Professor Khan Episode 10 Season 2 by Zanoor Writes
Professor Khan
Zanoor Writes
Episode 10
(Series 2 in Professor Shah Novel)
شازل سلگتی آنکھوں اور بےتاثر انداز میں نورے اور اعمار کو گھور رہا تھا۔وہ دونوں پریزینٹیشن دینے کے لیے ڈائس کے پاس کھڑے تھے۔اعمار لیپ ٹاپ سیٹ کر رہا تھا۔نورے اس کی مدد کروانے کی ناکام سی کوشش کر رہی تھی۔
دو بار اس کا ہاتھ اعمار کے ہاتھ سے ٹکرایا تھا جس سے ان دونوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑا تھا لیکن شازل کی آنکھوں میں مرچیاں ضرور چبھنے لگی تھیں۔
"تم دونوں کب تک سٹارٹ کروگے پریزینٹیشن ؟ "
اس نے تپے ہوئے لہجے میں پوچھا تھا۔نورے نے بےساختہ لیپ ٹاپ سےسر ہلاتے اس کی جانب دیکھا تھا جس کا چہرہ ہلکا ہلکا سرخ لگ رہا تھا۔
"بس دو منٹ سر۔۔"
اعمار کی طرف دیکھتے نورے نے دانت کچکچاتے مسکرا کر کہا تھا۔
"اونلی ٹو منٹ۔۔"
شازل لب بھینچ کر اپنے ہاتھ میں بندھی گھڑی کو دیکھتا سرد لہجے میں بولا تھا۔
اعمار نے لیپ ٹاپ کنیکٹ کرتے ہی پریزینٹیشن فینا سٹارٹ کردی تھی۔شازل سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا جو بار بار سلائیڈ چینج کرتا نورے کو سمائل پاس کر رہا تھا۔
اعمار کے ختم کرنے کے بعد نورے کی باری تھی۔وہ سب کی نظریں محسوس کرکے نروس ہوئی تھی۔
"مس نورے آج سٹارٹ کردیں گی آپ؟"
شازل کے طنزیہ لہجے میں پوچھنے پر اس نے گہرا سانس بھرا تھا۔اعمار نے اسے پانی کی بوٹل دیتے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اسے حوصلہ دیا تھا۔
"جسٹ کالم ڈاون۔۔"
اعمار اس کے کان کے قریب جھک کر بولا تھا۔نورے کو اس کا انداز بالکل بھی پسند نہیں آیا تھا۔لیکن اس کے حوصلہ دینے پر اسے بھی ہمت ملی تھی۔
دوسری جانب شازل جل اٹھا تھا۔اعمار کا ہاتھ نورے کے کندھے پر دیکھ کر اس نے زور سے مٹھیاں بھینچ لی تھیں۔
نورے نے ایک گہری سانس لیتے بولنا شروع کیا تھا اور اسے بولتے دیکھ کر سب حیران تھے اس کی پریزینٹیشن کمال کی تھی وہ سب چیزیں اچھے سے ایکسپلین کر رہی تھی۔
یہ سارا کمال اس نے رات کو اٹھ کر کیا تھا۔آدھی رات کو اس کی آنکھ کھلی تھی اور تب اس نے یہ تیار کرنا شروع کی تھی اسکی سلائیڈز کو دیکھتے اس نے بہت مشکل سے سب یاد کیا تھا اس میں اس کی مدد اعمار نے کی تھی۔
"تھینک یو۔۔"
وہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ پریزینٹیشن ختم کرتی بولی تھی۔سب سٹوڈنٹس نے تالیاں بجا کر اس کی حوصلہ افزائی کی تھی جس پر وہ کھل اٹھی تھی۔
"اٹس گڈ۔۔"
وہ جو شازل کی طرف امید سے بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی اس کے الفاظ سن کر اس کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔سونیا اسے دیکھ کر بس منہ بگاڑ رہی تھی۔نورے نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچ لی تھیں۔
ان دونوں کے بعد نیکسٹ گروپ اپنا ٹاپک پریزینٹ کرنے لگے تھے۔لیکچر ختم ہوتے ہی وہ کلاس سے نکل گئی تھی۔اعمار اسکے ساتھ ہی تھا۔
شازل کی سلگتی نظروں نے ان دونوں کو باتیں کرتے ہوئے باہر جاتے دیکھا تھا۔
دو بار اس کا ہاتھ اعمار کے ہاتھ سے ٹکرایا تھا جس سے ان دونوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑا تھا لیکن شازل کی آنکھوں میں مرچیاں ضرور چبھنے لگی تھیں۔
"تم دونوں کب تک سٹارٹ کروگے پریزینٹیشن ؟ "
اس نے تپے ہوئے لہجے میں پوچھا تھا۔نورے نے بےساختہ لیپ ٹاپ سےسر ہلاتے اس کی جانب دیکھا تھا جس کا چہرہ ہلکا ہلکا سرخ لگ رہا تھا۔
"بس دو منٹ سر۔۔"
اعمار کی طرف دیکھتے نورے نے دانت کچکچاتے مسکرا کر کہا تھا۔
"اونلی ٹو منٹ۔۔"
شازل لب بھینچ کر اپنے ہاتھ میں بندھی گھڑی کو دیکھتا سرد لہجے میں بولا تھا۔
اعمار نے لیپ ٹاپ کنیکٹ کرتے ہی پریزینٹیشن فینا سٹارٹ کردی تھی۔شازل سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا جو بار بار سلائیڈ چینج کرتا نورے کو سمائل پاس کر رہا تھا۔
