Professor Khan Episode 17 to 21 - Season 2 by Zanoor Writes

List of Today's Episodes

Professor Khan

Zanoor Writes
Episode 17
(Series 2 in Professor Shah Novel)

 "ملائکہ مجھے بات کرنی ہے۔۔"
آغا خان نے کیچن میں داخل ہوتے اسے کھانا بناتے دیکھ کر کہا تھا۔
"ابھی میرے پاس وقت نہیں ہے۔۔"
وہ بنا آغا خان کی طرف دیکھے سپاٹ لہجے میں بولی تھی۔آغا خان نے آنکھیں سکیڑ کر ملائکہ کو دیکھا تھا۔

"تم دن بدن بدتمیز ہوتی جارہی ہو ملائکہ۔۔"
وہ سخت لہجے میں بولے تھے۔
"میں ایسی ہی ہوں اب کیا کریں گے آپ؟ گھر سے نکال دیں گے مجھے؟ کوئی بات نہیں شیلٹر ہوم چلی جاوں گی۔۔"
وہ چولہے پر بنتے چکن کو بھونتے ہوئے بولی تھی۔

"ملائکہ سٹاپ اٹ۔۔ میں مزید بدتمیزی برداشت نہیں کروں گا۔۔"
وہ اونچی آواز میں بولے تھے۔ملائکہ نے سختی سے لب بھینچ لیے تھے۔

"میرے بھی ضبط کی ایک انتہا ہے خان صاحب۔۔!!"
وہ آنچ ہلکی کرتی آغا خان کی جانب مڑتی دبا دبا سا چیخی تھیں۔
"کیا چاہتی ہو تم ؟"
وہ لب بھینچ کر اونچی آواز میں پوچھ رہے تھے۔
"بابا۔۔"
وہ کھانے کا پوچھنے آئی تھی جب ان کو ایک دوسرے پر چیختے دیکھ کر دانین حیران رہ گئی تھی اس نے اپنی زندگی میں کبھی ان کو لڑتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
"کچھ نہیں ہوا دانین گھبراو مت بس تمھارے بابا سٹھیا گئے ہیں۔۔"
ملائکہ تیز لہجے میں بولتی چولہہ بند کرتی تیزی سے کیچن سے نکل گئی تھی۔

"بابا آپ کو ملی سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔"
دانین افسوس سے بولتی تیزی سے ملائکہ کی طرف بڑھ گئی تھی۔آغا خان اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے خاموشی سے وہاں سے نکل گئے تھے۔

"کیا ہوا منہ بنا کر کیوں کھڑی ہو؟"
روحان جو اپنے باقی ساتھیوں سے بات کرکے اندر آیا تھا دانین کو اداس کھڑا دیکھ کر پوچھنے لگا تھا۔

روحان اس کو نظروں کے حصار میں رکھتا اپنے لیے پانی ڈالنے لگا تھا۔دانین نے اس کی جانب دیکھا تھا اور ایک کانپتی سانس خارج کی تھی۔

"ک۔۔کچھ نہیں۔۔"
وہ نظریں پھیرتی تیزی سے اوپر اپنے کمرے میں بھاگی تھی روحان کی پریشان نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔ 

 پارٹی اپنے عروج پر تھی نورے شدید بور ہوتی ایک سائیڈ پر کھڑی تھی۔اعمار اپنی کزن کو ساتھ لایا تھا جس کے ساتھ وہ پارٹی انجوائے کر رہا تھا۔

وہ خاموش کھڑی تھی جب اس کی نظریں بھٹک کر کچھ فاصلے پر کھڑے شازل کی طرف جا رہی تھیں۔جو بظاہر اس سے لاپرواہ کھڑا تھا مگر اس کی نظروں کی تپش بخوبی محسوس کر رہا تھا۔

ریڈ ساڑھی میں ملبوس ڈارک میک اپ کیے سونیا کو شازل کے قریب جاتے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں پل میں شعلے جل اٹھے تھے دل کر رہا تھا سب کچھ تہس نہس کردے۔۔لیکن وہ خاموش کھڑی رہی تھی وہ صرف یہ دیکھنا چاہتی تھی شازل کیا کرے گا۔۔

سونیا کا ہاتھ شازل کے بازو پر دیکھ کر وہ سختی سے اپنے لب بھینچ گئی تھی۔اپنی مٹھیوں کو بھینچتی وہ انتظار کر رہی تھی کہ کب شازل اسے دور دھکیلتا ہے کب وہ اس کا ہاتھ ہٹاتا ہے۔۔
مگر یہ سب اس کی خام خیالی ہی رہی تھی۔شازل کی مسکراہٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔

آنکھوں میں مرچیاں سی چھبنے لگی تھیں۔تیزی سے اپنے کانپتے ہاتھوں کو مٹھیوں میں جکڑے وہ وہاں سے نکلتی واشروم چلی گئی تھی۔وہاں صرف ایک دو لڑکیوں کو دیکھ کر اس نے ایک گہری سانس لیتے اپنا چہرہ شیشے میں دیکھا تھا۔اس کا ہاتھ بےساختہ اپنی ٹھوڑی کے نشان پر گیا تھا۔

اپنے عکس کو شیشے میں دیکھتے اسے لڑکیوں کے دور جانے کی آوازیں اچھے سے محسوس ہو رہی تھیں۔وہ ساکت سی کھڑی تھی۔

