنے پر اور اس کی حرکتوں ہر نورے کو شدید غصہ آیا تھا۔غصے سے اس کی زرد رنگت میں سرخیاں گھلنے لگی تھی۔ "ہاہاہا۔۔" وہ اچانک ہنس پڑی تھی۔سب اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ "مجھے لگتا ہے بچاری صدمے سے پاگل ہوگئی ہے۔۔" عسکری حیدر کے کان کے قریب جھک کر بولا تھا۔ "پاگل کو پاگل ہی بیوی ملنی تھی۔" حیدر کے جواب پر دونوں کھل کر مسکرا اٹھے تھے۔میر شاہ نے دونوں کو گھور کر دیکھا تھا جبکہ فاطمہ بیگم کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔ "آپ بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں۔" وہ مسکرا کر بولی تھی۔گلے میں جھولتے دوپٹے کو پکڑ کر انگلیوں میں لپیٹتی وہ ظاہر نہیں کر رہی تھی مگر خاصی نروس تھی۔ "پانچ منٹ ہیں تمھارے پاس چپ چاپ نلاح کرلو ورنہ تمھارے باپ کی زندگی کی کوئی گارنٹی نہیں۔" اس کی بات نے بھی نورے کو ٹس سے مس نہیں کیا تھا۔ "آپ کو لگتا ہے یہ دھمکی مجھے ڈرا سکے گی ؟" وہ چلتی ہوئی اس کے روبرو آکر کھڑی ہوگئی تھی۔ "میں نورے میر حاتم شاہ ہوں ایک بار ضد پر آڑ جاو تو پیچھے کبھی نہیں ہٹتی۔۔اور میری یہ ہی ضد ہے میں آپ سے نکاح نہیں کروں گی۔۔" وہ اکڑ کر بولی تھی۔اس کی بہادری کی دادا عسکری اور حیدر دونوں نے دی تھی ورنہ شازل کے غصے کے آگے دونوں کی جان ہوا ہوتی تھی۔ اس کی ہٹ دھرمی پر شازل کا چہرہ سرخ پڑنے لگا تھا۔اس کا دل کر رہا تھا نورے کا گلا دبا دے۔۔ "کیا چاہتی ہو تم ؟" اس نے لب بھینچتے پوچھا تھا۔ "آپ سے چھٹکارا۔۔" وہ سلگ کر بولی تھی۔شازل نے اپنی گن نکالتے میر شاہ کے دائیں جانب موجود واس کا نشانہ لیا تھا۔گن چلنے کی آواز پر فاطمہ بیگم کے منہ سے چیخ نکلی تھی میر شاہ بھی گھبرا گئے تھے۔مگر نورے۔۔ نورے نے پلک بھی نہ جھپکائی تھی۔وہ نڈر انداز میں اس کے سامنے کھڑی تھی۔ "نورے میرے ضبط کو مت آزماو ورنہ اس بار نشانہ تمھارا باپ ہوگا۔۔" اس کی دھمکی پر بھی وہ نہ ہلی تھی۔شازل نے گن اس کے ماتھے پر رکھی مگر کوئی اثر نہ ہوا۔۔اب کی بار اس نے گن کا رخ اپنی جانب کیا تھا۔نورے کی آنکھوں میں بےیقینی امڈ آئی تھی۔ "وہ خود کو کچھ نہیں کرے گا۔۔" اس کے ذہن میں خیال آیا تھا۔شازل اس کی جانب دیکھتا میر شاہ کے پاس گیا تھا۔نورے اس کی حرکت کو بغور دیکھ رہی تھی جس نے میر شاہ کے ہاتھ میں گن پکڑاتے اس کا نشانہ اپنے بازو کی طرف کرتے گن چلا دی تھی۔اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔ "اگر تم نہیں چاہتی تمھارا باپ باقی کی زندگی جیل میں گزارے تو فورا یہاں آجاو۔۔" اس بار اس کی دھمکی کام کرگئی تھی۔نورے میر شاہ کا اڑا رنگ دیکھتی فورا اس کے کہنے پر صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔جبکہ کن اکھیوں سے اس کے بازو کو بھی دیکھ رہی تھی جہاں سے اس کی سکائی رنگ کی قمیض سرخ ہونے لگی تھی۔ "نورے میری فکر مت کرو کوئی ضرورت نہیں اس غنڈے سے نکاح کرنے کی۔۔" میر شاہ غصے میں بولے تھے۔ "چپ کر جائیں میر۔۔ یہ سب کچھ اسی کا کیا دھڑا ہے۔۔پہلے عشق لڑایا اور اب ڈرامے کرکے ہمیں پھنسا رہی ہے۔۔" فاطمہ بیگم زہر خند لہجے میں بولی تھیں۔ "چپ ایک دم چپ اب کوئی نہیں بولے گا۔۔" شازل کی آواز پر سب خاموش ہوگئے تھے۔ "کیا ولی کی اجازت ہے ؟" مولوی صاحب کے پوچھنے پر سب کی نظریں میر شاہ کی جانب اٹھی تھیں۔ "نہیں۔۔" وہ کاٹ کھانے والے انداز میں بولے۔ "کیوں اپنی بیوی کو مروانا چاہتے ہیں انکل" عسکری کے بولنے پر فاطمہ بیگم گھبرا گئی تھیں۔انھوں نے بےساختہ میر شاہ کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ "میر میں مرنا نہیں چاہتی پلیز ہاں کردیں۔۔" اپنی بیوی کی فریاد سن کر وہ بےبس ہوئے تھے انھوں نے بےساختہ گردن ہلائی تھی۔ مولوی نے اجازت ملتے ہی نکاح پڑھانا شروع کیا تھا۔ "کیا آپ کو قبول ہے ؟" مولوی صاحب کے پوچھنے وہ لب بھینچ کر سر ہلا گئی تھی۔نکاح کے ایجاب و مراحل مکمل ہوتے ہی حیدر اور عسکری اسے مبارک باد دینے لگے تھے۔ "جیت گئے آپ ؟ ہرا دیا میرے بھائی کو انا کی جنگ میں۔۔اب اس گھر سے نکل جائیں دوبارہ یہاں آنے کی ضرورت نہیں۔۔" وہ سلگ کر بولی تھی۔اس دن کی ساری باتیں اس نے سیڑھیوں میں کھڑی ہوکر سن لی تھیں۔ "نکاح مبارک ہو زوجہ محترمہ۔۔" شازل نے نورے کا چہرہ تھام کر اس کے ماتھے پر لب رکھے تھے۔وہ اس کی بات کو مکمل اگنور کر گیا تھا۔اس کا ٹھنڈا لمس اپنی پیشانی پر محسوس کرتے وہ کمزور ہوئی تھی مگر پھر خود کو مضبوط بناتے اس نے شازل کو خود سے دور دھکیلا تھا۔شازل کے بازو سے نکلتا خون شازل کے ہاتھوں سے اس کے چہرے پر بھی لگ چکا تھا۔ "چلیں جائیں یہاں سے۔۔" وہ تیزی سے بولتی بنا اس پر نگاہِ غلط ڈالے بنا اپنے کمرے میں بھاگ گئی تھی۔ "چلیں سسر جی اب میں چلتا ہوں میری امانت کا خیال رکھیے گا بہت جلد اسے باعزت رخصت کروا کر لے جاوں گا۔۔" وہ میر شاہ سے تمسخرانہ لہجے میں بولتا اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں سے نکل آیا تھا۔ "ویسا تمھارا آئیڈیا اچھا تھا عسکری۔۔" شازل نے ان کے گھر سے باہر نکلتے ہلکا سا مسکرا کر کہا تھا۔اپنے بازو کا کف فولڈ کرتے اس نے نکلی خون کا پیکٹ باہر نکالا تھا وہ گن اور گولی دونوں نکلی تھی البتہ پہلی گولی اصلی تھی وہ جانتا تھا نورے اتنی آسانی سے نہیں مانے گی مگر وہ بھی پکا کھلاڑی تھی۔ "میں ہمیشہ اچھے آئیڈیاز ہی دیتا ہوں" وہ ہنس کر بولا تھا۔ حیدر بھی مسکرانے لگا تھا۔ نورے کو اپنا بنا کر اب وہ مسرور سا ہوگیا تھا۔اس کی چال میں جیت کا نشہ تھا۔نورے کو ہمیشہ کے لیے اپنی ملکیت بنانے کا شوخ پن تھا۔وہ کافی خوشگوار دکھائی دے رہا تھا جبکہ نورے اندر ہی اندر سلگ رہی تھی۔اس کی یہ زور و زبردستی نے اسے غصہ دلا دیا تھا۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اپنے ہاتھوں سے شازل کو اوپر پہنچا دیتی۔۔
وہ دونوں شازل خان سے شدید ناراض تھے۔اس کی دھمکی پر دونوں وقت سے تیار ہوگئے تھے۔محب خان کا تو بس نہیں چل رہا تھا۔اس کو پکڑ کر کسی طرح اچھے سے سبق سکھا دیں۔ دوسری جانب نورے کے بتانے پر شاہزیب میر شاہ سے رات کو ہی بات کرچکا تھا۔فاطمہ بیگم تو اس بات پر بالکل بھی خوش نہ تھیں۔البتہ افرحہ نورے کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔ شازل نے عسکری کی مدد سے نورے کا نمبر حاصل کرتے اسے میسج کرکے اپنے آنے کا انفارم کردیا تھا۔نورے بھی اس بارے میں شاہزیب کو بتا چکی تھی۔شاہزیب البتہ شازل کا نام سن کر خوش نہ تھا مگر اپنی بہن کے سامنے اس نے واضح نہیں ہونے دیا تھا۔ شازل اور اس کی فیملی کے آتے ہی سب لوگوں نے ان کا استقبال کیا تھا۔گل خان سے افرحہ اور فاطمہ بیگم ملی تھیں جبکہ محب خان میر شاہ سے سے ملنے کے بعد شاہزیب سے ملے تھے۔ شاہزیب آخر میں مرتا کیا نہ کرتا مجبورا اس سے گلے ملا تھا۔ "دشمن سے سیدھا سالے صاحب بننے والے ہو۔۔" سب کے سامنے گلے ملتا شازل استزائیہ لہجے میں شاہزیب سے بولتا اسے شدید غصہ دلا گیا تھا۔ "اپنی بکواس بند رکھو مکہ مار کر منہ توڑ دوں گا۔۔" شاہزیب مسکراتا ہوا محب خان کی جانب دیکھتا شازل سے بولا تھا۔دل تو کر رہا تھا مقابل کو اچھے سے سبق سکھائے مگر بہن کی خاطر ضبط کر گیا تھا۔ "ہمت ہے تو مار کر دکھاو۔۔" وہ چلنج کرنے والے انداز میں شاہزیب سے بولا تھا۔وہ لوگ لاونچ میں بیٹھ چکے تھے۔بدقسمتی سے دونوں ایک ساتھ بیٹھے تھے تبھی ایک دوسرے کے گریبان تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ شاہزیب نورے کو آتے دیکھ کر خاموش ہوگیا تھا۔وہ سب کو چائے سرو کر رہی تھی۔سکن کلر کے چکن کے خوبصورت کرتے اور ٹراوزر میں وہ بے حد پیاری لگ رہی تھی۔میر شاہ محب خان سے بات کر رہے تھے۔فاطمہ بیگم گل خان کے ساتھ باتوں میں لگی ہوئی تھیں۔جبکہ افرحہ بھی ان کے ساتھ بیٹھی باتوں میں مصروف تھیں۔ "ایک راز کی بات بتاوں۔۔" شازل نے آگے کی جانب جھکتے کچھ رازدانہ انداز میں کہا نظریں سامنے نورے کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔شاہزیب نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا تھا۔ "تمھاری بہن کے کہنے پر اس سے نکاح کرنے کے لیے راضی ہوا ہوں ورنہ تم جیسے منہ لگانے تو کیا رشتہ جوڑنے کے قابل نہیں ہوتے۔۔" بس یہاں تک ہی ضبط تھا شاہزیب کا وہ ایک دم کھڑا ہوتا شازل کا گریبان دبوچ چکا تھا جبکہ شازل بھی اس کے شرٹ کے کالر کو دبوچ گیا تھا "میری بہن کی فیلنگز کے ساتھ کھیل رہے ہو؟ میں جان لے لوں گا تمھاری۔۔" شاہزیب اونچی آواز میں چلایا تھا۔سب ان کو دیکھتے اپنی نشستوں سے کھڑے ہوچکے تھے۔نورے آنکھیں پھیلائے ان دونوں کو دیکھ کر معاملہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ "بھیا۔۔" اس نے شاہزیب کو پکارا تھا۔جو خونخوار نظروں سے شازل کو گھور رہا تھا۔ "میں نے بس سچائی بتائی ہے۔۔" وہ اسے تپانے کو کندھے اچکاتا لاپرواہی سے بولا تھا۔ "شاہزیب شازل کو چھوڑو۔۔" میر شاہ سختی سے بولے تھے۔محب خان تو اپنے بیٹے سے عاجز ہوچکے تھے تبھی بےفکر ہوکر کھڑے تھے۔ "کوئی رشتہ نہیں ہوگا نکلو یہاں سے۔۔" شاہزیب اسے دھکا دیتا بولا تھا۔کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا بات کیا ہے۔۔ "شادی تو تمھاری بہن کی مجھ سے ہی ہوگی شاہزیب میر حاتم شاہ۔۔ روک سکتے ہو تو مجھے روک لو۔۔" وہ شاہزیب کو چیلنج کر رہا تھا۔نورے دونوں کو بےیقنی سے دیکھ رہی تھی دونوں اپنی لڑائی میں سب کے سامنے اس کی ذات کو بےمول کر رہے تھے۔وہ ایک نظر دونوں پر ڈالتی تیزی سے اپنے کمرے میں بھاگ گئی تھی۔افرحہ اس کے پیچھے جانا چاہتی تھی لیکن شاہزیب کی وجہ سے رک گئی اسے پتا تھا شاہزیب کو صرف وہ ہی سنبھال سکتی ہے۔۔ فاطمہ بیگم ہلکی مسکان کے ساتھ گھر میں ہونے والے تماشے سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ "تم جیسے گھٹیا انسان کی یہاں کوئی جگہ نہیں نکل جاو اور میری بہن کی شادی تم سے زیادہ اچھے شخص سے ہوگی میں بھی دیکھتا ہوں تم کیا کرسکتے ہو۔۔" وہ شازل کو دھکا مارتا بولا تھا۔شازل نے طنزیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا۔نورے کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ سوچتے اس کی شریانیں ابھر پڑی تھیں۔ "جسٹ ویٹ اینڈ واچ تمھاری ناک کے نیچے سے تمھاری بہن سے شادی کروں گا تم روک نہیں پاو گے۔۔" وہ اپنا غصہ چھپاتا ہنستا ہوا بولا تھا شاہزیب اس پر جھپٹنے والا تھا جب افرحہ نے معاملہ بگڑتے دیکھ اس کے بازو پر ہاتھ رکھتے اسے روکا تھا۔ "چلیں موم ڈیڈ۔۔" شازل کے بولنے سے پہلے ہی وہ دونوں باہر نکل چکے تھے۔اپنے بیٹے کی وجہ سے انھیں بےحد شرمندگی ہوئی تھی۔ "اس جیسی اولاد سے بہتر ہے ہماری اولاد ہی نہ ہوتی۔" گاڑی میں بیٹھتے محب خان غصے سے بولے تھے جبکہ ان کی بات سنتی گل خان تڑپ اٹھی تھی۔شازل اپنی گاڑی میں آیا تھا تبھی وہ سکون سے انھیں بےسکون کرتا واپس چلا گیا تھا۔
شازل کے جانے کے بعد شاہزیب کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو وہ افرحہ کے کہنے پر نورے سے بات کرنے گیا تھا۔ "نورے میری بات سنو۔۔وہ شخص اچھا نہیں تم اس سے کئی زیادہ اچھا انسان ڈیزرو کرتی ہو۔۔" وہ نورے کے دروازہ نہ کھولنے پر باہر سے ہی بولنے لگا تھا۔ "مجھے آپ کی شکل بھی نہیں دیکھنی اکیلا چھوڑ دیں مجھے۔۔" وہ سپاٹ انداز میں بولی تھی نہ چیخی تھی نہ چلائی تھی۔ "میری بات کو سمجھو نورے اس شخص نے جو کہا مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔۔" شاہزیب کی بات سنتے اس نے جھٹکے سے دروازہ کھولا تھا۔ "کیا کہا تھا اس نے۔۔ ؟ میں جاننا چاہتی ہوں۔۔" وہ سرد لہجے میں ہوچھ رہی تھی جاننا چاہتی تھی کہ شازل کا کتنا ظرف ہے۔۔کیا اہمیت ہے اس کی نظروں میں نورے کی۔۔ "اس نے کہا وہ تمھارے کہنے پر تم سے نکاح کر رہا ہے۔۔" اس کی بات نے نورے کا دل توڑ دیا تھا۔ "آپ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے آپ لوگ تو اپنی انا کی جنگ میں جیت ہی جائیں گے اس سب میں صرف میری ذات بےمول ہوئی ہے۔۔ مجھے اب آپ سے کوئی بات نہیں کرنی مجھے دوبارہ ڈسٹرب مت کیجیے گا۔۔" وہ وحشت زدہ لہجے میں بولتی دروازہ واہس بند کرتی اس سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھی۔ ایک ہفتے وہ پورے ایک ہفتے کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی۔کھانا اگر ملازمہ اس کے دروازے کے باہر رکھ جاتی تو وہ کھا لیتی ورنہ پانی کے لیے بھی کسی کو نہ کہتی۔افرحہ، شاہزیب اور میر شاہ تینوں اس سے باری باری بات کرنے کی کوشش کرچکے تھے لیکن وہ کچھ سننے کو تیار نہیں تھی۔شازل کے ڈھیروں میسجز اور کالز اس کے موبائل پر آرہی تھی۔ مجال ہے جو اس نے کوئی میسج پڑھا ہو یا کال ریسیو کی ہو بس سارا دن بیڈ پر بےجان سی لیٹی رہتی یا کوئی کتاب نکال کر گھنٹوں ایک ہی صفحے کو تکتی رہتی تھی۔سب اس کے لیے کافی پریشان تھے۔ شاہزیب آج صبح صبح ہی میٹنگ کے سلسلے میں کراچی گیا تھا۔وہ اکیلا نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ اسے تین سے چار دن لگ جانے تھے تبھی وہ ساتھ افرحہ کو بھی لے گیا تھا۔گھر میں صرف نورے ، فاطمہ بیگم اور میر شاہ ہی موجود تھے۔ نورے آخرکار شام کو اپنے کمرے سے نکل ہی آئی تھی۔ڈنر کے ٹائم وہ آکر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ چکی تھی۔اس کی حالت دیکھ کر میر شاہ تڑپ اٹھے تھے۔زرد رنگت اور آنکھوں کے گرد گہرے سیاہ ہلکے اس کی گزری راتوں کے قصے سنا رہے تھے۔ "میری بیٹی کی طبیعت کیسی ہے ؟" میر شاہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے پوچھا تھا۔ "میں بہت ڈھیٹ ہوں مجھے کچھ نہیں ہونے والا۔۔" وہ بےرخی سے بولی تھی۔فاطمہ بیگم نے اس کے جواب پر آنکھیں گھمائی تھی۔اس کے ڈرامے سے اب وہ تنگ آنے لگیں تھیں۔ "نورے بچے ایسے مت کہا کرو۔۔" میر شاہ نے اسے پیار سے ڈپٹا تھا۔نورے نے اچانک کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تھا جب اچانک لاونچ سے آتی آوازیں سن کر وہ خاموش ہوگئی تھی۔ میر شاہ اور فاطمہ بیگم شور سنتے لاونچ میں گئے تھے وہ بھی متجسس سی ان کے پیچھے لاونچ میں چلی آئی تھی مگر اپنے سامنے شازل خان کو دیکھتے اس کا موڈ بگڑا تھا۔ "تم یہاں کیا کر رہے ہو؟" میر شاہ نے سختی سے پوچھا تھا۔ "آپ کی بیٹی سے نکاح کرنے آیا ہوں۔۔" اس نے مسکرا کر استزائیہ لہجے میں کہا تھا۔میر شاہ نے غصے سے اسے دیکھا تھا۔ شازل اپنے ساتھ حیدر سلطان ، عسکری اور مولوی صاحب سمیت مزید چند لوگوں کو لے کر آیا تھا جو اس کی ٹیم کا ہی حصہ تھے۔ "آپ کس غلط فہمی کا شکار ہیں ؟ میں آپ سے کبھی نکاح نہیں کروں گی۔۔" نورے کی اونچی آواز سن کر وہ اس کی جانب مڑا تھا اس کی بکھری حاہت دیکھتے اس نے سختی سے لب بھینچ لیے تھے۔ "نکاح تو ہمارا ہوگا وہ بھی ابھی اور اسی وقت۔۔" شازل نے بولتے ہی حیدر سلطاناور عسکری کو اشارہ کیا تھا جنھوں بے فورا گنز نکالتے فاطمہ بیگم اور میر شاہ پر تان لی تھیں۔نورے بےتاثر انداز میں کھڑی تھی۔ "چلو آو شاباش اچھے بچوں کی طرح یہاں آکر بیٹھ جاو اور تین بار قبول ہے بول دو۔۔" اس کے ایسے بولنے پر اور اس کی حرکتوں ہر نورے کو شدید غصہ آیا تھا۔غصے سے اس کی زرد رنگت میں سرخیاں گھلنے لگی تھی۔ "ہاہاہا۔۔" وہ اچانک ہنس پڑی تھی۔سب اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ "مجھے لگتا ہے بچاری صدمے سے پاگل ہوگئی ہے۔۔" عسکری حیدر کے کان کے قریب جھک کر بولا تھا۔ "پاگل کو پاگل ہی بیوی ملنی تھی۔" حیدر کے جواب پر دونوں کھل کر مسکرا اٹھے تھے۔میر شاہ نے دونوں کو گھور کر دیکھا تھا جبکہ فاطمہ بیگم کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔ "آپ بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں۔" وہ مسکرا کر بولی تھی۔گلے میں جھولتے دوپٹے کو پکڑ کر انگلیوں میں لپیٹتی وہ ظاہر نہیں کر رہی تھی مگر خاصی نروس تھی۔ "پانچ منٹ ہیں تمھارے پاس چپ چاپ نلاح کرلو ورنہ تمھارے باپ کی زندگی کی کوئی گارنٹی نہیں۔" اس کی بات نے بھی نورے کو ٹس سے مس نہیں کیا تھا۔ "آپ کو لگتا ہے یہ دھمکی مجھے ڈرا سکے گی ؟" وہ چلتی ہوئی اس کے روبرو آکر کھڑی ہوگئی تھی۔ "میں نورے میر حاتم شاہ ہوں ایک بار ضد پر آڑ جاو تو پیچھے کبھی نہیں ہٹتی۔۔اور میری یہ ہی ضد ہے میں آپ سے نکاح نہیں کروں گی۔۔" وہ اکڑ کر بولی تھی۔اس کی بہادری کی دادا عسکری اور حیدر دونوں نے دی تھی ورنہ شازل کے غصے کے آگے دونوں کی جان ہوا ہوتی تھی۔ اس کی ہٹ دھرمی پر شازل کا چہرہ سرخ پڑنے لگا تھا۔اس کا دل کر رہا تھا نورے کا گلا دبا دے۔۔ "کیا چاہتی ہو تم ؟" اس نے لب بھینچتے پوچھا تھا۔ "آپ سے چھٹکارا۔۔" وہ سلگ کر بولی تھی۔شازل نے اپنی گن نکالتے میر شاہ کے دائیں جانب موجود واس کا نشانہ لیا تھا۔گن چلنے کی آواز پر فاطمہ بیگم کے منہ سے چیخ نکلی تھی میر شاہ بھی گھبرا گئے تھے۔مگر نورے۔۔ نورے نے پلک بھی نہ جھپکائی تھی۔وہ نڈر انداز میں اس کے سامنے کھڑی تھی۔ "نورے میرے ضبط کو مت آزماو ورنہ اس بار نشانہ تمھارا باپ ہوگا۔۔" اس کی دھمکی پر بھی وہ نہ ہلی تھی۔شازل نے گن اس کے ماتھے پر رکھی مگر کوئی اثر نہ ہوا۔۔اب کی بار اس نے گن کا رخ اپنی جانب کیا تھا۔نورے کی آنکھوں میں بےیقینی امڈ آئی تھی۔ "وہ خود کو کچھ نہیں کرے گا۔۔" اس کے ذہن میں خیال آیا تھا۔شازل اس کی جانب دیکھتا میر شاہ کے پاس گیا تھا۔نورے اس کی حرکت کو بغور دیکھ رہی تھی جس نے میر شاہ کے ہاتھ میں گن پکڑاتے اس کا نشانہ اپنے بازو کی طرف کرتے گن چلا دی تھی۔اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔ "اگر تم نہیں چاہتی تمھارا باپ باقی کی زندگی جیل میں گزارے تو فورا یہاں آجاو۔۔" اس بار اس کی دھمکی کام کرگئی تھی۔نورے میر شاہ کا اڑا رنگ دیکھتی فورا اس کے کہنے پر صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔جبکہ کن اکھیوں سے اس کے بازو کو بھی دیکھ رہی تھی جہاں سے اس کی سکائی رنگ کی قمیض سرخ ہونے لگی تھی۔ "نورے میری فکر مت کرو کوئی ضرورت نہیں اس غنڈے سے نکاح کرنے کی۔۔" میر شاہ غصے میں بولے تھے۔ "چپ کر جائیں میر۔۔ یہ سب کچھ اسی کا کیا دھڑا ہے۔۔پہلے عشق لڑایا اور اب ڈرامے کرکے ہمیں پھنسا رہی ہے۔۔" فاطمہ بیگم زہر خند لہجے میں بولی تھیں۔ "چپ ایک دم چپ اب کوئی نہیں بولے گا۔۔" شازل کی آواز پر سب خاموش ہوگئے تھے۔ "کیا ولی کی اجازت ہے ؟" مولوی صاحب کے پوچھنے پر سب کی نظریں میر شاہ کی جانب اٹھی تھیں۔ "نہیں۔۔" وہ کاٹ کھانے والے انداز میں بولے۔ "کیوں اپنی بیوی کو مروانا چاہتے ہیں انکل" عسکری کے بولنے پر فاطمہ بیگم گھبرا گئی تھیں۔انھوں نے بےساختہ میر شاہ کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ "میر میں مرنا نہیں چاہتی پلیز ہاں کردیں۔۔" اپنی بیوی کی فریاد سن کر وہ بےبس ہوئے تھے انھوں نے بےساختہ گردن ہلائی تھی۔ مولوی نے اجازت ملتے ہی نکاح پڑھانا شروع کیا تھا۔ "کیا آپ کو قبول ہے ؟" مولوی صاحب کے پوچھنے وہ لب بھینچ کر سر ہلا گئی تھی۔نکاح کے ایجاب و مراحل مکمل ہوتے ہی حیدر اور عسکری اسے مبارک باد دینے لگے تھے۔ "جیت گئے آپ ؟ ہرا دیا میرے بھائی کو انا کی جنگ میں۔۔اب اس گھر سے نکل جائیں دوبارہ یہاں آنے کی ضرورت نہیں۔۔" وہ سلگ کر بولی تھی۔اس دن کی ساری باتیں اس نے سیڑھیوں میں کھڑی ہوکر سن لی تھیں۔ "نکاح مبارک ہو زوجہ محترمہ۔۔" شازل نے نورے کا چہرہ تھام کر اس کے ماتھے پر لب رکھے تھے۔وہ اس کی بات کو مکمل اگنور کر گیا تھا۔اس کا ٹھنڈا لمس اپنی پیشانی پر محسوس کرتے وہ کمزور ہوئی تھی مگر پھر خود کو مضبوط بناتے اس نے شازل کو خود سے دور دھکیلا تھا۔شازل کے بازو سے نکلتا خون شازل کے ہاتھوں سے اس کے چہرے پر بھی لگ چکا تھا۔ "چلیں جائیں یہاں سے۔۔" وہ تیزی سے بولتی بنا اس پر نگاہِ غلط ڈالے بنا اپنے کمرے میں بھاگ گئی تھی۔ "چلیں سسر جی اب میں چلتا ہوں میری امانت کا خیال رکھیے گا بہت جلد اسے باعزت رخصت کروا کر لے جاوں گا۔۔" وہ میر شاہ سے تمسخرانہ لہجے میں بولتا اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں سے نکل آیا تھا۔ "ویسا تمھارا آئیڈیا اچھا تھا عسکری۔۔" شازل نے ان کے گھر سے باہر نکلتے ہلکا سا مسکرا کر کہا تھا۔اپنے بازو کا کف فولڈ کرتے اس نے نکلی خون کا پیکٹ باہر نکالا تھا وہ گن اور گولی دونوں نکلی تھی البتہ پہلی گولی اصلی تھی وہ جانتا تھا نورے اتنی آسانی سے نہیں مانے گی مگر وہ بھی پکا کھلاڑی تھی۔ "میں ہمیشہ اچھے آئیڈیاز ہی دیتا ہوں" وہ ہنس کر بولا تھا۔ حیدر بھی مسکرانے لگا تھا۔ نورے کو اپنا بنا کر اب وہ مسرور سا ہوگیا تھا۔اس کی چال میں جیت کا نشہ تھا۔نورے کو ہمیشہ کے لیے اپنی ملکیت بنانے کا شوخ پن تھا۔وہ کافی خوشگوار دکھائی دے رہا تھا جبکہ نورے اندر ہی اندر سلگ رہی تھی۔اس کی یہ زور و زبردستی نے اسے غصہ دلا دیا تھا۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اپنے ہاتھوں سے شازل کو اوپر پہنچا دیتی۔۔
Professor Khan
Zanoor Writes
Episode 13
(Series 2 in Professor Shah Novel)