اعمار کے ختم کرنے کے بعد نورے کی باری تھی۔وہ سب کی نظریں محسوس کرکے نروس ہوئی تھی۔
"مس نورے آج سٹارٹ کردیں گی آپ؟"
شازل کے طنزیہ لہجے میں پوچھنے پر اس نے گہرا سانس بھرا تھا۔اعمار نے اسے پانی کی بوٹل دیتے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اسے حوصلہ دیا تھا۔
"جسٹ کالم ڈاون۔۔"
اعمار اس کے کان کے قریب جھک کر بولا تھا۔نورے کو اس کا انداز بالکل بھی پسند نہیں آیا تھا۔لیکن اس کے حوصلہ دینے پر اسے بھی ہمت ملی تھی۔
دوسری جانب شازل جل اٹھا تھا۔اعمار کا ہاتھ نورے کے کندھے پر دیکھ کر اس نے زور سے مٹھیاں بھینچ لی تھیں۔
نورے نے ایک گہری سانس لیتے بولنا شروع کیا تھا اور اسے بولتے دیکھ کر سب حیران تھے اس کی پریزینٹیشن کمال کی تھی وہ سب چیزیں اچھے سے ایکسپلین کر رہی تھی۔
یہ سارا کمال اس نے رات کو اٹھ کر کیا تھا۔آدھی رات کو اس کی آنکھ کھلی تھی اور تب اس نے یہ تیار کرنا شروع کی تھی اسکی سلائیڈز کو دیکھتے اس نے بہت مشکل سے سب یاد کیا تھا اس میں اس کی مدد اعمار نے کی تھی۔
"تھینک یو۔۔"
وہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ پریزینٹیشن ختم کرتی بولی تھی۔سب سٹوڈنٹس نے تالیاں بجا کر اس کی حوصلہ افزائی کی تھی جس پر وہ کھل اٹھی تھی۔
"اٹس گڈ۔۔"
وہ جو شازل کی طرف امید سے بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی اس کے الفاظ سن کر اس کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔سونیا اسے دیکھ کر بس منہ بگاڑ رہی تھی۔نورے نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچ لی تھیں۔
ان دونوں کے بعد نیکسٹ گروپ اپنا ٹاپک پریزینٹ کرنے لگے تھے۔لیکچر ختم ہوتے ہی وہ کلاس سے نکل گئی تھی۔اعمار اسکے ساتھ ہی تھا۔
شازل کی سلگتی نظروں نے ان دونوں کو باتیں کرتے ہوئے باہر جاتے دیکھا تھا۔
"اب کیسی طبیعت ہے تمھاری ؟"
روحان نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اسکا ٹمریچر چیک کرتے پوچھا تھا۔
"اب بہتر ہوں بس سر میں درد ہورہی ہے۔۔"
وہ منہ پھولا کر بچوں کی طرح بول رہی تھی۔روحان کا دل بےساختہ اس کے مومی گالوں کو کھینچنے کا کیا تھا۔
"میں میڈسن دیتا ہوں اس سے کچھ فرق پڑے گا لیکن پہلے اٹھ کر فریش ہوجاو۔۔"
روحان نے اس کے دائیں گال کو زور سے کھینچتے کہا تھا۔وہ اپنے ہاتھوں کو قابو نہیں کرسکا تھا۔دانین نے بےساختہ اپنے سرخ پڑتے گال پر ہاتھ رکھتے حیرت سے روحان کو دیکھا تھا جو مسکرا رہا تھا۔
"تم کیوٹ لگ رہی تھی میں خود کو روک نہیں سکا۔۔"
وہ کندھے اچکاتا اس کی حیران نظروں کو دیکھتا بولا تھا۔دانین نے نچلا لب دانتوں تلے دباتے اسے گھورا تھا۔
"نیچے جھکیں۔۔"
اس نے سنجیدگی سے کہا تھا۔روحان سوالیہ نظروں سے دیکھتا اس کی جانب جھکا تھا۔دانین نے اس کے دونوں گال پکڑ کر زور سے کھینچے تھے۔۔
"ارے کچی کچی کوں۔۔"
وہ اس کے گال کھینچتے ہوئے بول رہی تھی۔روحان کو بےساختہ اس پر ڈھیروں پیار آیا تھا۔
"لے لیا بدلہ ؟ اب چلو اٹھو اور فریش ہوکر آو۔۔"
روحان نے مسکراتے ہوئے ائبرو اچکاتے کہا تھا۔دانین خوشی سے سر ہلاتی تیزی سے واشروم میں بھاگ گئی تھی۔وہ بھی مسکراتا ہوا روم سے باہر نکل گیا تھا۔
ملائکہ کو اپنے سامنے دیکھ کر اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔
"وہ تم پر بہت زیادہ منحصر ہونے لگی ہے۔۔"
ملائکہ سنجیدگی سے بولی تھی۔روحان خاموش ہی رہا تھا۔
"تمھیں پتا ہے اس نے دو سال تک کسی کو خود کو چھونے نہیں دیا تھا۔صرف تم وہ واحد شخص ہو جس کا لمس وہ دوبارہ برداشت کرنے لگی ہے۔۔"
ملائکہ اسے جانچتی نگاہوں سے دیکھتی بول رہی تھی۔روحان بےتاثر انداز میں کھڑا تھا جبکہ دل میں خوشی کے کئی دلیپ جل اٹھے تھے۔کہ وہ اس کے لیے اتنا خاص ہے۔۔