"میں بھی سوچ رہی تھی اتنے جلنے کی سمیل کہاں سے آرہی ہے؟"
سونیا کی آواز سنتے ہی جیسے اس کا ضبط ٹوٹا تھا۔پیچھے مڑتے اس نے جھٹکے سے اس کا بازو پکڑ کر کمر کی طرف مڑوڑا تھا۔سونیا اس افتاد پر بوکھلا سی گئی تھی۔

"تم جیسی لڑکیاں صرف مردوں کا دل بہلانے کے لیے ہوتی ہیں۔۔تمھیں وارن کیا تھا۔اس شخص سے دور رہو۔۔اس کے معاملے میں بڑی خود غرض ہوں تمھاری جان لینے میں مجھے کوئی دقت نہیں ہوگی۔۔"
اس کے بازو پر دباو ڈالتے نورے اسے اچھے سے باور کروا گئی تھی وہ کمزور بالکل بھی نہیں تھی۔

"مجھے چھوڑو اپنے بارے میں تمھارا خیال ہے جو کسی ایسے شخص کی توجہ پانے کے لیے مر رہی ہے جو اس کی جانب دیکھتا بھی نہیں ہے۔۔"
وہ سونیا کی بات پر بھڑک ہی اٹھی تھی۔اسے جھٹکے سے چھوڑتے وہ غصے اور جذباتوں کی شدت سے کانپنے لگی تھی۔

"سٹے ان یور لمٹس۔۔"
وہ انگلی اٹھا کر بولتی تیزی سے وہاں سے نکل گئی تھی۔

ہال میں پہنچتے ہی اس نے ایک گہری سانس لی تھی جب ایک سئینئر نے اس سے ڈانس کے لیے پوچھا تھا وہ بنا سوچے سمجھے سر ہلا گئی تھی۔جس پر اسے فورا ہی شدید پچھتاوا ہونے لگا تھا۔

"آر یو سینگل؟"
نورے کو زبردستی کمر سے تھامتے اس نے پوچھا تھا۔نورے کو اس سے شدید الجھن ہورہی تھی۔
"نو۔۔اینڈ لیو می۔۔میں ڈانس نہیں کرنا چاہتی۔۔"
نورے نے سرد لہجے میں کہا تھا۔

"وائے؟ جسٹ ٹو منٹ پلیز۔۔"
وہ نورے پر گرفت مضبوط کرتا بولا تھا۔نورے بےبس سی لب بھیبچ گئی تھی اور غصے میں اپنا ہیل والا پاوں اس کے پاوں پر بھی رکھ چکی تھی۔

خود پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس کرتے اس نے دائیں جانب دیکھا تھا جہاں شازل اپنے کولیگ کے ساتھ کھڑا جلتی نگاہوں سے انھیں ہی دیکھ رہا تھا۔
نورے نے اس پر نظر ڈالتے ہی اپنا چہرہ پھیر لیا تھا۔گانا ختم ہوتے ہی وہ شکر ادا کرتی اس شخص سے دور ہٹتی ایک کونے میں جاکر کھڑی ہوگئی تھی اس نے ڈرائیور کو کال کی تھی مگر وہ گاڑی میں کچھ خرابی کو ٹھیک کروا رہا تھا۔ جس کی وجہ سے اسے مزید کچھ ٹائم لگ جانا تھا۔

اچانک لائٹ آف ہوئی تھی اسے کوئی اپنی کلائی جکڑتا محسوس ہوا تھا اس نے چیخنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا جب شازل کی آواز پر وہ پٹ سے چپ ہوگئی تھی۔
"ناٹ آ ورڈ نورے شازل خان۔۔۔"
اس کے غصے سے بھاری آواز نے اس کے منہ پر تالا لگا دیا تھا۔
"شرم نام کی چیز لگتا ہے آپ کو چھو کر بھی نہیں گزری۔۔"
وہ اس کی حرکت پر غصے سے بولی تھی۔وہ اسے ایک خالی کمرے میں لایا تھا۔جو نورے کی سوچ سے باہر تھا اسے کیسے مل گیا تھا۔
"شٹ اپ۔۔"
شازل کے سرد لہجے میں بولنے پر وہ خاموش ہوگئی تھی۔

"ابھی اور اسی وقت اپنے ڈرائیور کو کال کرو اور گھر جاو۔۔"
شازل سخت لہجے میں بولا تھا۔اسے کسی سنئیر کے ساتھ ڈانس کرتے دیکھ کر اس کی رگیں ابھر گئی تھیں۔

"مجھے کہیں نہیں جانا۔۔میں پارٹی انجوائے کرنا چاہتی ہوں۔۔"
وہ شازل کے سینے پر ہاتھ رکھتی اسے دور دھکیلنے لگی تھی۔
"تم پارٹی انجوائے کرنا چاہتی ہو؟"
اس نے لب بھینچ کر پوچھا تھا۔نورے نے فورا سر ہلایا تھا۔