شاہزیب اسے لے کر ساحلِ سمندر آیا تھا۔گیلی ریت پر ننگے پاوں چلتے اس نے افرحہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما ہوا تھا۔ "مجھے نور کی بہت فکر ہے۔۔" وہ ایک جگہ رکتا پانی کی لہروں کو دیکھتا پریشانی سے بولا تھا۔ "آپ کو سب کے سامنے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔وہ بھی حق پر ہے۔ اگر آپ کی شازل سے دشمنی ہے یا کوئی لڑائی ہے تو اسے آرام سے بیٹھ کر سلجھائیں نورے کو بیچ میں مت لائیں۔" اس نے نرمی سے شاہزیب کے ہاتھ کو سہلاتے ہوئے کہا تھا۔ "میں نے کنٹرول کرنے کی کوشش کی تھی افرحہ اس شخص نے مجھے جان بوجھ کر غصہ دلایا۔۔اسے نورے سے کوئی محبت نہیں۔۔وہ میری وجہ سے ضد میں یہ کر رہا ہے۔۔" وہ اپنے بالوں کو مٹھیوں میں بھینچتا بولا تھا۔ "شاہزیب کنٹرول یور سیلف۔۔ میں واپس جاکر نورے کو سمجھاوں گی۔ آپ پریشان مت ہوں۔۔" اس نے شاہزیب کا ہاتھ تھام کر اس پر نرمی سے بوسہ دیا اس کا لمس محسوس کرتے وہ ٹھنڈا پڑا تھا۔ "وہ کبھی مجھے اپنا بھائی نہیں مانے گی۔۔" ایک اور وجہ اس کے منہ سے نکلی۔ "کیا آپ نے ایسی کوئی کوشش کی جس سے اسے لگا ہو اس کا بھائی اس کے ساتھ ہے؟ میں جانتی ہوں آپ کمپنی میں بزی ہوتے ہیں لیکن کچھ وقت نورے کے لیے بھی نکالیں آپ کی بہن ہے اس کے ساتھ ٹائم سپینڈ کریں میں آپ کو مکمل سپورٹ کروں گی۔آپ کے سوچنے سے کچھ نہیں ہوگا اس کے لیے کچھ کریں۔۔" افرحہ کے سمجھانے پر اس کو بھی سمجھ آنا شروع ہوا تھا کہ وہ تو اپنی بہن کے ساتھ رشتہ سدھارنے کی بالکل بھی کوشش نہیں کر رہا۔۔ "یہاں سے واپس جاکر میں اپنا شیڈیول مینج کروں گا۔۔ میں چاہتا ہوں وہ مجھ سے بچپن کی طرح اپنی ہر بات شئیر کرے۔۔" اس کے لہجے میں ایک حسرت سی تھی۔اپنی بہن سے کھل کر بات کرنے کی خواہش تھی۔ "إن شاء اللّٰه بہت جلد ایسا ہوگا۔۔آپ کوشش کیجیے گا۔" افرحہ کے بولنے پر وہ دھیرے سے مسکرایا تھا۔اس نے اپنی باتوں سے کافی حد تک شاہزیب کی پریشانی دور کردی تھی۔ میٹنگ کا سلسلہ ختم ہوتے ہی وہ دونوں واپس آچکے تھے۔گھر واپس آتے ہی میر شاہ نے جو ان دونوں کو نورے کے نکاح کے بارے میں بتایا تو شاہزیب غصے میں آگ بگولا ہوچکا تھا۔ "میں اس کمینے انسان کو چھوڑوں گا نہیں۔۔اس کی ہمت کیسے ہوئی ہماری گھر میں داخل ہوکر یہ سب کرنے کی۔۔" وہ غصے سے دھاڑا تھا۔شاہزیب کا اس قدر تیز غصہ دیکھ کر افرحہ بھی گھبرا گئی تھی۔ "شاہزیب۔۔" افرحہ نے اس کا غصہ ٹھنڈا کرنا چاہا تھا مگر شازل کی حرکت نے اس کا میٹر شاٹ کردیا تھا۔ "میں اس کا حشر بگاڑ دوں گا۔۔" وہ تیز لہجے میں بولتا باہر نکل گیا تھا۔افرحہ نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی مگر وہ نہیں رکا تھا۔شازل کے گھر کا ایڈریس اسے نہیں پتا تھا لیکن یہ یاد تھا کہ وہ نورے کی یونیورسٹی جاب کرتا ہے اس نے وہاں کے ڈین کو کال کرکے شازل کے گھر کا ایڈریس لیا تھا۔ غصے سے اس کی رگیں پھول چکی تھی۔آنکھوں میں بھی سرخی اتر آئی تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا شازل کا قتل کردیتا۔۔ شازل کے گھر پہنچ کر وہ گارڈ کے رکنے پر بھی نہیں رکا تھا۔ دروازہ کھلتے ہی وہ فورا اندر داخل ہوا تھا۔شازل جو فریش ہوکر عسکری سے ملنے جانے کے لیے نیچے آیا تھا شاہزیب کو دیکھ کر رک گیا تھا۔ "تمھاری ہمت کیسے ہوئی میری بہن سے زبردستی نکاح کرنے کی؟" شاہزیب نے آگے بڑھتے تیزی سے اس کے کچھ سوچنے سے پہلے اس کے دائیں گال پر مکہ جڑا تھا۔وہ دوبارہ شازل کے منہ پر مکا مارنے لگا تھا جب شازل نے اس کا ہاتھ پکڑتے اس کے پیٹ میں مکہ مارا تھا۔ گل خان اور محب خان جو اپنے کمرے میں تھے شور کی آواز سن کر فورا باہر نکل آئے تھے۔شازل کو شاہزیب کے ساتھ لڑتے دیکھ کر محب خان خاموش ہی رہے تھے۔ "محب کچھ کریں۔۔" شاہزیب کے شازل کے پیٹ میں گھٹنہ مارنے پر گل خان نے آنکھیں میچتے کہا تھا۔ "وہ اپنی کرتوتوں کی وجہ سے مار کھا رہا ہے۔۔ لوگوں کے گھر میں گھس کر زبردستی ان کی لڑکی سے نکاح کرنے کا انجام یہ ہی ہوتا ہے۔۔" وہ پرتپش لہجے میں بولے تھے۔شازل کی پچھلے دنوں کی حرکت نے انھیں عاجز کردیا تھا۔ "میں نے تم سے کہا تھا مجھے روک سکتے ہو تو روک لو۔۔ نکاح تو میں ہی نورے سے کروں گا۔۔اور دیکھو تمھارے گھر آکر میں نے نکاح کیا تم روک نہیں پائے۔۔" شازل نے اس کے منہ پر مکہ مارتے اپنے ناک سے نکلتے خون کو صاف کرتے ہوئے تمسخرانہ لہجے میں کہا تھا۔ "زلیل انسان۔۔ میں کبھی بھی اپنی بہن کو تمھارے ساتھ رخصت نہیں کروں گا۔۔کچھ دنوں میں تمھیں ڈیوارس پیپرز ملیں گے چپ چاپ انھیں سائن کردینا۔۔" شازل کا گریبان پکڑتے شاہزیب نے سرخ چہرے کے ساتھ کہا تھا۔ "ہاہاہا۔۔ کبھی نہیں۔۔ تم اسے میرے نام سے الگ نہیں کر پاو گے۔۔" وہ ہنستا ہوا بولا تھا شاہزیب کی بات نے اس کو آگ بگولا کر دیا تھا۔ "میں بھی دیکھتا ہوں تم کیسے نہیں سائن کرتے۔۔" شاہزیب اسے جھٹکے سے چھوڑتا اپنے زخمی ہونٹ سے نکلتا خون صاف کرتا انگلی اٹھا کر بولا تھا۔شازل سے لڑائی کرکے اس کا غصہ کافی حد تک کم ہوگیا تھا۔ "اپنے بیٹھے کو سنبھال لیں میرے ہاتھوں قتل ہوجائے گا۔۔" وہ محب خان اور گل خان کی طرف مڑتا انھیں بول کر لمبے لمبے ڈھگ بھرتا وہاں سے چلا گیا تھا۔ "شازل کیوں کر رہے ہو ایسا تم؟ اگر تم اس لڑکی سے محبت کرتے تھے تو کیوں اب اس کا تماشا بنا ریے ہو؟ کیا تمھاری نظر میں اس کی کوئی عزت نہیں؟" گل خان شازل کی طرف دیکھتی پھٹ پڑی تھیں۔انھیں اپنے بیٹے پر شدید غصہ آرہا تھا۔شازل ان کی بات پر خاموش ہوگیا تھا۔وہ ایک نظر ان پر ڈالتا لمبے لمبے ڈھگ بھرتا وہاں سے نکل گیا تھا۔محب خان نے ملامتی نظروں سے اسے جاتے دیکھا تھا۔
"شاہزیب کیا کر کے آئیں ہیں آپ؟" اس کی زخمی حالت دیکھتے افرحہ نے تڑپ کر اس کے چہرے کو چھوتے پوچھا تھا۔ "کچھ نہیں بس اس شخص کو بتا کر آیا ہوں نورے کا بھائی ابھی زندہ ہے۔۔" شاہزیب مٹھیاں بھینچتا بولا تھا۔ "میں فرسٹ ایڈ باکس لاتی ہوں۔۔" وہ شاہزیب کے چہرے کو دیکھتی تیزی سے فرسٹ ایڈ باکس لے آئی تھی۔اس کے زخمی ہونٹ کو صاف کرتی وہ اس کے زخمی ہاتھوں کو صاف کرنے لگی تھی۔ "آپ نے کیا بات کی اس سے؟" اس نے سرسری انداز میں پوچھا تھا اس بات سے بےخبر نورے سیڑھیوں میں کھڑی ان کی باتیں سن رہی تھیں۔ "میں نے اسے بول دیا ہے میں کچھ دنوں تک ڈیوارس پیپر بھجواوں گا وہ سائن کردے۔۔" شاہزیب کی بات سنتے نورے نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لی تھیں۔ "آپ نے میری مرضی نہیں پوچھی؟" نورے اونچی آواز میں بولی تھی۔شاہزیب اور افرحہ دونوں کا دھیان اس کی جانب گیا تھا۔ "تم کیا چاہتی ہو نورے ؟ میں اس گھٹیا شخص کے ساتھ تمھیں رخصت کردوں ؟ یہ ممکن نہیں۔۔ اگر تم کسی اچھے شخص کو پسند کرتی تو میں ضرور تمھیں سپورٹ کرتا مگر شازل۔۔ اس شخص کی شکل سے بھی مجھے نفرت ہے۔۔میں کل ہی وکیل کو بلا رہا ہوں وہ ڈیوارس پیپر ریڈی کردے گا تم سائن کردینا۔۔" شاہزیب کھڑا ہوتا ہوا سنجیدگی سے بےتاثر انداز میں بولا تھا۔افرحہ کو شاہزیب کی بات بالکل بھی پسند نہیں آئی تھی جبکہ نورے۔۔ نورے غصے سے سرخ پڑ گئی تھی۔ "میں کسی پیپر پر کوئی سائن نہیں کروں گی۔۔آپ مجھ سے زبردستی سائن نہیں کروا سکتے۔۔" نورے چیخ کر بولتی اپنے کمرے میں بھاگ آئی تھی۔اسے شازل اور شاہزیب دونوں پر شدید غصہ آرہا تھا۔ "ان دونوں نے میری ذات کو مزاق بنا کر رکھ دیا ہے ایک نے زبردستی نکاح کر لیا دوسرا زبردستی طلاق دلوانا چاہتا ہے لیکن میں بھی نورے میر حاتم شاہ ہوں اپنی ذات کی بےمولی کا حساب سود سمیت لوں گی۔" وہ بیڈ پر بیٹھتے غصے سے بڑبڑائی تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا سب کچھ تہس نہس کردے۔۔ "شاہزیب آپ ٹھیک نہیں کر رہے۔۔آپ اس کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔۔" افرحہ افسوس بھری نظروں سے شاہزیب کو دیکھتی خاموشی سے فرسٹ ایڈ باکس لیتی اسے اکیلا چھوڑ گئی تھی۔
"میں سارا دن گھر میں بور ہوجاتی ہوں۔" اس نے ٹی وی کا رموٹ ٹیبل پر رکھتے منہ بنا کر کہا تھا۔روحان جو اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھا اپنے لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا اس نے آنکھیں اٹھا کر دانین کو دیکھا تھا۔ "تم نے کہاں تک سٹڈیز کی ہوئی ہیں؟" روحان نے کچھ سوچتے پوچھا۔ "مجھے بھیڑ میں جانا پسند نہیں۔۔" اس نے فورا نظریں پھیرتے صوفے کو انگوٹھے سے کھرچتے جواب دیا۔ "میں نے یہ نہیں پوچھا۔" روحان نے بھنویں اچکاتے کہا۔ "امم۔۔ میں نے ایف ایس سی کی ہوئی ہے۔۔" اس نے منہ پھولاتے جواب دیا۔ "اوکے پھر میں تمھارا ایڈمیشن کروا دیتا ہوں تم اگے اپنی سٹڈیز سٹارٹ کرو۔۔" روحان کی بات پر اس کا سانس سوکھا۔ "میں پڑھنے کے لیے یونیورسٹی نہیں جاسکتی۔۔آپ کو پتا ہے نہ مجھے پینک اٹیکس ہوتے ہیں۔۔" اس نے سنجیدگی سے نظریں جھکائے جواب دیا تھا۔ "اون لائن کلاسز میں تو کوئی بھیڑ نہیں ہوگی ؟ وہ تو لے سکتی ہو نہ۔۔" روحان کے جواب پر اس کی آنکھیں چمکی پڑھائی میں تو ویسے ہی وہ بہت تیز تھی بس قسمت کی وجہ سے آگے نہ پڑھ پائی۔ "اس کے بارے میں تو میں نے سوچا ہی نہیں۔۔لیکن بابا سے پرمیشن لینی ہوگی۔۔" اس نے انگلیاں مسلتے جواب دیا تھا۔ "ان سے میں بات کرلوں گی دانین۔۔" ملائکہ نے اس کے سامنے فروٹس کی پلیٹ رکھتے جواب دیا۔ "تھینک یو ملی۔۔" وہ کافی عرصے بعد چہک کر بولی تھی۔خوشی اس کے انگ انگ سے ظاہر ہو رہی تھی۔ملائکہ نے بےساختہ اس کی نظر اتاری تھی۔روحان نے مسکرا کر اس معصوم پری کو دیکھا تھا جو چھوٹی سی بات پر خوش ہوگئی تھی۔
وہ ایک عزم لیے صبح صبح اٹھ کر شاور لے کر تیار ہوچکی تھی۔آسمانی رنگ کا پاوں کو چھوتا فراک ساتھ تنگ پاجامہ پہنے سفید دوپٹہ اس کے گلے میں جھول رہا تھا۔پلکوں پر مسکارا لگائے ، ہونٹوں پر پنک لپ اسٹک لگائے اور گالوں پر پنک بلش ان لگائے اس نے چھوٹی چھوٹی جھمکیاں کانوں میں ڈالی تھی۔میک اپ کی وجہ دے اس کے ڈارک سرکلز چھپ چکے تھے۔البتہ سنہری آنکھوں میں سرخ ڈورے اس کی خوبصورتی کو ابھار رہے تھے۔ سکائی کھسا پہن کر اس نے ہاتھوں کی انگلیوں میں وینٹیج رنگز پہنی تھیں۔ایک بھرپور نظر خود پر ڈال کر وہ مطمئن ہوچکی تھی۔اپنا بیگ اٹھا وہ ٹائم دیکھتی تیزی سے نیچے آئی تھی۔ نورے کو تیار دیکھ کر فاطمہ بیگم نے آنکھیں گھمائی تھیں جبکہ افرحہ نے بےساختہ اس کی تعریف کی تھی۔ "نورے تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔" اس نے مسکرا کر نورے سے کہا تھا جس نے ہلکی سی مسکان افرحہ کو پاس کی تھی۔شاہزیب اور میر شاہ سمیت فاطمہ بیگم کو وہ مکمل طور پر اگنور کرچکی تھی۔ "تم فلحال یونیورسٹی نہیں جاو گی جب تک یہ شازل خان والا معاملہ حل نہیں ہوجاتا۔۔" میر شاہ کی بات نورے نے اپنا فراک مٹھی میں بھینچ لیا تھا۔ "جب آپ نکاح کو روک نہیں پائے بابا تو اس معاملے کو کیسے حل کریں گے۔۔؟" وہ جوس کا گلاس بھرتی بےتاثر انداز میں بولی تھی۔اس کے جواب پر میر شاہ سمیت سبھی حیران رہ گئے تھے۔میر شاہ کا فاطمہ بیگم کی خاطر شازل کے سامنے حامی بھرنا نورے کو اندر ہی اندر مزید جلا گیا تھا۔ "نورے بابا ٹھیک کہہ رہے ہیں ابھی یونیورسٹی جانے کی ضرورت نہیں۔۔" شاہزیب نے بھی میر شاہ کے فیصلے میں حامی بھری۔ "میں اپنے فیصلے خود لے سکتی ہوں مجھے آپ کے مشورے کی ضرورت نہیں مسٹر شاہزیب۔۔" نورے نے جوس ختم کرتے کرسی گھسیٹ کر اٹھتے سپاٹ انداز میں کہا تھا۔اس کی اپنی زندگی میں بےجا دخل اندازی اسے بالکل بھی پسند نہیں آرہی تھی۔ "بہتر ہے آپ اپنی بیوی اور خود کا خیال کریں بجائے دوسروں کی زندگی میں ٹانگ اڑائیں۔۔" وہ بنا لحاظ کیے بولی تھی شاہزیب تو اس کی بات پر ششد رہ گیا تھا حیران تو باقی سب بھی ہوگئے تھے۔ "نورے شاہزیب بڑا بھائی ہے تمھارا۔۔ تمیز سے بات کرو۔۔" میر شاہ نے کھڑے ہوتے تیز آواز میں نورے سے کہا تھا۔ "چند مہینوں پہلے مجھے خبر بھی نہیں تھی کہاں ہے یہ میرا نام نہاد بھائی۔۔اس لیے بہتر ہوگا یہ میری زندگی میں دخل اندازی مت کریں۔۔ اور بابا آپ اپنی بیوی پر دھیان دیں مجھے اچھے برے کی سمجھ بہت جلدی لگ چکی تھی۔اس کا شکریہ آپ اپنی بیوی کو ادا کریں۔۔" وہ سپاٹ انداز میں بولتی اپنا بیگ لے کر باہر نکل گئی تھی۔ڈرائیور کی بجائے آج اس نے خود جانے کا سوچا تھا۔باہر نکلتے وہ پیدل چلنے لگی تھی۔جب اچانک اس کے قریب ہیوی بائک آکر رکی تھی۔ وہ بنا رکے چلتی جارہی تھی جب شازل کی آواز اسے سنائی دی تھی۔ "نورے رکو۔۔" وہ شازل کو اگنور کرتی تیزی سے قدم اٹھانے لگی تھی۔شازل تو شاہزیب کو تپانے کے لیے تیار ہوکر نورے کو پک کرنے آیا تھا جب اسے پیدل گھر سے نکلتے دیکھ کر وہ اس کے پیچھے آیا تھا۔ "یہاں سے چلیں جائیں اس سے پہلے میں چیخ چیخ کر سب کو بلا لوں اور یہ بتاوں کہ ایک لوفر مجھے چھیڑ رہا ہے۔۔" وہ ہاتھ سے رکشے کو روکتی تیزی سے اس میں بیٹھ گئی تھی لیکن اپنے جواب سے شازل کو ضرور حیران کرگئی تھی۔ "سر پھری۔۔" وہ اسے جاتے دیکھ کر بڑبڑایا تھا۔وہ چاہتا تو اسے روک لیتا مگر اس کا سرد انداز دیکھ کر اس نے نورے کو جانے دیا تھا۔
وہ جان بوجھ کر شازل کو تپانے کے لیے اعمار کے ساھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ "اوہ۔۔ نور صاحبہ اتنے دنوں بعد یہ چاند کہاں سے نکلا ہے۔۔" "مابدولت آج تیار ہوکر آئیں ہیں لگتا ہے لوگوں کے دلوں پر بجلی گرانے کا ارادہ ہے۔۔" اعمار شوخ انداز میں اس کی جانب مڑتا بولا تھا۔نورے نے اس کی بات سن کر آنکھیں گھمائی تھیں البتہ اس نے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر چکی تھی۔ "اگر تمھاری منگیتر نے یہ سن لیا تمھیں مار مار کر قیمہ بنا دے گی۔۔" نورے کی بات پر اس نے ڈرامائی انداز پر دل پر ہاتھ رکھا تھا۔ "ہائے وہ تو پہلے ہی بڑی ظالم ہے۔۔" اس کے انداز پر وہ بےساختہ ہنس پڑی تھی۔ "تمھیں ہنسنا نہیں آتا ایڈیٹ۔۔" وہ جو لاپرواہ انداز میں اعمار کی باتوں پر ہنس کر کچھ بہتر فیل کر رہی تھی سونیا کے بولنے پر لب بھینچ گئی تھی۔ "میری ایک بات کان کھول کر سن لو۔۔ اگر تم نہیں چاہتی میں تمھارے اس میک اپ کے پیچھے چھپے چہرے کا نقشہ بگاڑ دوں تو میرے کام میں ٹانگ اڑانا چھوڑ دو چڑیل۔۔ورنہ تمھارے سارے دانت توڑ دوں گی۔۔ میں نورے ہوں مجھے ہلکے میں مت لینا۔۔" وہ سونیا کی جانب جھک کر کچھ اس انداز میں بولی تھی کہ وہ واقعی اس سے ڈر گئی تھی۔وہ نورے کو آنکھیں دکھاتی خاموشی سے اٹھ کر فرنٹ سیٹ پر جاکر بیٹھ گئی تھی۔ "واہ کمال کردیا میری شیرنی۔۔" اعمار ہنستے ہوئے بولا تھا وہ بھی مسکرا اٹھی تھی۔کلاس میں داخل ہوتے شازل نے یہ منظر دیکھ کر اپنے جبڑے بھینچے تھے۔ شازل کے آتے ہی کلاس میں خاموشی چھا گئی تھی۔اس کے چہرے پر چھایا غصہ دیکھ کر سب خاموش ہوگئے تھے۔ "لگتا ہے پروفیسر خان آج اپنی بیوی سے لڑ کر آئیں ہیں۔" وہ ہنس کر بولا تھا۔نورے نے شازل کا موڈ بھانپتے اعمار کے بازو پر چٹکی کاٹی تھی۔ "منہ بند رکھو بندر۔۔ اگر تم نہیں چاہتے پروفیسر تمھیں اٹھا کر کلاس سے باہر پھینکے اپنے یہ فضول جوکس اپنے پاس رکھو۔۔" وہ دونوں سرگوشی میں ایک دوسرے دے بات کر رہے تھے۔ "خوبصورت چڑیل۔۔ اتنی زور سے کیوں چٹکی کاٹی ہے۔۔؟" وہ بھی اس کے بازو پر زور سے چٹکی کاٹ چکا تھا۔نورے نے اپنا بازو رگڑتے گھور کر اسے دیکھا تھا۔ "تم دونوں فورا کھڑے ہوجاو۔۔" شازل کی آواز پر نورے نے آنکھیں گھمائیں تھیں۔ "مرگئے۔۔" اعمار بڑبڑایا تھا۔سارے اسٹوڈنٹس ان کی جانب دیکھنے لگے تھے وہ دونوں خاموشی سے کھڑے ہوگئے تھے۔ "ایسی کونسی باتیں ہیں تم دونوں کی جو لیکچر ختم ہونے تک انتظار نہیں کرسکتی ہم سے بھی شئیر کی جائیں۔۔" شازل نے چبھتے لہجے میں پوچھا تھا وہ کافی دیر سے ان دونوں کو نوٹ کر رہا تھا۔وہ پہلے اس کی بیوی نہیں تھی تب اس کا کسی غیر سے باتیں کرنا وہ برداشت نہیں کرتا تھا اب تو وہ اس کی بیوی تھی۔وہ بالکل بھی برداشت نہیں کر پارہا تھا۔ضبط سے اس نے سختی سے مٹھیاں بھینچ رکھی تھیں۔ "سوری سر نورے کے پیٹ میں درد ہو رہا تھا میں بس اسے ڈاکٹر کے پاس لے جارہا تھا۔" اعمار کی بات پر نورے نے اسے کھاجانے والی نظروں سے دیکھا تھا۔ "مجھے تو نورے بالکل ٹھیک دکھائی دے رہی ہے۔۔" شازل نے اس پر ایک گہری نظر ڈالتے سینے پر بازو باندھتے کہا تھا۔اب کی بار اعمار نے نورے کو گھور کر دیکھا تھا۔ "سوری ٹو ڈسٹرب وی آر ایکچولی گوئنگ۔۔" نورے نے بیگ اٹھاتے اعمار کو آنکھوں سے اشارہ کیا تھا۔ "کوئی کہیں نہیں جارہا چپ کرکے اپنی سیٹوں پر بیٹھیں۔۔" شازل کے تیز لہجے میں بولنے سے اعمار گھبرا گیا تھا البتہ نورے کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ "تمھیں تو جلا جلا کر ماروں گی شازل خان۔۔" وہ اس کے غصے سے سرخ چہرہ دیکھتی اعمار کا ہاتھ تھام کر بیک ڈور سے کلاس سے نکل گئی تھی۔اس نے باہر نکلتے ہی اعمار کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔ "اوئے چڑیل تم نے ہم دونوں کو مروانا ہے۔۔؟" اعمار گھبرا کر بولا تھا۔ "چپ کرو۔۔ مجھے بھوک لگ رہی یے میں کیفے جارہی ہوں آنا ہوا تو آجانا۔۔" وہ بنا پلٹے کیفے کی جانب چل دی تھی۔اعمار بھی منہ میں کچھ بڑبڑاتا اس کے پیچھے چل پڑا تھا۔ "کلاس ختم ہونے کے بعد نورے کو میرے آفس میں بھیجنا۔۔" شازل نے اپنا غصہ پیتے کلاس کے سی آر سے کہا تھا جو تیزی سے سر ہلا گیا تھا۔
نورے جو مزے سے سے ناشتہ کرتی اگلا لیکچر لینے جارہی تھی۔سی آر کے بتانے پر شازل کے آفس چل دی تھی۔آخر اس سے بھی تو حساب لینا تھا۔ وہ ناک کرتی شازل کے آفس میں داخل ہوئی تھی وہ جو بےصبری سے اس کا انتظار کر رہا تھا اس کے آنے پر فورا اپنی سیٹ سے کھڑا ہوچکا تھا۔ "تمھیں میں نے کہا تھا نہ اعمار سے دور رہو ورنہ اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔۔؟" نورے کی جانب قدم اٹھاتا وہ سرد برفیلے لہجے میں بول رہا تھا نورے سپاٹ نظروں سے سینے پر بازو باندھے اس کو دیکھ رہی تھی جیسے اس کی باتوں سے کوئی فرق ہی نہ پڑتا ہو۔ "لیکن نہیں نورے تو ضدی ہے۔۔اعمار کی ٹانگیں توڑوانا چاہتی ہے؟" وہ نورے کے سامنے کھڑا ہوتا اس کے چہرے پر جھولتی لٹوں پر پھونک مارتے بولا تھا۔ "آپ کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے میں کیا کرتی ہوں ؟ کس سے بات کرتی ہوں؟ ویسے بھی بہت جلد آپ کے ہاس ڈیوارس پیپر پہنچ جائیں گے اپ کے اس طرح کے رویے کا کوئی فائدہ نہیں ہے مسٹر شازل خان۔۔" وہ سپاٹ لہجے میں بولتی شازل کو آگ لگا گئی تھی۔ شازل کا ہاتھ بےساختہ اس کے بالوں کی طرف بڑھا تھا۔ "تمھیں ڈیوارس میں مر کر بھی نہیں دوں گا۔۔" اس کے چہرے پر جھکا وہ پھنکارا تھا۔ "جب میں نے تم سے نکاح کیا تھا تب سے تم میری ملکیت بن گئی ہو۔۔اتنی آسانی سے مجھ سے تمھیں چھٹکارا نہیں ملے گا۔۔" "اور یہ جو تم اعمار کے ساتھ گھوم رہی ہو اس کا بہت برا انجام ہوگا۔۔" وہ تیز لہجے میں بولتا نورے کے گلابی ہونٹوں کو فوکس میں لیتا شدت سے جسارت کر گیا تھا۔وہ اس کی بےباکی پر سرخ پڑتی اس کے سینے پر ہاتھ رکھتی خود سے پرے دھکیلنے لگی تھی۔ "شازل خان کی محبت کو گوارا نہیں اس کے علاوہ کوئی بھی نورے شازل خان کی طرف دیکھے۔۔" وہ پوزیسیو انداز میں اس کے کان کے قریب جھک کر غرایا تھا۔نورے اس کی بات سنتی کانپ اٹھی تھی۔وہ اپنے جذباتوں کو الفاظوں سے ظاہر کر رہا تھا۔ اس کے شرم سے گلابی چہرے کو دیکھتے شازل کے ہونٹ ہلکے سے اوپر اٹھے تھے۔ "اور نورے تم نے آج اعمار کا ہاتھ پکڑ لیا مگر دوبارہ اس کا ہاتھ مت پکڑنا ورنہ میں دھمکی نہیں دوں گا سیدھا عمل کروں گا۔۔" وہ اس کا دائیں ہاتھ پکڑتا نرمی سے سہلا کر ہونٹوں سے لگا چکا تھا۔نورے نے جھٹکے سے اس کی گرفت سے اپنا ہاتھ کھینچا تھا۔ شازل کی گرفت اپنی بالوں پر ڈھیلی پڑنے سے وہ تیزی سے دور ہٹ گئی تھی۔ "دوبارہ مجھے چھونے کی جرت مت کیجیے گا۔۔" وہ زہر خند لہجے میں پھنکاری تھی۔ساتھ ہی اپنا ہاتھ اور ہونٹ دوسرے ہاتھ سے رگڑ کر صاف کرتی انھیں سرخ کرگئی تھی۔شازل نے غصے سے سرخ پڑتے چہرے سے اسے دیکھا تھا جو باغی انداز میں اسکا لمس مٹا رہی تھی۔ شازل نے ایک ہی جست میں اس کے قریب پہنچتے پیچھے سے اس کی گردن میں ہاتھ ڈالتے پھر اس کے ہونٹوں پر جھکتے اپنا شدت بھرا لمس چھوڑا تھا۔وہ اس کی حرکت پر کانپنے لگی تھی۔نورے نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے سرخ چہرے کے ساتھ پھر اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رگڑا تھا۔لیکن اس بار وہ چالاکی سے اپنے ہاتھ کو ہونٹوں پر جما گئی تھی۔لیکن مقابل بھی شازل تھا دوسرے ہاتھ سے اس کا بازو پکڑتے وہ کمر پر لاتا مڑوڑ چکا تھا۔وہ اپنا دوسرا ہاتھ رکھنے لگی تھی جب شازل نے دوسرے ہاتھ کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ "تم جتنی بار میرا لمس مٹاو گی میں اتنی بار تم پر اپنا لمس چھوڑوں گا۔۔" وہ گھمبیر آواز میں بولتا اس کے بھیگے ہونٹوں پر دوبارہ جھک گیا تھا وہ اس کی گرفت میں پھڑپھڑا کر رہ گئی تھی۔شازل کا شدت بھرا لمس محسوس کرتے اس کی دھڑکنیں تیز ہوگئی تھیں۔ "یہاں سے چلی جاو اس سے پہلے میں خود پر قابو کھو بیٹھوں۔" وہ اسے اپنی گرفت سے آزاد کرتا رخ پھیر گیا تھا۔نورے اسے غصے سے گھورتی پلٹ گئی تھی دل تو کر رہا تھا مقابل کے بال نوچ لیں یا خود کو کچھ کرلے۔۔ نورے کے جانے کے بعد اس نے گہرا سانس لیا تھا۔صبح سے اس کو اعمار کے ساتھ دیکھ دیکھ کر وہ جل رہا تھا۔دل میں آگ لگی ہوئی تھی جبکہ دماغ میں دھماکے سے ہورہے تھے۔اب اس کا لمس محسوس کرتے وہ تھوڑا پرسکون ہوا تھا۔ورنہ ناجانے وہ غصے میں اعمار کے ساتھ کیا کرجاتا۔۔
"شاہزیب کیا کر کے آئیں ہیں آپ؟" اس کی زخمی حالت دیکھتے افرحہ نے تڑپ کر اس کے چہرے کو چھوتے پوچھا تھا۔ "کچھ نہیں بس اس شخص کو بتا کر آیا ہوں نورے کا بھائی ابھی زندہ ہے۔۔" شاہزیب مٹھیاں بھینچتا بولا تھا۔ "میں فرسٹ ایڈ باکس لاتی ہوں۔۔" وہ شاہزیب کے چہرے کو دیکھتی تیزی سے فرسٹ ایڈ باکس لے آئی تھی۔اس کے زخمی ہونٹ کو صاف کرتی وہ اس کے زخمی ہاتھوں کو صاف کرنے لگی تھی۔ "آپ نے کیا بات کی اس سے؟" اس نے سرسری انداز میں پوچھا تھا اس بات سے بےخبر نورے سیڑھیوں میں کھڑی ان کی باتیں سن رہی تھیں۔ "میں نے اسے بول دیا ہے میں کچھ دنوں تک ڈیوارس پیپر بھجواوں گا وہ سائن کردے۔۔" شاہزیب کی بات سنتے نورے نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لی تھیں۔ "آپ نے میری مرضی نہیں پوچھی؟" نورے اونچی آواز میں بولی تھی۔شاہزیب اور افرحہ دونوں کا دھیان اس کی جانب گیا تھا۔ "تم کیا چاہتی ہو نورے ؟ میں اس گھٹیا شخص کے ساتھ تمھیں رخصت کردوں ؟ یہ ممکن نہیں۔۔ اگر تم کسی اچھے شخص کو پسند کرتی تو میں ضرور تمھیں سپورٹ کرتا مگر شازل۔۔ اس شخص کی شکل سے بھی مجھے نفرت ہے۔۔میں کل ہی وکیل کو بلا رہا ہوں وہ ڈیوارس پیپر ریڈی کردے گا تم سائن کردینا۔۔" شاہزیب کھڑا ہوتا ہوا سنجیدگی سے بےتاثر انداز میں بولا تھا۔افرحہ کو شاہزیب کی بات بالکل بھی پسند نہیں آئی تھی جبکہ نورے۔۔ نورے غصے سے سرخ پڑ گئی تھی۔ "میں کسی پیپر پر کوئی سائن نہیں کروں گی۔۔آپ مجھ سے زبردستی سائن نہیں کروا سکتے۔۔" نورے چیخ کر بولتی اپنے کمرے میں بھاگ آئی تھی۔اسے شازل اور شاہزیب دونوں پر شدید غصہ آرہا تھا۔ "ان دونوں نے میری ذات کو مزاق بنا کر رکھ دیا ہے ایک نے زبردستی نکاح کر لیا دوسرا زبردستی طلاق دلوانا چاہتا ہے لیکن میں بھی نورے میر حاتم شاہ ہوں اپنی ذات کی بےمولی کا حساب سود سمیت لوں گی۔" وہ بیڈ پر بیٹھتے غصے سے بڑبڑائی تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا سب کچھ تہس نہس کردے۔۔ "شاہزیب آپ ٹھیک نہیں کر رہے۔۔آپ اس کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔۔" افرحہ افسوس بھری نظروں سے شاہزیب کو دیکھتی خاموشی سے فرسٹ ایڈ باکس لیتی اسے اکیلا چھوڑ گئی تھی۔
"میں سارا دن گھر میں بور ہوجاتی ہوں۔" اس نے ٹی وی کا رموٹ ٹیبل پر رکھتے منہ بنا کر کہا تھا۔روحان جو اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھا اپنے لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا اس نے آنکھیں اٹھا کر دانین کو دیکھا تھا۔ "تم نے کہاں تک سٹڈیز کی ہوئی ہیں؟" روحان نے کچھ سوچتے پوچھا۔ "مجھے بھیڑ میں جانا پسند نہیں۔۔" اس نے فورا نظریں پھیرتے صوفے کو انگوٹھے سے کھرچتے جواب دیا۔ "میں نے یہ نہیں پوچھا۔" روحان نے بھنویں اچکاتے کہا۔ "امم۔۔ میں نے ایف ایس سی کی ہوئی ہے۔۔" اس نے منہ پھولاتے جواب دیا۔ "اوکے پھر میں تمھارا ایڈمیشن کروا دیتا ہوں تم اگے اپنی سٹڈیز سٹارٹ کرو۔۔" روحان کی بات پر اس کا سانس سوکھا۔ "میں پڑھنے کے لیے یونیورسٹی نہیں جاسکتی۔۔آپ کو پتا ہے نہ مجھے پینک اٹیکس ہوتے ہیں۔۔" اس نے سنجیدگی سے نظریں جھکائے جواب دیا تھا۔ "اون لائن کلاسز میں تو کوئی بھیڑ نہیں ہوگی ؟ وہ تو لے سکتی ہو نہ۔۔" روحان کے جواب پر اس کی آنکھیں چمکی پڑھائی میں تو ویسے ہی وہ بہت تیز تھی بس قسمت کی وجہ سے آگے نہ پڑھ پائی۔ "اس کے بارے میں تو میں نے سوچا ہی نہیں۔۔لیکن بابا سے پرمیشن لینی ہوگی۔۔" اس نے انگلیاں مسلتے جواب دیا تھا۔ "ان سے میں بات کرلوں گی دانین۔۔" ملائکہ نے اس کے سامنے فروٹس کی پلیٹ رکھتے جواب دیا۔ "تھینک یو ملی۔۔" وہ کافی عرصے بعد چہک کر بولی تھی۔خوشی اس کے انگ انگ سے ظاہر ہو رہی تھی۔ملائکہ نے بےساختہ اس کی نظر اتاری تھی۔روحان نے مسکرا کر اس معصوم پری کو دیکھا تھا جو چھوٹی سی بات پر خوش ہوگئی تھی۔