"وہ تمھاری عادی ہونے لگی ہے۔۔یہ ٹھیک نہیں ہے۔۔وہ بہت جلد یہاں سے واپس پاکستان چلی جائے گی۔۔ اس سے دور رہو روحان وہ واپس جاکر بکھر جائے گی۔۔تم اسے اگر سنبھال رہے ہو تو تمھاری جدائی اسے دوبارہ بکھیر دے گی۔۔"
ملائکہ کی باتیں سن کر روحان کی گردن کی شریانیں غصے سے ابھر پڑی تھیں۔
"میں اسے بکھرنے نہیں دوں گا۔۔آپ فکر مت کریں۔۔"
وہ پرتپش لہجے میں بولا تھا۔ملائکہ کے ہونٹ ہلکے سے اوپر اٹھے تھے۔
"اس کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔آغا خان کا تو پتا نہیں لیکن میں تمھیں نہیں چھوڑوں گی۔۔"
ملائکہ نے اسے دھمکی دی تھی۔
"آپ کو لگتا ہے میں اس کے ساتھ کچھ غلط کروں گا۔۔؟"
اس نے سنجیدگی سے ائبرو اچکاتے پوچھا تھا۔ملائکہ نے سر نفی میں ہلایا تھا۔
"بہتر ہوگا آپ اپنے کام سے کام رکھیں اور مجھے میرا کام کرنے دیں۔۔"
وہ ملائکہ کو دوٹوک انداز میں بولتا تیزی سے نیچت چلا گیا تھا۔ملائکہ کی پرسوچ نگاہوں نےاس کا دور تک پیچھا کیا تھا۔
روحان نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اسکا ٹمریچر چیک کرتے پوچھا تھا۔
"اب بہتر ہوں بس سر میں درد ہورہی ہے۔۔"
وہ منہ پھولا کر بچوں کی طرح بول رہی تھی۔روحان کا دل بےساختہ اس کے مومی گالوں کو کھینچنے کا کیا تھا۔
"میں میڈسن دیتا ہوں اس سے کچھ فرق پڑے گا لیکن پہلے اٹھ کر فریش ہوجاو۔۔"
روحان نے اس کے دائیں گال کو زور سے کھینچتے کہا تھا۔وہ اپنے ہاتھوں کو قابو نہیں کرسکا تھا۔دانین نے بےساختہ اپنے سرخ پڑتے گال پر ہاتھ رکھتے حیرت سے روحان کو دیکھا تھا جو مسکرا رہا تھا۔
"تم کیوٹ لگ رہی تھی میں خود کو روک نہیں سکا۔۔"
وہ کندھے اچکاتا اس کی حیران نظروں کو دیکھتا بولا تھا۔دانین نے نچلا لب دانتوں تلے دباتے اسے گھورا تھا۔
"نیچے جھکیں۔۔"
اس نے سنجیدگی سے کہا تھا۔روحان سوالیہ نظروں سے دیکھتا اس کی جانب جھکا تھا۔دانین نے اس کے دونوں گال پکڑ کر زور سے کھینچے تھے۔۔
"ارے کچی کچی کوں۔۔"
وہ اس کے گال کھینچتے ہوئے بول رہی تھی۔روحان کو بےساختہ اس پر ڈھیروں پیار آیا تھا۔
"لے لیا بدلہ ؟ اب چلو اٹھو اور فریش ہوکر آو۔۔"
روحان نے مسکراتے ہوئے ائبرو اچکاتے کہا تھا۔دانین خوشی سے سر ہلاتی تیزی سے واشروم میں بھاگ گئی تھی۔وہ بھی مسکراتا ہوا روم سے باہر نکل گیا تھا۔
ملائکہ کو اپنے سامنے دیکھ کر اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔
"وہ تم پر بہت زیادہ منحصر ہونے لگی ہے۔۔"
ملائکہ سنجیدگی سے بولی تھی۔روحان خاموش ہی رہا تھا۔
"تمھیں پتا ہے اس نے دو سال تک کسی کو خود کو چھونے نہیں دیا تھا۔صرف تم وہ واحد شخص ہو جس کا لمس وہ دوبارہ برداشت کرنے لگی ہے۔۔"
ملائکہ اسے جانچتی نگاہوں سے دیکھتی بول رہی تھی۔روحان بےتاثر انداز میں کھڑا تھا جبکہ دل میں خوشی کے کئی دلیپ جل اٹھے تھے۔کہ وہ اس کے لیے اتنا خاص ہے۔۔
"وہ تمھاری عادی ہونے لگی ہے۔۔یہ ٹھیک نہیں ہے۔۔وہ بہت جلد یہاں سے واپس پاکستان چلی جائے گی۔۔ اس سے دور رہو روحان وہ واپس جاکر بکھر جائے گی۔۔تم اسے اگر سنبھال رہے ہو تو تمھاری جدائی اسے دوبارہ بکھیر دے گی۔۔"
ملائکہ کی باتیں سن کر روحان کی گردن کی شریانیں غصے سے ابھر پڑی تھیں۔
"میں اسے بکھرنے نہیں دوں گا۔۔آپ فکر مت کریں۔۔"
وہ پرتپش لہجے میں بولا تھا۔ملائکہ کے ہونٹ ہلکے سے اوپر اٹھے تھے۔
"اس کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔آغا خان کا تو پتا نہیں لیکن میں تمھیں نہیں چھوڑوں گی۔۔"
ملائکہ نے اسے دھمکی دی تھی۔
"آپ کو لگتا ہے میں اس کے ساتھ کچھ غلط کروں گا۔۔؟"
اس نے سنجیدگی سے ائبرو اچکاتے پوچھا تھا۔ملائکہ نے سر نفی میں ہلایا تھا۔
"بہتر ہوگا آپ اپنے کام سے کام رکھیں اور مجھے میرا کام کرنے دیں۔۔"
وہ ملائکہ کو دوٹوک انداز میں بولتا تیزی سے نیچت چلا گیا تھا۔ملائکہ کی پرسوچ نگاہوں نےاس کا دور تک پیچھا کیا تھا۔