"ابھی میں تمھیں انجوائے کرنے کا اصل مطلب سمجھاتا ہوں پانچ منٹ تک اس کمرے سے نکلنے کی کوشش بھی مت کرنا نورے۔۔اینڈ آئی سوئیر میرے ضبط کو آزمانے کی کوشش بھی مت کرنا ورنہ حقیقت میں تمھاری ٹانگیں توڑ دوں گا۔۔"
اس کا انداز دیکھ کر وہ سہم گئی تھی۔وہ سرخ چہرے کے ساتھ لمبے لمبے ڈھگ بھرتا باہر نکل گیا تھا۔نورے بےچینی سے انتظار کرنے لگی تھی۔وہ چاہتی تھی کہ وہ بھی ویسے ہی جلے جیسے وہ جلی ہے تبھی اس نے انجوائے کرنے کا کہا تھا۔

دو منٹ بعد ہی دروازہ کھلنے کی آواز پر نورے نے مڑ کر دیکھا تھا جہاں وہ اس لڑکے کو کھینچ کر لارہا تھا جس نے اس کے ساتھ زبردستی ڈانس کیا تھا۔اس نے شازل کے سامنے یہ ظاہر نہیں کونے دیا تھا مگر شازل بھی بچہ نہیں تھا۔

"ش۔۔شازل۔۔"
اس نے آنکھیں پھیلا کر شازل کو دیکھا تھا جس نے اس لڑکے کا دائیں ہاتھ پکڑ کر مڑوڑتے ہوئے اس کی ہڈی توڑ دی تھی۔اس لڑکے کی چیخنے کی آوازیں پارٹی میں بجتے گانوں کی وجہ سے دب گئی تھی۔ہڈی چٹخنے کی آواز پر نورے نے بےساختہ کانوں پر ہاتھ رکھا تھا۔

"اسی ہاتھ سے زبردستی میری بیوی کو چھوا تھا نہ؟ اسی ہاتھ سے اس کی کمر کو تھاما تھا نہ۔۔؟"
وہ اس کے بازو پر پے در پے کئی مکے مارتا چیختے ہوئے پاگل لگ رہا تھا نورے کو اس سے شدید خوف محسوس ہونے لگا تھا۔

"شازل۔۔۔"
نورے نے اس کی جانب بڑھنے کی کوشش کی تھی جب شازل نے سرخ آنکھوں سے اسے گھور کر دیکھا تھا وہ اپنی جگہ پر ساکت ہوگئی تھی۔

"ایک بھی قدم آگے مت بڑھانا۔۔"
وہ سپاٹ لہجے میں بولتا مقابل کے منہ پر مکہ مارنے لگا تھا جب اس لڑکے نے شازل کے منہ پر بائیں ہاتھ سے مکہ مارا تھا۔اس لڑکے کی انگلی میں موجود انگوٹھی شازل کے گال کو چیر گئی تھی خون کی ایک باریک لکیر نکلتی اس کے گال پر بہنے لگی تھی۔

نورے کو شدید گھبراہٹ ہورہی تھی ان دونوں کو دیکھتے۔۔
"شازل فار گاڈ سیک سٹاپ اٹ۔۔"
وہ شازل کو بھپرے شیر کی طرح مقابل پر جھپٹتے دیکھ کر چیختے ہوئے بولی تھی۔شازل نے سرد نظروں سے اسے دیکھا تھا۔
اس لڑکے کو پھینکتے وہ نورے کا بازو دبوچتا اسے کھینچتا ہوا وہاں سے نکال کر لے گیا تھا۔

"شازل مجھے تکلیف ہورہی ہے۔۔"
وہ اس کی سخت گرفت پر لب بھینچ کر بولی تھی۔شازل نے بےساختہ اس کے بازو پر گرفت نرم کی تھی۔گاڑی کے پاس پہنچتے اس نے دروازہ کھولتے اسے زبردستی اندر بیٹھایا تھا۔
"مجھے آپ کے ساتھ کہیں نہیں جانا۔۔"
وہ اس کے پاگل پن میں اندر ہی اندر کافی گھبرا گئی تھی۔
"تم جہاں جاو گی میرے ساتھ ہی جاو گی۔۔"
وہ سخت لہجے میں بولتا نورے کا منہ دبوچ گیا تھا۔

نورے نے غصے سے اسے دیکھتے اس کا ہاتھ زور سے جھٹکا تھا۔
"تم صرف میرا غصہ بڑھا رہی ہو۔۔"
وہ اس کو گردن سے تھام کر اپنے چہرے کے قریب نورے کا چہرہ کرتا سرد لہجے میں بولا تھا۔
"مجھے گھر جانا ہے۔۔"
وہ اپنے خشک لب تر کرتی بولی تھی۔
"ہم گھر پی جارہے ہیں۔۔"
وہ سرد لہجے میں بولتا گاڑی کا دروازہ بند کرتا ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکا تھا۔گاڑی میں گہری خاموشی تھی۔نورے اپنے بازو کو نرمی سے سہلا رہی تھی۔شازل نے سختی سے سٹئیرینگ ویل کو تھاما ہوا تھا۔گردن کی رگیں ضبط کی شدت سے ابھری ہوئی تھیں۔
"ہم کہاں جارہے ہیں؟؟"
اس نے مختلف راستہ دیکھتے شازل کی جانب مڑتے پوچھا تھا وہ اس وقت صرف اپنے گھر جاکر آرام کرنا چاہتی تھی۔
"گھر۔۔"
ایک لفظی جواب دیا گیا تھا۔
"مجھے میرے گھر جانا ہے۔۔"
وہ لب بھینچتی غصے سے چیخی تھی۔
گاڑی کو زور سے بریک لگاتے اس نے نورے کے چہرے کو اپنے ہاتھ سے پکڑتے اسے اپنے قریب کیا تھا۔