وہ ایک عزم لیے صبح صبح اٹھ کر شاور لے کر تیار ہوچکی تھی۔آسمانی رنگ کا پاوں کو چھوتا فراک ساتھ تنگ پاجامہ پہنے سفید دوپٹہ اس کے گلے میں جھول رہا تھا۔پلکوں پر مسکارا لگائے ، ہونٹوں پر پنک لپ اسٹک لگائے اور گالوں پر پنک بلش ان لگائے اس نے چھوٹی چھوٹی جھمکیاں کانوں میں ڈالی تھی۔میک اپ کی وجہ دے اس کے ڈارک سرکلز چھپ چکے تھے۔البتہ سنہری آنکھوں میں سرخ ڈورے اس کی خوبصورتی کو ابھار رہے تھے۔ سکائی کھسا پہن کر اس نے ہاتھوں کی انگلیوں میں وینٹیج رنگز پہنی تھیں۔ایک بھرپور نظر خود پر ڈال کر وہ مطمئن ہوچکی تھی۔اپنا بیگ اٹھا وہ ٹائم دیکھتی تیزی سے نیچے آئی تھی۔ نورے کو تیار دیکھ کر فاطمہ بیگم نے آنکھیں گھمائی تھیں جبکہ افرحہ نے بےساختہ اس کی تعریف کی تھی۔ "نورے تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔" اس نے مسکرا کر نورے سے کہا تھا جس نے ہلکی سی مسکان افرحہ کو پاس کی تھی۔شاہزیب اور میر شاہ سمیت فاطمہ بیگم کو وہ مکمل طور پر اگنور کرچکی تھی۔ "تم فلحال یونیورسٹی نہیں جاو گی جب تک یہ شازل خان والا معاملہ حل نہیں ہوجاتا۔۔" میر شاہ کی بات نورے نے اپنا فراک مٹھی میں بھینچ لیا تھا۔ "جب آپ نکاح کو روک نہیں پائے بابا تو اس معاملے کو کیسے حل کریں گے۔۔؟" وہ جوس کا گلاس بھرتی بےتاثر انداز میں بولی تھی۔اس کے جواب پر میر شاہ سمیت سبھی حیران رہ گئے تھے۔میر شاہ کا فاطمہ بیگم کی خاطر شازل کے سامنے حامی بھرنا نورے کو اندر ہی اندر مزید جلا گیا تھا۔ "نورے بابا ٹھیک کہہ رہے ہیں ابھی یونیورسٹی جانے کی ضرورت نہیں۔۔" شاہزیب نے بھی میر شاہ کے فیصلے میں حامی بھری۔ "میں اپنے فیصلے خود لے سکتی ہوں مجھے آپ کے مشورے کی ضرورت نہیں مسٹر شاہزیب۔۔" نورے نے جوس ختم کرتے کرسی گھسیٹ کر اٹھتے سپاٹ انداز میں کہا تھا۔اس کی اپنی زندگی میں بےجا دخل اندازی اسے بالکل بھی پسند نہیں آرہی تھی۔ "بہتر ہے آپ اپنی بیوی اور خود کا خیال کریں بجائے دوسروں کی زندگی میں ٹانگ اڑائیں۔۔" وہ بنا لحاظ کیے بولی تھی شاہزیب تو اس کی بات پر ششد رہ گیا تھا حیران تو باقی سب بھی ہوگئے تھے۔ "نورے شاہزیب بڑا بھائی ہے تمھارا۔۔ تمیز سے بات کرو۔۔" میر شاہ نے کھڑے ہوتے تیز آواز میں نورے سے کہا تھا۔ "چند مہینوں پہلے مجھے خبر بھی نہیں تھی کہاں ہے یہ میرا نام نہاد بھائی۔۔اس لیے بہتر ہوگا یہ میری زندگی میں دخل اندازی مت کریں۔۔ اور بابا آپ اپنی بیوی پر دھیان دیں مجھے اچھے برے کی سمجھ بہت جلدی لگ چکی تھی۔اس کا شکریہ آپ اپنی بیوی کو ادا کریں۔۔" وہ سپاٹ انداز میں بولتی اپنا بیگ لے کر باہر نکل گئی تھی۔ڈرائیور کی بجائے آج اس نے خود جانے کا سوچا تھا۔باہر نکلتے وہ پیدل چلنے لگی تھی۔جب اچانک اس کے قریب ہیوی بائک آکر رکی تھی۔ وہ بنا رکے چلتی جارہی تھی جب شازل کی آواز اسے سنائی دی تھی۔ "نورے رکو۔۔" وہ شازل کو اگنور کرتی تیزی سے قدم اٹھانے لگی تھی۔شازل تو شاہزیب کو تپانے کے لیے تیار ہوکر نورے کو پک کرنے آیا تھا جب اسے پیدل گھر سے نکلتے دیکھ کر وہ اس کے پیچھے آیا تھا۔ "یہاں سے چلیں جائیں اس سے پہلے میں چیخ چیخ کر سب کو بلا لوں اور یہ بتاوں کہ ایک لوفر مجھے چھیڑ رہا ہے۔۔" وہ ہاتھ سے رکشے کو روکتی تیزی سے اس میں بیٹھ گئی تھی لیکن اپنے جواب سے شازل کو ضرور حیران کرگئی تھی۔ "سر پھری۔۔" وہ اسے جاتے دیکھ کر بڑبڑایا تھا۔وہ چاہتا تو اسے روک لیتا مگر اس کا سرد انداز دیکھ کر اس نے نورے کو جانے دیا تھا۔
وہ جان بوجھ کر شازل کو تپانے کے لیے اعمار کے ساھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ "اوہ۔۔ نور صاحبہ اتنے دنوں بعد یہ چاند کہاں سے نکلا ہے۔۔" "مابدولت آج تیار ہوکر آئیں ہیں لگتا ہے لوگوں کے دلوں پر بجلی گرانے کا ارادہ ہے۔۔" اعمار شوخ انداز میں اس کی جانب مڑتا بولا تھا۔نورے نے اس کی بات سن کر آنکھیں گھمائی تھیں البتہ اس نے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر چکی تھی۔ "اگر تمھاری منگیتر نے یہ سن لیا تمھیں مار مار کر قیمہ بنا دے گی۔۔" نورے کی بات پر اس نے ڈرامائی انداز پر دل پر ہاتھ رکھا تھا۔ "ہائے وہ تو پہلے ہی بڑی ظالم ہے۔۔" اس کے انداز پر وہ بےساختہ ہنس پڑی تھی۔ "تمھیں ہنسنا نہیں آتا ایڈیٹ۔۔" وہ جو لاپرواہ انداز میں اعمار کی باتوں پر ہنس کر کچھ بہتر فیل کر رہی تھی سونیا کے بولنے پر لب بھینچ گئی تھی۔ "میری ایک بات کان کھول کر سن لو۔۔ اگر تم نہیں چاہتی میں تمھارے اس میک اپ کے پیچھے چھپے چہرے کا نقشہ بگاڑ دوں تو میرے کام میں ٹانگ اڑانا چھوڑ دو چڑیل۔۔ورنہ تمھارے سارے دانت توڑ دوں گی۔۔ میں نورے ہوں مجھے ہلکے میں مت لینا۔۔" وہ سونیا کی جانب جھک کر کچھ اس انداز میں بولی تھی کہ وہ واقعی اس سے ڈر گئی تھی۔وہ نورے کو آنکھیں دکھاتی خاموشی سے اٹھ کر فرنٹ سیٹ پر جاکر بیٹھ گئی تھی۔ "واہ کمال کردیا میری شیرنی۔۔" اعمار ہنستے ہوئے بولا تھا وہ بھی مسکرا اٹھی تھی۔کلاس میں داخل ہوتے شازل نے یہ منظر دیکھ کر اپنے جبڑے بھینچے تھے۔ شازل کے آتے ہی کلاس میں خاموشی چھا گئی تھی۔اس کے چہرے پر چھایا غصہ دیکھ کر سب خاموش ہوگئے تھے۔ "لگتا ہے پروفیسر خان آج اپنی بیوی سے لڑ کر آئیں ہیں۔" وہ ہنس کر بولا تھا۔نورے نے شازل کا موڈ بھانپتے اعمار کے بازو پر چٹکی کاٹی تھی۔ "منہ بند رکھو بندر۔۔ اگر تم نہیں چاہتے پروفیسر تمھیں اٹھا کر کلاس سے باہر پھینکے اپنے یہ فضول جوکس اپنے پاس رکھو۔۔" وہ دونوں سرگوشی میں ایک دوسرے دے بات کر رہے تھے۔ "خوبصورت چڑیل۔۔ اتنی زور سے کیوں چٹکی کاٹی ہے۔۔؟" وہ بھی اس کے بازو پر زور سے چٹکی کاٹ چکا تھا۔نورے نے اپنا بازو رگڑتے گھور کر اسے دیکھا تھا۔ "تم دونوں فورا کھڑے ہوجاو۔۔" شازل کی آواز پر نورے نے آنکھیں گھمائیں تھیں۔ "مرگئے۔۔" اعمار بڑبڑایا تھا۔سارے اسٹوڈنٹس ان کی جانب دیکھنے لگے تھے وہ دونوں خاموشی سے کھڑے ہوگئے تھے۔ "ایسی کونسی باتیں ہیں تم دونوں کی جو لیکچر ختم ہونے تک انتظار نہیں کرسکتی ہم سے بھی شئیر کی جائیں۔۔" شازل نے چبھتے لہجے میں پوچھا تھا وہ کافی دیر سے ان دونوں کو نوٹ کر رہا تھا۔وہ پہلے اس کی بیوی نہیں تھی تب اس کا کسی غیر سے باتیں کرنا وہ برداشت نہیں کرتا تھا اب تو وہ اس کی بیوی تھی۔وہ بالکل بھی برداشت نہیں کر پارہا تھا۔ضبط سے اس نے سختی سے مٹھیاں بھینچ رکھی تھیں۔ "سوری سر نورے کے پیٹ میں درد ہو رہا تھا میں بس اسے ڈاکٹر کے پاس لے جارہا تھا۔" اعمار کی بات پر نورے نے اسے کھاجانے والی نظروں سے دیکھا تھا۔ "مجھے تو نورے بالکل ٹھیک دکھائی دے رہی ہے۔۔" شازل نے اس پر ایک گہری نظر ڈالتے سینے پر بازو باندھتے کہا تھا۔اب کی بار اعمار نے نورے کو گھور کر دیکھا تھا۔ "سوری ٹو ڈسٹرب وی آر ایکچولی گوئنگ۔۔" نورے نے بیگ اٹھاتے اعمار کو آنکھوں سے اشارہ کیا تھا۔ "کوئی کہیں نہیں جارہا چپ کرکے اپنی سیٹوں پر بیٹھیں۔۔" شازل کے تیز لہجے میں بولنے سے اعمار گھبرا گیا تھا البتہ نورے کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ "تمھیں تو جلا جلا کر ماروں گی شازل خان۔۔" وہ اس کے غصے سے سرخ چہرہ دیکھتی اعمار کا ہاتھ تھام کر بیک ڈور سے کلاس سے نکل گئی تھی۔اس نے باہر نکلتے ہی اعمار کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔ "اوئے چڑیل تم نے ہم دونوں کو مروانا ہے۔۔؟" اعمار گھبرا کر بولا تھا۔ "چپ کرو۔۔ مجھے بھوک لگ رہی یے میں کیفے جارہی ہوں آنا ہوا تو آجانا۔۔" وہ بنا پلٹے کیفے کی جانب چل دی تھی۔اعمار بھی منہ میں کچھ بڑبڑاتا اس کے پیچھے چل پڑا تھا۔ "کلاس ختم ہونے کے بعد نورے کو میرے آفس میں بھیجنا۔۔" شازل نے اپنا غصہ پیتے کلاس کے سی آر سے کہا تھا جو تیزی سے سر ہلا گیا تھا۔
نورے جو مزے سے سے ناشتہ کرتی اگلا لیکچر لینے جارہی تھی۔سی آر کے بتانے پر شازل کے آفس چل دی تھی۔آخر اس سے بھی تو حساب لینا تھا۔ وہ ناک کرتی شازل کے آفس میں داخل ہوئی تھی وہ جو بےصبری سے اس کا انتظار کر رہا تھا اس کے آنے پر فورا اپنی سیٹ سے کھڑا ہوچکا تھا۔ "تمھیں میں نے کہا تھا نہ اعمار سے دور رہو ورنہ اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔۔؟" نورے کی جانب قدم اٹھاتا وہ سرد برفیلے لہجے میں بول رہا تھا نورے سپاٹ نظروں سے سینے پر بازو باندھے اس کو دیکھ رہی تھی جیسے اس کی باتوں سے کوئی فرق ہی نہ پڑتا ہو۔ "لیکن نہیں نورے تو ضدی ہے۔۔اعمار کی ٹانگیں توڑوانا چاہتی ہے؟" وہ نورے کے سامنے کھڑا ہوتا اس کے چہرے پر جھولتی لٹوں پر پھونک مارتے بولا تھا۔ "آپ کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے میں کیا کرتی ہوں ؟ کس سے بات کرتی ہوں؟ ویسے بھی بہت جلد آپ کے ہاس ڈیوارس پیپر پہنچ جائیں گے اپ کے اس طرح کے رویے کا کوئی فائدہ نہیں ہے مسٹر شازل خان۔۔" وہ سپاٹ لہجے میں بولتی شازل کو آگ لگا گئی تھی۔ شازل کا ہاتھ بےساختہ اس کے بالوں کی طرف بڑھا تھا۔ "تمھیں ڈیوارس میں مر کر بھی نہیں دوں گا۔۔" اس کے چہرے پر جھکا وہ پھنکارا تھا۔ "جب میں نے تم سے نکاح کیا تھا تب سے تم میری ملکیت بن گئی ہو۔۔اتنی آسانی سے مجھ سے تمھیں چھٹکارا نہیں ملے گا۔۔" "اور یہ جو تم اعمار کے ساتھ گھوم رہی ہو اس کا بہت برا انجام ہوگا۔۔" وہ تیز لہجے میں بولتا نورے کے گلابی ہونٹوں کو فوکس میں لیتا شدت سے جسارت کر گیا تھا۔وہ اس کی بےباکی پر سرخ پڑتی اس کے سینے پر ہاتھ رکھتی خود سے پرے دھکیلنے لگی تھی۔ "شازل خان کی محبت کو گوارا نہیں اس کے علاوہ کوئی بھی نورے شازل خان کی طرف دیکھے۔۔" وہ پوزیسیو انداز میں اس کے کان کے قریب جھک کر غرایا تھا۔نورے اس کی بات سنتی کانپ اٹھی تھی۔وہ اپنے جذباتوں کو الفاظوں سے ظاہر کر رہا تھا۔ اس کے شرم سے گلابی چہرے کو دیکھتے شازل کے ہونٹ ہلکے سے اوپر اٹھے تھے۔ "اور نورے تم نے آج اعمار کا ہاتھ پکڑ لیا مگر دوبارہ اس کا ہاتھ مت پکڑنا ورنہ میں دھمکی نہیں دوں گا سیدھا عمل کروں گا۔۔" وہ اس کا دائیں ہاتھ پکڑتا نرمی سے سہلا کر ہونٹوں سے لگا چکا تھا۔نورے نے جھٹکے سے اس کی گرفت سے اپنا ہاتھ کھینچا تھا۔ شازل کی گرفت اپنی بالوں پر ڈھیلی پڑنے سے وہ تیزی سے دور ہٹ گئی تھی۔ "دوبارہ مجھے چھونے کی جرت مت کیجیے گا۔۔" وہ زہر خند لہجے میں پھنکاری تھی۔ساتھ ہی اپنا ہاتھ اور ہونٹ دوسرے ہاتھ سے رگڑ کر صاف کرتی انھیں سرخ کرگئی تھی۔شازل نے غصے سے سرخ پڑتے چہرے سے اسے دیکھا تھا جو باغی انداز میں اسکا لمس مٹا رہی تھی۔ شازل نے ایک ہی جست میں اس کے قریب پہنچتے پیچھے سے اس کی گردن میں ہاتھ ڈالتے پھر اس کے ہونٹوں پر جھکتے اپنا شدت بھرا لمس چھوڑا تھا۔وہ اس کی حرکت پر کانپنے لگی تھی۔نورے نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے سرخ چہرے کے ساتھ پھر اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رگڑا تھا۔لیکن اس بار وہ چالاکی سے اپنے ہاتھ کو ہونٹوں پر جما گئی تھی۔لیکن مقابل بھی شازل تھا دوسرے ہاتھ سے اس کا بازو پکڑتے وہ کمر پر لاتا مڑوڑ چکا تھا۔وہ اپنا دوسرا ہاتھ رکھنے لگی تھی جب شازل نے دوسرے ہاتھ کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ "تم جتنی بار میرا لمس مٹاو گی میں اتنی بار تم پر اپنا لمس چھوڑوں گا۔۔" وہ گھمبیر آواز میں بولتا اس کے بھیگے ہونٹوں پر دوبارہ جھک گیا تھا وہ اس کی گرفت میں پھڑپھڑا کر رہ گئی تھی۔شازل کا شدت بھرا لمس محسوس کرتے اس کی دھڑکنیں تیز ہوگئی تھیں۔ "یہاں سے چلی جاو اس سے پہلے میں خود پر قابو کھو بیٹھوں۔" وہ اسے اپنی گرفت سے آزاد کرتا رخ پھیر گیا تھا۔نورے اسے غصے سے گھورتی پلٹ گئی تھی دل تو کر رہا تھا مقابل کے بال نوچ لیں یا خود کو کچھ کرلے۔۔ نورے کے جانے کے بعد اس نے گہرا سانس لیا تھا۔صبح سے اس کو اعمار کے ساتھ دیکھ دیکھ کر وہ جل رہا تھا۔دل میں آگ لگی ہوئی تھی جبکہ دماغ میں دھماکے سے ہورہے تھے۔اب اس کا لمس محسوس کرتے وہ تھوڑا پرسکون ہوا تھا۔ورنہ ناجانے وہ غصے میں اعمار کے ساتھ کیا کرجاتا۔۔
Professor Khan
Zanoor Writes
Episode 14
(Series 2 in Professor Shah Novel)
"مجھے امید نہیں تھی نورے مجھ سے اتنی بدگمان ہے۔۔" "میں تو بس اس کے لیے اچھا چاہتا ہوں۔۔" وہ پریشان سا بیڈ پر بیٹھا بولا تھا آج سارا دن اس کے ذہن میں نورے کی صبح کی باتیں گردش کر رہی تھیں۔اس کا بےرخ انداز، کاٹ دار لہجہ اسے اذیت میں مبتلا کر گیا تھا۔ افرحہ اس کی بات سن کر خاموش رہی تھی وہ خود شاہزیب کے رویے سے اس سے ناراض تھی۔جس کا اظہار خاموشی دے کیا جارہا تھا۔ "اب کیا تم بھی مجھ سے ناراض ہو؟" اپنے نوٹس پر جھکی افرحہ کی طرف دیکھتے اس نے لب بھینچ کر پوچھا تھا۔ "میں کیا کہوں شاہزیب۔۔؟ میں نے آپ کو پہلے بھی سمجھایا تھا مگر آپ سمجھ نہیں سکے۔۔وہ نورے کی زندگی ہے پہلے ہی ایک شخص اس سے زبردستی رشتہ قائم کرچکا ہے اور اب آپ اس سے زور زبردستی کرتے وہ رشتہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔۔کیا آپ کی نظر میں اس کے جذبات کی کوئی اہمیت نہیں ہے ؟ کیا آپ کو لگتا ہے اسے کچھ محسوس ہوتا ہے؟ وہ آپ سے اور انکل سے شدید بدگمان ہے۔۔جس کی وجہ آپ دونوں کا اس کے ساتھ رویہ ہے۔۔" وہ ایک ہی سانس میں بولتی دوبارہ اپنے نوٹس پر جھک گئی تھی۔ "تم جو بھی کہو لیکن مجھے شازل بالکل بھی پسند نہیں۔اس کی حرکت نے ثابت کردیا وہ میری بہن کے قابل ہی نہیں۔" شاہزیب کی سوئی ابھی بھی وہی ٹکی دیکھ کر افرحہ کو تپ چڑھ گئی تھی۔ "یو نو واٹ شاہزیب۔۔آپ کا جو دل کرتا ہے وہ کریں میں آپ کو نہیں رکوں گی اور اگر آپ نے اس سب کے بعد اپنی اکلوتی بہن کو کھو دیا تو اس کے ذمہ دار صرف و صرف آپ خود ہوں گے۔۔" وہ کاٹ دار لہجے میں بولتی اپنی اسائمنٹ کا سامان سمیٹتی شاہزیب پر ایک نظر ڈال کر باہر چلی گئی تھی۔اس کی بات پر شاہزیب اپنے جبڑے بھینچ گیا تھا۔ایک طرف بہن تھی جو شدید بدگمان ہورہی تھی دوسری طرف اس کی انا تھی اور وہ کہاں برداشت کرسکتا تھا شازل اس سے جیت جائے بات رشتوں کی نہیں ان دونوں کے درمیان ضد کی تھی۔
وہ باہر آتی لان میں بیٹھ گئی تھی۔اس کا دل فلحال ریسٹ کرنے کو تھا شاہزیب کی باتوں نے اس کا پارہ ہائی کیا ہوا تھا۔ "نورے۔۔ ادھر آو کچھ دیر میرے پاس بیٹھو۔۔" اس نے اندر داخل ہوتی نورے کو آواز دی تھی۔نورے افرحہ کی بات سنتی لان میں آگئی تھی۔وہ یونیورسٹی سے ابھی لوٹی تھی۔ "السلام علیکم بھابھی!" وہ ہلکی مسکان سے افرحہ کو جواب دیتی اس کے ساتھ موجود کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ "وعلیکم السلام! کیسا گزرا آج کا دن؟" افرحہ نے مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔ "بس لیکچرز لیتے گزرا۔۔" وہ ناک چڑھا کر بولی تھی۔یہ تو افرحہ بھی جانتی تھی اس کی جان جاتی ہے پڑھائی سے۔۔ "شازل سے ملاقات ہوئی؟" اس نے سرسری انداز میں پوچھا۔وہ جاننا چاہتی تھی نورے کے کیا خیالات ہیں؟شاہزیب کے بتانے پر اسے پتا چلا تھا شازل نورے کی یونیورسٹی میں جوب کرتا ہے۔ "جی۔۔" وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ناخنوں کو تکتی بولی تھی وہ اسے کیا بتاتی مقابل نے آج اس کے چودہ طبق روشن کردیے تھے۔ "کیا اس نے تمھیں کچھ کہا؟" افرحہ نے اس کے چہرے کے تاثر دیکھتے پوچھا۔ "نہیں۔۔" اس نے لب بھینچ کر جواب دیا تھا۔ "کیا تم یہ رشتہ رکھنا چاہتی ہو؟ میں تمھاری رائے لینا چاہتی ہوں؟" افرحہ نرمی سے اس کا ہاتھ تھامتی بولی تھی۔ "بھابھی میں اس وقت فلحال یہ سب ڈسکس نہیں کرنا چاہتی سب لوگ اپنی مرضی سے مجھ پر حکم چلا رہے ہیں کیا میری زندگی کوئی کھیل ہے جس کا دل کرے کھیلنے لگے ؟ میں ابھی ان سب چیزوں سے چھٹکارا چاہتی ہوں پھر ہی پرسکون دماغ سے اس بارے میں سوچ سکتی ہوں۔۔" وہ افرحہ کی جانب دیکھتی بےبسی سے بول رہی تھی۔افرحہ کو بےساختہ اس پر ڈھیروں پیار آیا تھا۔اس نے نورے کو کھینچ کر اپنے گلے لگایا تھا۔ "جب تک تم نہیں چاہو گی کوئی کچھ نہیں کر پائے گا اور میری مکمل سپورٹ تمھارے ساتھ ہے شاہزیب اور شازل اپنی ضد اور انا کی وجہ سے پاگل ہوچکے ہیں۔۔میں نے شاہزب کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن ابھی ان پر ضد اور انا کا بھوت سوار ہے مگر تم فکر مت کرو انھیں جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہوجائے گا۔۔" افرحہ کی بات نے اسے کافی تسلی دی تھی۔وہ اپنی زندگی میں پہلی بار صنفِ نازک کے اتنے نرم و پیارے رویے کو دیکھتی مسکرا اٹھی تھی ورنہ فاطمہ بیگم اور زباریہ نے اس کو ہمیشہ ٹارچر ہی کیا تھا۔ "تھینک یو سو مچ بھابھی۔۔" وہ افرحہ کے گرد حصار باندھتے بولی تھی لہجے میں نمی سی گھل گئی تھی کوئی تو تھا جو اسے بھی سمجھ پارہا تھا۔
رات کا وقت تھا سب لوگ ڈنر کرنے کے بعد اپنے کمرے میں جاچکے تھے۔اس نے چونکہ سب کے ساتھ ڈنر نہیں کیا تھا تبھی اپنے لیے پیزا آرڈر کرچکی تھی۔ وہ پیزا کھا رہی تھی جب میر شاہ کو کچھ کاغذات لاتے دیکھ کر اس کی پیشانی پر بل پڑے تھے۔وہ اتنی جلدی خلع کے پیپر کیسے بنواسکتے تھے؟ اسے پریشانی ہوئی مگر جانتی تھی ان کے لیے کوئی بھی کام کروانا مشکل نہیں تھا۔اسے پیزا اپنے حلق میں پھنستا ہوا محسوس ہوا تھا۔مگر ان کے پاس آتے ہی وہ لاپرواہ بن گئی تھی۔ "یہ لو پکڑو پین اور سائن کرو۔۔" اس کے سامنے میز پر خلع کے پیپر رکھتے میر شاہ نے نورے کے سامنے پین رکھا تھا۔ پین کو دیکھتے اس نے اپنے ہاتھوں میں پکڑا پیزا کا سلائس لاپرواہی سے کھانا شروع کیا تھا۔میر شاہ کے ماتھے پر تیوری چڑھی تھی۔ اس وقت لاونچ میں صرف میر شاہ اور نورے ہی موجود تھے۔ "نورے میں نے تم سے کچھ کہا ہے۔۔" اس بار میر شاہ سخت لہجے میں اونچی آواز میں بولے تھے۔ "سوری بابا مجھے سنائی نہیں دیا کیا بول رہے تھے آپ؟" اس نے اپنی توجہ میر شاہ کی طرف کی تھی۔ "ان پیپرز پر سائن کرو۔۔" انھوں نے پیپر اس کی جانب بڑھائے۔۔ "مجھے سائن کرنا نہیں آتے بابا۔۔" انتہائی معصومیت کے ساتھ اس نے آنکھیں جھکاتے جواب دیا تھا۔میر شاہ کے چہرے پر غصے سے بھرے تاثرات نمایا ہوئے تھے۔ "نورے مجھے غصہ مت دلاو۔۔" "تم اس شخص کے ساتھ رہنا چاہتی ہو جس نے دن دیہاڑے تمھارے باپ کے سر پر گن رکھی تھی؟" ان کے لہجے میں غصہ تھا۔نورے ان کی بات پر خامسش ہوگئی تھی۔ "بابا لیکن شازل رات کو آئے تھے؟" وہ کافی دیر سوچنے کے بعد جو بولی تو میر شاہ کو مزید تپ چڑھی۔ "نورے چپ چاپ پیپر پر سائن کرو۔۔" انھوں نے اس کے ہاتھ سے سلائس لیتے باکس میں پھینکتے زبردستی اس کے ہاتھ میں پین پکڑایا تھا۔وہ ان کی بیٹی تھی اس پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتے تھے مگر غصہ ضرور کرسکتے تھے۔ "میں پہلے یہ پیپرز پڑھنا چاہوں گی مجھے بھروسہ نہیں شاید آپ کی بیگم نے خلع کی پیپر کی جگہ کوئی اور پیپر نپ رکھ دیے ہوں؟" وہ کندھے اچکاتی تشویش ناک لہجے میں بولی تھی۔ "تم فاطمہ پر الزام لگا رہی ہو ایسا کچھ نہیں ہے۔۔اگر تم پڑھنا چاہتی ہو ، پڑھ لو لیکن صبح تک مجھے اس پر سائن چاہیے۔۔ میں اس غنڈے کو کبھی بھی اپنا داماد نہیں بناوں گا۔" وہ پیپر اسے پکڑاتے کمرے میں چلے گئے تھے۔نورے ان پیپرز کو اٹھاتی کیچن میں گئی تھی وہاں سے لائٹر اٹھاتی وہ باہر آئی تھی اور گراج میں کھڑے ہوکر اس نے ان پیپرز کو آگ لگا دی تھی۔ "نورے یہ کیا حرکت ہے؟" میر شاہ جو اس سے کوئی بات کہنے کو واپس پلٹے تھے اس کو خاموشی سے کیچن اور پھر گراج میں جاتے دیکھ کر اس کے پیچھے آئے تھے۔وہ زمین پر خلع کے پیپرز کو جل کر راکھ ہوتے دیکھ کر دھاڑے تھے۔ "مجھے سردی لگ رہی تھی سوچا تھوڑی گرماہٹ حاصل کرلوں۔۔" وہ لب کاٹتی انتہائی معصومانہ انداز میں بولی۔ "نورے۔۔" میر شاہ کے غصے سے دھاڑنے پر وہ ایک دم سیدھی ہوئی تھی۔ "آئی ایم سوری بابا لیکن میں اب کوئی بھی فیصلہ کسی کے بھی دباو میں آکر نہیں کروں گی۔۔" وہ سنجیدہ ہوتی بولی تھی میر شاہ اس کے سپاٹ چہرے کو دیکھتے خاموش پڑ گئے تھے۔ "کیا میرا اپنی زندگی پر کوئی حق نہیں ہے بابا؟" وہ ان کے سامنے کھڑی ہوتی سادہ سے لہجے میں پوچھ رہی تھی۔ "نورے شازل تمھارے لیے ٹھیک نہیں ہے۔۔" وہ ایک دم ٹھنڈے پڑے تھے۔ "میں ابھی کچھ نہیں جاننا چاہتی بابا میں صرف سکون چاہتی ہوں۔۔جو مجھے اس گھر میں نہیں مل رہا۔۔میرا دم گھٹتا ہے واپس گھر آنے کا سوچ کر۔۔ اپنے کمرے سے وحشت ہوتی۔۔" "مجھ ایسا لگ رہا ہے شازل اور بھیا میرا گلا گھونٹ رہے ہیں۔۔وہ دونوں اپنی ضد میں میری ذات کو روند رہے ہیں بابا۔۔ کم سے کم آپ میرا ساتھ دیں۔۔کیا اگر مما آج زندہ ہوتی تو وہ یوں آپ دونوں کو میرے ساتھ زبردستی کرنے دیتی ؟" "مجھے کبھی ان کی اتنی شدت سے یاد نہیں آئی بابا۔۔ لیکن آج میرا دل پھٹ رہا ہے کاش میری ماں زندہ ہوتی میں ان کے سینے سے لگ کر دو گھڑی سکون کا سانس لے پاتی۔۔" اس کی آواز میں چھپا درد اور غم نے میر شاہ کو پتھر کی مورت بنا دیا تھا انھیں کیا خبر تھی ان کی بیٹی اتنی تکلیف میں ہیں انھوں نے بےساختہ اسے خود میں بھینچ لیا تھا۔ "بابا ہیں نہ میرے بچے۔۔جو تم کہو گی وہ ہی ہوگا۔۔" ان کی باتوں اور حصار نے جسے تھوڑا سکون دیا تھا مگر سہ جانتی تھی میر شاہ بھی شاہزیب اور شازل کو روک نہیں پائیں گے۔۔وہ آہستہ سے ان سے الگ ہوتی خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی جبکہ میر شاہ کو گہری سوچ میں چھوڑ گئی تھی۔