اعمار کے انسسٹ کرنے پر وہ اس کے ساتھ لنچ کر رہی تھی۔اسے پتا چلا تھا اعمار کی انگیجمنٹ اپنی چچا زاد سے ہوچکی ہے جس سےوہ بچپن سے پیار کرتا ہے۔۔اس کی باتیں سن سن کر نورے کے کان پک گئے تھے۔
شازل جو کیفے کے سامنے سے گزرتا میٹنگ روم کی طرف جارہا تھا۔اس کی نظروں سے نورے اور اعمار چھپی نہیں رہ سکے تھے۔اس نے بمشکل اپنا غصہ قابو کیا تھا۔
اسے اپنی کیفیت سمجھ نہیں آرہی تھی دل میں ایک عجیب سی آگ لگی ہوئی تھی۔نورے کو کسی اور کے ساتھ دیکھنا اسے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔
"ہماری نیکسٹ کلاس کا ٹائم ہوگیا ہے اب ہمیں چلنا چاہیے۔۔"
وہ اپنا جوس ختم کرتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
"ہاں چلو۔۔"
اعمار بل پے کرتا کھڑا ہوا تھا۔
"اس کی ضرورت نہیں میں اپنا بل خود پے کرسکتی ہوں۔۔"
نورے نے چند پیسے نکال کر ٹیبل پر رکھ دیے تھے۔اعمار نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تھا جب نورے کے ائبرو اچکانے پر وہ خاموش ہوگیا تھا۔
"اوکے میم۔۔ آپ کی بات ہی الگ ہے۔۔"
وہ مسکرا کر بولا تھا۔
"ایکسکیوز می نورے تمھیں سر شازل اپنے آفس میں بلا رہے ہیں۔۔"
وہ جو کلاس میں اینٹر ہونے لگی تھی اسے سی آر نے روکتے ہوئے کیا تھا۔نورے نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔
شازل کو اس سے کیا کام تھا بھلا ڈانٹنے یا غنڈہ گردی کرنے کے علاوہ۔۔
"آپ جائیں میں آتی ہوں۔۔"
وہ اعمار سے بولتی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی شازل کے آفس کی طرف بڑھنے لگی تھی۔
وہ ناک کرتی آفس میں داخل ہوئی تھی جب اچانک اسے گردن سے پکڑتے شازل نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے اسے بند دروازے کے ساتھ لگایا تھا۔
نورے کی آنکھیں ایک دم وحشت سے پھیل گئی تھیں۔اس نے پریشانی سے شازل کے چہرے کی طرف دیکھا تھا۔
"چیخنا مت۔۔"
شازل نے تنبیہہ کی تھی۔نورے کے ماتھے پر تیوری چڑھی تھی۔
"آپ کا دماغی توازن ٹھیک ہے ؟ چھوڑیں مجھے۔۔"
وہ شازل کے منہ سے ہاتھ ہٹانے پر بنا لحاظ کیے بولی تھی۔
"شٹ اپ۔۔"
اس نے بےساختہ نورے کے گلے پر گرفت سخت کی تھی۔
"تم اس سےدور رہو۔۔"
شازل دھیمی آواز میں غرایا تھا۔نورے نے ناسمجھ نظروں سے اسے دیکھا تھا۔اس کا ہاتھ اپنے گلے پر محسوس کرتے اس نے ایک پل کو اپنا سانس روک لیا تھا۔
"کس سے ؟"
نورے نے ناسمجھی سے پوچھا تھا۔
"اعمار سے۔۔ جس کے ساتھ تم چپک چپک کر بیٹھ رہی ہو آج کل۔۔"
وہ غصے سے پھنکارا تھا۔
"آپ کا میرے اوپر ایسا کوئی حق نہیں ہے جو مجھ پر حکم چلا رہے ہیں۔"
وہ آنکھیں گھما کر بولتی اس کے غصے کو مزید ہوا دے گئی تھی۔
"حق۔۔؟"
وہ منہ میں بڑبڑایا تھا۔
"تم میری بات نہیں مانو گی ؟"
شازل نے ایک دم اس کا گلا چھوڑتے پوچھا تھا۔نورے نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے نفی میں سر ہلایا تھا۔
شازل نے ایک دم اپنی ویسٹ سے گن نکالتے اس کے سر پر رکھی تھی۔
"اگر تم اس سے دور نہ رہی تو جو میں اعمار کے ساتھ کروں گا اس کی ذمہ دار تم ہوگی۔۔"
وہ گن کی ٹھنڈی نال اس کے ماتھے پر دباتا بولا تھا۔ نورے کے چہرے کی ہوائیاں اڑی دیکھ کر اسے سرور سا مل گیا تھا۔
"آپ کی غنڈہ گردی سے میں ڈرنے والی نہیں ہوں۔۔"
وہ چٹخ کر بولی تھی۔اس کی زبردستی پر انگ انگ میں آگ سی لگ گئی تھی۔
"تم مجھ سے ڈرتی نہیں ہو؟"
شازل نے طنزیہ مسکرا کر پوچھا تھا۔نورے کو اس کی مسکراہٹ سے خوف محسوس ہوا تھا۔
"نہیں۔۔"
نورے نے بےساختہ سر نفی میں ہلایا تھا۔وہ اسے چیلنج کر رہی تھی۔
"واقعی؟"
اس کے چہرے پر جھولتی لٹ کو گن سے چھوتے بےتاثر انداز میں پوچھا تھا۔
"میرا لیکچر سٹارٹ ہوگیا ہے میرے پاس آپ کی فضول باتوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔۔"
وہ لب دباتی اپنی نظریں شازل سے ملاتی بولی تھی۔