"تم میرے ضبط کو آزما رہی ہو نورے۔۔"
وہ نورے کی آنکھوں میں دیکھتا زہر خند لہجے میں پھنکارا تھا۔
"مجھے اپنے گھر جانا ہے ابھی اور اسی وقت۔۔سنا آپ نے۔۔ مجھے میرے گھر جانا ہے۔۔"
وہ بنا ڈرے چیخی تھی۔شازل نے اس کا چہرے چھوڑتے غصے سے سٹئیرینگ ویل پر مکہ مارا تھا نورے ایک دم خاموش ہوگئی تھی۔شازل نے گاڑی کی سپیڈ تیز کی تھی۔نورے خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی جو پندرہ منٹ کی ڈرائیو پانچ منٹ میں مکمل کرچکا تھا۔وہ اسے گھر لے جانے کی بجائے اسے اپنے اپارٹمنٹ میں لے آیا تھا۔

"نکلو باہر۔۔"
اس نے نورے کی جانب کا دروازہ کھولتے ہوئے سپاٹ لہجے میں کہا تھا۔ نورے نے نفی میں سر ہلایا تھا اسے شازل پر بالکل بھی یقین نہیں تھا کیا پتا وہ اسے اپارٹمنٹ میں لے جاکر اس کا گلا دبا دیتا۔۔۔
"نورے تمھیں سنائی نہیں دیا۔۔۔"
وہ غصے میں پھنکارا تھا۔نورے ڈھیٹ بنی بیٹھی رہی تھی۔شازل نے اس کی جھٹکے سے سیٹ بیلٹ کھولتے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتے نیچے کو جھکتے اس کو بوری کی طرح کندھے پر ڈالا تھا۔
"شازل اتاریں مجھے۔۔"
وہ آنکھیں پھیلا کر چیخی تھی۔غصے سے اس نے شازل کی کمر پر مکے بھی مارے تھے مگر مجال تھی جو اسے کچھ محسوس ہوا ہو۔۔

"سیدھے طریقے سے تمھیں میری بات سمجھ نہیں آتی۔۔اب سے میں تمھیں اپنے انداز میں ہی سمجھایا کروں گا۔۔۔"
وہ نورے کو لفٹ میں لے کر داخل ہوتا پھنکارا تھا۔نورے نے جواب میں زور سے اس کے کمر میں مکہ مارا تھا۔
شازل نے بھی اس کا بدلہ لیتے ہوئے زور سے چٹکی اس کی کمر پر کاٹی تھی جس پر وہ درد سے چیخ اٹھی تھی۔

"شازل خان۔۔۔"
اس نے شازل کے بھی چٹکی کاٹی تھی مگر اس پر کچھ اثر نہیں ہوا تھا جس پر نورے غصے سے مٹھیاں بھینچ گئی تھی۔اپارٹمنٹ کا لاک ایک ہاتھ سے کھولتے شازل نے اندر داخل ہوتے اسے بنا اتارے اس کا لاک سکیور کیا تھا۔
نورے کو لگا تھا وہ اب اسے چھوڑ دے گا مگر وہ نورے کو لے کر سیدھا واشروم میں گیا تھا۔اسے شاور کے نیچے کھڑا کرتے اس نے ٹھنڈا شاور چلا دیا تھا۔

"پاگل ہوگئے ہیں آپ۔۔۔"
"چھوڑیں مجھے۔۔"
وہ اس کی گرفت میں پھڑپھڑاتی چیخ رہی تھی ٹھنڈے پانی نے اسے منجمد کردیا تھا۔شازل نے اس مضبوطی سے کمر سے تھامے رکھا تھا وہ بھی اس کے ساتھ مکمل بھیگ چکا تھا۔اس ساری لڑائی میں نورے کے بال بھی جوڑے سے کھل کر اس کی کمر پر بکھر چکے تھے۔
شازل کے کوئی جواب نہ دینے پر وہ ہار مانتی خاموشی سے اس کے چہرے کے تنے اعصابوں کو دیکھنے لگی تھی وہ خاموشی سے نورے کو دیکھ رہا تھا۔پانی کے قطرے اس کے بالوں سے نکلتے نورے کے چہرے پر گر رہے تھے۔

"آئیندہ کے بعد کوئی بےوقوفی مت کرنا اس بار اس لڑکے کو چھوڑ دیا دوبارہ کوئی تمھارے ارد گرد نظر بھی آیا تو اس کی جان لے لوں گا۔۔"
وہ نورے کی ٹھوڑی تھام کر اس کا چہرہ اوپر اٹھاتا سرد لہجے میں پھنکارا تھا۔اس کے لفظوں کے پیچھے چھپی سچائی محسوس کرتے خوف کی سرد لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی تھی۔
"میں دوسرے کپڑے دیتا ہوں شاور لے کر چینج کرلو۔۔"
وہ اس کے چہرے پر نظریں گاڑھے اس کی ٹھوڑی کو چومتا بنا اس کے بھیگے سراپے پر نظر ڈالے شاور سے باہر نکل گیا تھا۔نورے کو دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنائی دی تھی وہ ساکت سی کھڑی رہ گئی تھی۔