"گڈ مارننگ سسر اور سالے صاحب۔۔" وہ لوگ جو سب ناشتے کی ٹیبل پر خاموشی سے ناشتہ کر رہے تھے۔شازل کی گونجتی آواز پر اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔نورے بنا اس پر نگاہ ڈالے اپنے ناشتے میں مصروف رہی تھی۔ شاہزیب اس کی فضول بکواس سنتا چئیر گھسیٹتا فورا کھڑا ہوا تھا۔میر شاہ جو اس کے بارے میں مثبت سوچنے کی کوشش کر رہے تھے وہ بھی بری طرح بدگمان ہوئے تھے اس کے اس انداز پر انھیں بھی طیش آگیا تھا۔سب لوگ دیکھتے دیکھتے ناشتہ چھوڑ کر کھڑے ہوگئے تھے۔ "تمھاری ہمت کیسے ہوئی ہمارے گھر میں داخل ہونے کی؟" شاہزیب اونچی آواز میں دھاڑا تھا گندمی رنگت میں سرخیاں گھلنے لگی تھی۔غصے سے آنکھیں شازل پر گاڑھے وہ اسے گھور رہا تھا۔ "میں اپنی بیوی کو لینے آیا ہوں۔۔اس کے لیے ہمت نہیں جگرا چاہیے۔" وہ لاپرواہ بنی نورے پر نظر ڈال کر بولا تھا جو سفید چکن کے کرتے میں بالوں کو کیچڑ لگا کر آگے سے کھولا چھوڑے بےحد خوبصورت لگ رہی تھی۔ "فورا نکلو یہاں سے۔۔ اس سے پہلے میں تمھیں دھکے مار کر باہر پھینکو۔۔" اس کی جانب بڑھتے میر شاہ نے غصے سے کہا تھا۔ "میں نے ایسا کچھ نہیں کہا جس سے آپ کو اتنا غصہ آرہا ہے۔۔" وہ تمسخرانہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا تھا۔اب کی بار شاہزیب اس کی جانب بڑھا تھا۔اس کا ہاتھ بےساختہ شازل کے گریبان کی طرف بڑھا تھا مگر وہ راستے میں ہی اس کا ہاتھ پکڑ چکا تھا۔اس نے زور سے شاہزیب کا ہاتھ جھٹکا تھا۔ "نورے تمھارے ساتھ کہیں نہیں جائے گی۔۔" شاہزیب اپنی مٹھیاں بھینچتا غصے سے بولا تھا۔افرحہ اس کے غصے کو دیکھتی اس کی جانب بڑھی تھی۔معاملہ بگڑتے دیکھ کر وہ پریشان ہوگئی تھی۔ "نورے کو آج میں اپنے ساتھ ہی یونیورسٹی لے کر جاوں گا۔۔روک کر دکھاو مجھے۔۔" سکن شرٹ اور براون پینٹ کے ساتھ بکھرے بال اور ہلکے ہلکے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ وہ ضدی لہجے میں بول رہا تھا جیسے نورے نہ ہو کوئی کھلونا ہو۔۔ "میں بھی دیکھتا ہوں تم نورے کو کیسے لے کر جاتے ہو۔" اپنے بازوں کے کف فولڈ کرتے شاہزیب جیسے ہاتھا پائی کے لیے مکمل تیار ہوچکا تھا۔ شازل نے طنزیہ مسکراتے چند قدم آگے بڑھائے تھے جب شاہزیب کی طرف سے پڑنے والے مکے کو اس نے نیچے جھک کر ڈوج کیا تھا۔دوسرے ہاتھ سے شاہزیب کو بنا کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع دیے اس نے اس کے پیٹ میں مکہ مارا تھا۔شاہزیب نے بھی دائیں ہاتھ سے اس کے منہ پر مکہ جڑ دیا تھا۔ افرحہ کے منہ سے بےساختہ چیخ نکلی تھی نورے ان کو لڑتے دیکھ کر جوس کا گلاس پکڑتے کھڑی ہوگئی تھی۔چہرے پر سپاٹ سے تاثرات تھے۔میر شاہ ان دونوں کو روکنا چاہتے تھے مگر فاطمہ بیگم نے ان کے بازو کو پکڑتے ان دونوں کے درمیان آنے سے روک دیا تھا۔ ان دونوں کو لڑتے دیکھ کر اس کا ارادہ خاموشی سے وہاں سے نکل جانے کا تھا مگر بدقسمتی سے گلاس ٹیبل پر رکھنے کی بجائے اس سے زمین پر گر گیا تھا جس کی وجہ سے فاطمہ بیگم ، میر شاہ اور افرحہ اس کی جانب متوجہ ہوگئے تھے اسے مجبورا وہاں کھڑا رہنا پڑا تھا۔فاطمہ بیگم کے دیکھنے کی وجہ سے وہ ایک پل کو ڈر گئی تھی مگر دوسرے پل ہی اس نے خود کو مضبوط بناتے نظریں پھیر لی تھیں۔ "اتنی جلدی ہار مان گئے چلو اٹھو نورے کو ہاتھ لگا کر دکھاو۔۔" شاہزیب نے اس کے پیٹ میں مکہ مارتے اسے دھکا دیا تھا جس کی وجہ سے وہ لڑکھڑاتا زمین بوس ہوچکا تھا۔شاہزیب اس کے اوپر جھکا اس کا گریبان پکڑتا بولا تھا۔شازل نے سرخ آنکھوں سے اسے گھورتے اس کی ناک پر مکہ مارا تھا۔شاہزیب کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھایا تھا وہ لڑکھڑاتا ہوا پیچھے ہٹا تھا۔شازل اس کے پیچھے ہٹتا ہی کھڑا ہوا تھا۔ساتھی ہی اپنی ویسٹ سے وہ گن نکالتا شاہزیب پر تان چکا تھا۔ افرحہ کی آنکھیں خوف سے پھیل گئی تھیں۔جبکہ دل انجانہ خوف کے زیرِ اثر تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔نورے بھی معاملہ سنگین ہوتے دیکھ کر گھبرا گئی تھی۔اسے لگا تھا وہ لوگ تھوڑا بہت لڑ کر خاموش ہوجائیں گے۔مگر ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ "میرے رستے میں کوئی بھی آیا تو اس کی جان لے لوں گا۔۔" وہ اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنے گال سے رستا خون صاف کرتا غضب ناک لہجے میں دھاڑا تھا۔ نورے اس کے پاگل پن پر اسے روکنے کے لیے آگے بڑھنے لگی تھی۔جب کرسی میں پاوں پھنسنے کی وجہ سے وہ سیدھا زمین بوس ہوئی تھی۔ اس کے منہ سے ایک درد ناک چیخ نکلی تھی۔ ٹوٹے گلاس کی کرچیاں اس کے بازوں میں بری طرح چبھ گئی تھی۔سفید کرتا تیزی سے سرخ ہونے لگا تھا۔سب لوگ اس کی جانب متوجہ ہوگئے تھے۔ اس کے سرخ پڑتے سفید کرتے کو دیکھتے شازل گن پھینکتا اس کی جانب بھاگا تھا۔جس کی کمر میں بھی کچھ کرچیاں چبھ چکی تھی۔ شاہزیب بھی تیزی سے شاک سے نکلتا نورے کی جانب بڑھا تھا مگر شازل پہلے ہی اس کے پاس پہنچتا اسے نرمی سے کندھوں سے تھام کر کھڑا کر چکا تھا۔ "دور ہٹیں مجھ سے۔۔جائیں جاکر لڑیں۔۔" وہ شازل سے خود کو چھڑواتی چیخ کر بولی تھی۔تکلیف سے نچلا ہونٹ کانپنے لگا تھا۔چہرہ میں بھی ضبط کی شدت دے سرخیاں گھلنے لگی تھیں۔ "نورے ڈیم اٹ۔۔سٹاپ اٹ۔۔تمھارا خون نکل رہا ہے۔۔ہم بعد میں اس بارے میں بات کریں گے۔۔تمھیں بینڈیج کی ضرورت ہے۔۔" شاہزیب نے ساکت کھڑے شازل کو پیچھے ہٹایا تھا۔شازل کے ضبط کی شدت سے رگیں پھول گئی تھیں۔دل کر رہا تھا سب کے سامنے اسے کھینچ کر اپنے ساتھ کے جائے مگر اس کی حالت دیکھتے چپ کر گیا تھا۔ "بھابھی ان دونوں سے کہیں میری نظروں کے سامنے سے غائب ہوجائیں ورنہ میں کسی کو بھی اپنے قریب نہیں آنے دوں گی۔۔" وہ اپنے قدم پیچھے اٹھاتی تکلیف سے لب بھینچ گئی تھی۔ "آپ دونوں جائیں یہاں سے۔۔" افرحہ پریشان سی نورے کی جانب بڑھتی ہوئی بولی تھی۔مگر وہ دونوں اپنی جگہ سے نہیں ہلے تھے۔ "تم دونوں کو سنائی نہیں دیا جاوں یہاں سے۔۔" میر شاہ کی گرجدار آواز پر ان دونوں کے وجود میں حرکت ہوئی تھی۔ان دونوں کے جاتے ہی اس کے منہ سے تکلیف کی شدت سے سسکی نکلی تھی۔ "فاطمہ جلدی جائیں اور ڈاکٹر کو کال کریں۔" میر شاہ نے خاموش کھڑی فاطمہ بیگم کو حکم دیا تھا جو مارے باندھے احسان کرتے ہوئے ڈاکٹر کو کال کرنے چلی گئی تھیں۔ "افرحہ اسے روم میں لے جاو۔۔ڈاکٹر جلد ہی آجائے گا۔۔" افرحہ میر شاہ کی بات پر فورا نورے کو لیتی اوپر چلی گئی تھی۔ افرحہ کے ساتھ اکیلے ہوتے ہی اس کی آنکھوں سے چند آنسو نکلے تھے۔افرحہ اسے اپنے حصار میں بھی نہیں لے سکتی تھی کہ کرچیاں اس کے کہیں مزید اندر نہ کھب جائیں۔ "شش چپ کرجاو نورے سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔ان دونوں کے دماغ خراب ہے جان بوجھ کر ضدی بن رہے ہیں۔۔" "ان دونوں کی وجہ سے خود کو تکلیف مت دو۔۔" افرحہ کے نرمی سے آنسو پونچھنے پر وہ سوں سوں کرتی سر ہلاتی بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔کچھ بڑی کرچیاں بھی اس کے بازوں میں لگ گئی تھیں جن سے تیزی سے خون رس رہا تھا اور اسے تکلیف ہورہی تھی۔ ڈاکٹر نے آکر اس کی بینڈیج کردی تھی اس کے بازوں میں کافی گہرے زخم تھے جب کے کمر میں چھوٹے چھوٹے زخم تھے۔نورے ڈاکٹر کے کہنے پر پین کلر لیتی آرام کرنے کے لیے لیٹ گئی تھی کہ اب اس حالت میں یونیورسٹی جانا ممکن نہ تھا۔ افرحہ اس کے پاس کچھ دیر بیٹھی رہی تھی پھر اس کے سونے کے بعد خاموشی سے لائٹ اوف کرتی روم سے چلی گئی تھی۔
وہ ملائکہ کے دانین کی آگے پڑھنے کی بات سن کر اگلی صبح سارے کام چھوڑ چھاڑ کر اس سے ملنے چلے آئے تھے۔ان کا دل کرے تو وہ اپنی بیٹی کے ساتھ ہی سارا وقت گزاریں مگر کچھ وجوہات کی بنا پر انھیں اس سے الگ ہی رہنا پڑتا تھا۔ "دانین۔۔" وہ جو لاونچ میں داخل ہوئے تھے۔دانین کو دیکھ کر ہلکی مسکان ساتھ بولے تھے گزرے دنوں میں انھیں دانین کی خاصی یاد آرہی تھی۔ "بابا۔۔" اس نے اپنی گود میں رکھی فروٹس کی پلیٹ کو میز پر رکھتے کھڑے ہوتے کہا تھا۔آغا خان کا دل اپنی بیٹی کو سینے سے لگانے کا تھا مگر وہ جانتے تھے وہ کسی کو بھی چھونے نہیں دیتی تھی تبھی دل مسوم کر رہ گئے تھے۔ "ہم نے سنا تم آگے پڑھنا چاہتی ہو؟" انھوں نے اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھتے پوچھا تھا۔جبکہ روحان کو وہ مکمل اگنور کرگئے تھے جو ان سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ "ج۔۔جی روحان نے مجھے بتایا کہ میں آن لائن کلاسزز بھی لے سکتی ہوں اور آپ جانتے ہیں نہ مجھے آگے پڑھنے کا بھی کافی شوق تھا۔" وہ اپنی انگلیوں سے کھیلتی بولی تھی۔اس کے منہ سے روحان کا ذکر سنتے آغا خان نے جھٹکے سے پیچھے مڑتے روحان کو دیکھا تھا جو سپاٹ نظروں سے سامنے دیوار کو تک رہا تھا مگر ان کی نظریں بھی خوب محسوس کر پارہا تھا۔ "میں اس بارے میں سوچ کر بتاوں گا۔۔ملائکہ زرا میری بات سنیے گا۔۔" آغا خان نے اٹھتے ہوئے کیچن میں کھڑی ملائکہ کو آواز دی تھی جو اپنے گیلے ہاتھ صاف کرتی سر ہلاتی ان کے پیچھے چل پڑی تھیں۔ "تم نے مجھے بتایا نہیں میری بیٹی اور اس کے باڈی گارڈ کی آپس میں اتنی اچھی دوستی ہے جو وہ آپس میں باتیں کرتے ہیں۔۔" انھوں نے دانت پیستے پوچھا تھا۔ملائکہ نے بےتاثر انداز میں اسے دیکھا تھا۔ "ایسا کچھ نہیں ہے خان صاحب۔۔" وہ دھیمے لہجے میں بولی تھیں۔ "تمھیں لگتا ہے تم مجھے بےوقوف بنا سکتی ہو؟" انھوں نے چند قدم ملائکہ کی طرف بڑھاتے بغور اس کے چہرے کو تکتے پوچھا تھا جو اتنے سالوں بعد بھی نہایت پرکشش اور حسین تھا۔ "نہیں خان صاحب۔۔ آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔۔" "جو میں دیکھ رہی ہوں وہ آپ نہیں دیکھ پارہے۔۔" ملائکہ نے دو قدم پیچھے اٹھاتے کہا تھا۔ "میری ایک بات سن لو دانین کی ضد کی وجہ سے میں نے اس دو ٹکے کے باڈی گارڈ کو دوبارہ ہائیر کیا تھا اگر مجھے پتا لگا میرے پیچھے کوئی ایسا ویسا کام ہو رہا ہے تو ملائکہ یاد رکھنا روحان کو بعد میں تمھیں یہاں سے پہلے نکالوں گا۔۔" اس کو بازو درشتگی سے پکڑتے وہ غصے سے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ بنا سوچے سمجھے بول گئے تھے۔ "آپ جیسے بزدل انسان سے مجھے کسی اچھے کی امید نہیں ہے خان صاحب۔۔" وہ شکوہ کن نگاہوں سے انھیں دیکھتی اپنی بازو چھڑوا کر تیزی سے وہاں سے نکل گئی تھیں۔آنکھوں کے گوشے ہلکے ہلکے نم پڑ گئے تھے۔وہ آغا خان کو اپنے لفظوں سے ساکت کرگئی تھیں۔ "مجھے نہیں لگتا بابا مانیں گے۔۔" وہ آغا خان اسے جواب دے کر جانے کے بعد نم آنکھوں سے روحان کی جانب دیکھتے بولی تھی۔اس کی نم آنکھیں دیکھ وہ تڑپ ہی اٹھا تھا۔ "وہ مان جائیں گے بس سوچنے کے لیے وقت لے رہے ہیں۔۔" اس کی جانب چند قدم بڑھاتے روحان نے نرمی سے کہا تھا۔ "نہیں مجھے پتا ہے وہ کبھی نہیں مانیں گے۔۔" وہ اس بار تھوڑا اونچا بولتی روحان کو حیران کر گئی تھی۔ "مجھ پر یقین ہے؟" اس کے قریب جاتا وہ دانین کی ٹھوڑی کو جکڑتے پوچھ رہا تھا۔ "ہاں۔۔" اس نے بے جھجھک سر ہلا دیا تھا۔ "بس پھر تم بےفکر رہو تمھارے بابا کو میں خود منا لوں گا۔۔" وہ نرمی سے دانین کی پلکوں کو چھوتا بولا تھا۔ملائکہ کے اچانک باہر نکلنے پر وہ جلدی سے پیچھے ہٹ گیا تھا۔مگر ابھی بھی وہ دانین کے پاس ہی کھڑا تھا۔ " مجھے لگتا ہے بابا نے پھر ملی کو ڈانٹا ہے۔۔" وہ ملائکہ کا سرخ چہرہ دیکھ چکی تھی تبھی گھبراتی ہوئی بولی تھی۔روحان نے اس کی بات پر حیرانی سے اس کی جانب دیکھا تھا۔ ملائکہ کے جانے کے بعد ان کو اپنے لفظوں کا احساس ہوا تبھی وہ فورا باہر نکلے مگر دانین کے قریب روحان کو دیکھتے ٹھٹھک کر رک گئے۔۔ "تم دور ہٹو میری بیٹی سے۔۔" آغا خان اونچی آواز میں بولے تھے۔روحان نے سپاٹ نظروں سے انھیں دیکھا تھا۔دانین کی دھڑکن خوف سے بڑھ گئی تھی۔ "بابا ہی از جسٹ ہیلپنگ می۔۔" دانین نے اپنے لب کاٹتے کہا تھا۔ "سٹے ان یور لمٹس۔۔" وہ دانین کی آواز پر ڈھیلا پڑتے انگشتِ شہادت کی انگلی اٹھاتے تیز لہجے میں بولے تھے۔روحان دانین کی التجائیہ نظریں محسوس کرتا خاموش ہو گیا تھا۔وہ چپ چاپ جاتا اپنی جگہ کھڑا ہو گیا تھا۔آغا خان اسے گھورتے دانین کا خیال کرتے ملائکہ سے بات کرنے کی بجائے اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔
"مما بھوک لگی ہے۔۔ کھانا دے دیں۔۔" دس سالہ نورے نے سکول سے آتے فاطمہ بیگم سے کہا تھا۔ "کوئی کھانا نہیں ملے گا جب تک سنک میں پڑے برتن نہیں دھو دیتی۔۔" فاطمہ بیگم اسے دور جھٹکتی بولی تھیں۔وہ ان کے سختی سے بولنے پر سہم سی گئی تھی تبھی خاموشی سے برتن دھونے لگی تھی۔برتن دھوتے کچھ برتن اس سے چھوٹ کر ٹوٹ گئے تھے۔ "ایک کام نہیں ہوتا تم سے۔۔" اس کو بازو سے پکڑ کر جھنجھورتے وہ چیخ کر بولی تھیں۔میر شاہ اور حاتم شاہ میٹنگ کے سلسلے میں دوسرے شہر گئے تھے تبھی وہ اس پر کھلم کھلا چیخ رہی تھیں۔ "س۔۔سوری مما۔۔" وہ سہم کر بولی تھی۔ "تمھیں میں آج بتاوں گی اس کی کیا سزا ہوتی ہے۔۔آئیندہ کے بعد کبھی کوئی غلطی نہیں ہوگی۔۔" وہ اسے کھینچتے ہوئے سٹور روم کی طرف لے گئی تھی اسے جھٹکے سے اندر پھینکتے وہ دروازہ بند کر گئی تھی۔ بند کمرے اور اندھیرے سے ڈرتے وہ خوف و ہراساں سی چیخیں مارنے لگی تھی۔ "مما سوری۔۔ پل۔۔پلیز دروازہ کھولیں م۔۔مج۔ ڈر لگ رہا ہے۔۔" وہ اندھیرے سے وحشت زدہ ہوتی چیخ رہی تھی۔ "آہ۔۔" چیخ مارتے وہ نیند سے اٹھ بیٹھی تھی۔اندھیرے کمرے کو دیکھتے اسے وحشت محسوس ہونے لگی تھی اس نے ہاتھ بڑھاتے تیزی سے لائٹ اون کرتے گہرے گہرے سابس بھرنا شروع کیے تھے۔ وہ سارا دن سوتی رہی تھی بس افرحہ نے اسے اٹھا کر کچھ ہلکا پھلکا کھلایا تھا۔اس نے نیند میں میر شاہ اور شاہزیب کی بھی ہلکی آواز سنی تھی مگر کچھ سمجھ نہیں پائی تھی۔ طبیعت سنبھلی تو اس نے ٹائم دیکھا تھا جہاں بارہ بج رہے تھے۔وہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتی بکھرے بال سمیٹنے لگی تھی جب بازوؤں میں درد سے ٹیسیں محسوس کرتی رک گئی تھی۔ وہ بھوک کے احساس سے لب بھینچ کر اٹھ گئی تھی۔کھڑی ہوتی وہ پہلے فریش ہونے کے لیے واشروم کی طرف بڑھ گئی تھی۔ فریش ہوکر وہ باہر نکلی ہی تھی جب شازل کو اپنے سامنے کھڑے دیکھ کر اس کے منہ سے چیخ نکلنے لگی تھی مگر شازل نے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے اس کی چیخ کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ اسے اس وقت ڈھیروں شرم محسوس ہورہی تھی وہ بلیک سلیولیس ٹی شرٹ اور کھلے ٹروازر میں ملبوس تھی۔بازووں پر زخم ہونے کی وجہ سے اس نے سلیولیس شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ شازل نے اس کے سرخ چہرے کی طرف دیکھتے ناسمجھی سے اس کو بغور دیکھا تھا پھر اس کی نظر نورے کے حولیہ کی طرف اٹھی تھی اس کے ہونٹ ہلکے سے اوپر اٹھے تھے۔مگر اس کے زخموں کو دیکھ کر وہ لب بھینچ گیا تھا۔ "مجھے یاد کیا۔۔؟" اس کے ہونٹوں سے ہاتھ ہٹاتے شازل نے اس کی ٹھوڑی پر بنے نشان کو انگلی سے چھوتے گھمبیر آواز میں پوچھا تھا۔ "بالکل نہیں! آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟" اس نے دو قدم پیچھے لیتے ناک چڑھا کر پوچھا تھا۔ "اپنی بیوی سے ملنے آیا ہوں۔۔" نورے کی جانب جھکتے اس نے مدھم لہجے میں کہا تھا۔وہ اس کے بدلے بدلے لہجے کو محسوس کرتی نروس ہونے لگی تھی۔ "مجھ سے نارض ہو؟" پھر سے پوچھا گیا۔ "نہیں!" نروٹھا انداز۔ "جھوٹی۔۔" وہ اس کی چھوٹی سی ناک کو انگلی کی پوروں سے چھوتا بولا۔ "غنڈا۔۔" وہ اس کی انگلی کو جھٹکتی بڑبڑائی۔۔ شازل نے اس کی حرکت پر اسے گھور کر دیکھتے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتے اسے اپنے سینے سے لگایا تھا۔نورے کے منہ سے بےساختہ سسکی نکلی تھی۔شازل کی نظر اس کی کمر کی جانب گئی تھی۔ نورے کے چہرے پر نظریں جمائے اس نے دھیرے سے شرٹ کو کمر سے اوپر کیا تھا۔وہ بےساختہ شازل کی شرٹ کو مٹھیوں میں دبوچ گئی تھی۔ "سٹاپ اٹ۔۔" وہ کانپتی آواز میں بولی۔شازل نے اسے اگنور کرتے اس کے زخم پر لگی بینڈیج کو انگلی کی پوروں سے دھیرے سے چھوا تھا۔اس کی ٹھنڈی انگلیوں کا سرسراتا لمس محسوس کرتی وہ کانپ اٹھی تھی۔ شازل گہری نظروں سے اس کے چہرے کو دیکھتا دھیرے سے اس کی ٹھوڑی پر لب رکھ گیا تھا۔ "شازل۔۔" وہ اس کے بہکے انداز، نرم لمس اور منہ بولتے جذبات کو دیکھتی دبی دبی آواز میں بولی تھی۔شازل اس کی شرٹ کمر سے درست کرتا اس کے کان کے قریب دھیرے سے جھکا تھا۔ وہ اس کی شرٹ پر اپنی گرفت سخت کرگئی تھی۔اپنی تیز دھڑکنیں اسے کانوں میں محسوس ہورہی تھیں۔جبکہ چہرہ سرخ انار بن چکا تھا۔عارضوں پر جھکیں پلکیں بھی ہلکی ہلکی کانپ رہی تھی۔۔ "تم۔۔!" "طلب کی وہ حد ہو" "جس کے آگے سب کچھ بے معنی ہے۔" وہ آنچ دیتے لہجے میں بولتا اس کے گال کو شدت سے چھو گیا تھا۔وہ پل میں اس کے لفظوں میں گم ہوئی تھی مگر اگلے ہی لمحے ہوش میں آتے اس نے لب بھینچ کر شازل کے سینے پر ہاتھ دھڑتے اسے دور دھکیلا تھا۔ زخموں میں تکلیف محسوس کرتے اس کے چہرے پر درد ناک تاثرات نمایا ہوئے تھے۔شازل اس کی حرکت پر جبڑے بھینچتا اس کے دونوں ہاتھوں کو تھام کر لبوں سے لگا گیا تھا۔ "میں کل آوں گا ملنے تب تک اپنا خیال رکھنا۔۔" وہ سنجیدگی سے گویا ہوا تھا۔ "نہیں رکھوں گی اپنا خیال۔۔ کیا کریں گے آپ؟" وہ سلگ کر بولی تھی اس کی من مانی پر اب جی بھر کر غصہ آرہا تھا۔ "میں یہاں سے اٹھا کر لے جاوں گا۔۔اور ہمیشہ کے لیے اپنے پاس قید کرلوں گا۔۔" وہ جس قدر سنجیدگی سے بولا تھا۔نورے سچ میں ڈر گئی تھی۔ "گڈ نائیٹ جانِ من۔۔" وہ جھک جر اس کی صبیح پیشانی کو چھوتا پل بھر میں اس کے کمرے کا دروازہ کھولتا باہر نکل گیا تھا جبکہ نورے کو وہ ساکت چھوڑ گیا تھا۔اس کا لمس محسوس کرتی وہ سوچوں میں گم بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔ "ہیلو ساسوں ماں۔۔" وہ جو دھڑلے سے بنا ڈرے سیڑھیاں اتر کر باہر جا رہا تھا۔فاطمہ بیگم کو دیکھتے رک کر بولا تھا۔فاطمہ بیگم اس سر پھرے کو دیکھتی ڈر گئی تھیں۔ "میری بیوی کا خیال رکھیے گا۔۔" وہ ان کی آنکھوں میں ڈر دیکھتا تمسخرانہ لہجے میں بولتا باہر نکل گیا تھا۔ "اس کا ایسا خیال رکھوں گی وہ کبھی نہیں بھولے گی۔۔" فاطمہ بیگم بڑبڑاتی ہوئی اپنے کمرے میں واپس چلی گئی تھیں وہ بس پانی کی بوتل لینے آئی تھی مگر شازل کو دیکھ کر حیران رہ گئی تھی اس کے بارے میں صبح میر شاہ کو بتانے کا سوچتی وہ خاموشی سے سونے چلی گئی تھیں۔
وہ باہر آتی لان میں بیٹھ گئی تھی۔اس کا دل فلحال ریسٹ کرنے کو تھا شاہزیب کی باتوں نے اس کا پارہ ہائی کیا ہوا تھا۔ "نورے۔۔ ادھر آو کچھ دیر میرے پاس بیٹھو۔۔" اس نے اندر داخل ہوتی نورے کو آواز دی تھی۔نورے افرحہ کی بات سنتی لان میں آگئی تھی۔وہ یونیورسٹی سے ابھی لوٹی تھی۔ "السلام علیکم بھابھی!" وہ ہلکی مسکان سے افرحہ کو جواب دیتی اس کے ساتھ موجود کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ "وعلیکم السلام! کیسا گزرا آج کا دن؟" افرحہ نے مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔ "بس لیکچرز لیتے گزرا۔۔" وہ ناک چڑھا کر بولی تھی۔یہ تو افرحہ بھی جانتی تھی اس کی جان جاتی ہے پڑھائی سے۔۔ "شازل سے ملاقات ہوئی؟" اس نے سرسری انداز میں پوچھا۔وہ جاننا چاہتی تھی نورے کے کیا خیالات ہیں؟شاہزیب کے بتانے پر اسے پتا چلا تھا شازل نورے کی یونیورسٹی میں جوب کرتا ہے۔ "جی۔۔" وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ناخنوں کو تکتی بولی تھی وہ اسے کیا بتاتی مقابل نے آج اس کے چودہ طبق روشن کردیے تھے۔ "کیا اس نے تمھیں کچھ کہا؟" افرحہ نے اس کے چہرے کے تاثر دیکھتے پوچھا۔ "نہیں۔۔" اس نے لب بھینچ کر جواب دیا تھا۔ "کیا تم یہ رشتہ رکھنا چاہتی ہو؟ میں تمھاری رائے لینا چاہتی ہوں؟" افرحہ نرمی سے اس کا ہاتھ تھامتی بولی تھی۔ "بھابھی میں اس وقت فلحال یہ سب ڈسکس نہیں کرنا چاہتی سب لوگ اپنی مرضی سے مجھ پر حکم چلا رہے ہیں کیا میری زندگی کوئی کھیل ہے جس کا دل کرے کھیلنے لگے ؟ میں ابھی ان سب چیزوں سے چھٹکارا چاہتی ہوں پھر ہی پرسکون دماغ سے اس بارے میں سوچ سکتی ہوں۔۔" وہ افرحہ کی جانب دیکھتی بےبسی سے بول رہی تھی۔افرحہ کو بےساختہ اس پر ڈھیروں پیار آیا تھا۔اس نے نورے کو کھینچ کر اپنے گلے لگایا تھا۔ "جب تک تم نہیں چاہو گی کوئی کچھ نہیں کر پائے گا اور میری مکمل سپورٹ تمھارے ساتھ ہے شاہزیب اور شازل اپنی ضد اور انا کی وجہ سے پاگل ہوچکے ہیں۔۔میں نے شاہزب کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن ابھی ان پر ضد اور انا کا بھوت سوار ہے مگر تم فکر مت کرو انھیں جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہوجائے گا۔۔" افرحہ کی بات نے اسے کافی تسلی دی تھی۔وہ اپنی زندگی میں پہلی بار صنفِ نازک کے اتنے نرم و پیارے رویے کو دیکھتی مسکرا اٹھی تھی ورنہ فاطمہ بیگم اور زباریہ نے اس کو ہمیشہ ٹارچر ہی کیا تھا۔ "تھینک یو سو مچ بھابھی۔۔" وہ افرحہ کے گرد حصار باندھتے بولی تھی لہجے میں نمی سی گھل گئی تھی کوئی تو تھا جو اسے بھی سمجھ پارہا تھا۔
رات کا وقت تھا سب لوگ ڈنر کرنے کے بعد اپنے کمرے میں جاچکے تھے۔اس نے چونکہ سب کے ساتھ ڈنر نہیں کیا تھا تبھی اپنے لیے پیزا آرڈر کرچکی تھی۔ وہ پیزا کھا رہی تھی جب میر شاہ کو کچھ کاغذات لاتے دیکھ کر اس کی پیشانی پر بل پڑے تھے۔وہ اتنی جلدی خلع کے پیپر کیسے بنواسکتے تھے؟ اسے پریشانی ہوئی مگر جانتی تھی ان کے لیے کوئی بھی کام کروانا مشکل نہیں تھا۔اسے پیزا اپنے حلق میں پھنستا ہوا محسوس ہوا تھا۔مگر ان کے پاس آتے ہی وہ لاپرواہ بن گئی تھی۔ "یہ لو پکڑو پین اور سائن کرو۔۔" اس کے سامنے میز پر خلع کے پیپر رکھتے میر شاہ نے نورے کے سامنے پین رکھا تھا۔ پین کو دیکھتے اس نے اپنے ہاتھوں میں پکڑا پیزا کا سلائس لاپرواہی سے کھانا شروع کیا تھا۔میر شاہ کے ماتھے پر تیوری چڑھی تھی۔ اس وقت لاونچ میں صرف میر شاہ اور نورے ہی موجود تھے۔ "نورے میں نے تم سے کچھ کہا ہے۔۔" اس بار میر شاہ سخت لہجے میں اونچی آواز میں بولے تھے۔ "سوری بابا مجھے سنائی نہیں دیا کیا بول رہے تھے آپ؟" اس نے اپنی توجہ میر شاہ کی طرف کی تھی۔ "ان پیپرز پر سائن کرو۔۔" انھوں نے پیپر اس کی جانب بڑھائے۔۔ "مجھے سائن کرنا نہیں آتے بابا۔۔" انتہائی معصومیت کے ساتھ اس نے آنکھیں جھکاتے جواب دیا تھا۔میر شاہ کے چہرے پر غصے سے بھرے تاثرات نمایا ہوئے تھے۔ "نورے مجھے غصہ مت دلاو۔۔" "تم اس شخص کے ساتھ رہنا چاہتی ہو جس نے دن دیہاڑے تمھارے باپ کے سر پر گن رکھی تھی؟" ان کے لہجے میں غصہ تھا۔نورے ان کی بات پر خامسش ہوگئی تھی۔ "بابا لیکن شازل رات کو آئے تھے؟" وہ کافی دیر سوچنے کے بعد جو بولی تو میر شاہ کو مزید تپ چڑھی۔ "نورے چپ چاپ پیپر پر سائن کرو۔۔" انھوں نے اس کے ہاتھ سے سلائس لیتے باکس میں پھینکتے زبردستی اس کے ہاتھ میں پین پکڑایا تھا۔وہ ان کی بیٹی تھی اس پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتے تھے مگر غصہ ضرور کرسکتے تھے۔ "میں پہلے یہ پیپرز پڑھنا چاہوں گی مجھے بھروسہ نہیں شاید آپ کی بیگم نے خلع کی پیپر کی جگہ کوئی اور پیپر نپ رکھ دیے ہوں؟" وہ کندھے اچکاتی تشویش ناک لہجے میں بولی تھی۔ "تم فاطمہ پر الزام لگا رہی ہو ایسا کچھ نہیں ہے۔۔اگر تم پڑھنا چاہتی ہو ، پڑھ لو لیکن صبح تک مجھے اس پر سائن چاہیے۔۔ میں اس غنڈے کو کبھی بھی اپنا داماد نہیں بناوں گا۔" وہ پیپر اسے پکڑاتے کمرے میں چلے گئے تھے۔نورے ان پیپرز کو اٹھاتی کیچن میں گئی تھی وہاں سے لائٹر اٹھاتی وہ باہر آئی تھی اور گراج میں کھڑے ہوکر اس نے ان پیپرز کو آگ لگا دی تھی۔ "نورے یہ کیا حرکت ہے؟" میر شاہ جو اس سے کوئی بات کہنے کو واپس پلٹے تھے اس کو خاموشی سے کیچن اور پھر گراج میں جاتے دیکھ کر اس کے پیچھے آئے تھے۔وہ زمین پر خلع کے پیپرز کو جل کر راکھ ہوتے دیکھ کر دھاڑے تھے۔ "مجھے سردی لگ رہی تھی سوچا تھوڑی گرماہٹ حاصل کرلوں۔۔" وہ لب کاٹتی انتہائی معصومانہ انداز میں بولی۔ "نورے۔۔" میر شاہ کے غصے سے دھاڑنے پر وہ ایک دم سیدھی ہوئی تھی۔ "آئی ایم سوری بابا لیکن میں اب کوئی بھی فیصلہ کسی کے بھی دباو میں آکر نہیں کروں گی۔۔" وہ سنجیدہ ہوتی بولی تھی میر شاہ اس کے سپاٹ چہرے کو دیکھتے خاموش پڑ گئے تھے۔ "کیا میرا اپنی زندگی پر کوئی حق نہیں ہے بابا؟" وہ ان کے سامنے کھڑی ہوتی سادہ سے لہجے میں پوچھ رہی تھی۔ "نورے شازل تمھارے لیے ٹھیک نہیں ہے۔۔" وہ ایک دم ٹھنڈے پڑے تھے۔ "میں ابھی کچھ نہیں جاننا چاہتی بابا میں صرف سکون چاہتی ہوں۔۔جو مجھے اس گھر میں نہیں مل رہا۔۔میرا دم گھٹتا ہے واپس گھر آنے کا سوچ کر۔۔ اپنے کمرے سے وحشت ہوتی۔۔" "مجھ ایسا لگ رہا ہے شازل اور بھیا میرا گلا گھونٹ رہے ہیں۔۔وہ دونوں اپنی ضد میں میری ذات کو روند رہے ہیں بابا۔۔ کم سے کم آپ میرا ساتھ دیں۔۔کیا اگر مما آج زندہ ہوتی تو وہ یوں آپ دونوں کو میرے ساتھ زبردستی کرنے دیتی ؟" "مجھے کبھی ان کی اتنی شدت سے یاد نہیں آئی بابا۔۔ لیکن آج میرا دل پھٹ رہا ہے کاش میری ماں زندہ ہوتی میں ان کے سینے سے لگ کر دو گھڑی سکون کا سانس لے پاتی۔۔" اس کی آواز میں چھپا درد اور غم نے میر شاہ کو پتھر کی مورت بنا دیا تھا انھیں کیا خبر تھی ان کی بیٹی اتنی تکلیف میں ہیں انھوں نے بےساختہ اسے خود میں بھینچ لیا تھا۔ "بابا ہیں نہ میرے بچے۔۔جو تم کہو گی وہ ہی ہوگا۔۔" ان کی باتوں اور حصار نے جسے تھوڑا سکون دیا تھا مگر سہ جانتی تھی میر شاہ بھی شاہزیب اور شازل کو روک نہیں پائیں گے۔۔وہ آہستہ سے ان سے الگ ہوتی خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی جبکہ میر شاہ کو گہری سوچ میں چھوڑ گئی تھی۔