"اس لڑکے سے دور رہو ورنہ اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔۔"
نورے سے دور ہٹتا وہ درشت انداز میں بولا تھا۔نورے نے اس کی جانب دیکھتے سر نفی میں ہلایا تھا ساتھ ہی موقع پاتے وہ فورا آفس سے نکل گئی تھی۔
"ڈیم اٹ دماغ خراب ہوگیا ہے میرا۔۔"
وہ دروازے پر ٹانگ مارتا اپنے بالوں کو زور سے مٹھیوں میں بھینچ گیا تھا۔دل میں ایک الگ سی آگ لگی ہوئی تھی جو اس کی سمجھ سے باہر تھی۔
شازل جو کیفے کے سامنے سے گزرتا میٹنگ روم کی طرف جارہا تھا۔اس کی نظروں سے نورے اور اعمار چھپی نہیں رہ سکے تھے۔اس نے بمشکل اپنا غصہ قابو کیا تھا۔
اسے اپنی کیفیت سمجھ نہیں آرہی تھی دل میں ایک عجیب سی آگ لگی ہوئی تھی۔نورے کو کسی اور کے ساتھ دیکھنا اسے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔
"ہماری نیکسٹ کلاس کا ٹائم ہوگیا ہے اب ہمیں چلنا چاہیے۔۔"
وہ اپنا جوس ختم کرتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
"ہاں چلو۔۔"
اعمار بل پے کرتا کھڑا ہوا تھا۔
"اس کی ضرورت نہیں میں اپنا بل خود پے کرسکتی ہوں۔۔"
نورے نے چند پیسے نکال کر ٹیبل پر رکھ دیے تھے۔اعمار نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تھا جب نورے کے ائبرو اچکانے پر وہ خاموش ہوگیا تھا۔
"اوکے میم۔۔ آپ کی بات ہی الگ ہے۔۔"
وہ مسکرا کر بولا تھا۔
"ایکسکیوز می نورے تمھیں سر شازل اپنے آفس میں بلا رہے ہیں۔۔"
وہ جو کلاس میں اینٹر ہونے لگی تھی اسے سی آر نے روکتے ہوئے کیا تھا۔نورے نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔
شازل کو اس سے کیا کام تھا بھلا ڈانٹنے یا غنڈہ گردی کرنے کے علاوہ۔۔
"آپ جائیں میں آتی ہوں۔۔"
وہ اعمار سے بولتی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی شازل کے آفس کی طرف بڑھنے لگی تھی۔
وہ ناک کرتی آفس میں داخل ہوئی تھی جب اچانک اسے گردن سے پکڑتے شازل نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے اسے بند دروازے کے ساتھ لگایا تھا۔
نورے کی آنکھیں ایک دم وحشت سے پھیل گئی تھیں۔اس نے پریشانی سے شازل کے چہرے کی طرف دیکھا تھا۔
"چیخنا مت۔۔"
شازل نے تنبیہہ کی تھی۔نورے کے ماتھے پر تیوری چڑھی تھی۔
"آپ کا دماغی توازن ٹھیک ہے ؟ چھوڑیں مجھے۔۔"
وہ شازل کے منہ سے ہاتھ ہٹانے پر بنا لحاظ کیے بولی تھی۔
"شٹ اپ۔۔"
اس نے بےساختہ نورے کے گلے پر گرفت سخت کی تھی۔
"تم اس سےدور رہو۔۔"
شازل دھیمی آواز میں غرایا تھا۔نورے نے ناسمجھ نظروں سے اسے دیکھا تھا۔اس کا ہاتھ اپنے گلے پر محسوس کرتے اس نے ایک پل کو اپنا سانس روک لیا تھا۔
"کس سے ؟"
نورے نے ناسمجھی سے پوچھا تھا۔
"اعمار سے۔۔ جس کے ساتھ تم چپک چپک کر بیٹھ رہی ہو آج کل۔۔"
وہ غصے سے پھنکارا تھا۔
"آپ کا میرے اوپر ایسا کوئی حق نہیں ہے جو مجھ پر حکم چلا رہے ہیں۔"
وہ آنکھیں گھما کر بولتی اس کے غصے کو مزید ہوا دے گئی تھی۔
"حق۔۔؟"
وہ منہ میں بڑبڑایا تھا۔
"تم میری بات نہیں مانو گی ؟"
شازل نے ایک دم اس کا گلا چھوڑتے پوچھا تھا۔نورے نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے نفی میں سر ہلایا تھا۔
شازل نے ایک دم اپنی ویسٹ سے گن نکالتے اس کے سر پر رکھی تھی۔
"اگر تم اس سے دور نہ رہی تو جو میں اعمار کے ساتھ کروں گا اس کی ذمہ دار تم ہوگی۔۔"
وہ گن کی ٹھنڈی نال اس کے ماتھے پر دباتا بولا تھا۔ نورے کے چہرے کی ہوائیاں اڑی دیکھ کر اسے سرور سا مل گیا تھا۔
"آپ کی غنڈہ گردی سے میں ڈرنے والی نہیں ہوں۔۔"
وہ چٹخ کر بولی تھی۔اس کی زبردستی پر انگ انگ میں آگ سی لگ گئی تھی۔
"تم مجھ سے ڈرتی نہیں ہو؟"
شازل نے طنزیہ مسکرا کر پوچھا تھا۔نورے کو اس کی مسکراہٹ سے خوف محسوس ہوا تھا۔
"نہیں۔۔"
نورے نے بےساختہ سر نفی میں ہلایا تھا۔وہ اسے چیلنج کر رہی تھی۔
"واقعی؟"
اس کے چہرے پر جھولتی لٹ کو گن سے چھوتے بےتاثر انداز میں پوچھا تھا۔