اس کے جذباتوں کی شدت اور جنونی انداز نے اسے پریشان کردیا تھا۔وہ کافی دیر شاور کے نیچے اسی حالت میں کھڑی رہی تھی۔
شازل دوسرے روم میں جاتا کپڑے چینج کرتا فریج میں پڑا کھانا گرم کرنے لگا تھا۔اب اس کا غصہ کافی حد تک ختم ہوچکا تھا۔

اپنے پیچھے سے قدموں کی آواز سنتا وہ پیچھے مڑا تھا۔نورے اس کی گرین ٹی شرٹ اور بلیک ٹراوزر پہنے چھوٹی بچی لگ رہی تھی۔اس نے ٹراوزر کو نیچے سے کافی بار فولڈ کیا ہوا تھا جبکہ ٹی شرٹ کی ہالف سلیوز اس کی کہنیوں تک آرہی تھیں اور لمبائی گھٹنوں تک تھی۔
نورے کو اس کے کپڑوں سے اس کی خوشبو آرہی تھی۔وہ اس کی نظریں محسوس کرتی نروس سی انگلیاں چٹخا رہی تھی۔اس کے گیلے بال کمر پر بکھرے ہوئے تھے وہ نروس سی اپنے چہرے پر آئے بالوں کو کان کے پیچھے اڑسنے لگی تھی۔

"وہاں جاکر بیٹھ جاو۔۔"
شازل نے اسے لاونچ میں پڑے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا جس پر وہ سر ہلاتی ننگے پاوں چلتی صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔شازل کی نظر بےساختہ اس کے سفید مومی پاوں کی طرف گئی تھی وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی خاموشی سے صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔
شازل کھانا گرم کرتا ٹرے میں رکھتا لاونچ میں لے آیا تھا۔وہ چاول اور سالن تھا جو آج دوپہر کو ہی گل بیگم نے اس کے لیے ملازم کے ہاتھوں بھجوایا تھا۔
"مجھے بھوک نہیں ہے میں گھر جانا چاہتی ہوں۔۔"
وہ ضدی لہجے میں دوسری طرف چہرہ پھیرتی بولی تھی۔شازل نے بنا اس کے بات پر کان دھڑے ایک پلیٹ میں کھانا نکالا تھا۔چمچ پکڑتے چاولوں سے بھرتے اس نے نورے کا چہرہ اپنے ایک ہاتھ سے پکڑتے اس کا رخ اپنی جانب کرتے اس کے ہونٹوں کے پاس چمچ کیا تھا۔

"منہ کھولو نور۔۔"
نورے مزید سختی سے لب بھینچتی نفی میں سر ہلا گئی تھی۔شازل نے اس کا چہرہ ایک ہاتھ سے دبوچتے اس کے ہونٹوں پر دباو بڑھایا تھا۔
"مجھے مجبور مت کرو میں کوئی دوسرا طریقہ استعمال کروں۔۔"
اس کی دھمکی سن کر وہ فورا سیدھی ہوتی منہ کھول گئی تھی اس غنڈے کا کیا بھروسہ تھا کب کیا کرجاتا۔۔
اسے کھانا کھلاتا وہ خود بھی ساتھ کھانے لگا تھا۔
شازل نے اس کو چاول کھلاتے انگوٹھے سے اس کے ہونٹ کو نرمی سے صاف کیا تھا نورے اس کی حرکت پر سانس روک گئی تھی مگر وہ بنا کوئی ریکشن دیتا دوبارہ اسے کھلانے لگا تھا۔
کھانا کھلانے کے بعد وہ برتن کیچن میں اٹھا کر رکھ کر جب واپس آیا تو نورے کھڑی ہوگئی تھی۔

"اب مجھے گھر چھوڑ آئیں۔۔"
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی بولی تھی۔شازل کا دماغ گھوم گیا تھا بار بار اس کی ایک ہی بات سن کر۔۔۔
وہ آرام سے چلتا صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔وہ نورے کو گہری نظروں سے دیکھنے لگا تھا جبکہ وہ اس کی نظروں سے بری طرح گھبرا رہی تھی۔

"گھر جانا چاہتی ہو؟"
بےتاثر انداز میں پوچھا گیا۔
نورے نے سر اثبات میں ہلایا ۔
"جاو چلی جاو۔۔"
صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر اس نے نورے کو جانے کی اجازت دی تھی۔نورے نے اچھنبے سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
نورے تیزی سے دروازے کی جانب بڑھی تھی اس نے لاک کھولنے کی کوشش کی تھی مگر وہ بری طرح ناکام ہوئی تھی۔شاید اس کا لاک مختلف قسم کا تھا۔اس نے تھک ہار کر سخت نظروں سے شازل کو دیکھا تھا جو محظوظ نظروں سے اسے دیکھتا انجوائے کر رہا تھا۔