"گڈ مارننگ سسر اور سالے صاحب۔۔" وہ لوگ جو سب ناشتے کی ٹیبل پر خاموشی سے ناشتہ کر رہے تھے۔شازل کی گونجتی آواز پر اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔نورے بنا اس پر نگاہ ڈالے اپنے ناشتے میں مصروف رہی تھی۔ شاہزیب اس کی فضول بکواس سنتا چئیر گھسیٹتا فورا کھڑا ہوا تھا۔میر شاہ جو اس کے بارے میں مثبت سوچنے کی کوشش کر رہے تھے وہ بھی بری طرح بدگمان ہوئے تھے اس کے اس انداز پر انھیں بھی طیش آگیا تھا۔سب لوگ دیکھتے دیکھتے ناشتہ چھوڑ کر کھڑے ہوگئے تھے۔ "تمھاری ہمت کیسے ہوئی ہمارے گھر میں داخل ہونے کی؟" شاہزیب اونچی آواز میں دھاڑا تھا گندمی رنگت میں سرخیاں گھلنے لگی تھی۔غصے سے آنکھیں شازل پر گاڑھے وہ اسے گھور رہا تھا۔ "میں اپنی بیوی کو لینے آیا ہوں۔۔اس کے لیے ہمت نہیں جگرا چاہیے۔" وہ لاپرواہ بنی نورے پر نظر ڈال کر بولا تھا جو سفید چکن کے کرتے میں بالوں کو کیچڑ لگا کر آگے سے کھولا چھوڑے بےحد خوبصورت لگ رہی تھی۔ "فورا نکلو یہاں سے۔۔ اس سے پہلے میں تمھیں دھکے مار کر باہر پھینکو۔۔" اس کی جانب بڑھتے میر شاہ نے غصے سے کہا تھا۔ "میں نے ایسا کچھ نہیں کہا جس سے آپ کو اتنا غصہ آرہا ہے۔۔" وہ تمسخرانہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا تھا۔اب کی بار شاہزیب اس کی جانب بڑھا تھا۔اس کا ہاتھ بےساختہ شازل کے گریبان کی طرف بڑھا تھا مگر وہ راستے میں ہی اس کا ہاتھ پکڑ چکا تھا۔اس نے زور سے شاہزیب کا ہاتھ جھٹکا تھا۔ "نورے تمھارے ساتھ کہیں نہیں جائے گی۔۔" شاہزیب اپنی مٹھیاں بھینچتا غصے سے بولا تھا۔افرحہ اس کے غصے کو دیکھتی اس کی جانب بڑھی تھی۔معاملہ بگڑتے دیکھ کر وہ پریشان ہوگئی تھی۔ "نورے کو آج میں اپنے ساتھ ہی یونیورسٹی لے کر جاوں گا۔۔روک کر دکھاو مجھے۔۔" سکن شرٹ اور براون پینٹ کے ساتھ بکھرے بال اور ہلکے ہلکے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ وہ ضدی لہجے میں بول رہا تھا جیسے نورے نہ ہو کوئی کھلونا ہو۔۔ "میں بھی دیکھتا ہوں تم نورے کو کیسے لے کر جاتے ہو۔" اپنے بازوں کے کف فولڈ کرتے شاہزیب جیسے ہاتھا پائی کے لیے مکمل تیار ہوچکا تھا۔ شازل نے طنزیہ مسکراتے چند قدم آگے بڑھائے تھے جب شاہزیب کی طرف سے پڑنے والے مکے کو اس نے نیچے جھک کر ڈوج کیا تھا۔دوسرے ہاتھ سے شاہزیب کو بنا کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع دیے اس نے اس کے پیٹ میں مکہ مارا تھا۔شاہزیب نے بھی دائیں ہاتھ سے اس کے منہ پر مکہ جڑ دیا تھا۔ افرحہ کے منہ سے بےساختہ چیخ نکلی تھی نورے ان کو لڑتے دیکھ کر جوس کا گلاس پکڑتے کھڑی ہوگئی تھی۔چہرے پر سپاٹ سے تاثرات تھے۔میر شاہ ان دونوں کو روکنا چاہتے تھے مگر فاطمہ بیگم نے ان کے بازو کو پکڑتے ان دونوں کے درمیان آنے سے روک دیا تھا۔ ان دونوں کو لڑتے دیکھ کر اس کا ارادہ خاموشی سے وہاں سے نکل جانے کا تھا مگر بدقسمتی سے گلاس ٹیبل پر رکھنے کی بجائے اس سے زمین پر گر گیا تھا جس کی وجہ سے فاطمہ بیگم ، میر شاہ اور افرحہ اس کی جانب متوجہ ہوگئے تھے اسے مجبورا وہاں کھڑا رہنا پڑا تھا۔فاطمہ بیگم کے دیکھنے کی وجہ سے وہ ایک پل کو ڈر گئی تھی مگر دوسرے پل ہی اس نے خود کو مضبوط بناتے نظریں پھیر لی تھیں۔ "اتنی جلدی ہار مان گئے چلو اٹھو نورے کو ہاتھ لگا کر دکھاو۔۔" شاہزیب نے اس کے پیٹ میں مکہ مارتے اسے دھکا دیا تھا جس کی وجہ سے وہ لڑکھڑاتا زمین بوس ہوچکا تھا۔شاہزیب اس کے اوپر جھکا اس کا گریبان پکڑتا بولا تھا۔شازل نے سرخ آنکھوں سے اسے گھورتے اس کی ناک پر مکہ مارا تھا۔شاہزیب کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھایا تھا وہ لڑکھڑاتا ہوا پیچھے ہٹا تھا۔شازل اس کے پیچھے ہٹتا ہی کھڑا ہوا تھا۔ساتھی ہی اپنی ویسٹ سے وہ گن نکالتا شاہزیب پر تان چکا تھا۔ افرحہ کی آنکھیں خوف سے پھیل گئی تھیں۔جبکہ دل انجانہ خوف کے زیرِ اثر تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔نورے بھی معاملہ سنگین ہوتے دیکھ کر گھبرا گئی تھی۔اسے لگا تھا وہ لوگ تھوڑا بہت لڑ کر خاموش ہوجائیں گے۔مگر ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ "میرے رستے میں کوئی بھی آیا تو اس کی جان لے لوں گا۔۔" وہ اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنے گال سے رستا خون صاف کرتا غضب ناک لہجے میں دھاڑا تھا۔ نورے اس کے پاگل پن پر اسے روکنے کے لیے آگے بڑھنے لگی تھی۔جب کرسی میں پاوں پھنسنے کی وجہ سے وہ سیدھا زمین بوس ہوئی تھی۔ اس کے منہ سے ایک درد ناک چیخ نکلی تھی۔ ٹوٹے گلاس کی کرچیاں اس کے بازوں میں بری طرح چبھ گئی تھی۔سفید کرتا تیزی سے سرخ ہونے لگا تھا۔سب لوگ اس کی جانب متوجہ ہوگئے تھے۔ اس کے سرخ پڑتے سفید کرتے کو دیکھتے شازل گن پھینکتا اس کی جانب بھاگا تھا۔جس کی کمر میں بھی کچھ کرچیاں چبھ چکی تھی۔ شاہزیب بھی تیزی سے شاک سے نکلتا نورے کی جانب بڑھا تھا مگر شازل پہلے ہی اس کے پاس پہنچتا اسے نرمی سے کندھوں سے تھام کر کھڑا کر چکا تھا۔ "دور ہٹیں مجھ سے۔۔جائیں جاکر لڑیں۔۔" وہ شازل سے خود کو چھڑواتی چیخ کر بولی تھی۔تکلیف سے نچلا ہونٹ کانپنے لگا تھا۔چہرہ میں بھی ضبط کی شدت دے سرخیاں گھلنے لگی تھیں۔ "نورے ڈیم اٹ۔۔سٹاپ اٹ۔۔تمھارا خون نکل رہا ہے۔۔ہم بعد میں اس بارے میں بات کریں گے۔۔تمھیں بینڈیج کی ضرورت ہے۔۔" شاہزیب نے ساکت کھڑے شازل کو پیچھے ہٹایا تھا۔شازل کے ضبط کی شدت سے رگیں پھول گئی تھیں۔دل کر رہا تھا سب کے سامنے اسے کھینچ کر اپنے ساتھ کے جائے مگر اس کی حالت دیکھتے چپ کر گیا تھا۔ "بھابھی ان دونوں سے کہیں میری نظروں کے سامنے سے غائب ہوجائیں ورنہ میں کسی کو بھی اپنے قریب نہیں آنے دوں گی۔۔" وہ اپنے قدم پیچھے اٹھاتی تکلیف سے لب بھینچ گئی تھی۔ "آپ دونوں جائیں یہاں سے۔۔" افرحہ پریشان سی نورے کی جانب بڑھتی ہوئی بولی تھی۔مگر وہ دونوں اپنی جگہ سے نہیں ہلے تھے۔ "تم دونوں کو سنائی نہیں دیا جاوں یہاں سے۔۔" میر شاہ کی گرجدار آواز پر ان دونوں کے وجود میں حرکت ہوئی تھی۔ان دونوں کے جاتے ہی اس کے منہ سے تکلیف کی شدت سے سسکی نکلی تھی۔ "فاطمہ جلدی جائیں اور ڈاکٹر کو کال کریں۔" میر شاہ نے خاموش کھڑی فاطمہ بیگم کو حکم دیا تھا جو مارے باندھے احسان کرتے ہوئے ڈاکٹر کو کال کرنے چلی گئی تھیں۔ "افرحہ اسے روم میں لے جاو۔۔ڈاکٹر جلد ہی آجائے گا۔۔" افرحہ میر شاہ کی بات پر فورا نورے کو لیتی اوپر چلی گئی تھی۔ افرحہ کے ساتھ اکیلے ہوتے ہی اس کی آنکھوں سے چند آنسو نکلے تھے۔افرحہ اسے اپنے حصار میں بھی نہیں لے سکتی تھی کہ کرچیاں اس کے کہیں مزید اندر نہ کھب جائیں۔ "شش چپ کرجاو نورے سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔ان دونوں کے دماغ خراب ہے جان بوجھ کر ضدی بن رہے ہیں۔۔" "ان دونوں کی وجہ سے خود کو تکلیف مت دو۔۔" افرحہ کے نرمی سے آنسو پونچھنے پر وہ سوں سوں کرتی سر ہلاتی بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔کچھ بڑی کرچیاں بھی اس کے بازوں میں لگ گئی تھیں جن سے تیزی سے خون رس رہا تھا اور اسے تکلیف ہورہی تھی۔ ڈاکٹر نے آکر اس کی بینڈیج کردی تھی اس کے بازوں میں کافی گہرے زخم تھے جب کے کمر میں چھوٹے چھوٹے زخم تھے۔نورے ڈاکٹر کے کہنے پر پین کلر لیتی آرام کرنے کے لیے لیٹ گئی تھی کہ اب اس حالت میں یونیورسٹی جانا ممکن نہ تھا۔ افرحہ اس کے پاس کچھ دیر بیٹھی رہی تھی پھر اس کے سونے کے بعد خاموشی سے لائٹ اوف کرتی روم سے چلی گئی تھی۔
وہ ملائکہ کے دانین کی آگے پڑھنے کی بات سن کر اگلی صبح سارے کام چھوڑ چھاڑ کر اس سے ملنے چلے آئے تھے۔ان کا دل کرے تو وہ اپنی بیٹی کے ساتھ ہی سارا وقت گزاریں مگر کچھ وجوہات کی بنا پر انھیں اس سے الگ ہی رہنا پڑتا تھا۔ "دانین۔۔" وہ جو لاونچ میں داخل ہوئے تھے۔دانین کو دیکھ کر ہلکی مسکان ساتھ بولے تھے گزرے دنوں میں انھیں دانین کی خاصی یاد آرہی تھی۔ "بابا۔۔" اس نے اپنی گود میں رکھی فروٹس کی پلیٹ کو میز پر رکھتے کھڑے ہوتے کہا تھا۔آغا خان کا دل اپنی بیٹی کو سینے سے لگانے کا تھا مگر وہ جانتے تھے وہ کسی کو بھی چھونے نہیں دیتی تھی تبھی دل مسوم کر رہ گئے تھے۔ "ہم نے سنا تم آگے پڑھنا چاہتی ہو؟" انھوں نے اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھتے پوچھا تھا۔جبکہ روحان کو وہ مکمل اگنور کرگئے تھے جو ان سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ "ج۔۔جی روحان نے مجھے بتایا کہ میں آن لائن کلاسزز بھی لے سکتی ہوں اور آپ جانتے ہیں نہ مجھے آگے پڑھنے کا بھی کافی شوق تھا۔" وہ اپنی انگلیوں سے کھیلتی بولی تھی۔اس کے منہ سے روحان کا ذکر سنتے آغا خان نے جھٹکے سے پیچھے مڑتے روحان کو دیکھا تھا جو سپاٹ نظروں سے سامنے دیوار کو تک رہا تھا مگر ان کی نظریں بھی خوب محسوس کر پارہا تھا۔ "میں اس بارے میں سوچ کر بتاوں گا۔۔ملائکہ زرا میری بات سنیے گا۔۔" آغا خان نے اٹھتے ہوئے کیچن میں کھڑی ملائکہ کو آواز دی تھی جو اپنے گیلے ہاتھ صاف کرتی سر ہلاتی ان کے پیچھے چل پڑی تھیں۔ "تم نے مجھے بتایا نہیں میری بیٹی اور اس کے باڈی گارڈ کی آپس میں اتنی اچھی دوستی ہے جو وہ آپس میں باتیں کرتے ہیں۔۔" انھوں نے دانت پیستے پوچھا تھا۔ملائکہ نے بےتاثر انداز میں اسے دیکھا تھا۔ "ایسا کچھ نہیں ہے خان صاحب۔۔" وہ دھیمے لہجے میں بولی تھیں۔ "تمھیں لگتا ہے تم مجھے بےوقوف بنا سکتی ہو؟" انھوں نے چند قدم ملائکہ کی طرف بڑھاتے بغور اس کے چہرے کو تکتے پوچھا تھا جو اتنے سالوں بعد بھی نہایت پرکشش اور حسین تھا۔ "نہیں خان صاحب۔۔ آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔۔" "جو میں دیکھ رہی ہوں وہ آپ نہیں دیکھ پارہے۔۔" ملائکہ نے دو قدم پیچھے اٹھاتے کہا تھا۔ "میری ایک بات سن لو دانین کی ضد کی وجہ سے میں نے اس دو ٹکے کے باڈی گارڈ کو دوبارہ ہائیر کیا تھا اگر مجھے پتا لگا میرے پیچھے کوئی ایسا ویسا کام ہو رہا ہے تو ملائکہ یاد رکھنا روحان کو بعد میں تمھیں یہاں سے پہلے نکالوں گا۔۔" اس کو بازو درشتگی سے پکڑتے وہ غصے سے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ بنا سوچے سمجھے بول گئے تھے۔ "آپ جیسے بزدل انسان سے مجھے کسی اچھے کی امید نہیں ہے خان صاحب۔۔" وہ شکوہ کن نگاہوں سے انھیں دیکھتی اپنی بازو چھڑوا کر تیزی سے وہاں سے نکل گئی تھیں۔آنکھوں کے گوشے ہلکے ہلکے نم پڑ گئے تھے۔وہ آغا خان کو اپنے لفظوں سے ساکت کرگئی تھیں۔ "مجھے نہیں لگتا بابا مانیں گے۔۔" وہ آغا خان اسے جواب دے کر جانے کے بعد نم آنکھوں سے روحان کی جانب دیکھتے بولی تھی۔اس کی نم آنکھیں دیکھ وہ تڑپ ہی اٹھا تھا۔ "وہ مان جائیں گے بس سوچنے کے لیے وقت لے رہے ہیں۔۔" اس کی جانب چند قدم بڑھاتے روحان نے نرمی سے کہا تھا۔ "نہیں مجھے پتا ہے وہ کبھی نہیں مانیں گے۔۔" وہ اس بار تھوڑا اونچا بولتی روحان کو حیران کر گئی تھی۔ "مجھ پر یقین ہے؟" اس کے قریب جاتا وہ دانین کی ٹھوڑی کو جکڑتے پوچھ رہا تھا۔ "ہاں۔۔" اس نے بے جھجھک سر ہلا دیا تھا۔ "بس پھر تم بےفکر رہو تمھارے بابا کو میں خود منا لوں گا۔۔" وہ نرمی سے دانین کی پلکوں کو چھوتا بولا تھا۔ملائکہ کے اچانک باہر نکلنے پر وہ جلدی سے پیچھے ہٹ گیا تھا۔مگر ابھی بھی وہ دانین کے پاس ہی کھڑا تھا۔ " مجھے لگتا ہے بابا نے پھر ملی کو ڈانٹا ہے۔۔" وہ ملائکہ کا سرخ چہرہ دیکھ چکی تھی تبھی گھبراتی ہوئی بولی تھی۔روحان نے اس کی بات پر حیرانی سے اس کی جانب دیکھا تھا۔ ملائکہ کے جانے کے بعد ان کو اپنے لفظوں کا احساس ہوا تبھی وہ فورا باہر نکلے مگر دانین کے قریب روحان کو دیکھتے ٹھٹھک کر رک گئے۔۔ "تم دور ہٹو میری بیٹی سے۔۔" آغا خان اونچی آواز میں بولے تھے۔روحان نے سپاٹ نظروں سے انھیں دیکھا تھا۔دانین کی دھڑکن خوف سے بڑھ گئی تھی۔ "بابا ہی از جسٹ ہیلپنگ می۔۔" دانین نے اپنے لب کاٹتے کہا تھا۔ "سٹے ان یور لمٹس۔۔" وہ دانین کی آواز پر ڈھیلا پڑتے انگشتِ شہادت کی انگلی اٹھاتے تیز لہجے میں بولے تھے۔روحان دانین کی التجائیہ نظریں محسوس کرتا خاموش ہو گیا تھا۔وہ چپ چاپ جاتا اپنی جگہ کھڑا ہو گیا تھا۔آغا خان اسے گھورتے دانین کا خیال کرتے ملائکہ سے بات کرنے کی بجائے اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔
"مما بھوک لگی ہے۔۔ کھانا دے دیں۔۔" دس سالہ نورے نے سکول سے آتے فاطمہ بیگم سے کہا تھا۔ "کوئی کھانا نہیں ملے گا جب تک سنک میں پڑے برتن نہیں دھو دیتی۔۔" فاطمہ بیگم اسے دور جھٹکتی بولی تھیں۔وہ ان کے سختی سے بولنے پر سہم سی گئی تھی تبھی خاموشی سے برتن دھونے لگی تھی۔برتن دھوتے کچھ برتن اس سے چھوٹ کر ٹوٹ گئے تھے۔ "ایک کام نہیں ہوتا تم سے۔۔" اس کو بازو سے پکڑ کر جھنجھورتے وہ چیخ کر بولی تھیں۔میر شاہ اور حاتم شاہ میٹنگ کے سلسلے میں دوسرے شہر گئے تھے تبھی وہ اس پر کھلم کھلا چیخ رہی تھیں۔ "س۔۔سوری مما۔۔" وہ سہم کر بولی تھی۔ "تمھیں میں آج بتاوں گی اس کی کیا سزا ہوتی ہے۔۔آئیندہ کے بعد کبھی کوئی غلطی نہیں ہوگی۔۔" وہ اسے کھینچتے ہوئے سٹور روم کی طرف لے گئی تھی اسے جھٹکے سے اندر پھینکتے وہ دروازہ بند کر گئی تھی۔ بند کمرے اور اندھیرے سے ڈرتے وہ خوف و ہراساں سی چیخیں مارنے لگی تھی۔ "مما سوری۔۔ پل۔۔پلیز دروازہ کھولیں م۔۔مج۔ ڈر لگ رہا ہے۔۔" وہ اندھیرے سے وحشت زدہ ہوتی چیخ رہی تھی۔ "آہ۔۔" چیخ مارتے وہ نیند سے اٹھ بیٹھی تھی۔اندھیرے کمرے کو دیکھتے اسے وحشت محسوس ہونے لگی تھی اس نے ہاتھ بڑھاتے تیزی سے لائٹ اون کرتے گہرے گہرے سابس بھرنا شروع کیے تھے۔ وہ سارا دن سوتی رہی تھی بس افرحہ نے اسے اٹھا کر کچھ ہلکا پھلکا کھلایا تھا۔اس نے نیند میں میر شاہ اور شاہزیب کی بھی ہلکی آواز سنی تھی مگر کچھ سمجھ نہیں پائی تھی۔ طبیعت سنبھلی تو اس نے ٹائم دیکھا تھا جہاں بارہ بج رہے تھے۔وہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتی بکھرے بال سمیٹنے لگی تھی جب بازوؤں میں درد سے ٹیسیں محسوس کرتی رک گئی تھی۔ وہ بھوک کے احساس سے لب بھینچ کر اٹھ گئی تھی۔کھڑی ہوتی وہ پہلے فریش ہونے کے لیے واشروم کی طرف بڑھ گئی تھی۔ فریش ہوکر وہ باہر نکلی ہی تھی جب شازل کو اپنے سامنے کھڑے دیکھ کر اس کے منہ سے چیخ نکلنے لگی تھی مگر شازل نے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے اس کی چیخ کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ اسے اس وقت ڈھیروں شرم محسوس ہورہی تھی وہ بلیک سلیولیس ٹی شرٹ اور کھلے ٹروازر میں ملبوس تھی۔بازووں پر زخم ہونے کی وجہ سے اس نے سلیولیس شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ شازل نے اس کے سرخ چہرے کی طرف دیکھتے ناسمجھی سے اس کو بغور دیکھا تھا پھر اس کی نظر نورے کے حولیہ کی طرف اٹھی تھی اس کے ہونٹ ہلکے سے اوپر اٹھے تھے۔مگر اس کے زخموں کو دیکھ کر وہ لب بھینچ گیا تھا۔ "مجھے یاد کیا۔۔؟" اس کے ہونٹوں سے ہاتھ ہٹاتے شازل نے اس کی ٹھوڑی پر بنے نشان کو انگلی سے چھوتے گھمبیر آواز میں پوچھا تھا۔ "بالکل نہیں! آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟" اس نے دو قدم پیچھے لیتے ناک چڑھا کر پوچھا تھا۔ "اپنی بیوی سے ملنے آیا ہوں۔۔" نورے کی جانب جھکتے اس نے مدھم لہجے میں کہا تھا۔وہ اس کے بدلے بدلے لہجے کو محسوس کرتی نروس ہونے لگی تھی۔ "مجھ سے نارض ہو؟" پھر سے پوچھا گیا۔ "نہیں!" نروٹھا انداز۔ "جھوٹی۔۔" وہ اس کی چھوٹی سی ناک کو انگلی کی پوروں سے چھوتا بولا۔ "غنڈا۔۔" وہ اس کی انگلی کو جھٹکتی بڑبڑائی۔۔ شازل نے اس کی حرکت پر اسے گھور کر دیکھتے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتے اسے اپنے سینے سے لگایا تھا۔نورے کے منہ سے بےساختہ سسکی نکلی تھی۔شازل کی نظر اس کی کمر کی جانب گئی تھی۔ نورے کے چہرے پر نظریں جمائے اس نے دھیرے سے شرٹ کو کمر سے اوپر کیا تھا۔وہ بےساختہ شازل کی شرٹ کو مٹھیوں میں دبوچ گئی تھی۔ "سٹاپ اٹ۔۔" وہ کانپتی آواز میں بولی۔شازل نے اسے اگنور کرتے اس کے زخم پر لگی بینڈیج کو انگلی کی پوروں سے دھیرے سے چھوا تھا۔اس کی ٹھنڈی انگلیوں کا سرسراتا لمس محسوس کرتی وہ کانپ اٹھی تھی۔ شازل گہری نظروں سے اس کے چہرے کو دیکھتا دھیرے سے اس کی ٹھوڑی پر لب رکھ گیا تھا۔ "شازل۔۔" وہ اس کے بہکے انداز، نرم لمس اور منہ بولتے جذبات کو دیکھتی دبی دبی آواز میں بولی تھی۔شازل اس کی شرٹ کمر سے درست کرتا اس کے کان کے قریب دھیرے سے جھکا تھا۔ وہ اس کی شرٹ پر اپنی گرفت سخت کرگئی تھی۔اپنی تیز دھڑکنیں اسے کانوں میں محسوس ہورہی تھیں۔جبکہ چہرہ سرخ انار بن چکا تھا۔عارضوں پر جھکیں پلکیں بھی ہلکی ہلکی کانپ رہی تھی۔۔ "تم۔۔!" "طلب کی وہ حد ہو" "جس کے آگے سب کچھ بے معنی ہے۔" وہ آنچ دیتے لہجے میں بولتا اس کے گال کو شدت سے چھو گیا تھا۔وہ پل میں اس کے لفظوں میں گم ہوئی تھی مگر اگلے ہی لمحے ہوش میں آتے اس نے لب بھینچ کر شازل کے سینے پر ہاتھ دھڑتے اسے دور دھکیلا تھا۔ زخموں میں تکلیف محسوس کرتے اس کے چہرے پر درد ناک تاثرات نمایا ہوئے تھے۔شازل اس کی حرکت پر جبڑے بھینچتا اس کے دونوں ہاتھوں کو تھام کر لبوں سے لگا گیا تھا۔ "میں کل آوں گا ملنے تب تک اپنا خیال رکھنا۔۔" وہ سنجیدگی سے گویا ہوا تھا۔ "نہیں رکھوں گی اپنا خیال۔۔ کیا کریں گے آپ؟" وہ سلگ کر بولی تھی اس کی من مانی پر اب جی بھر کر غصہ آرہا تھا۔ "میں یہاں سے اٹھا کر لے جاوں گا۔۔اور ہمیشہ کے لیے اپنے پاس قید کرلوں گا۔۔" وہ جس قدر سنجیدگی سے بولا تھا۔نورے سچ میں ڈر گئی تھی۔ "گڈ نائیٹ جانِ من۔۔" وہ جھک جر اس کی صبیح پیشانی کو چھوتا پل بھر میں اس کے کمرے کا دروازہ کھولتا باہر نکل گیا تھا جبکہ نورے کو وہ ساکت چھوڑ گیا تھا۔اس کا لمس محسوس کرتی وہ سوچوں میں گم بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔ "ہیلو ساسوں ماں۔۔" وہ جو دھڑلے سے بنا ڈرے سیڑھیاں اتر کر باہر جا رہا تھا۔فاطمہ بیگم کو دیکھتے رک کر بولا تھا۔فاطمہ بیگم اس سر پھرے کو دیکھتی ڈر گئی تھیں۔ "میری بیوی کا خیال رکھیے گا۔۔" وہ ان کی آنکھوں میں ڈر دیکھتا تمسخرانہ لہجے میں بولتا باہر نکل گیا تھا۔ "اس کا ایسا خیال رکھوں گی وہ کبھی نہیں بھولے گی۔۔" فاطمہ بیگم بڑبڑاتی ہوئی اپنے کمرے میں واپس چلی گئی تھیں وہ بس پانی کی بوتل لینے آئی تھی مگر شازل کو دیکھ کر حیران رہ گئی تھی اس کے بارے میں صبح میر شاہ کو بتانے کا سوچتی وہ خاموشی سے سونے چلی گئی تھیں۔
Professor Khan
Zanoor Writes
Episode 15
(Series 2 in Professor Shah Novel)
"نورے میری وجہ سے تکلیف میں ہے؟ کیا صرف میں ہی وجہ ہوں؟" اس کے لہجے میں دکھ تھا۔افرحہ بےساختہ اس کا ہاتھ تھام گئی تھی۔ "شازل سے آپ کا جو مسئلہ ہے اسے نورے کو درمیان میں لائے بغیر ڈسکس کریں۔۔" افرحہ نے مشورہ دیا وہ خاموش ہوگیا۔۔ "مجھے سمجھ نہیں آرہی کیا ہو رہا ہے؟ مائنڈ ماوف ہورہا ہے۔۔" وہ اضطراب کی کیفیت میں اٹھتا سگریٹ سلگا چکا تھا۔ "آپ اس سے بات کرنے کی کوشش کریں۔۔" وہ شاہزیب کو سگریٹ پیتے دیکھ کر بیڈ پر بیٹھی منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی تھی۔اچانک اس کی طرف دیکھتے شاہزیب نے فورا سگریٹ بھجا دی تھی۔اضطراب کی کیفیت میں اس کے ذہن سے نکل گیا تھا افرحہ کو سگریٹ کے دھواں کی وجہ سے سانس لینے میں مشکل ہوتی ہے۔۔ "سوری جاناں۔۔" وہ افرحہ کے قریب آتا اس کا چہرہ تھام کر بولا تھا۔ "اٹس اوکے۔۔آپ ابھی پریشان مت ہوں صبح نورے سے بات کیجیے گا۔۔" اس نے شاہزیب کا ہاتھ تھامتے اس کی ہتھیلی پر لب رکھتے نرمی سے کہا تھا۔شاہزیب اس کی بات پر سر ہلا گیا تھا۔ وہ نورے سے صبح بات کرنے کا سوچتا افرحہ کے ساتھ سو گیا تھا۔ وہ نورے کے لیے کچھ سپیشل کرنا چاہتا تھا تبھی افرحہ کی مدد سے اس نے صبح اس کے لیے ناشتہ تیار کیا تھا۔فاطمہ بیگم ناک چڑھاتی اس کو دیکھ رہی تھیں جنھیں افرحہ اور شاہزیب نے بھرہور طریقے سے اگنور کیا تھا۔ "تم ناشتہ کرلینا جاناں۔۔" وہ افرحہ کے بالوں پر لب رکھتا ٹرے اٹھا کر نورے سے بات کرنے چلا گیا تھا۔ دروازہ ناک کرتا وہ روم میں داخل ہوا تھا۔نورے فریش ہوکر نکلتی شاہزیب کو اپنے کمرے میں دیکھ کر رک گئی تھی۔ "آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔؟" اس نے بیڈ پر بیٹھتے سنجیدگی سے پوچھا تھا۔ "میں تمھارے لیے ناشتہ لے کر آیا ہوں۔۔" شاہزیب نے ٹرے میز پر رکھتے اس کے ساتھ بیٹھتے کہا تھا۔نورے اس کے جواب پر خاموش ہوگئی تھی۔ "نورِ دل۔۔" اس کے پیار سے پکارنے پر نورے نے اس کی جانب دیکھا تھا۔ "میں تمھیں تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا نورے۔۔بس شازل کو دیکھ کر مجھ سے کنٹرول نہیں ہوتا۔۔وہ جب تمھارے بارے میں کچھ کہتا ہے تو میرا دل کرتا ہے اس کا منہ توڑ دوں۔۔" شاہزیب مٹھیاں بھینچتا سنجیدگی سے بولا تھا۔ "اس میں میرا کیا قصور ہے بھیا؟ اگر آپ دونوں کو کوئی پرابلم ہے تو مل کر سولو کرلیں مگر پلیز میری ذات کا تماشا سب کے سامنے مت بنائیں۔۔" وہ شاہزیب کی آنکھوں میں دیکھتی بولی تھی۔شاہزیب نے اس کے کندھے کے گرد ہاتھ پھیلاتے اسے اپنے سینے سے لگایا تھا۔ "میرا بچہ۔۔" شاہزیب نے نرمی سے اس کے سر پر لب رکھے تھے۔ "میں نے ایک فیصلہ کیا ہے۔۔" وہ گہرا سانس لیتا بولا تھا۔نورے نے اس کی جانب سر اٹھا کر سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔ "میں تمھارے اور شازل کے پرسنل میٹر میں دخل اندازی نہیں کروں گا لیکن اگر اس نے تمھارے بارے میں کچھ الٹا سیدھا کہا تو میں خاموش نہیں رہوں گا۔۔" اس نے گہرا سانس بھرتے کہا تھا۔نورے اس کی بات سنتی گہرا سانس خارج کرتی پرسکون ہوگئی تھی۔ "پلیز بابا کو بھی کہیں وہ اس معاملہ میں مت بولیں۔۔میں سوچ سمجھ کر فیصلہ لینا چاہتی ہوں۔۔" وہ دھیمی آواز میں بولی تھی۔ "اوکے نورِ دل میں بابا سے بات کرلوں گا وہ بھی کچھ نہیں بولیں گے تم بس اپنا خیال رکھو اور سٹڈی پر فوکس کرو۔۔" شاہزیب اس کے بال سہلاتا نرم لہجے میں بولا تھا۔بہن کے لیے تو دل ویسے ہی موم کا ہوگیا تھا۔لیکن شازل کا خیال آتے ہی اس کا خون جل اٹھا تھا۔ "تھینک یو بھیا۔۔" وہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولی تھی۔ "باقی باتیں بعد میں کرنا پہلے ناشتہ کرلو۔۔ٹھنڈا ہو رہا ہے۔۔" شاہزیب کے کہنے پر وہ نورے ٹرے لاتی ان دونوں کے درمیان بیڈ پر رکھتی بیٹھ گئی تھی۔ "کیا آپ نے ناشتہ بنایا ہے؟" اس نے چائے کا گھونٹ بھرتے پوچھا تھا۔ "ہاں۔۔کیوں اچھا نہیں بنا کیا؟" وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا پوچھ رہا تھا نورے نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلایا تھا۔ "تمھارے زخم کیسے ہیں زیادہ پین تو نہیں ہورہی ؟" شاہزیب نے اس کے بازوؤں کو دیکھتے پوچھا تھا۔ "نہیں اب بہتر ہوں۔۔" تھینک یو بھیا ناشتہ بہت مزے کا تھا۔" وہ ناشتہ ختم کرتی مسکرا کر بولی تھی۔شاہزیب اس کے خوش ہونے پر مسکرا اٹھا تھا۔ "آج یونی مت جانا ریسٹ کرو۔۔" شاہزیب نے ٹرے اٹھاتے کہا تھا جس پر وہ سر ہلاتی واپس لیٹ گئی تھی۔اس کا آج خود ارادہ نہیں تھا کہیں جانے کا۔۔