"میرا لیکچر سٹارٹ ہوگیا ہے میرے پاس آپ کی فضول باتوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔۔"
وہ لب دباتی اپنی نظریں شازل سے ملاتی بولی تھی۔
"اس لڑکے سے دور رہو ورنہ اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔۔"
نورے سے دور ہٹتا وہ درشت انداز میں بولا تھا۔نورے نے اس کی جانب دیکھتے سر نفی میں ہلایا تھا ساتھ ہی موقع پاتے وہ فورا آفس سے نکل گئی تھی۔
"ڈیم اٹ دماغ خراب ہوگیا ہے میرا۔۔"
وہ دروازے پر ٹانگ مارتا اپنے بالوں کو زور سے مٹھیوں میں بھینچ گیا تھا۔دل میں ایک الگ سی آگ لگی ہوئی تھی جو اس کی سمجھ سے باہر تھی۔
"ادھر بیٹھو۔۔"
وہ اس کے لیے کیچن سے کھانا لے کر آیا تھا۔اسے بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے اس نے سائیڈ ٹیبل سے کھانے کی ٹرے اٹھا کر سامنے رکھی تھی۔
"پھر سے سوپ۔۔۔"
اس نے منہ بنایا تھا۔کل تو وہ شرافت سے پی گئی تھی آج اس کا دل کوئی چٹ پٹی سے چیز کھانے کا تھا۔
"ہاں جب تک تم ٹھیک نہیں ہوجاتی یہ ہی سوپ پینے کو ملے گا۔۔"
روحان نے سینے پر ہاتھ باندھتے کہا تھا وہ کرسی کھینچتا اس کے سامنے بیٹھ گیا تھا۔
"میرا دل نہیں کر رہا۔۔"
اس نے ناک چڑھائی۔۔
"اگر تم نے سوپ پی کر میڈسن لے لی پھر تم مجھ سے جو سوال پوچھو گی میں اس کا جواب دے دوں گا۔۔"
روحان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا دانین نے جھٹ سے اس کی بات سنتے سوپ اٹھا کر پینا شروع کیا تھا۔
"کیا میں تین سوال پوچھ سکتی ہوں؟"
اس نے سوپ پیتے تین انگلیاں اٹھاتے پوچھا تھا۔روحان نے سر ہلایا تھا۔
وہ جلدی سے سوپ ختم کرتی میڈسن بھی لے چکی تھی۔روحان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔اس کی تیزی نے اسے مسکرانے پر مجبور کردیا تھا۔
"کیا آپ سنگل ہیں؟"
اس نے سنجیدگی سے پوچھا تھا۔اس کے چہرے پر چھائے تناو بھرے تاثرات نے روحان کی مسکراہٹ گہری کردی تھی۔
"تمھیں کیا لگتا ہے اگر میں میرڈ ہوتا تو میری بیوی مجھے ایسی جوب کرنے دیتی ؟"
روحان نے بھنویں اچکاتے پوچھا تھا۔دانین نے ایک گہری سانس خارج کی تھی۔اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی تھی۔
"کیا آپ کی زندگی میں کوئی لڑکی ہے۔۔ م۔۔میرا مطلب جس سے آپ پیار کرتے ہوں اور شادی کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔۔"
دانین نے اپنے چہرے پر آئی لٹ کو کان کے پیچھے اڑستے پوچھا تھا۔
"پہلے تو ایسی کوئی لڑکی نہیں تھی لیکن اب ہے جس سے میں شادی کا ارادہ رکھتا ہوں اگر زندگی نے ساتھ دیا تو اسے ضرور اپنا ہمسفر بناوں گا۔۔"
اس کے جواب پر وہ مرجھا گئی تھی۔جسے روحان نے بغور دیکھا تھا۔
"باقی ایک سوال میں بعد میں پوچھوں گی ابھی مجھے نیند آرہی ہے۔۔"
وہ تیزی سے بولتی کمبل اوڑھتی لیٹ گئی تھی۔روحان خاموشی سے برتن لیتا لائٹس آف کرکے نکل گیا تھا۔
وہ اس کے لیے کیچن سے کھانا لے کر آیا تھا۔اسے بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے اس نے سائیڈ ٹیبل سے کھانے کی ٹرے اٹھا کر سامنے رکھی تھی۔
"پھر سے سوپ۔۔۔"
اس نے منہ بنایا تھا۔کل تو وہ شرافت سے پی گئی تھی آج اس کا دل کوئی چٹ پٹی سے چیز کھانے کا تھا۔
"ہاں جب تک تم ٹھیک نہیں ہوجاتی یہ ہی سوپ پینے کو ملے گا۔۔"
روحان نے سینے پر ہاتھ باندھتے کہا تھا وہ کرسی کھینچتا اس کے سامنے بیٹھ گیا تھا۔
"میرا دل نہیں کر رہا۔۔"
اس نے ناک چڑھائی۔۔
"اگر تم نے سوپ پی کر میڈسن لے لی پھر تم مجھ سے جو سوال پوچھو گی میں اس کا جواب دے دوں گا۔۔"
روحان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا دانین نے جھٹ سے اس کی بات سنتے سوپ اٹھا کر پینا شروع کیا تھا۔
"کیا میں تین سوال پوچھ سکتی ہوں؟"
اس نے سوپ پیتے تین انگلیاں اٹھاتے پوچھا تھا۔روحان نے سر ہلایا تھا۔