"تم ابھی تک یہاں ہو گئی نہیں اپنے گھر۔۔"
وہ مصنوعی حیرت کا مظاہرہ کرتا نورے کو شدید زہر لگا تھا۔
"آپ بہت برے ہیں جان بوجھ کر مجھے تنگ کر رہے ہیں۔۔"
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے سامنے جاکر کھڑی ہوگئی تھی۔اس کی بات پر شازل ہلکا سا مسکرایا تھا۔اس کی کلائی سے کھینچتے اس نے نورے کو اپنے اوپر گرایا تھا۔وہ اس کی حرکت پر بری طرح گھبرائی تھی۔
"جب تم جانتی ہو میرا تمھیں اس حولیے میں گھر لے جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے تو کیوں بار بار ایک ہی بات بول رہی ہو۔۔"
وہ اس کے بازو پر اپنی انگلیوں کے ہلکے ہلکے نشان دیکھتا لب بھینچ کر نرمی سے اسے سہلانے لگا تھا۔نورے اس کی بات پر منہ بگاڑ کر اس کی انگلیوں کو دیکھنے لگی تھی جو نرمی سے اس کے بازو کو سہلا رہی تھیں۔

"تکلیف دینے کے بعد ایسا مداوا نہیں کیا جاتا۔۔"
وہ بےساختہ بول اٹھی تھی۔شازل نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔
"اگر کبھی میں نے تمھیں کوئی تکلیف جان بوجھ کر دی تو میں تمھیں خود کو چھوڑ کر جانے کی اجازت دیتا ہوں۔۔"
شازل کی بات پر وہ ساکت ہوگئی تھی۔

"ایسے تو مجھے جتنے لوگوں نے تکلیف دی ہے مجھے دنیا ہی چھوڑ جانی چاہیے۔۔"
وہ ہنستے ہوئے بولی تھی۔اب کی بار شازل ساکت ہوا تھا اس نے بےساختہ نورے کی کمر کے گرد حصار باندھتے اسے اپنے سینے سے لگایا تھا۔
"ایسی فضول باتیں مزاق میں بھی مت کرنا۔۔"
وہ انتہائی سنجیدگی سے بولا تھا۔نورے اس کی بات پر مسکرا اٹھی تھی۔اس کے لہجے کے پیچھے چھپی پریشانی نے اسے مسرور کردیا تھا۔

"آپ بھی ایسے کام مت کیا کریں۔۔اس لڑکے کا اتنا بھی قصور نہیں تھا جتنا برا آپ نے اسے مارا ہے۔۔"
وہ شازل کے سینے پر سر رکھتی اس کے شرٹ کے بٹنوں سے کھیلتے ہوئے بولی تھی۔
"وہ میرا شکر کرے میں نے اسے اتنی آسانی سے چھوڑ دیا ورنہ سیدھا ہریسمنٹ کے کیس میں جیل جاتا۔۔اور تم میں اتنی عقل نہیں ہے جب وہ زبردستی تمھیں چھو رہا تھا تم اسے ایک زوردار تھپڑ مار کر خود سے دور کرتی۔۔"
وہ سرد لہجے میں بولا تھا جبکہ بےساختہ وہ نورے کے بالوں میں نرمی سے انگلیاں چلانے لگا تھا۔ساری چیزوں سے تھکی وہ پل بھر میں نیند کی وادیوں میں گم ہوگئی تھی۔
شازل کچھ دیر بعد اسے اٹھا کر روم میں لے گیا تھا۔جہاں اسے باہوں میں بھرتا وہ پرسکون سا سو گیا تھا۔ 

 "تم مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہی ؟"
روحان نے اس کے سامنے کرسی پر بیٹھتے پوچھا تھا۔وہ دو دنوں سے اسے اگنور کر رہی تھی جو روحان کی سمجھ سے باہر تھا اور اسے یاد نہیں تھا جو اس نے ایسا کچھ کیا ہو جس سے وہ اس سے اتنا برا ناراض ہوجائے کہ اس کی جانب دیکھنا بھی گوارا نہ کرے۔

"مجھے آپ سے بات نہیں کرنی۔۔"
وہ نظریں جھکائے دو ٹوک لہجے میں بولی تھی۔روحان نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔
"کیا مجھ سے کچھ غلط ہوا ہے؟"
روحان نے اس کا ہاتھ تھامنا چاہا تھا جب وہ جھٹکے سے ٹیبل سے اپنا ہاتھ اٹھاتی گود میں رکھ چکی تھی۔
"نہیں۔۔"
وہ سر نفی میں ہلاتی اپنے سامنے پڑی کھانے کی پلیٹ کی طرف دیکھنے لگی تھی۔

"جو بھی بات ہے دانین صاف صاف بتا دو یوں اگنور کیوں کر رہی ہو؟"
اس نے جھنجھلا کر پوچھا تھا۔اس کی بےرخی اسے ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔

"میرے اور آپ کے درمیان ایسا کوئی تعلق نہیں ہے جس کی وجہ سے میں آپ سے ناراض ہوں یا آپ کو اگنور کروں بہتر ہوگا آپ چپ چاپ اپنا کام کریں اور مجھے تنگ مت کریں۔"
وہ کھڑی ہوتی تیز لہجے میں بولی تھی۔روحان حیران رہ گیا تھا اس کے غصے کو دیکھ کر۔۔
"تم غلط کر رہی ہو۔۔"
وہ سختی سے لب بھینچتا کھڑا ہوتا بولا تھا۔
"میرا جو دل کرے گا میں کروں گی کیا کریں گے آپ؟؟"
"زور زبردستی کریں گے؟"
وہ پیچھے کو قدم اٹھاتی اونچی آواز سے چیخی تھی۔
"دانین کالم ڈاون۔۔"
اس نے لب بھینچ کر دھیمی آواز میں کہا تھا۔
"کیا ہوا ہے دانین؟"
آغا خان کی آواز سنتے اس نے سختی سے اپنی آنکھیں بند کر کے کھولی تھی۔۔