"کیا ہوا بھابھی ؟ پریشان لگ رہی ہیں؟" نورے جو شاہزیب کے جانے کے بعد کمرے میں آرام کرلے بور ہونے کے بعد باہر نکلی تھی افرحہ کو دیکھتی اسے پوچھنے لگی تھی۔ "وہ ایکچولی شاہزیب کا کل برتھ ڈے ہے۔۔" اس نے لب کاٹتے بتایا تھا۔وہ لان میں پڑے جھولے پر بیٹھی ہوئی تھی اس کے ساتھ ہی نورے بھی بیٹھ گئی تھی۔شاہزیب کے برتھ ڈے کا سنتے اس نے اپنے سر پر ہاتھ مارا تھا چونکہ وہ بھول چکی تھی۔ "اس میں پریشانی والی کیا بات ہے؟" نورے نے ناسمجھی سے پوچھا تھا۔ "میں شاہزیب کے برتھ ڈے پر کچھ سپیشل کرنا چاہتی ہوں۔۔" وہ منہ پھولا کر بولی تھی۔ "میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔۔" نورے نے جھک کر اسے بتایا تھا اس کا پلان سنتے وہ خوش ہوگئی تھی۔ "شاہزیب کو بارہ بجے تک بزی کون روکھے گا؟" ایک اور پریشانی۔۔ "وہ میں سنبھال لوں گی آپ جائیں اور کام سٹارٹ کریں میں بھی آپ کی ہیلپ کرواتی ہوں۔۔" نورے نے جھٹ سے سلیوشن نکالا تھا۔ "نہیں تم ریسٹ کرو پہلے ہی بیمار ہو۔۔" افرحہ نے پریشانی سے کہا تھا۔ "افف بھابھی میں ٹھیک ہوں جلدی چلیں اب تو دوپہر بھی ہوگئی ہے اور بہت سا کام کرنے والا ہے۔۔" نورے اسے ہاتھ سے پکڑے کر اٹھاتی تیزی سے اندر لے گئی تھی۔
رات کا وقت تھا وہ سب لوگ ڈنر کرکے فارغ ہوچکے تھے۔افرحہ نے شاہزیب کو وپر کی جانب بڑھتے دیکھ کر نورے کو اشارہ کیا تھا جو اس کے اشارے کو سمجھتی شاہزیب کو پکارنے لگی تھی۔ "بھیا۔۔" "کیا آپ کچھ دیر میرے ساتھ لڈو کھیلیں گے ؟ پلیز میرا بہت دل کر رہا ہے۔۔" وہ آنکھیں پٹپٹاتی معصوم شکل بنا کر بولتی شاہزیب کا دل پگھلا گئی تھی۔فاطمہ بیگم نخوت سے انھیں دیکھتی کمرے میں چلی گئیں تھیں۔میر شاہ بھی صبح کے تھکے سونے چلے گئے تھء۔ "اوکے بچے جلدی سے لڈو لے آو۔۔" شاہزیب نورے سے بولتا لاونچ میں بیٹھ گیا تھا۔ "افرحہ تم ہمارے ساتھ نہیں کھیلو گی؟" اسے اوپر جاتے دیکھ کر شاہزیب نے پوچھا تھا۔ "میں تھک گئی ہوں شاہزیب ریسٹ کرنا چاہتی ہو۔۔" اس نے اپنی مصنوعی جمائی روکتے کہا تھا۔شاہزیب اس کی بات پر سر ہلا گیا تھا۔وہ سکون کا سانس بھرتی تیزی سے اوہر چلی گئی تھی۔اس نے اپنے کمرے کے ساتھ موجود خالی کمرے میں پڑی چیزیں تیزی سے اٹھا کر کمرے میں سیٹ کردی تھیں۔یہ کام کرتے اسے گیارہ بج گئے تھے سارا کام سمیٹتے وہ تیزی سے فریش ہوتی تیار ہوگئی تھی۔ نورے کے لڈو لانے کے بعد وہ اس کے ساتھ کھیلنے لگا تھا گیم میں مصروف انھیں وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا تھا۔ "کافی دیر ہوگئی ہے اب ہمیں گیم روک دینی چاہیے۔۔" شاہزیب ساڑھے گیارہ کا ٹائم دیکھتا بولا تھا۔مگر نورے نے اسے روک دیا تھا۔ "بس ایک بار پھر کھیل لیں میں جیت جاوں تب چلے جائیے گا۔۔" اس کے بولنے پر وہ مسکراتا ہوا دوبارہ کھیلنے لگا تھا۔
وہ نورے کو کمرے میں بھیجتا تھکا ہوا کمرے میں داخل ہوا تھا۔مسلسل بیٹھنے سے وہ کافی تھک گیا تھا۔دروازہ کھولتے وہ جیسا ہی اندر داخل ہوا تھا گلابوں کی بھینی بھینی خوشبو نے اس کے حواس معطر کیے تھے۔کمرے میں جلتی گولڈن کینڈل لائٹس نے فسوں خیز ماحول بنا دیا تھا۔ "ہیپی برتھ ڈے ٹو یو شاہزیب۔۔" بلیک سلک کا فراک جس کا اپری حصہ اور بازو نیٹ کے تھے ساتھ بالوں کو سٹریٹ کرکے کھولا چھوڑے وہ میک اپ کے نام پر سرخ لپ اسٹک لگائے شاہزیب کا دل زور سے دھڑکا گئی تھی۔ شاہزیب گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا افرحہ اس کی نظروں سے نروس ہوتی سرخ ہوچکی تھی۔ "کیا آپ کو پسند نہیں آیا؟" وہ شاہزیب کو خاموش دیکھتی لب کاٹنے لگی تھی۔ "ائی ایم سرپرائزڈ۔۔" وہ سر جھٹکتا گھمبیر لہجے میں بولا تھا۔ "جلدی ادھر آئیں اور کیک کٹ کریں۔۔" وہ ٹیبل پر پڑے کیک کی طرف اشارہ کرتی بولی تھی۔شاہزیب خاموشی سے اس کے کہنے پر بازو کے کیف فولڈ کرتا اس کے پاس آگیا تھا۔ اس نے افرحہ کو کمر سے تھام کر اپنے سامنے کرتے اس کے ہاتھ میں نائف پکڑاتے خود اس کا ہاتھ تھامتے کیک کٹ کیا تھا۔ شاہزیب کے سینے پر سر ٹکائے وہ بےحد خوش نظر آرہی تھی۔ افرحہ نے کیک کا ایک چھوٹا سا پیس کٹ کرکے شاہزیب کی جانب مڑتے اس کے ہونٹوں کی طرف بڑھایا تھا۔ شاہزیب نے تھوڑا سا کیک اس کے ہاتھ سے لے کر کھایا تھا باقی کیک اس کے ہونٹوں کی جانب بڑھا دیا تھا۔کمرے کی فسوں خیز خاموشی میں ان کی آنکھیں اور دھڑکنیں باتیں کر رہی تھیں۔ اس کی کیک سے بھری انگلیوں کو اپنے ہاتھ سے تھامتے شاہزیب نے اپنے ہونٹوں کے قریب کرتے اس کی انگلیاں صاف کی تھیں۔افرحہ کے گلابی گال کچھ مزید سرخ پڑ گئے تھے۔جبکہ دھڑکنیں ڈھول کی مانند کانوں میں بجتی سنائی دے رہی تھی۔ اس کی کلائی کو چھوڑتے وہ اس پر جھکا تھا۔اس کے کندھے سے بال سمیٹ کر سائیڈ پر کرتے افرحہ کے کان میں مخمور لہجے میں بولا تھا۔
"You are all the thoughts in my head and all the love in my heart Janaa"
"Thank you for making my birthday special love"
شاہزیب اس کی کان کی لو کو ہونٹوں سے چھوتا گھمبیر لہجے میں بولا تھا۔افرحہ کو اپنا حلق خشک ہوتا محسوس ہورہا تھا اس کے اظہار سے دھڑکنیں پاگل سہی ہورہی تھیں۔اپنی پشت پر وہ شاہزیب کی مدھم دھڑکن محسوس کرتی نرمی سے آنکھیں بند کر گئی تھی۔ شاہزیب نے دھیرے سے اس کی گردن پر جھکتے اپنے لب رکھے تھے وہ اس کے لمس پر کانپ گئی تھی۔شاہزیب کی گرم سانسیں اپنی گردن پر محسوس کرتے وہ اس کے بازو کو بےساختہ پکڑ گئی تھی۔ ایک دلکش مسکراہٹ شاہزیب کے چہرے پر بکھری تھی۔اس کی گردن پر ٹھوڑی اٹکاتے شاہزیب نے اس کے سرخ گلابی گالوں کو چھوتے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتے جھٹکے سے اس کا رخ اپنی جانب کیا تھا۔ "شاہزیب۔۔" وہ شاہزیب کے کندھے پر ہاتھ رکھتی پھولے سانس کے ساتھ بولی تھی۔بلیک ہیلز میں وہ اس کے کندھے تک بمشکل پہنچ رہی تھی۔شاہزیب نے اس کی کمر پر گرفت مضبوط کرتے اسے اوپر اٹھایا تھا۔اس کے سرخ لپ اسٹک سے سجے نازک ہونٹوں پر جھکا وہ اس کا سانس بند کرگیا تھا۔اپنا شدت بھرا لمس اس کے ہونٹوں پر چھوڑتا وہ اس کا سانس بحال کر گیا تھا۔افرحہ نے شرماتے ہوئے گہرے سابس بھرتے اس کے سینے میں منہ چھپایا تھا مگر اس کا سرخ اناری چہرہ شاہزیب کی عقابی نظروں سے چھپ نہیں سکا تھا۔ "تمھارا یوں شرمانا مجھے کسی دن مار دے گا۔۔" وہ جذبات کی شدت سے مخمور لہجے میں بولتا افرحہ کی جان نکال گیا تھا۔افرحہ نے بےساختہ اس کے ہونٹوں پر اپنی ہتھیلی ٹکا دی تھی۔ "شاہزیب۔۔ دوبارہ ایسی بات کبھی اپنے منہ سے مت نکالیے گا۔۔" وہ برہمی سے بولی تھی۔شاہزیب اس کی بات پر مسکراتا نرمی سے اس کی ہتھیلی کو ہونٹوں سے ہٹاتا اس کی لکیروں کو دیکھنے لگا تھا۔پھر اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑتے وہ محبت سے چوم گیا تھا۔ "تمھاری وجہ سے میں اس وقت یہاں ہوں ورنہ ناجانے اس وقت کونسے کلب میں ڈرگز لے کر اس دنیا جہاں سے غافل ہوتا۔۔میری زندگی میں آکر اسے سنوارنے کا شکریہ جاناں۔۔" وہ افرحہ کا چہرہ تھامتا اس کی صبیح پیشانی پر اپنے لب رکھتا بولا تھا۔افرحہ نے اس کی بات پر مسکراتے ایک کانپتی سانس خارج کی تھی۔ شاہزیب نے اس کے ماتھے سے ماتھا ٹکاتے اس کے وجود سے اٹھتی بھینی بھینی خوشبو خود میں اتاری تھی۔
"I am also lucky to have you in my life."
شاہزیب کی گردن میں بازو ڈالتے وہ شاہزیب کا چہرہ جھکاتی اس کے گال پر رکھتی اسے مسرور کرگئی تھی۔ "تم بہت حسین لگ رہی ہو۔۔" "میری نیت خراب کر رہی ہو۔۔" "قاتل حسینہ کی طرح " وہ ٹھہر ٹھہر کر بولتا افرحہ کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا تھا جو شاہزیب کی آنکھوں میں محبت کا ٹھاٹھے مارتا سمندر دیکھتی اپنی نظریں شرم و حیا سے جھکا گئی تھی۔ "میرے ساتھ ڈانس کرو گی؟" شاہزیب نے اسے روم کے درمیان میں لے جاتے پوچھا تھا۔ "مجھے نہیں آتا۔۔" وہ منہ پھولا کر بولی تھی۔ "میں ہوں نہ۔۔پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بس اپنہ ہیلز اتار دو۔۔" شاہزیب نے اپنا موبائل نکالتے سونگ چوز کرتے ہوئے کہا تھا جس پر افرحہ نے بات مانتے فوری پیلز اتار دی تھیں جس میں اس کے پیر دکھنے لگے تھے۔ جادو ہے نشہ ہے مدہوشیاں ہیں تجھ کو بھلا کر اب جاوں کہاں؟ وہ کوئی پرانہ سونگ تھا جس کو پلے کرتے شاہزیب نے افرحہ کو کمر سے تھام کر اس کے پیروں کو اپنے پیروں پر رکھتے اسے باہوں میں بھرتے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ڈانس کرنا شروع کیا تھا۔ جادو ہے نشہ ہے مدہوشیاں ہیں تجھ کو بھلا کر اب جاوں کہاں؟ دیکھتی ہیں جس طرح سے تیری نظریں مجھے میں خود کو چھپاوں کہاں ؟ جادو ہے نشہ ہے مدہوشیاں ہیں تجھ کو بھلا کر اب جاوں کہاں؟ افرحہ مسمرائز سی اس کی گہری سیاہ آنکھوں کو دیکھتی مسکراتی ہوئی اس کے سینے پر سر ٹکا گئی تھی اس کی معمول سے تیز دھڑکن سن کر اس نے اچنبھے سے سر اٹھا کر شاہزیب کو دیکھا تھا جو دھیرے دھیرے موو کرتے ہوئے اسے اپنے نظروں کے حصار میں لیے ہوئے تھے۔ دیکھتی ہیں جس طرح سے تیری نظریں مجھے میں خود کو چھپاوں کہاں ؟ جادو ہے نشہ ہے مدہوشیاں ہیں تجھ کو بھلا کر اب جاوں کہاں؟ یہ پل ہے اپنا تو اس پل کو جی لے شعولو کی طرح زرا جل کر جی لے پلک جھپکتے کھو نہ جانا چھو کر کرلوں یقین ناجانے یہ پل پائیں کہاں؟ شاہزیب نے اپنے دونوں ہاتھ اس کی کمر پر رکھتے اس کو کمر سے اٹھاتے گھمایا تھا۔افرحہ نے ہلکی چیخ مارتے اس کی جانب آنکھیں پھیلا کر دیکھا تھا جو ہنستا ہوا اسے گھما رہا تھا۔ باہوں میں تیری یوں کھو گئے ہیں ارمان دبے سے جگنے لگے ہیں جو ملے ہو آج ہم کو دور جانا نہیں مٹا دو سب یہ دوریاں جادو ہے نشہ ہے مدہوشیاں ہیں تجھ کو بھلا کے اب جاوں کہاں؟ دیکھتی ہیں جس طرح سے تیری نظریں مجھے میں خود کو چھپاوں کہاں ؟ شاہزیب کے نیچے اتارنے پر وہ اپنی رقص کرتی دھڑکنوں نو سنتی شاہزیب کو گھور کر دیکھنے لگی تھی جو مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔وہ افرحہ کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے سہ اس کی کل کائنات ہے جو سچ بھی تھا۔
"I love you soo much Janaa"
شاہزیب اسکے چہرے کو تھامتے اس کے ماتھے کو چومتا بولا تھا
"My Lifeline"
شاہزیب نے اس کی بند آنکھوں کو چوما تھا۔
"My Love"
شاہزیب نے اسکے حیا سے سرخ ہوئے گالوں کو شدت سےچوما تھا۔
"My Everything"
شاہزیب نے اس کی چھوٹی سی ناک پر لب رکھے تھے۔
"My Janaa"
وہ س کے سرخ ہونٹوں کو شدت سے چومتا اس کے ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنساتا اسے کھینچ کر سینے سے لگا چکا تھا۔وہ اس کی شدتوں سے گھبراتی گہرے گہرے سانس بھر رہی تھی۔ شاہزیب نے اسے جھٹکے سے باہوں میں اٹھایا تھا وہ تیزی سے سانس لیتی اس کے گلے میں بازو ڈال گئی تھی۔ اس کے ارادے سمجھتے افرحہ کے پسینے چھوٹ پڑے تھے۔کانوں سے دھواں نکلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔شاہزیب کی جھلسا دینے والی سانسیں اسے بےحال کر رہی تھیں۔اس کے آنکھوں کے جذبات ، اس کے لمس کی شدت نے افرحہ کے چودہ طبق روشن کردیے تھے۔ کمرے میں پھیلے گلاب اور کینڈل لائٹس نے کمرے کے ماحول کو رومینٹک بنا دیا تھا۔تازہ گلابوں کی خوشبو اپنی سانسوں میں اترتی محسوس کرکے وہ گہرے سانس بھرنے لگی تھی۔ شاہزیب نے اسے نرمی سے لے جاکر بیڈ پر لیٹا دیا تھا۔وہ بیڈ پر لیٹتی سختی سے بیڈ شیٹ کو مٹھیوں میں بھینچ گئی تھی۔شاہزیب نے اس کی مٹھیاں پکڑتے کھول کر اس کی ہتھیلی کو چوما تھا۔ "ریلکس جاناں۔۔" "میں تمھیں کھاوں گا نہیں حالانکہ تم بہت ٹیسٹی لگ رہی ہو۔۔" وہ اس کے ہونٹوں پر پھیلی لپ اسٹک دیکھتا ذو معنی لہجے میں بولتا افرحہ کو گردن تک سرخ کر گیا تھا کالے رنگ میں وہ دمک رہی تھی اس کا نازک سراپا شاہزیب کے ہوش اڑا رہے تھے۔ "شاہزیب۔۔" وہ اس کی بات پر شرمندہ سی چیخی تھی جس پر وہ ہنس پڑا تھا۔ "یس لو؟" اپنی شرٹ کے بٹن کھولتے اس نے اپنے ہونٹوں کو تر کرتے پوچھا تھا۔افرحہ اس کے ارادے سمجھتی اسے تنگ کرنے کے لیے بیڈ کی دوسری جانب بھاگنے لگی تھی جب شاہزیب نے اس کو پاوں سے پکڑتے اپنی جانب کھینچا تھا۔ افرحہ کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی تھی۔اسے اپنے قریب کھینچتے شاہزیب بیڈ پر چڑھتا اس کے ہاتھوں کو تھام کر سر کے اوپر کرتا اپنے ایک ہاتھ سے پکڑ چکا تھا۔ وہ بری طرح اس کی گرفت میں مچل رہی تھی۔ "تمھیں لگتا یے تم شاہزیب میر حاتم شاہ کی پناہوں سے آزاد ہوپاو گی؟" وہ افرحہ کے چہرے پر جھکا پوچھ رہا تھا۔افرحہ بےساختہ اپنی انکھیں جھکا گئی تھی۔ "بہت چالاک ہیں آپ" وہ منہ پھولا کر بولتی شاہزیب کو ضدی بچی لگ رہی تھی۔شاہزیب نے اس کے ہاتھوں کو چھوڑتے اس کے دونوں ہھولے گالوں کو پکڑتے زور سے کھینچا تھا۔ "اوہ میرا بےبی مجھ سے ناراض ہو گیا ہے؟" وہ مسکراتے ہوئے اسے تنگ کر رہا تھا۔ "شاہزیب۔۔نہ کریں پلیز۔۔" وہ اس کے بازو پر چٹکی کاٹتی دبی دبی آواز میں چیخی تھی۔ "میری معصوم بیوی جنگلی بیوی بن رہی ہے۔۔" وہ جھک کر افرحہ کے گال پر ہولے سے دانت گاڑھتا بولا تھا۔افرحہ نے سرخ چہرے سے شاہزیب کو گھورا تھا جو اسے تنگ کرتا محظوظ ہورہا تھا۔ "میں نہیں بول رہی آپ سے دور ہٹیں۔۔" وہ نروٹھے پن سے بولی تھی۔شاہزیب کے تاثرات ایک دم سنجیدہ ہوئے تھے اس نے افرحہ کی ٹھوڑی تھامتے اس کا چہرہ اوپر اٹھایا تھا۔ "تم جو کہو گی میں کرنے کے لیے تیار ہوں مگر خود سے دور جانے کا کبھی مت کہنا۔۔" "یہ جو میرا دل ہے صرف تمھاری وجہ سے دھڑک رہا ہے۔۔" وہ اس کا ہاتھ تھام کر اپنے دل کے مقام پر رکھتا افرحہ کو سانس روکنے ہر مجبور کر گیا تھا۔افرحہ نے ہلکے سے اوپر اٹھتے شاہزیب کے دل کے مقام پر اپنے لب رکھے تھے۔ "مزاق کر رہی تھی سیریس مت ہوا کریں۔۔میں کبھی آپ کو چھوڑ کر نہیں جاوں گی۔۔" وہ شاہزیب کی آنکھوں میں دیکھتی بولی تھی۔ "مجھ سے اسے مزاق مت کیا کرو۔۔تمھارے دور جانے کا سن کر سانس روکتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔" وہ اہنے جذبات ظاہر کرتا بنا اسے کچھ بولنے کا موقع دیے اس کی ہاتھوں کی انگلیوں میں انگلیاں پھنساتا تکیے سے لگاتا اس کے ہونٹوں پر جھک گیا تھا۔ اس کے جذباتوں کو سمجھتی وہ پرسکون سی آنکھیں بند کر گئی تھی اس کا شدت بھرا لمس اسے شرمانے پر مجبور کر رہا تھا۔وہ شرماتی ، جھجھکتی سرخ پڑتی شاہزیب کے سینے میں منہ چھپا گئی تھی۔شاہزیب نے اپنے لمس سے اس کے پور پور کو اپنے رنگ میں رنگ دیا تھا۔اس کے لمس میں بےحد نرمی تھی۔ اسے کہاں منظور تھا اس کی سانسوں میں خوشبو کی طرح بستی افرحہ کو زرا سی بھی تکلیف پہنچے؟
"کیا ہوا بھابھی ؟ پریشان لگ رہی ہیں؟" نورے جو شاہزیب کے جانے کے بعد کمرے میں آرام کرلے بور ہونے کے بعد باہر نکلی تھی افرحہ کو دیکھتی اسے پوچھنے لگی تھی۔ "وہ ایکچولی شاہزیب کا کل برتھ ڈے ہے۔۔" اس نے لب کاٹتے بتایا تھا۔وہ لان میں پڑے جھولے پر بیٹھی ہوئی تھی اس کے ساتھ ہی نورے بھی بیٹھ گئی تھی۔شاہزیب کے برتھ ڈے کا سنتے اس نے اپنے سر پر ہاتھ مارا تھا چونکہ وہ بھول چکی تھی۔ "اس میں پریشانی والی کیا بات ہے؟" نورے نے ناسمجھی سے پوچھا تھا۔ "میں شاہزیب کے برتھ ڈے پر کچھ سپیشل کرنا چاہتی ہوں۔۔" وہ منہ پھولا کر بولی تھی۔ "میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔۔" نورے نے جھک کر اسے بتایا تھا اس کا پلان سنتے وہ خوش ہوگئی تھی۔ "شاہزیب کو بارہ بجے تک بزی کون روکھے گا؟" ایک اور پریشانی۔۔ "وہ میں سنبھال لوں گی آپ جائیں اور کام سٹارٹ کریں میں بھی آپ کی ہیلپ کرواتی ہوں۔۔" نورے نے جھٹ سے سلیوشن نکالا تھا۔ "نہیں تم ریسٹ کرو پہلے ہی بیمار ہو۔۔" افرحہ نے پریشانی سے کہا تھا۔ "افف بھابھی میں ٹھیک ہوں جلدی چلیں اب تو دوپہر بھی ہوگئی ہے اور بہت سا کام کرنے والا ہے۔۔" نورے اسے ہاتھ سے پکڑے کر اٹھاتی تیزی سے اندر لے گئی تھی۔
رات کا وقت تھا وہ سب لوگ ڈنر کرکے فارغ ہوچکے تھے۔افرحہ نے شاہزیب کو وپر کی جانب بڑھتے دیکھ کر نورے کو اشارہ کیا تھا جو اس کے اشارے کو سمجھتی شاہزیب کو پکارنے لگی تھی۔ "بھیا۔۔" "کیا آپ کچھ دیر میرے ساتھ لڈو کھیلیں گے ؟ پلیز میرا بہت دل کر رہا ہے۔۔" وہ آنکھیں پٹپٹاتی معصوم شکل بنا کر بولتی شاہزیب کا دل پگھلا گئی تھی۔فاطمہ بیگم نخوت سے انھیں دیکھتی کمرے میں چلی گئیں تھیں۔میر شاہ بھی صبح کے تھکے سونے چلے گئے تھء۔ "اوکے بچے جلدی سے لڈو لے آو۔۔" شاہزیب نورے سے بولتا لاونچ میں بیٹھ گیا تھا۔ "افرحہ تم ہمارے ساتھ نہیں کھیلو گی؟" اسے اوپر جاتے دیکھ کر شاہزیب نے پوچھا تھا۔ "میں تھک گئی ہوں شاہزیب ریسٹ کرنا چاہتی ہو۔۔" اس نے اپنی مصنوعی جمائی روکتے کہا تھا۔شاہزیب اس کی بات پر سر ہلا گیا تھا۔وہ سکون کا سانس بھرتی تیزی سے اوہر چلی گئی تھی۔اس نے اپنے کمرے کے ساتھ موجود خالی کمرے میں پڑی چیزیں تیزی سے اٹھا کر کمرے میں سیٹ کردی تھیں۔یہ کام کرتے اسے گیارہ بج گئے تھے سارا کام سمیٹتے وہ تیزی سے فریش ہوتی تیار ہوگئی تھی۔ نورے کے لڈو لانے کے بعد وہ اس کے ساتھ کھیلنے لگا تھا گیم میں مصروف انھیں وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا تھا۔ "کافی دیر ہوگئی ہے اب ہمیں گیم روک دینی چاہیے۔۔" شاہزیب ساڑھے گیارہ کا ٹائم دیکھتا بولا تھا۔مگر نورے نے اسے روک دیا تھا۔ "بس ایک بار پھر کھیل لیں میں جیت جاوں تب چلے جائیے گا۔۔" اس کے بولنے پر وہ مسکراتا ہوا دوبارہ کھیلنے لگا تھا۔
وہ نورے کو کمرے میں بھیجتا تھکا ہوا کمرے میں داخل ہوا تھا۔مسلسل بیٹھنے سے وہ کافی تھک گیا تھا۔دروازہ کھولتے وہ جیسا ہی اندر داخل ہوا تھا گلابوں کی بھینی بھینی خوشبو نے اس کے حواس معطر کیے تھے۔کمرے میں جلتی گولڈن کینڈل لائٹس نے فسوں خیز ماحول بنا دیا تھا۔ "ہیپی برتھ ڈے ٹو یو شاہزیب۔۔" بلیک سلک کا فراک جس کا اپری حصہ اور بازو نیٹ کے تھے ساتھ بالوں کو سٹریٹ کرکے کھولا چھوڑے وہ میک اپ کے نام پر سرخ لپ اسٹک لگائے شاہزیب کا دل زور سے دھڑکا گئی تھی۔ شاہزیب گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا افرحہ اس کی نظروں سے نروس ہوتی سرخ ہوچکی تھی۔ "کیا آپ کو پسند نہیں آیا؟" وہ شاہزیب کو خاموش دیکھتی لب کاٹنے لگی تھی۔ "ائی ایم سرپرائزڈ۔۔" وہ سر جھٹکتا گھمبیر لہجے میں بولا تھا۔ "جلدی ادھر آئیں اور کیک کٹ کریں۔۔" وہ ٹیبل پر پڑے کیک کی طرف اشارہ کرتی بولی تھی۔شاہزیب خاموشی سے اس کے کہنے پر بازو کے کیف فولڈ کرتا اس کے پاس آگیا تھا۔ اس نے افرحہ کو کمر سے تھام کر اپنے سامنے کرتے اس کے ہاتھ میں نائف پکڑاتے خود اس کا ہاتھ تھامتے کیک کٹ کیا تھا۔ شاہزیب کے سینے پر سر ٹکائے وہ بےحد خوش نظر آرہی تھی۔ افرحہ نے کیک کا ایک چھوٹا سا پیس کٹ کرکے شاہزیب کی جانب مڑتے اس کے ہونٹوں کی طرف بڑھایا تھا۔ شاہزیب نے تھوڑا سا کیک اس کے ہاتھ سے لے کر کھایا تھا باقی کیک اس کے ہونٹوں کی جانب بڑھا دیا تھا۔کمرے کی فسوں خیز خاموشی میں ان کی آنکھیں اور دھڑکنیں باتیں کر رہی تھیں۔ اس کی کیک سے بھری انگلیوں کو اپنے ہاتھ سے تھامتے شاہزیب نے اپنے ہونٹوں کے قریب کرتے اس کی انگلیاں صاف کی تھیں۔افرحہ کے گلابی گال کچھ مزید سرخ پڑ گئے تھے۔جبکہ دھڑکنیں ڈھول کی مانند کانوں میں بجتی سنائی دے رہی تھی۔ اس کی کلائی کو چھوڑتے وہ اس پر جھکا تھا۔اس کے کندھے سے بال سمیٹ کر سائیڈ پر کرتے افرحہ کے کان میں مخمور لہجے میں بولا تھا۔
"You are all the thoughts in my head and all the love in my heart Janaa"
"Thank you for making my birthday special love"
شاہزیب اس کی کان کی لو کو ہونٹوں سے چھوتا گھمبیر لہجے میں بولا تھا۔افرحہ کو اپنا حلق خشک ہوتا محسوس ہورہا تھا اس کے اظہار سے دھڑکنیں پاگل سہی ہورہی تھیں۔اپنی پشت پر وہ شاہزیب کی مدھم دھڑکن محسوس کرتی نرمی سے آنکھیں بند کر گئی تھی۔ شاہزیب نے دھیرے سے اس کی گردن پر جھکتے اپنے لب رکھے تھے وہ اس کے لمس پر کانپ گئی تھی۔شاہزیب کی گرم سانسیں اپنی گردن پر محسوس کرتے وہ اس کے بازو کو بےساختہ پکڑ گئی تھی۔ ایک دلکش مسکراہٹ شاہزیب کے چہرے پر بکھری تھی۔اس کی گردن پر ٹھوڑی اٹکاتے شاہزیب نے اس کے سرخ گلابی گالوں کو چھوتے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتے جھٹکے سے اس کا رخ اپنی جانب کیا تھا۔ "شاہزیب۔۔" وہ شاہزیب کے کندھے پر ہاتھ رکھتی پھولے سانس کے ساتھ بولی تھی۔بلیک ہیلز میں وہ اس کے کندھے تک بمشکل پہنچ رہی تھی۔شاہزیب نے اس کی کمر پر گرفت مضبوط کرتے اسے اوپر اٹھایا تھا۔اس کے سرخ لپ اسٹک سے سجے نازک ہونٹوں پر جھکا وہ اس کا سانس بند کرگیا تھا۔اپنا شدت بھرا لمس اس کے ہونٹوں پر چھوڑتا وہ اس کا سانس بحال کر گیا تھا۔افرحہ نے شرماتے ہوئے گہرے سابس بھرتے اس کے سینے میں منہ چھپایا تھا مگر اس کا سرخ اناری چہرہ شاہزیب کی عقابی نظروں سے چھپ نہیں سکا تھا۔ "تمھارا یوں شرمانا مجھے کسی دن مار دے گا۔۔" وہ جذبات کی شدت سے مخمور لہجے میں بولتا افرحہ کی جان نکال گیا تھا۔افرحہ نے بےساختہ اس کے ہونٹوں پر اپنی ہتھیلی ٹکا دی تھی۔ "شاہزیب۔۔ دوبارہ ایسی بات کبھی اپنے منہ سے مت نکالیے گا۔۔" وہ برہمی سے بولی تھی۔شاہزیب اس کی بات پر مسکراتا نرمی سے اس کی ہتھیلی کو ہونٹوں سے ہٹاتا اس کی لکیروں کو دیکھنے لگا تھا۔پھر اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑتے وہ محبت سے چوم گیا تھا۔ "تمھاری وجہ سے میں اس وقت یہاں ہوں ورنہ ناجانے اس وقت کونسے کلب میں ڈرگز لے کر اس دنیا جہاں سے غافل ہوتا۔۔میری زندگی میں آکر اسے سنوارنے کا شکریہ جاناں۔۔" وہ افرحہ کا چہرہ تھامتا اس کی صبیح پیشانی پر اپنے لب رکھتا بولا تھا۔افرحہ نے اس کی بات پر مسکراتے ایک کانپتی سانس خارج کی تھی۔ شاہزیب نے اس کے ماتھے سے ماتھا ٹکاتے اس کے وجود سے اٹھتی بھینی بھینی خوشبو خود میں اتاری تھی۔
"I am also lucky to have you in my life."