وہ جلدی سے سوپ ختم کرتی میڈسن بھی لے چکی تھی۔روحان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔اس کی تیزی نے اسے مسکرانے پر مجبور کردیا تھا۔
"کیا آپ سنگل ہیں؟"
اس نے سنجیدگی سے پوچھا تھا۔اس کے چہرے پر چھائے تناو بھرے تاثرات نے روحان کی مسکراہٹ گہری کردی تھی۔
"تمھیں کیا لگتا ہے اگر میں میرڈ ہوتا تو میری بیوی مجھے ایسی جوب کرنے دیتی ؟"
روحان نے بھنویں اچکاتے پوچھا تھا۔دانین نے ایک گہری سانس خارج کی تھی۔اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی تھی۔
"کیا آپ کی زندگی میں کوئی لڑکی ہے۔۔ م۔۔میرا مطلب جس سے آپ پیار کرتے ہوں اور شادی کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔۔"
دانین نے اپنے چہرے پر آئی لٹ کو کان کے پیچھے اڑستے پوچھا تھا۔
"پہلے تو ایسی کوئی لڑکی نہیں تھی لیکن اب ہے جس سے میں شادی کا ارادہ رکھتا ہوں اگر زندگی نے ساتھ دیا تو اسے ضرور اپنا ہمسفر بناوں گا۔۔"
اس کے جواب پر وہ مرجھا گئی تھی۔جسے روحان نے بغور دیکھا تھا۔
"باقی ایک سوال میں بعد میں پوچھوں گی ابھی مجھے نیند آرہی ہے۔۔"
وہ تیزی سے بولتی کمبل اوڑھتی لیٹ گئی تھی۔روحان خاموشی سے برتن لیتا لائٹس آف کرکے نکل گیا تھا۔
وہ اگلے لیکچرز چھوڑتی ڈرائیور کے ساتھ واپس گھر آچکی تھی۔افرحہ اس وقت یونیورسٹی تھی شاہزیب اور میر شاہ اپنے آفس گئے ہوئے تھے۔
صرف فاطمہ بیگم ہی گھر تھیں۔اس کا ارادہ سیدھا اپنے کمرے میں جانے کا تھا لیکن راستے میں ہی فاطمہ بیگم نے اسے روک لیا تھا۔
"شاہزیب کے آتے ہی کچھ زیادہ پر نہیں نکل آئے تمھارے۔۔؟"
فاطمہ بیگم نے نخوت سے پوچھا تھا۔اب تو شاہزیب اور نورے دونوں ہی سے انھیں نفرت سی ہوگئی تھی۔
"میں آپ سے بات نہیں کرنا چاہتی۔۔راستہ چھوڑیں میرا۔۔"
نورے نے لب بھینچ کر کہا تھا۔فاطمہ بیگم نے آگے بڑھتے اس کے دوپٹے سے نظر آتے بالوں کو مٹھی میں دبوچا تھا۔نورے نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی تھی۔وہ ان سے اپنے بال چھڑوانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
"یہ بھولنے کی کوشش مت کرو جب تم اپنی نحوست سے اپنی ماں کو کھا گئی تھی تب میں نے ہی تمھیں سنبھالا تھا۔"
ان کے لہجہ کا زہر اور لفظوں کے تیر نے اسے بری طرح زخمی کیا تھا۔اس کی ساری مزاحمتیں ایک دم رک گئی تھیں۔وہ ساکت رہ گئی تھی۔
"دوبارہ اپنے باپ یا بھائی کو میرے خلاف کرنے کا سوچنا بھی مت تمھارا وہ حشر کروں گی خود کو بھی دیکھنے کے قابل نہیں رہو گی۔۔"
فاطمہ بیگم زہر خند لہجے میں پھنکاری تھیں۔
"کپڑے بدل کر نیچے آو اور کھانا بناو میں تم لوگوں کی نوکر نہیں ہوں۔۔دفع ہوجاو۔۔"
فاطمہ بیگم نے جھٹکے سے اس کے بال چھوڑتے کہا تھا۔نورے لب بھینچ کر ساکت نظروں سے زمین کو دیکھتے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔
کپڑے چینج کرکے اس نے فاطمہ بیگم کے کہنے پر سارے کام کردیے تھے۔وہ چاہ کر بھی ان کا مقابلہ نہیں کر پارہی تھی۔
صرف فاطمہ بیگم ہی گھر تھیں۔اس کا ارادہ سیدھا اپنے کمرے میں جانے کا تھا لیکن راستے میں ہی فاطمہ بیگم نے اسے روک لیا تھا۔
"شاہزیب کے آتے ہی کچھ زیادہ پر نہیں نکل آئے تمھارے۔۔؟"
فاطمہ بیگم نے نخوت سے پوچھا تھا۔اب تو شاہزیب اور نورے دونوں ہی سے انھیں نفرت سی ہوگئی تھی۔
"میں آپ سے بات نہیں کرنا چاہتی۔۔راستہ چھوڑیں میرا۔۔"
نورے نے لب بھینچ کر کہا تھا۔فاطمہ بیگم نے آگے بڑھتے اس کے دوپٹے سے نظر آتے بالوں کو مٹھی میں دبوچا تھا۔نورے نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی تھی۔وہ ان سے اپنے بال چھڑوانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
"یہ بھولنے کی کوشش مت کرو جب تم اپنی نحوست سے اپنی ماں کو کھا گئی تھی تب میں نے ہی تمھیں سنبھالا تھا۔"
ان کے لہجہ کا زہر اور لفظوں کے تیر نے اسے بری طرح زخمی کیا تھا۔اس کی ساری مزاحمتیں ایک دم رک گئی تھیں۔وہ ساکت رہ گئی تھی۔