"کچھ نہیں بابا۔۔بس کچھ لوگ اپنی اوقات بھول گئے تھے۔۔ڈونٹ وری۔۔ملی سے کہیے گا میں کھانا نہیں کھاوں گی۔۔میں سونے لگی ہوں۔۔"
اس کے الفاظوں نے روحان کو پتھر کا کر دیا تھا۔وہ بنا روحان پر نگاہ ڈالے تیزی سے اپنے روم میں چلی گئی تھی۔
"میری بیٹی نے تمھیں تمھاری اوقات تو یاد دلا دی ہوگئی۔۔اب اپنی ڈیوٹی دو۔۔جب تک میں یہاں ہوں اندر ڈیوٹی دینے کے ضرورت نہیں باہر جاکر اپنے ساتھیوں ساتھ ڈیوٹی دو۔۔"
آغا خان کی بات پر وہ غصے سے مٹھیاں بھینچ گیا تھا۔وہ بس دانین سے ایک بار اس رویہ کی وجہ پوچھنا چاہتا تھا ورنہ وہ ایک پل میں اس جوب کو چھوڑ جاتا۔
"یہ مت بھولا کریں اس جوب کو دینے کے لیے آپ نے کیسے میری منتیں کی تھیں۔۔"
وہ زہر خند لہجے میں بولتا لمبے لمبے ڈھگ بھرتا باہر نکل گیا تھا۔آغا خان کی سخت نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔

"تم کہاں سے آرہی ہو؟"
آغا خان نے روحان کے باہر نکلنے کے بعد ملائکہ کو اندر آتے دیکھ کر سختی سے پوچھا تھا۔
"اپنے لیے شیلٹر ہوم سلیکٹ کرنے گئی تھی۔"
ملائکہ نے لاپرواہ انداز میں جواب دیا تھا۔آغا خان نے سخت نظروں سے اسے دیکھا تھا۔پھر آگے بڑھتے تیزی سے ملائکہ کی کلائی تھامتے وہ اسے اپنے روم میں کھینچتے ہوئے لے گئے تھے۔اب ہی تو انھیں موقع ملا تھا اس سے اکیلے میں بات کرنے کا جس کا وہ بھرپور فائدہ اٹھانے والے تھے۔

"کیوں ایسا بہیو کر رہی ہو؟"
انھوں نے ملائکہ کی ٹھوڑی جکڑتے اس کا چہرہ اپنے مقابل کرتے سخت لہجے میں پوچھا تھا۔
"تھوڑی دیر نہیں ہوگئی یہ پوچھتے ہوئے خان صاحب؟"
ملائکہ نے طنزیہ کہا تھا۔

"وقت بہت تیزی سے گزر گیا ہے خان صاحب دس سال گزر گئے ہیں۔۔دس سال۔۔سب سے ہمارا نکاح کو چھپاتے ہوئے۔۔دس سال سے آپ کی بیٹی کی خاموشی سے خدمت کرتے ہوئے۔۔اب میں اپنی زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی ہوں۔۔میں نے غور کیا ہے میری زندگی میں کچھ بھی نہیں ہے میری اپنی بیٹی غائب ہے جس کو ڈھونڈنے کی کبھی آپ نے کوشش بھی نہیں کی اور میں یہاں آپ کی بیٹی کے لیے نہ جانے کیا کچھ کرچکی ہوں۔۔اب بس میرا ضبط جواب دے گیا ہے آپ خود ذمہ داریاں اٹھانا سیکھیں کیونکہ میں مزید اب یہاں نہیں رہ سکتی۔۔دانین آپ کی بیٹی ہے آپ کا جو دل کرتا ہے اس کے لیے فیصلہ کریں دو سال پہلے بھی جو ہوا تھا وہ میری وجہ سے نہیں ہوا تھا مگر اس کی ذمہ دار بھی میں ٹھہری تھی جب کہ اسے کھلی چھوٹ آپ نے دے رکھی تھی۔"
ملائکہ بولنے پر آئی تو اپنے اندر چھپی ساری بھڑاس نکال چکی تھی۔آغا خان ہکا بقا رہ گئے تھے۔

"میں نے تمھاری بیٹی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔۔"
وہ دھیمی آواز میں بولے تھے۔
"مجھ سے جھوٹ مت بولیں میں نے خود اپنے کانوں سے سنا تھا جب آپ نے انویسٹیگیٹر کو روک دیا تھا۔مجھ سے جھوٹ مت بولیں خان صاحب۔۔"
ملائکہ کی بات پر وہ ساکت رہ گئے تھے۔
"آپ مجھے طلاق دے دیں۔۔میں اب مزید آپ کے نام پر اپنی زندگی برباد نہیں کرنا چاہتی۔۔"