شاہزیب کی گردن میں بازو ڈالتے وہ شاہزیب کا چہرہ جھکاتی اس کے گال پر رکھتی اسے مسرور کرگئی تھی۔ "تم بہت حسین لگ رہی ہو۔۔" "میری نیت خراب کر رہی ہو۔۔" "قاتل حسینہ کی طرح " وہ ٹھہر ٹھہر کر بولتا افرحہ کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا تھا جو شاہزیب کی آنکھوں میں محبت کا ٹھاٹھے مارتا سمندر دیکھتی اپنی نظریں شرم و حیا سے جھکا گئی تھی۔ "میرے ساتھ ڈانس کرو گی؟" شاہزیب نے اسے روم کے درمیان میں لے جاتے پوچھا تھا۔ "مجھے نہیں آتا۔۔" وہ منہ پھولا کر بولی تھی۔ "میں ہوں نہ۔۔پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بس اپنہ ہیلز اتار دو۔۔" شاہزیب نے اپنا موبائل نکالتے سونگ چوز کرتے ہوئے کہا تھا جس پر افرحہ نے بات مانتے فوری پیلز اتار دی تھیں جس میں اس کے پیر دکھنے لگے تھے۔ جادو ہے نشہ ہے مدہوشیاں ہیں تجھ کو بھلا کر اب جاوں کہاں؟ وہ کوئی پرانہ سونگ تھا جس کو پلے کرتے شاہزیب نے افرحہ کو کمر سے تھام کر اس کے پیروں کو اپنے پیروں پر رکھتے اسے باہوں میں بھرتے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ڈانس کرنا شروع کیا تھا۔ جادو ہے نشہ ہے مدہوشیاں ہیں تجھ کو بھلا کر اب جاوں کہاں؟ دیکھتی ہیں جس طرح سے تیری نظریں مجھے میں خود کو چھپاوں کہاں ؟ جادو ہے نشہ ہے مدہوشیاں ہیں تجھ کو بھلا کر اب جاوں کہاں؟ افرحہ مسمرائز سی اس کی گہری سیاہ آنکھوں کو دیکھتی مسکراتی ہوئی اس کے سینے پر سر ٹکا گئی تھی اس کی معمول سے تیز دھڑکن سن کر اس نے اچنبھے سے سر اٹھا کر شاہزیب کو دیکھا تھا جو دھیرے دھیرے موو کرتے ہوئے اسے اپنے نظروں کے حصار میں لیے ہوئے تھے۔ دیکھتی ہیں جس طرح سے تیری نظریں مجھے میں خود کو چھپاوں کہاں ؟ جادو ہے نشہ ہے مدہوشیاں ہیں تجھ کو بھلا کر اب جاوں کہاں؟ یہ پل ہے اپنا تو اس پل کو جی لے شعولو کی طرح زرا جل کر جی لے پلک جھپکتے کھو نہ جانا چھو کر کرلوں یقین ناجانے یہ پل پائیں کہاں؟ شاہزیب نے اپنے دونوں ہاتھ اس کی کمر پر رکھتے اس کو کمر سے اٹھاتے گھمایا تھا۔افرحہ نے ہلکی چیخ مارتے اس کی جانب آنکھیں پھیلا کر دیکھا تھا جو ہنستا ہوا اسے گھما رہا تھا۔ باہوں میں تیری یوں کھو گئے ہیں ارمان دبے سے جگنے لگے ہیں جو ملے ہو آج ہم کو دور جانا نہیں مٹا دو سب یہ دوریاں جادو ہے نشہ ہے مدہوشیاں ہیں تجھ کو بھلا کے اب جاوں کہاں؟ دیکھتی ہیں جس طرح سے تیری نظریں مجھے میں خود کو چھپاوں کہاں ؟ شاہزیب کے نیچے اتارنے پر وہ اپنی رقص کرتی دھڑکنوں نو سنتی شاہزیب کو گھور کر دیکھنے لگی تھی جو مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔وہ افرحہ کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے سہ اس کی کل کائنات ہے جو سچ بھی تھا۔
"I love you soo much Janaa"
شاہزیب اسکے چہرے کو تھامتے اس کے ماتھے کو چومتا بولا تھا
"My Lifeline"
شاہزیب نے اس کی بند آنکھوں کو چوما تھا۔
"My Love"
شاہزیب نے اسکے حیا سے سرخ ہوئے گالوں کو شدت سےچوما تھا۔
"My Everything"
شاہزیب نے اس کی چھوٹی سی ناک پر لب رکھے تھے۔
"My Janaa"
وہ س کے سرخ ہونٹوں کو شدت سے چومتا اس کے ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنساتا اسے کھینچ کر سینے سے لگا چکا تھا۔وہ اس کی شدتوں سے گھبراتی گہرے گہرے سانس بھر رہی تھی۔ شاہزیب نے اسے جھٹکے سے باہوں میں اٹھایا تھا وہ تیزی سے سانس لیتی اس کے گلے میں بازو ڈال گئی تھی۔ اس کے ارادے سمجھتے افرحہ کے پسینے چھوٹ پڑے تھے۔کانوں سے دھواں نکلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔شاہزیب کی جھلسا دینے والی سانسیں اسے بےحال کر رہی تھیں۔اس کے آنکھوں کے جذبات ، اس کے لمس کی شدت نے افرحہ کے چودہ طبق روشن کردیے تھے۔ کمرے میں پھیلے گلاب اور کینڈل لائٹس نے کمرے کے ماحول کو رومینٹک بنا دیا تھا۔تازہ گلابوں کی خوشبو اپنی سانسوں میں اترتی محسوس کرکے وہ گہرے سانس بھرنے لگی تھی۔ شاہزیب نے اسے نرمی سے لے جاکر بیڈ پر لیٹا دیا تھا۔وہ بیڈ پر لیٹتی سختی سے بیڈ شیٹ کو مٹھیوں میں بھینچ گئی تھی۔شاہزیب نے اس کی مٹھیاں پکڑتے کھول کر اس کی ہتھیلی کو چوما تھا۔ "ریلکس جاناں۔۔" "میں تمھیں کھاوں گا نہیں حالانکہ تم بہت ٹیسٹی لگ رہی ہو۔۔" وہ اس کے ہونٹوں پر پھیلی لپ اسٹک دیکھتا ذو معنی لہجے میں بولتا افرحہ کو گردن تک سرخ کر گیا تھا کالے رنگ میں وہ دمک رہی تھی اس کا نازک سراپا شاہزیب کے ہوش اڑا رہے تھے۔ "شاہزیب۔۔" وہ اس کی بات پر شرمندہ سی چیخی تھی جس پر وہ ہنس پڑا تھا۔ "یس لو؟" اپنی شرٹ کے بٹن کھولتے اس نے اپنے ہونٹوں کو تر کرتے پوچھا تھا۔افرحہ اس کے ارادے سمجھتی اسے تنگ کرنے کے لیے بیڈ کی دوسری جانب بھاگنے لگی تھی جب شاہزیب نے اس کو پاوں سے پکڑتے اپنی جانب کھینچا تھا۔ افرحہ کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی تھی۔اسے اپنے قریب کھینچتے شاہزیب بیڈ پر چڑھتا اس کے ہاتھوں کو تھام کر سر کے اوپر کرتا اپنے ایک ہاتھ سے پکڑ چکا تھا۔ وہ بری طرح اس کی گرفت میں مچل رہی تھی۔ "تمھیں لگتا یے تم شاہزیب میر حاتم شاہ کی پناہوں سے آزاد ہوپاو گی؟" وہ افرحہ کے چہرے پر جھکا پوچھ رہا تھا۔افرحہ بےساختہ اپنی انکھیں جھکا گئی تھی۔ "بہت چالاک ہیں آپ" وہ منہ پھولا کر بولتی شاہزیب کو ضدی بچی لگ رہی تھی۔شاہزیب نے اس کے ہاتھوں کو چھوڑتے اس کے دونوں ہھولے گالوں کو پکڑتے زور سے کھینچا تھا۔ "اوہ میرا بےبی مجھ سے ناراض ہو گیا ہے؟" وہ مسکراتے ہوئے اسے تنگ کر رہا تھا۔ "شاہزیب۔۔نہ کریں پلیز۔۔" وہ اس کے بازو پر چٹکی کاٹتی دبی دبی آواز میں چیخی تھی۔ "میری معصوم بیوی جنگلی بیوی بن رہی ہے۔۔" وہ جھک کر افرحہ کے گال پر ہولے سے دانت گاڑھتا بولا تھا۔افرحہ نے سرخ چہرے سے شاہزیب کو گھورا تھا جو اسے تنگ کرتا محظوظ ہورہا تھا۔ "میں نہیں بول رہی آپ سے دور ہٹیں۔۔" وہ نروٹھے پن سے بولی تھی۔شاہزیب کے تاثرات ایک دم سنجیدہ ہوئے تھے اس نے افرحہ کی ٹھوڑی تھامتے اس کا چہرہ اوپر اٹھایا تھا۔ "تم جو کہو گی میں کرنے کے لیے تیار ہوں مگر خود سے دور جانے کا کبھی مت کہنا۔۔" "یہ جو میرا دل ہے صرف تمھاری وجہ سے دھڑک رہا ہے۔۔" وہ اس کا ہاتھ تھام کر اپنے دل کے مقام پر رکھتا افرحہ کو سانس روکنے ہر مجبور کر گیا تھا۔افرحہ نے ہلکے سے اوپر اٹھتے شاہزیب کے دل کے مقام پر اپنے لب رکھے تھے۔ "مزاق کر رہی تھی سیریس مت ہوا کریں۔۔میں کبھی آپ کو چھوڑ کر نہیں جاوں گی۔۔" وہ شاہزیب کی آنکھوں میں دیکھتی بولی تھی۔ "مجھ سے اسے مزاق مت کیا کرو۔۔تمھارے دور جانے کا سن کر سانس روکتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔" وہ اہنے جذبات ظاہر کرتا بنا اسے کچھ بولنے کا موقع دیے اس کی ہاتھوں کی انگلیوں میں انگلیاں پھنساتا تکیے سے لگاتا اس کے ہونٹوں پر جھک گیا تھا۔ اس کے جذباتوں کو سمجھتی وہ پرسکون سی آنکھیں بند کر گئی تھی اس کا شدت بھرا لمس اسے شرمانے پر مجبور کر رہا تھا۔وہ شرماتی ، جھجھکتی سرخ پڑتی شاہزیب کے سینے میں منہ چھپا گئی تھی۔شاہزیب نے اپنے لمس سے اس کے پور پور کو اپنے رنگ میں رنگ دیا تھا۔اس کے لمس میں بےحد نرمی تھی۔ اسے کہاں منظور تھا اس کی سانسوں میں خوشبو کی طرح بستی افرحہ کو زرا سی بھی تکلیف پہنچے؟
Professor Khan
Zanoor Writes
Episode 16
(Series 2 in Professor Shah Novel)
کلاس میں داخل ہونے سے پہلے اسے جو منظر دکھا تو وہ بری طرح جل اٹھی سامنے ہی شازل سونیا سے بات کرتا ہوا نظر آرہا تھا۔سونیا کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر نورے کا دل اس کا منہ نوچنے کو کیا تھا۔ "نورے ؟ تم آئی نہیں کل؟ اور نہ ہی میرے میسج کا جواب دیا۔۔" اعمار کی آواز سنتی وہ اس کی جانب مڑی تھی۔ "میرا دل نہیں کر رہا تھا یونی آنے کو۔۔" اس نے لب بھینچ کر جواب دیا ساتھ ہی کلاس میں داخل ہوتی بنا اعمار کی جانب دیکھتی آخر پر ایک لڑکی کے ساتھ موجود خالی کرسی پر جاکر بیٹھ گئی تھی۔اپنا موبائل نکال کر استعمال کرتی وہ اعمار کو مکمل طور پر اگنور کر گئی تھی جو اس سے بات کرنے کو پرتول رہا تھا۔ "تمھیں پتا ہے کل چئیر پرسن کا قاتل پکڑا گیا ہے۔۔" اس کے آگے والی کرسی پر بیٹھتے اعمار نے اس کے علم میں اضافہ کیا تھا۔نورے کے چہرے پر حیرت واضح ہوئی تھی۔ "کون تھا؟" اس نے بےتاثر انداز میں پوچھا تھا۔ "کوئی باہر کا بندہ ہی تھا اس کی چئیر پرسن سے ذاتی دشمنی تھی۔" اعمار کے بتانے پر وہ سر ہلا گئی تھی شازل کے آتے ہی سب سیدھے ہوکر بیٹھ گئے تھے۔سونیا ایک طنزیہ مسکراہٹ نورے کو اچھالتی فرنٹ رو میں بیٹھ گئی تھی۔نورے نے مٹھیاں بھینچتے جلتی آنکھوں سے شازل کو دیکھا تھا جس نے ایک نگاہِ غلط بھی اس کی جانب نہیں ڈالی تھی۔اس کی رگوں میں شرارے سے دوڑنے لگے تھے دل کر رہا تھا اس کی پسٹل نکال کر اسی سے شازل کی جان لے لے۔۔ اپنی خطرناک سوچوں کو جھٹکتی وہ لیکچر کی طرف متوجہ ہوئی تھی جس کا ایک لفظ بھی اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا۔ لیکچر ختم ہونے کے باوجود بھی وہ بیٹھی رہی تھی نظروں کا مرکز سونیا تھی جو اب اٹھ کر شازل سے بات کرنے لگی تھی۔نورے ساکت نظروں سے دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ "نورے چلو چلیں۔۔" اعمار نے اسے خاموش بیٹھے دیکھ کر کہا تھا۔ "تم چلو میں آتی ہوں۔۔" اس نے سرد لہجے میں کہا تھا۔ "لگتا ہے سونیا اور سر کا کوئی چکر چل رہا ہے۔۔" اسے اپنے پاس سے گزرتی لڑکیوں کی سرگوشیوں نے سلگا دیا تھا۔غصے سے سفید رنگ میں سرخیاں گھلنے لگی تھیں۔ہونٹوں کو سختی سے بھینچے وہ شازل کو دیکھ رہی تھی۔ جو سونیا کے ساتھ اپنا لیپ ٹاپ اٹھائے نکل گیا تھا بنا اس کی طرف دیکھے۔۔ وہ جل ہی اٹھی تھی آنکھوں میں مرچیاں سی چبھنے لگی تھیں۔اپنا فون پکڑتی وہ گہرا سانس خارج کرتی کلاس روم سے باہر نکلی تھی جب اس کا سامنا سونیا سے ہوا تھا۔ "اوہ۔۔۔ بےبی کو غصہ آرہا ہے؟؟" وہ نورے کو دیکھتی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولی تھی۔ "تم کبھی بھی شازل کو حاصل نہیں کرپاو گی۔۔" سونیا کی بات پر وہ ہنس پڑی تھی۔سونیا نے اچنبھے سے اسے دیکھا تھا جس کا شاید دماغ گھوما ہوا لگ رہا تھا۔ "تم لیٹ ہوگئی ہو تھوڑا۔۔مجھے اسے حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔۔وہ پہلے ہی میرے پیچھے پاگل ہے۔۔" نورے تمسخرانہ مسکراہٹ کے ساتھ بولتی اسے جلا گئی تھی۔ "شٹ اپ۔۔ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔شازل صرف مجھے پسند کرتا ہے۔۔" سونیا چیخ کر بولی تھی۔ "ہاہاہا۔۔ نائس جوک۔۔" وہ ہنستے ہوئے اچانک سنجیدہ ہوتی زہر خند لہجے میں پھنکاری تھی۔ "میرے شوہر سے دور رہو۔۔ورنہ اپنے ہاتھوں سے تمھاری سانسیں بند کردوں گی۔۔یہ نورے شازل خان کا خود سے وعدہ ہے۔۔جو بھی ہمارے بیچ آئے گا اسے میں ختم کردوں گی۔۔" اس کے لہجے میں چھپا پاگل پن ، اس کا جنونی انداز سونیا کو ڈرا گیا تھا۔نورے اس کے شاکڈ چہرہ دیکھ کر مسکراتی ہوئی وہاں سے سیدھا شازل کے آفس کی جانب بڑھ گئی تھی تاکہ اپنے شوہر کو بھی نکیل ڈال سکے۔۔
بنا ناک کیے وہ دھڑلے سے شازل کے آفس میں داخل ہوئی تھی جو اسی کی تاک میں تھا وہ ٹیبل پر جھکا سگریٹ کا پیکٹ اٹھاتا سٹل ہوا تھا۔ساتھ ہی اسے چھوڑتے وہ نورے کی جانب مڑا تھا جو بھپری شیرنی کی مانند اس پر جھپٹنے کے لیے تیار تھی۔شازل کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری تھی جس پر نورے جل بھن اٹھی تھی۔غصے کی شدت سے وہ کانپنے لگی تھی۔ "خبر دار جو مجھے جیلس کروانے کی کوشش کی۔۔" وہ انگلی اٹھاتی اس کے سینے پر مارتی غصے کی شدت سے سرخ پڑتی چیخی تھی۔اس کے انداز میں جنونیت تھی۔ "شی از جسٹ مائی سٹوڈنٹ۔۔اور تمھیں کیوں فرق پڑ رہا ہے؟ میں جس سے چاہے بات کروں۔۔" وہ اس کی جیلس ہونے پر محظوظ ہوتا بولا تھا۔نورے نے زور سے اپنی مٹھیاں بھینچ لی تھیں۔ "میں اچھے سے سمجھ رہی ہو آپ کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔" وہ چیخ کر بولتی پیچھے ہٹنے لگی تھی جب شازل نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتے اسے دور ہونے سے روکا تھا۔ "میں بھی تمھارے غصے کو سمجھ رہا ہوں۔۔" وہ اس کی جانب جھکتا ٹھہر کر بولا تھا۔ "تم جیلسی فیل کر رہی ہو۔۔" وہ لب بھینچ کر اپنی مسکراہٹ چھپا کر بولتا نورے کو سخت زہر لگا تھا۔ "آ۔۔آپ بات بدلنے کی کوشش بھی مت کیجیے گا۔۔۔" وہ گھبراتے ہوئے انگلی اٹھا کر چیختے ہوئے بولی تھی۔اس کے جذبوں کی شدت محسوس کرتا وہ مغرور سا ہوگیا تھا۔اتنی شدت سے چاہے جانے کے احساس سے نے رگ رگ میں سرور سا بھر دیا تھا۔ اس کے حسین چہرے کو دیکھتے شازل کے ہونٹ ہلکے سے اوپت اٹھے تھے۔ "تم پر شدت سے پیار آرہا ہے مجھ سے زرا بچ کر رہو۔۔" وہ جھک کر نورے کان میں گھمبیر لہجے میں بولتا اسے پلکیں جھکانے پر مجبور کر گیا تھا۔ "ایک بات یاد رکھیے گا۔۔" اس نے آنکھیں اٹھا کر شازل کی گہری نیلی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ "آپ میری ملکیت ہیں اور آپ کے معاملے میں بڑی خود غرض لڑکی ہوں۔" اس نے شازل کے دل پر انگلی رکھتے دھیمے مگر مضبوط لہجے میں کہا تھا۔وہ پل میں اس کے لفظوں کے سحر میں قید ہوا تھا ہونٹوں پر مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔ "دوبارہ سونیا کے پاس جانے کی کوشش بھی مت کیجیے گا اس کی ہڈیوں کا سرمہ بنا دوں گی۔۔" وہ اس کی مسکراہٹ کو دیکھتی چبا چبا کر بولی تھی۔مقابل کے دبنگ اظہار نے روم روم مہکا دیا تھا۔نورے کے بالوں میں ہاتھ ڈالتے اس نے جھک کر اس کے ادھ کھولے ہونٹوں کو شدت سے قید کرتے اس کی سانسیں بند کی تھی۔ وہ غصے سے اس کے سینے پر مکے مارتی اسے دور ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی جو ہلنے کے لیے بالکل بھی تیار نہ تھا۔نورے کو اپنی سانسیں بند ہوتی محسوس ہورہی تھیں۔اس کی شدت سے آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھاتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اس کی حالت پر رحم کرتے شازل نے اس کی سانسوں کو آزاد کیا تھا وہ گہرے گہرے سانس کھینچتی فورا اس سے دور ہٹتی پیچھے دیوار سے جالگی تھی۔سینے پر ہاتھ رکھے سانس بھرتے اس کی نظر شازل پر گئی تھی جو مسکرا رہا تھا۔نورے شرمندہ سی سرخ چہرہ کے ساتھ نظریں پھیرتی تیزی سے وہاں سے نکل گئی تھی مگر اپنے پیچھے سے شازل کا قہقہہ سن کر از کا خون مزید جل اٹھا تھا۔ اس کے آفس سے کچھ فاصلے پر کھڑی سونیا اس کا سرخ چہرہ اور ہونٹ دیکھتی غصے سے مٹھیاں بھینچ گئی تھی۔
"تم کہاں گم ہوگئی تھی؟" اعمار نے اسے دیکھتے ہی پوچھا تھا۔ "کہیں نہیں۔۔" وہ اپنا دوپٹہ کندھے پر ٹھیک کرتے ہوئے بولی تھی۔ "تمھارے چہرے کو کیا ہوا ہے؟ ایسا لگ رہا ہے کسی سے تھپڑ کھا کر آئی ہو۔۔" اعمار کی بات سنتے اس نے جھٹ سے اپنے گالوں پر ہاتھ رکھ لیے تھے۔ "ک۔۔کچھ نہیں ہوا۔۔" وہ اسے گھورتے ہوئے بولی تھی۔شرمندگی سے گال کچھ مزید سرخ پڑ گئے تھے۔ "اچھا چھوڑو یہ بتاو ہماری ویلکم پارٹی ہے تم آوگی؟" اعمار نے گھبرا کر اس کے ساتھ چلتے بات بدلتے پوچھا تھا۔ "کب ہے؟" اس نے سرسری انداز میں پوچھا تھا۔اس کے بات بدلنے پر اسے سکون کا سانس لیا تھا۔ "نیکسٹ ویک اینڈ پر ہے۔۔" اعمار نے بتایا۔۔ "نہیں میں نہیں آوں گی۔۔" اس نے ناک چڑھاتے جواب دیا تھا۔ "سارے پروفیسرز آرہے ہیں پارٹی میں پروفیسر خان بھی آرہے ہیں تم نہیں آو گی؟" اس نے حیرت سے پوچھا تھا۔وہ شازل کا نام سن کر ٹھٹھکی تھی۔ "میں سوچ کر بتاوں گی۔۔" وہ بات ختم کرتے ہوئے بولی تھی۔ اگلا سارا ویک شازل اپنے کاموں میں مصروف رہا تھا اور وہ بھی اپنے پیپرز کے لیے تیاری کرنے لگی تھی جو پیپرز کے ایک ہفتے بعد مگر مجال تھا جو اسے کچھ سمجھ آجاتا۔۔ "اففف۔۔ مصیبت لگتا ہے فیل ہوکر ہی رہوں گی۔۔" وہ غصے سے کتابیں پلٹتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔اپنے لیے چائے بنانے کا سوچتے وہ نیچے چلی آئی تھی۔سب لوگ آرام سے اپنے اپنے کمروں میں تھے۔ وہ چائے بناتی اپنے لیے سینڈوچ بناتی اور کچھ سنیکس لیتی کمرے میں آگئی تھی۔وہ مزے سے چائے پیتی سنیکس کھاتی لطف اندوز ہورہی تھی جب اچانک دروازہ کھلنے پر اس کا دھیان دائیں طرف گیا تھا جہاں شازل کو دیکھ کر اس نے آنکھیں گھمائی تھیں۔ "آپ کو کوئی اور کام نہیں ؟ جب دیکھیں منہ اٹھا کر چلے آتے ہیں۔۔اور آکر یہاں میرے بھائی یا باپ کے ساتھ لڑ کر میری ذات کا تماشا بناتے ہیں۔۔" وہ شازل کو دیکھتی ہی طنزیہ بولی تھی۔شاہزیب کے بعد شازل سے وہ اب اس معاملے کے متعلق بات کرنا چاہتی تھی۔ "کوئی اپنے شوہر سے ایسے بات کرتا ہے ؟" وہ اس کے ساتھ بیٹھتا اس کی چائے کا آدھا کپ اٹھاتا ایک ہی گھونٹ میں اپنے اندر اتار چکا تھا۔نورے منہ کھول کر دکھی سی اپنے چائے کے خالی کپ کو دیکھنے لگی تھی جو اسے منہ چڑھا رہا تھا۔ "آپ سمجھتے کیا ہیں خود کو؟" وہ چیخ کر غصے سے گلابی ہوتی بولی تھی۔ "تمھارا شوہر۔۔" لاپرواہ سے انداز میں جواب دیا گیا۔ وہ اس کے انداز پر سلگ اٹھی تھی۔ "آپ کو کسی نے یہ نہیں بتایا دوسرے کی چیزوں کو بنا پوچھے ہاتھ نہیں لگانا چاہیے۔۔" وہ دبا دبا سا چیخی تھی۔ "میں نے کونسا کسی غیر کی چیز کو ہاتھ لگایا ہے۔۔تمھاری چائے پی ہے اور ویسے بھی تم میری ہی ہو تو تمھاری چائے بھی میری ہوئی۔۔" وہ صوفے سے ٹیک لگاتا سکون سے بولتا اسے جلا گیا تھا۔ "میرا سر بہت درد کر رہا ہے جاو اچھی بیوی کی طرح میرے لیے ایک کپ چائے کا بنا کر لاو۔۔" وہ اسے دوبارہ منہ کھولتے دیکھ کر اس کے گلابی ہونٹوں پر انگلی رکھتا خاموش کروا گیا تھا۔ "آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟؟" وہ سینے پر ہاتھ باندھتی پوچھ رہی تھی۔شازل نے بےساختہ اس کا بازو پکڑتے اس کے زخم دیکھے تھے جو اب کافی حد تک ٹھیک ہو گئے تھے۔ "کیا میں تم سے ملنے نہیں آسکتا ؟" وہ اس کے چہرے پر پھونک مارتے ہوئے پوچھنے لگا تھا۔ "نہیں اس کی ضرورت نہیں جب آپ یونیورسٹی میں میری شکل دیکھ لیتے ہیں۔۔" وہ سینڈوچ اٹھا کر کھانے لگی تھی جب اس کے ہاتھ سے اچکتے وہ بھی شازل کھا چکا تھا۔ "شازل خان!!!" وہ اپنا سینڈوچ ختم ہوتے دیکھ کر اب کی بار اٹھتے ہوئے چیخی تھی۔شازل نے اپنی مسکراہٹ دباتے اس کی کلائی سے اسے اپنی جانب کھینچا تھا وہ کٹی ڈالی کی طرح اس پر آگری تھی۔ "ایک سینڈوچ ہی تھا کیوں چیخ کر میرا سر درد بڑھا رہی ہو؟" وہ اس کو قابو کرتا سنجیدگی سے بولا تھا وہ اس کے اوپر گری شرمندہ سی لب بھینچ گئی تھی۔ "مجھے بھوک لگی ہوئی تھی۔" وہ بچوں کی طرح منہ پھولاتے ہوئے بولی تھی شازل کو اس پر بےساختہ پیار آیا تھا۔ "اب میرے لیے چائے بنانے جارہی ہو تو اپنے لیے بھی کچھ کھانے کو بنا لینا۔۔میں تمھاری سٹڈیز میں مدد کرنے کے لیے آیا ہوں۔" اس کی ناک پر لب رکھتے وہ اس پر گرفت ڈھیلی کر گیا تھا۔نورے اپنے خشک ہونٹوں کو تر کرتی اس کی گرفت سے آزادی پاتی فورا کمرے سے نکل گئی تھی۔ کیچن میں کھڑے ہوکر اس کے لیے چائے بناتی وہ خوب اس کو صلوتیں سنا رہی تھی۔اس نے فریزر میں پڑے کچھ نگٹس اور کباب نکال کر فرائی کر لیے تھے چونکہ اسے مزید بھوک لگ گئی تھی۔ "یہ آپ کے لیے چائے۔۔" وہ اس کے سامنے چائے رکھتے ہوئے بولتی اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھتی خود بھی چائے پینے لگی تھی۔ "ایسے ہی شوہر کی خدمت کیا کرو ثواب ملے گا۔۔" وہ چائے پیتا نورے کو شکریہ کی جگہ یہ بولتا اسے جلا گیا تھا۔نورے نے چائے ہیتے غصے سے منہ میں کباب اور نگٹس ٹھوسنا شروع کیے تھے۔ "کبھی بیوی کی بھی خدمت کرلیا کریں۔۔" وہ چائے ختم کرتی منہ بنا کر بولی تھی۔ "اپنی نالائق بیوی کی خدمت ہی کرنے آیا ہوں اس کی پڑھائی میں مدد کرکے۔۔" وہ چائے ختم کرتا بولا تھا۔ "میں تھک گئی اب مجھے کچھ نہیں پڑھنا جائیں۔۔" وہ بارہ بجے کا وقت دیکھتی اپنی جمائی روکتی بولی تھی۔ "کل میں جلدی آوں گا پہلے ہی اپنی نیند پوری کر لینا ورنہ مجھے نیند اور ہوش دونوں اڑانے آتے ہیں۔۔" وہ کھڑا ہوتا اس کے چہرے پر جھک کر مخمور لہجے میں بولتا اسے ساکت کر گیا تھا۔وہ مسکرا کر اس کی حالت سے محظوظ ہوتا وہاں سے نکل گیا تھا۔
"شازل کیا تم نے کسی کو وقار محمود کے قتل کی ذمہ داری لینے کا کہا تھا؟" وہ عسکری اور حیدر سلطان کے ساتھ اس وقت اپارٹمنٹ میں موجود تھا۔جب عسکری نے پوچھا تھا۔ "ایم این اے شفیق رضوان نے یہ کروایا ہے اسے پتا تھا کیس مزید چلا تو سب کے کالے چٹھے کھل جائیں گے۔۔" وہ لب بھینچ کر سگریٹ سلگاتا بولا تھا۔ "اب آگے کیا کرنا ہے کون ہے ہمارا اگلا ٹارگٹ؟" حیدر نے سگریٹ کا دھواں ہوا میں چھوڑتے شازل کی جانب دیکھتے پوچھا تھا۔ "اس نے مجھے تین لوگوں کا نام بتایا تھا دو لوگوں کے نام ابھی بھی مجھے نہیں پتا۔۔ان تینوں کو ٹارگٹ کریں گے ابھی وہ لوگ چوکنا ہوں گے ہمیں سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔۔" "اپنی بہن کے مجرموں کو میں تڑپا تڑپا کر ماروں گا۔۔" وہ ختم ہوئی سگریٹ مسلتا جنونی انداز میں بولا تھا اپنی چھوٹی شہزادی بہن کا سوچتے ساری یادیں اور زخم تازہ ہوگئے تھے۔ "سب سے پہلے شفیق رضوان کے بھیتجے فیاض کی انفارمیشن نکالو اس کا کام ختم کریں گے باقیوں کو ابھی تھوڑی دیر مزید جینے دو۔۔" شازل کے بولنے پر عسکری نے سر ہلایا تھا۔ "حیدر میں چاہتا ہوں تم اس فیاض کی پل پل کی خبر رکھو وہ کہاں جاتا ہے؟ کیا کرتا پے ؟کس کو پسند کرتا ہے ؟کس سے تعلق ہے؟ مجھے ہر چھوٹی سے بڑی انفارمیشن چاہیے اور دھیان رہے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے اسے موت میں اپنے ہاتھوں سے دوں گا۔۔اور عسکری تم اس کی ساری کالز اور چیٹ سمیت اس کے گھر کے کیمروں کو ہیک کرلوں اس کی پل پل کی انفارمیشن مجھے چاہیے ایک بھی چیز مس نہیں ہونی چاہیے۔۔" شازل نے سپاٹ لہجے میں دونوں کو سمجھایا اور بتایا تھا۔ "اوکے باس۔۔ میں کل سے کام سٹارٹ کرتا ہوں۔۔" عسکری نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے جواب دیا تھا۔ "اور تم اپنی جوب کب چھوڑ رہے ہو؟" حیدر سلطان نے اس سے پوچھا تھا۔ "میں اگلے مہینے یہ جوب چھوڑ دوں گا۔۔اور عسکری ٹیم سے کہو پتا لگوائیں ارسل نے کس کو نورے کے بارے میں بتایا تھا؟ اور دو گارڈز نورے کی حفاظت کے لیے یونیورسٹی سے لے کر اس کے گھر تک سائے کی طرح اس کی حفاظت کرنے چاہیے۔۔خیال رکھنا وہ نورے کی نظروں میں نہ آئیں ورنہ کیا پتا غصہ میں انھیں ہی حفاظت کی ضرورت پڑ جائے۔۔" وہ بولتا ہوا آخر میں نورے کا سوچتا ہلکا سا مسکرا اٹھا تھا۔ "ویسے شازل ایک بات ہے۔۔تم اور تمھاری بیوی دونوں ایک جیسے ہی ہو پاگل۔۔" حیدر سلطان کے بولنے پر عسکری نے بمشکل اپنی مسکراہٹ روکی تھی جبکہ شازل نے اپنے پاس پڑا کشن اٹھا کر اس کے منہ پر مارا تھا جس پر وہ ہنس پڑا تھا۔ "شٹ اپ زیادہ بکواس مت کیا کرو۔۔" شازل نفی میں سر ہلاتا دونوں پر ایک نظر ڈالتا روم میں چلا گیا تھا۔