"دوبارہ اپنے باپ یا بھائی کو میرے خلاف کرنے کا سوچنا بھی مت تمھارا وہ حشر کروں گی خود کو بھی دیکھنے کے قابل نہیں رہو گی۔۔"
فاطمہ بیگم زہر خند لہجے میں پھنکاری تھیں۔
"کپڑے بدل کر نیچے آو اور کھانا بناو میں تم لوگوں کی نوکر نہیں ہوں۔۔دفع ہوجاو۔۔"
فاطمہ بیگم نے جھٹکے سے اس کے بال چھوڑتے کہا تھا۔نورے لب بھینچ کر ساکت نظروں سے زمین کو دیکھتے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔
کپڑے چینج کرکے اس نے فاطمہ بیگم کے کہنے پر سارے کام کردیے تھے۔وہ چاہ کر بھی ان کا مقابلہ نہیں کر پارہی تھی۔
"شکر ہے وہ پروفیسر یونیورسٹی چھوڑ گئے۔۔"
افرحہ نے شاہزیب کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتے کہا تھا اسے آج ہی رحمان کے یونیورسٹی چھوڑنے کا پتا چلا تھا جس پر وہ بےحد خوش تھی۔اب نئے پروفیسر آگئے تھے اسے امید تھی وہ اسے پاس کردیں گے۔۔
"وہ اس لائق ہی نہیں تھا اسے ایز آ پروفیسر رکھا جاتا۔۔"
شاہزیب پراسرار سا مسکراتا بولا تھا۔اس نے ہی اپنے کنیکشنز استعمال کرتے اسے یونیورسٹی سے نکلوایا تھا۔بھلا اسے کہاں منظور تھا کسی کی وجہ سے اس کی بیوی کی آنکھوں میں آنسووں آئیں۔۔
"شاہزیب۔۔کہاں گم ہیں میں کب سے بلا رہی ہوں۔۔"
افرحہ کے کندھے پر ہاتھ رکھنے سے وہ اپنے خیالات کی دنیا سے باہر آیا تھا۔اس نے بےساختہ افرحہ کا ہاتھ پکڑتے اپنے ہونٹوں سے لگایا تھا۔
"کسی حسین اپسرا کی سوچوں میں گم ہوں۔۔"
شاہزیب نے اسے تنگ کرنے کے لیے سنجیدگی سے کہا تھا۔
"شاہزیب ایسا سوچیے گا بھی مت۔۔ میں آپ کی جان لے لوں گی۔۔"
وہ غصے سے تپ اٹھی تھی۔شاہزیب اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتا محظوظ ہورہا تھا۔
"کیسے لو گی؟ میری جان تو پہلے ہی کسی اور کے پاس ہے۔۔"
وہ مسکراہٹ دباتا انتہائی سنجیدگی سے بولا تھا۔
"شاہزیب۔۔مجھے تنگ مت کریں۔۔"
وہ نروٹھے انداز میں بولی تھی۔شاہزیب نے اس کا ہاتھ دوبارہ تھام کر اپنے ہونٹوں سے لگایا تھا۔
"تمھارے علاوہ مجھے کوئی نہیں پسند یار۔۔"
"تم ہی میری جانِ دل ہو۔۔"
شاہزیب نے اس کی جانب مڑتے دلفریبی سے مسکرا کہا تھا۔افرحہ کے ہونٹوں پر ایک حسین مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔
افرحہ نے شاہزیب کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتے کہا تھا اسے آج ہی رحمان کے یونیورسٹی چھوڑنے کا پتا چلا تھا جس پر وہ بےحد خوش تھی۔اب نئے پروفیسر آگئے تھے اسے امید تھی وہ اسے پاس کردیں گے۔۔
"وہ اس لائق ہی نہیں تھا اسے ایز آ پروفیسر رکھا جاتا۔۔"
شاہزیب پراسرار سا مسکراتا بولا تھا۔اس نے ہی اپنے کنیکشنز استعمال کرتے اسے یونیورسٹی سے نکلوایا تھا۔بھلا اسے کہاں منظور تھا کسی کی وجہ سے اس کی بیوی کی آنکھوں میں آنسووں آئیں۔۔
"شاہزیب۔۔کہاں گم ہیں میں کب سے بلا رہی ہوں۔۔"
افرحہ کے کندھے پر ہاتھ رکھنے سے وہ اپنے خیالات کی دنیا سے باہر آیا تھا۔اس نے بےساختہ افرحہ کا ہاتھ پکڑتے اپنے ہونٹوں سے لگایا تھا۔
"کسی حسین اپسرا کی سوچوں میں گم ہوں۔۔"
شاہزیب نے اسے تنگ کرنے کے لیے سنجیدگی سے کہا تھا۔
"شاہزیب ایسا سوچیے گا بھی مت۔۔ میں آپ کی جان لے لوں گی۔۔"
وہ غصے سے تپ اٹھی تھی۔شاہزیب اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتا محظوظ ہورہا تھا۔
"کیسے لو گی؟ میری جان تو پہلے ہی کسی اور کے پاس ہے۔۔"
وہ مسکراہٹ دباتا انتہائی سنجیدگی سے بولا تھا۔
"شاہزیب۔۔مجھے تنگ مت کریں۔۔"
وہ نروٹھے انداز میں بولی تھی۔شاہزیب نے اس کا ہاتھ دوبارہ تھام کر اپنے ہونٹوں سے لگایا تھا۔
"تمھارے علاوہ مجھے کوئی نہیں پسند یار۔۔"
"تم ہی میری جانِ دل ہو۔۔"
شاہزیب نے اس کی جانب مڑتے دلفریبی سے مسکرا کہا تھا۔افرحہ کے ہونٹوں پر ایک حسین مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔
جاری ہے۔۔