آج ان کی ویلکم پارٹی تھی جو چئرپرسن کے قتل کے بعد لیٹ ہوگئی تھی۔اس کا پارٹی پر جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر اسے اعمار سے خبر ملی تھی شازل بھی پارٹی پر موجود ہوگا تب ہی وہ جانے کے لیے راضی ہوئی تھی۔شاہزیب سے وہ پہلے ہی جانے کی پرمیشن لے چکی تھی جس پر اب وہ سکون سے تیار ہو رہی تھی۔ پچھلے ایک ہفتے سے وہ اس کی پڑھائی میں مدد کر رہا تھا مگر دو دونوں سے اس کا کچھ اتا پتا نہیں تھا۔وہ اسے پڑھانے بالکل بھی نہیں آرہا تھا۔اور یونیورسٹی سے بھی غائب تھا اسے امید تھی شاید آج وہ وہاں موجود ہو۔۔ وہ تیار ہوتی خود پر پرفیوم چھڑک رہی تھی آج اس کا ارادہ شازل کو ہوش اڑانے کا تھا تبھی سہج سہج کر تیار ہوئی تھی۔اچانک کسی کی موجودگی اپنے پیچھے محسوس کرکے اس کی سانسیں ساکت ہوئی تھیں۔ "کیا میرے جنون کو برداشت کر پاو گی۔" اپنے کان کے بےحد پاس شازل کی سرگوشی سن کر وہ لرز اٹھی تھی۔دل کی تیز ہوتی دھڑکن کانوں میں دھک دھک کرتی ڈھول کی مانند بج رہی تھی۔ بلیک میکسی میں جوڑے کی شکل میں بال باندھے ہلکے سے میک اپ میں وہ بےحد پرکشش لگ رہی تھی۔کالی گہری آنکھوں میں سرخ ڈورے اس کی آنکھوں کی کشش کو مزید بڑھا رہی تھی۔ "اصل سوال تو یہ ہے کیا آپ میری جنونی محبت برداشت کرپائیں گے؟" مقابل کی جانب مڑتے اس نے ائبرو اچکاتے پوچھا تھا۔اس کی کمر میں بےساختہ ہاتھ ڈال کر شازل نے اسے اپنے قریب کھینچتے اس کی گردن میں منہ چھپاتے اس کی خوشبو خود میں اتاری تھی۔ "اتنا تیار کس کے لیے ہوئی ہو؟" بنا نورے کے سوال کا جواب دیے اس نے نیا سوال بھاری گھمبیر آواز میں پوچھا تھا۔نورے نے بےساختہ اس کے کھینچنے پر اپنا ہاتھ اس کے سینے پر رکھ دیا تھا۔ دھیرے سے چلتی اس کی دھڑکن کو محسوس کرتی اور شازل کا لمس اپنی گردن پر محسوس کرتی وہ جی جان سے کانپ اٹھی تھی۔اس کی انگلیاں اپنی کمر پر سرکتی محسوس کرکے نورے کا سانس سوکھ گیا تھا۔ شازل نے اس کی گردن پر ناک رگڑتے شدت سے اس کے کندھے ہر موجود تل کو دیکھتے اسے چوما تھا۔نورے نے بےساختہ اس کی شرٹ اپنی مٹھی میں دبوچ لی تھی۔ "آپ کے لیے تو بالکل بھی نہیں ہوئی۔۔" اس کا دھیان ہٹانے کے لیے وہ تیز ہوتے تنفس کو بمشکل برقرار رکھے بول رہی تھی۔شازل اس کی گردن پر اپنا لمس چھوڑتا ایک دم ساختہ ہوا تھا۔ اس کی انگلیاں نورے کی کمر سے سرکتی اس کے بالوں تک گئی تھی۔جھٹکے سے اس کے جوڑے میں بندھے بال دبوچ کر شازل نے اس کی گردن سے منہ اٹھاتے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ "تم کسی کے بارے میں سوچنے کی کوشش بھی مت کرنا نورے۔۔" دوسرا ہاتھ اس کی کمر سے ہٹاتے شازل نے اپنی گن نکال کر اس کی گردن پر رکھ دی تھی۔نورے بےخوف انداز میں اس کی آنکھوں میں دیکھتی مسکرائی تھی۔ "کیوں ؟ جب آپ دنیا جہاں کی لڑکیوں کے ساتھ گھوم سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں گھوم سکتی؟" وہ سلگتے لہجے میں بولی تھی۔شازل نے اس کی سرخ ڈورے والی کالی آنکھوں کو گھور کر دیکھا تھا۔جس میں جنونیت اور پوزیسیونس صاف دکھائی دے رہی تھی۔ "ڈونٹ۔۔ایسا سوچنا بھی مت۔۔ساری دنیا تہس نہس کردوں گا۔۔اگر اعمار سے تمھیں بات کرنے دیتا ہوں تو اسے میرا ظرف سمجھو ورنہ تمھارے ارد گرد آج کی پارٹی میں کوئی بھی لڑکا دکھائی دیا تو اس کے موت کی ذمہ دار تم ہوگی جانِ من۔۔" وہ اس کی صبیح پیشانی کو چومتا شدت سے بولتا اسے ڈرنے پر مجبور کر گیا تھا۔ "میرے سارے بال خراب کر دیے ہیں آپ نے۔۔اب چھوڑ دیں۔۔" شازل کی نظر بےساختہ اس کے جوڑے پر گئی تھی جو شاید ڈھیلا تھا تبھی کھل گیا تھا۔نورے نے ملامتی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔ "اتنا تیار ہونے کی کوئی ضرورت نہیں سپملی بالوں کو پونی ڈال لو۔۔" شازل کے مشورے نے اسے مزید طیش دلایا تھا۔ "آپ تو چاہتے ہی یہ ہیں۔۔جان بوجھ کر میرے بال خراب کیے ہیں نہ ؟" اس کے بولنے پر شازل نے بھنویں بھینچتے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا تھا۔اس کے کوئی جواب نہ دینے پر اس سے دور ہٹتے نورے نے اپنے بالوں کو کھول کر دوبارہ جوڑا بنانے کی کوشش کی تھی جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئی تھی پھر غصے سے شازل کو گھورتے اس نے بالوں کو کسی بھی طرح ڈھیلے انداز میں باندھ لیا تھا شکر تھا آگے سے اس کا ہئیر سٹائل ٹھیک تھا۔ "دوبارہ میرے بالوں کو ہاتھ لگانے کی کوشش بھی مت کیجیے گا۔۔" وہ سرخ چہرے کے ساتھ بولی تھی۔ "اچھا۔۔۔چلو اب ہم لیٹ ہو رہے ہیں تم لڑکیاں تیار ہونے میں گھنٹوں لگا دیتے ہو۔۔" اس کے جواب پر نورے کا منہ کھل گیا تھا۔جو بلیک تھری پیس سوٹ میں انتہائی ہینڈسم اور ڈیشنگ لگ رہا تھا مگر نورے کا دل کر رہا تھا اس کے بال نوچ لے۔۔جو اپنی غلطی کا ملبہ اس کے سر ڈال رہا تھا۔ "میں ڈرائیور کے ساتھ چلی جاوں گی آپ جائیں۔۔" وہ لب بھینچ کر منہ پھولا گئی تھی۔شازل نے بغور اسے دیکھا تھا۔ "سیدھی طرح چلو گی یا اپنے انداز میں اٹھا کر لے چلوں؟" اس کی دھمکی پر وہ ہار مانتی اپنا ہینڈ بیگ لیتی اس کے ساتھ چل پڑی تھی۔
بنا ناک کیے وہ دھڑلے سے شازل کے آفس میں داخل ہوئی تھی جو اسی کی تاک میں تھا وہ ٹیبل پر جھکا سگریٹ کا پیکٹ اٹھاتا سٹل ہوا تھا۔ساتھ ہی اسے چھوڑتے وہ نورے کی جانب مڑا تھا جو بھپری شیرنی کی مانند اس پر جھپٹنے کے لیے تیار تھی۔شازل کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری تھی جس پر نورے جل بھن اٹھی تھی۔غصے کی شدت سے وہ کانپنے لگی تھی۔ "خبر دار جو مجھے جیلس کروانے کی کوشش کی۔۔" وہ انگلی اٹھاتی اس کے سینے پر مارتی غصے کی شدت سے سرخ پڑتی چیخی تھی۔اس کے انداز میں جنونیت تھی۔ "شی از جسٹ مائی سٹوڈنٹ۔۔اور تمھیں کیوں فرق پڑ رہا ہے؟ میں جس سے چاہے بات کروں۔۔" وہ اس کی جیلس ہونے پر محظوظ ہوتا بولا تھا۔نورے نے زور سے اپنی مٹھیاں بھینچ لی تھیں۔ "میں اچھے سے سمجھ رہی ہو آپ کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔" وہ چیخ کر بولتی پیچھے ہٹنے لگی تھی جب شازل نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتے اسے دور ہونے سے روکا تھا۔ "میں بھی تمھارے غصے کو سمجھ رہا ہوں۔۔" وہ اس کی جانب جھکتا ٹھہر کر بولا تھا۔ "تم جیلسی فیل کر رہی ہو۔۔" وہ لب بھینچ کر اپنی مسکراہٹ چھپا کر بولتا نورے کو سخت زہر لگا تھا۔ "آ۔۔آپ بات بدلنے کی کوشش بھی مت کیجیے گا۔۔۔" وہ گھبراتے ہوئے انگلی اٹھا کر چیختے ہوئے بولی تھی۔اس کے جذبوں کی شدت محسوس کرتا وہ مغرور سا ہوگیا تھا۔اتنی شدت سے چاہے جانے کے احساس سے نے رگ رگ میں سرور سا بھر دیا تھا۔ اس کے حسین چہرے کو دیکھتے شازل کے ہونٹ ہلکے سے اوپت اٹھے تھے۔ "تم پر شدت سے پیار آرہا ہے مجھ سے زرا بچ کر رہو۔۔" وہ جھک کر نورے کان میں گھمبیر لہجے میں بولتا اسے پلکیں جھکانے پر مجبور کر گیا تھا۔ "ایک بات یاد رکھیے گا۔۔" اس نے آنکھیں اٹھا کر شازل کی گہری نیلی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ "آپ میری ملکیت ہیں اور آپ کے معاملے میں بڑی خود غرض لڑکی ہوں۔" اس نے شازل کے دل پر انگلی رکھتے دھیمے مگر مضبوط لہجے میں کہا تھا۔وہ پل میں اس کے لفظوں کے سحر میں قید ہوا تھا ہونٹوں پر مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔ "دوبارہ سونیا کے پاس جانے کی کوشش بھی مت کیجیے گا اس کی ہڈیوں کا سرمہ بنا دوں گی۔۔" وہ اس کی مسکراہٹ کو دیکھتی چبا چبا کر بولی تھی۔مقابل کے دبنگ اظہار نے روم روم مہکا دیا تھا۔نورے کے بالوں میں ہاتھ ڈالتے اس نے جھک کر اس کے ادھ کھولے ہونٹوں کو شدت سے قید کرتے اس کی سانسیں بند کی تھی۔ وہ غصے سے اس کے سینے پر مکے مارتی اسے دور ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی جو ہلنے کے لیے بالکل بھی تیار نہ تھا۔نورے کو اپنی سانسیں بند ہوتی محسوس ہورہی تھیں۔اس کی شدت سے آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھاتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اس کی حالت پر رحم کرتے شازل نے اس کی سانسوں کو آزاد کیا تھا وہ گہرے گہرے سانس کھینچتی فورا اس سے دور ہٹتی پیچھے دیوار سے جالگی تھی۔سینے پر ہاتھ رکھے سانس بھرتے اس کی نظر شازل پر گئی تھی جو مسکرا رہا تھا۔نورے شرمندہ سی سرخ چہرہ کے ساتھ نظریں پھیرتی تیزی سے وہاں سے نکل گئی تھی مگر اپنے پیچھے سے شازل کا قہقہہ سن کر از کا خون مزید جل اٹھا تھا۔ اس کے آفس سے کچھ فاصلے پر کھڑی سونیا اس کا سرخ چہرہ اور ہونٹ دیکھتی غصے سے مٹھیاں بھینچ گئی تھی۔
"تم کہاں گم ہوگئی تھی؟" اعمار نے اسے دیکھتے ہی پوچھا تھا۔ "کہیں نہیں۔۔" وہ اپنا دوپٹہ کندھے پر ٹھیک کرتے ہوئے بولی تھی۔ "تمھارے چہرے کو کیا ہوا ہے؟ ایسا لگ رہا ہے کسی سے تھپڑ کھا کر آئی ہو۔۔" اعمار کی بات سنتے اس نے جھٹ سے اپنے گالوں پر ہاتھ رکھ لیے تھے۔ "ک۔۔کچھ نہیں ہوا۔۔" وہ اسے گھورتے ہوئے بولی تھی۔شرمندگی سے گال کچھ مزید سرخ پڑ گئے تھے۔ "اچھا چھوڑو یہ بتاو ہماری ویلکم پارٹی ہے تم آوگی؟" اعمار نے گھبرا کر اس کے ساتھ چلتے بات بدلتے پوچھا تھا۔ "کب ہے؟" اس نے سرسری انداز میں پوچھا تھا۔اس کے بات بدلنے پر اسے سکون کا سانس لیا تھا۔ "نیکسٹ ویک اینڈ پر ہے۔۔" اعمار نے بتایا۔۔ "نہیں میں نہیں آوں گی۔۔" اس نے ناک چڑھاتے جواب دیا تھا۔ "سارے پروفیسرز آرہے ہیں پارٹی میں پروفیسر خان بھی آرہے ہیں تم نہیں آو گی؟" اس نے حیرت سے پوچھا تھا۔وہ شازل کا نام سن کر ٹھٹھکی تھی۔ "میں سوچ کر بتاوں گی۔۔" وہ بات ختم کرتے ہوئے بولی تھی۔ اگلا سارا ویک شازل اپنے کاموں میں مصروف رہا تھا اور وہ بھی اپنے پیپرز کے لیے تیاری کرنے لگی تھی جو پیپرز کے ایک ہفتے بعد مگر مجال تھا جو اسے کچھ سمجھ آجاتا۔۔ "اففف۔۔ مصیبت لگتا ہے فیل ہوکر ہی رہوں گی۔۔" وہ غصے سے کتابیں پلٹتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔اپنے لیے چائے بنانے کا سوچتے وہ نیچے چلی آئی تھی۔سب لوگ آرام سے اپنے اپنے کمروں میں تھے۔ وہ چائے بناتی اپنے لیے سینڈوچ بناتی اور کچھ سنیکس لیتی کمرے میں آگئی تھی۔وہ مزے سے چائے پیتی سنیکس کھاتی لطف اندوز ہورہی تھی جب اچانک دروازہ کھلنے پر اس کا دھیان دائیں طرف گیا تھا جہاں شازل کو دیکھ کر اس نے آنکھیں گھمائی تھیں۔ "آپ کو کوئی اور کام نہیں ؟ جب دیکھیں منہ اٹھا کر چلے آتے ہیں۔۔اور آکر یہاں میرے بھائی یا باپ کے ساتھ لڑ کر میری ذات کا تماشا بناتے ہیں۔۔" وہ شازل کو دیکھتی ہی طنزیہ بولی تھی۔شاہزیب کے بعد شازل سے وہ اب اس معاملے کے متعلق بات کرنا چاہتی تھی۔ "کوئی اپنے شوہر سے ایسے بات کرتا ہے ؟" وہ اس کے ساتھ بیٹھتا اس کی چائے کا آدھا کپ اٹھاتا ایک ہی گھونٹ میں اپنے اندر اتار چکا تھا۔نورے منہ کھول کر دکھی سی اپنے چائے کے خالی کپ کو دیکھنے لگی تھی جو اسے منہ چڑھا رہا تھا۔ "آپ سمجھتے کیا ہیں خود کو؟" وہ چیخ کر غصے سے گلابی ہوتی بولی تھی۔ "تمھارا شوہر۔۔" لاپرواہ سے انداز میں جواب دیا گیا۔ وہ اس کے انداز پر سلگ اٹھی تھی۔ "آپ کو کسی نے یہ نہیں بتایا دوسرے کی چیزوں کو بنا پوچھے ہاتھ نہیں لگانا چاہیے۔۔" وہ دبا دبا سا چیخی تھی۔ "میں نے کونسا کسی غیر کی چیز کو ہاتھ لگایا ہے۔۔تمھاری چائے پی ہے اور ویسے بھی تم میری ہی ہو تو تمھاری چائے بھی میری ہوئی۔۔" وہ صوفے سے ٹیک لگاتا سکون سے بولتا اسے جلا گیا تھا۔ "میرا سر بہت درد کر رہا ہے جاو اچھی بیوی کی طرح میرے لیے ایک کپ چائے کا بنا کر لاو۔۔" وہ اسے دوبارہ منہ کھولتے دیکھ کر اس کے گلابی ہونٹوں پر انگلی رکھتا خاموش کروا گیا تھا۔ "آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟؟" وہ سینے پر ہاتھ باندھتی پوچھ رہی تھی۔شازل نے بےساختہ اس کا بازو پکڑتے اس کے زخم دیکھے تھے جو اب کافی حد تک ٹھیک ہو گئے تھے۔ "کیا میں تم سے ملنے نہیں آسکتا ؟" وہ اس کے چہرے پر پھونک مارتے ہوئے پوچھنے لگا تھا۔ "نہیں اس کی ضرورت نہیں جب آپ یونیورسٹی میں میری شکل دیکھ لیتے ہیں۔۔" وہ سینڈوچ اٹھا کر کھانے لگی تھی جب اس کے ہاتھ سے اچکتے وہ بھی شازل کھا چکا تھا۔ "شازل خان!!!" وہ اپنا سینڈوچ ختم ہوتے دیکھ کر اب کی بار اٹھتے ہوئے چیخی تھی۔شازل نے اپنی مسکراہٹ دباتے اس کی کلائی سے اسے اپنی جانب کھینچا تھا وہ کٹی ڈالی کی طرح اس پر آگری تھی۔ "ایک سینڈوچ ہی تھا کیوں چیخ کر میرا سر درد بڑھا رہی ہو؟" وہ اس کو قابو کرتا سنجیدگی سے بولا تھا وہ اس کے اوپر گری شرمندہ سی لب بھینچ گئی تھی۔ "مجھے بھوک لگی ہوئی تھی۔" وہ بچوں کی طرح منہ پھولاتے ہوئے بولی تھی شازل کو اس پر بےساختہ پیار آیا تھا۔ "اب میرے لیے چائے بنانے جارہی ہو تو اپنے لیے بھی کچھ کھانے کو بنا لینا۔۔میں تمھاری سٹڈیز میں مدد کرنے کے لیے آیا ہوں۔" اس کی ناک پر لب رکھتے وہ اس پر گرفت ڈھیلی کر گیا تھا۔نورے اپنے خشک ہونٹوں کو تر کرتی اس کی گرفت سے آزادی پاتی فورا کمرے سے نکل گئی تھی۔ کیچن میں کھڑے ہوکر اس کے لیے چائے بناتی وہ خوب اس کو صلوتیں سنا رہی تھی۔اس نے فریزر میں پڑے کچھ نگٹس اور کباب نکال کر فرائی کر لیے تھے چونکہ اسے مزید بھوک لگ گئی تھی۔ "یہ آپ کے لیے چائے۔۔" وہ اس کے سامنے چائے رکھتے ہوئے بولتی اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھتی خود بھی چائے پینے لگی تھی۔ "ایسے ہی شوہر کی خدمت کیا کرو ثواب ملے گا۔۔" وہ چائے پیتا نورے کو شکریہ کی جگہ یہ بولتا اسے جلا گیا تھا۔نورے نے چائے ہیتے غصے سے منہ میں کباب اور نگٹس ٹھوسنا شروع کیے تھے۔ "کبھی بیوی کی بھی خدمت کرلیا کریں۔۔" وہ چائے ختم کرتی منہ بنا کر بولی تھی۔ "اپنی نالائق بیوی کی خدمت ہی کرنے آیا ہوں اس کی پڑھائی میں مدد کرکے۔۔" وہ چائے ختم کرتا بولا تھا۔ "میں تھک گئی اب مجھے کچھ نہیں پڑھنا جائیں۔۔" وہ بارہ بجے کا وقت دیکھتی اپنی جمائی روکتی بولی تھی۔ "کل میں جلدی آوں گا پہلے ہی اپنی نیند پوری کر لینا ورنہ مجھے نیند اور ہوش دونوں اڑانے آتے ہیں۔۔" وہ کھڑا ہوتا اس کے چہرے پر جھک کر مخمور لہجے میں بولتا اسے ساکت کر گیا تھا۔وہ مسکرا کر اس کی حالت سے محظوظ ہوتا وہاں سے نکل گیا تھا۔
"شازل کیا تم نے کسی کو وقار محمود کے قتل کی ذمہ داری لینے کا کہا تھا؟" وہ عسکری اور حیدر سلطان کے ساتھ اس وقت اپارٹمنٹ میں موجود تھا۔جب عسکری نے پوچھا تھا۔ "ایم این اے شفیق رضوان نے یہ کروایا ہے اسے پتا تھا کیس مزید چلا تو سب کے کالے چٹھے کھل جائیں گے۔۔" وہ لب بھینچ کر سگریٹ سلگاتا بولا تھا۔ "اب آگے کیا کرنا ہے کون ہے ہمارا اگلا ٹارگٹ؟" حیدر نے سگریٹ کا دھواں ہوا میں چھوڑتے شازل کی جانب دیکھتے پوچھا تھا۔ "اس نے مجھے تین لوگوں کا نام بتایا تھا دو لوگوں کے نام ابھی بھی مجھے نہیں پتا۔۔ان تینوں کو ٹارگٹ کریں گے ابھی وہ لوگ چوکنا ہوں گے ہمیں سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔۔" "اپنی بہن کے مجرموں کو میں تڑپا تڑپا کر ماروں گا۔۔" وہ ختم ہوئی سگریٹ مسلتا جنونی انداز میں بولا تھا اپنی چھوٹی شہزادی بہن کا سوچتے ساری یادیں اور زخم تازہ ہوگئے تھے۔ "سب سے پہلے شفیق رضوان کے بھیتجے فیاض کی انفارمیشن نکالو اس کا کام ختم کریں گے باقیوں کو ابھی تھوڑی دیر مزید جینے دو۔۔" شازل کے بولنے پر عسکری نے سر ہلایا تھا۔ "حیدر میں چاہتا ہوں تم اس فیاض کی پل پل کی خبر رکھو وہ کہاں جاتا ہے؟ کیا کرتا پے ؟کس کو پسند کرتا ہے ؟کس سے تعلق ہے؟ مجھے ہر چھوٹی سے بڑی انفارمیشن چاہیے اور دھیان رہے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے اسے موت میں اپنے ہاتھوں سے دوں گا۔۔اور عسکری تم اس کی ساری کالز اور چیٹ سمیت اس کے گھر کے کیمروں کو ہیک کرلوں اس کی پل پل کی انفارمیشن مجھے چاہیے ایک بھی چیز مس نہیں ہونی چاہیے۔۔" شازل نے سپاٹ لہجے میں دونوں کو سمجھایا اور بتایا تھا۔ "اوکے باس۔۔ میں کل سے کام سٹارٹ کرتا ہوں۔۔" عسکری نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے جواب دیا تھا۔ "اور تم اپنی جوب کب چھوڑ رہے ہو؟" حیدر سلطان نے اس سے پوچھا تھا۔ "میں اگلے مہینے یہ جوب چھوڑ دوں گا۔۔اور عسکری ٹیم سے کہو پتا لگوائیں ارسل نے کس کو نورے کے بارے میں بتایا تھا؟ اور دو گارڈز نورے کی حفاظت کے لیے یونیورسٹی سے لے کر اس کے گھر تک سائے کی طرح اس کی حفاظت کرنے چاہیے۔۔خیال رکھنا وہ نورے کی نظروں میں نہ آئیں ورنہ کیا پتا غصہ میں انھیں ہی حفاظت کی ضرورت پڑ جائے۔۔" وہ بولتا ہوا آخر میں نورے کا سوچتا ہلکا سا مسکرا اٹھا تھا۔ "ویسے شازل ایک بات ہے۔۔تم اور تمھاری بیوی دونوں ایک جیسے ہی ہو پاگل۔۔" حیدر سلطان کے بولنے پر عسکری نے بمشکل اپنی مسکراہٹ روکی تھی جبکہ شازل نے اپنے پاس پڑا کشن اٹھا کر اس کے منہ پر مارا تھا جس پر وہ ہنس پڑا تھا۔ "شٹ اپ زیادہ بکواس مت کیا کرو۔۔" شازل نفی میں سر ہلاتا دونوں پر ایک نظر ڈالتا روم میں چلا گیا تھا۔
آج ان کی ویلکم پارٹی تھی جو چئرپرسن کے قتل کے بعد لیٹ ہوگئی تھی۔اس کا پارٹی پر جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر اسے اعمار سے خبر ملی تھی شازل بھی پارٹی پر موجود ہوگا تب ہی وہ جانے کے لیے راضی ہوئی تھی۔شاہزیب سے وہ پہلے ہی جانے کی پرمیشن لے چکی تھی جس پر اب وہ سکون سے تیار ہو رہی تھی۔ پچھلے ایک ہفتے سے وہ اس کی پڑھائی میں مدد کر رہا تھا مگر دو دونوں سے اس کا کچھ اتا پتا نہیں تھا۔وہ اسے پڑھانے بالکل بھی نہیں آرہا تھا۔اور یونیورسٹی سے بھی غائب تھا اسے امید تھی شاید آج وہ وہاں موجود ہو۔۔ وہ تیار ہوتی خود پر پرفیوم چھڑک رہی تھی آج اس کا ارادہ شازل کو ہوش اڑانے کا تھا تبھی سہج سہج کر تیار ہوئی تھی۔اچانک کسی کی موجودگی اپنے پیچھے محسوس کرکے اس کی سانسیں ساکت ہوئی تھیں۔ "کیا میرے جنون کو برداشت کر پاو گی۔" اپنے کان کے بےحد پاس شازل کی سرگوشی سن کر وہ لرز اٹھی تھی۔دل کی تیز ہوتی دھڑکن کانوں میں دھک دھک کرتی ڈھول کی مانند بج رہی تھی۔ بلیک میکسی میں جوڑے کی شکل میں بال باندھے ہلکے سے میک اپ میں وہ بےحد پرکشش لگ رہی تھی۔کالی گہری آنکھوں میں سرخ ڈورے اس کی آنکھوں کی کشش کو مزید بڑھا رہی تھی۔ "اصل سوال تو یہ ہے کیا آپ میری جنونی محبت برداشت کرپائیں گے؟" مقابل کی جانب مڑتے اس نے ائبرو اچکاتے پوچھا تھا۔اس کی کمر میں بےساختہ ہاتھ ڈال کر شازل نے اسے اپنے قریب کھینچتے اس کی گردن میں منہ چھپاتے اس کی خوشبو خود میں اتاری تھی۔ "اتنا تیار کس کے لیے ہوئی ہو؟" بنا نورے کے سوال کا جواب دیے اس نے نیا سوال بھاری گھمبیر آواز میں پوچھا تھا۔نورے نے بےساختہ اس کے کھینچنے پر اپنا ہاتھ اس کے سینے پر رکھ دیا تھا۔ دھیرے سے چلتی اس کی دھڑکن کو محسوس کرتی اور شازل کا لمس اپنی گردن پر محسوس کرتی وہ جی جان سے کانپ اٹھی تھی۔اس کی انگلیاں اپنی کمر پر سرکتی محسوس کرکے نورے کا سانس سوکھ گیا تھا۔ شازل نے اس کی گردن پر ناک رگڑتے شدت سے اس کے کندھے ہر موجود تل کو دیکھتے اسے چوما تھا۔نورے نے بےساختہ اس کی شرٹ اپنی مٹھی میں دبوچ لی تھی۔ "آپ کے لیے تو بالکل بھی نہیں ہوئی۔۔" اس کا دھیان ہٹانے کے لیے وہ تیز ہوتے تنفس کو بمشکل برقرار رکھے بول رہی تھی۔شازل اس کی گردن پر اپنا لمس چھوڑتا ایک دم ساختہ ہوا تھا۔ اس کی انگلیاں نورے کی کمر سے سرکتی اس کے بالوں تک گئی تھی۔جھٹکے سے اس کے جوڑے میں بندھے بال دبوچ کر شازل نے اس کی گردن سے منہ اٹھاتے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ "تم کسی کے بارے میں سوچنے کی کوشش بھی مت کرنا نورے۔۔" دوسرا ہاتھ اس کی کمر سے ہٹاتے شازل نے اپنی گن نکال کر اس کی گردن پر رکھ دی تھی۔نورے بےخوف انداز میں اس کی آنکھوں میں دیکھتی مسکرائی تھی۔ "کیوں ؟ جب آپ دنیا جہاں کی لڑکیوں کے ساتھ گھوم سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں گھوم سکتی؟" وہ سلگتے لہجے میں بولی تھی۔شازل نے اس کی سرخ ڈورے والی کالی آنکھوں کو گھور کر دیکھا تھا۔جس میں جنونیت اور پوزیسیونس صاف دکھائی دے رہی تھی۔ "ڈونٹ۔۔ایسا سوچنا بھی مت۔۔ساری دنیا تہس نہس کردوں گا۔۔اگر اعمار سے تمھیں بات کرنے دیتا ہوں تو اسے میرا ظرف سمجھو ورنہ تمھارے ارد گرد آج کی پارٹی میں کوئی بھی لڑکا دکھائی دیا تو اس کے موت کی ذمہ دار تم ہوگی جانِ من۔۔" وہ اس کی صبیح پیشانی کو چومتا شدت سے بولتا اسے ڈرنے پر مجبور کر گیا تھا۔ "میرے سارے بال خراب کر دیے ہیں آپ نے۔۔اب چھوڑ دیں۔۔" شازل کی نظر بےساختہ اس کے جوڑے پر گئی تھی جو شاید ڈھیلا تھا تبھی کھل گیا تھا۔نورے نے ملامتی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔ "اتنا تیار ہونے کی کوئی ضرورت نہیں سپملی بالوں کو پونی ڈال لو۔۔" شازل کے مشورے نے اسے مزید طیش دلایا تھا۔ "آپ تو چاہتے ہی یہ ہیں۔۔جان بوجھ کر میرے بال خراب کیے ہیں نہ ؟" اس کے بولنے پر شازل نے بھنویں بھینچتے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا تھا۔اس کے کوئی جواب نہ دینے پر اس سے دور ہٹتے نورے نے اپنے بالوں کو کھول کر دوبارہ جوڑا بنانے کی کوشش کی تھی جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئی تھی پھر غصے سے شازل کو گھورتے اس نے بالوں کو کسی بھی طرح ڈھیلے انداز میں باندھ لیا تھا شکر تھا آگے سے اس کا ہئیر سٹائل ٹھیک تھا۔ "دوبارہ میرے بالوں کو ہاتھ لگانے کی کوشش بھی مت کیجیے گا۔۔" وہ سرخ چہرے کے ساتھ بولی تھی۔ "اچھا۔۔۔چلو اب ہم لیٹ ہو رہے ہیں تم لڑکیاں تیار ہونے میں گھنٹوں لگا دیتے ہو۔۔" اس کے جواب پر نورے کا منہ کھل گیا تھا۔جو بلیک تھری پیس سوٹ میں انتہائی ہینڈسم اور ڈیشنگ لگ رہا تھا مگر نورے کا دل کر رہا تھا اس کے بال نوچ لے۔۔جو اپنی غلطی کا ملبہ اس کے سر ڈال رہا تھا۔ "میں ڈرائیور کے ساتھ چلی جاوں گی آپ جائیں۔۔" وہ لب بھینچ کر منہ پھولا گئی تھی۔شازل نے بغور اسے دیکھا تھا۔ "سیدھی طرح چلو گی یا اپنے انداز میں اٹھا کر لے چلوں؟" اس کی دھمکی پر وہ ہار مانتی اپنا ہینڈ بیگ لیتی اس کے ساتھ چل پڑی تھی۔
جاری ہے۔۔