"میں تمھیں کبھی طلاق نہیں دوں گا ملائکہ۔۔"
وہ سختی سے ملائکہ کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے بولے تھے۔
"میں سب کو نکاح کے بارے میں بتا دوں گا لیکن علیحدگی کا سوچنا بھی مت۔۔"
آغا خان کی بات پر وہ طنزیہ مسکرائی تھی۔
"آپ مجھ پر یہ احسان مت کریں۔۔میں جتنی دیر یہاں رہی ہوں مجھے ملازمہ کی حیثیت سے میری سیلری ملتی رہی ہے اب میں خود اپنی زندگی گزار سکتی ہوں۔مجھے آپ کے سہارے کی ضرورت نہیں۔۔"
وہ آغا خان کے ہاتھ جھٹکتی سپاٹ لہجے میں بولی تھیں۔۔اس کی بات پر وہ شدید شرمندہ ہوئے تھے۔
"ملائکہ۔۔"
انھوں نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا جب ملائکہ رخ پھیرتی تیزی سے ان کے روم میں نکل گئی تھی پیچھے انھیں گہری سوچ میں چھوڑ گئی تھی۔۔ 

 پارٹی گزرے ایک ہفتہ ہوچکا تھا۔شازل اسے ناشتہ کروا کر صبح صبح ہی گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا اس کے بعد اس نے شازل کو نہیں دیکھا تھا۔
یونیورسٹی میں بھی وہ اسے کہیں نہیں دکھائی دیا تھا بس اتنا پتا تھا وہ لیو پر ہے۔۔دن عجیب سے گزر رہے تھے۔اس کے پاس شازل کا نمبر تھا مگر بات کرنے کا حوصلہ نہیں تھا۔

آج اس کا پیپر تھا اسے امید تھی وہ یونیورسٹی میں آج اسے دکھائی دے جائے گا۔۔سکن سوٹ میں بالوں کو پونی میں مقید کیے وہ اپنی چیزیں تھامے مطلوبہ روم میں پہنچی تھی۔مگر کہیں بھی شازل کا نام و۔نشان نہیں تھا۔

اس کا موڈ شدید خراب ہوا تھا۔وہ اپنی مطلوبہ جگہ پر جاکر بیٹھ گئی تھی جبکہ سونیا چل کر آتی اس سے آگے والی سیٹ پر بیٹھ گئی تھی جسے دیکھتے اس کا موڈ کچھ مزید خراب ہوگیا تھا۔
"بس یہ ہی ہونا رہ گیا تھا۔"
وہ منہ میں بڑبڑائی تھی۔اسے پورا یقین تھا آج کا پیپر اچھا نہیں ہوگا۔پیپر ملتے ہی اسے اپنی کہی بات پر یقین ہوگیا تھا۔اسے چھ سوالوں میں سے صرف تین سوال آتے تھے۔ وہ گہرا سانس خارج کرتی ان سوالات کے جوابات لکھنے لگی تھی۔انسٹرکٹر کافی سخت تھا جس کی وجہ سے وہ کسی سے بھی پوچھ نہیں سکتی تھی۔

اچانک اس کی گود میں سونیا نے کوئی کاغذ پھینکا تھا۔نورے کے ماتھے پر بل پڑے تھے جب اچانک انسٹرکٹر کے اونچی آواز میں چیخنے پر اس کی سانسیں خشک ہوگئی تھیں۔

"مجھے پیپر دو فورا۔۔اور اپنی جگہ سے کھڑی ہوجاو۔۔"
نورے نے کانپتے ہاتھوں سے پیپر انھیں تمھایا تھا۔
"یہ میرا پیپر نہیں ہے اس نے میری گود میں پھینکا ہے۔۔"
وہ سونیا کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر غصے سے بولی تھی۔
"شٹ اپ ہر کوئی نقل کرنے کے بعد دوسروں پر ہی الزام ڈالتا ہے۔۔تمھارا پیپر کینسل ہوچکا ہے جاو یہاں سے۔۔"
انسٹرکٹر نے اس کے پیپر کو تھامتے ایک بڑا سا مراس لگاتے چیٹر لکھ دیا تھا۔
"میں نے کوئی چیٹنگ نہیں کی۔۔"
وہ بےیقینی سے چیخی تھی مگر انسٹرکٹر بنا کان دھڑے اسے روم سے باہر نکال چکا تھا۔وہ باہر نکل کر ساکت سی رہ گئی تھی اس کا مائینڈ ماوف ہوگیا تھا۔اس نے کانپتے ہاتھوں سے ڈرائیور کو کال ملائی تھی۔اس کے آتے ہی وہ گھر واپس چلی گئی تھی۔اسے خدشہ تھا کہ اس کے باقی پیپرز بھی کینسل نہ کردیے جائیں۔۔

"تم اتنی جلدی واپس آگئی نورے؟"
شاہزیب نے حیرانی سے پوچھا تھا۔
"بھیا۔۔"
وہ روتے ہوئے شاہزیب کے گلے سے لگتے اسے سارا معاملہ بتا چکی تھی۔شاہزیب نے اسے پانی پلاتے حوصلہ دیا تھا۔

"تم فکر مت کرو میں ڈین سے بات کرتا ہوں۔۔کچھ نہیں ہوگا۔۔چلو شاباش چپ کرجاو۔۔اب رونا مت۔۔"
شاہزیب نے اس کے آنسو صاف کرتے اسے کمرے میں بھجواتے ڈین کو کال ملائی تھی مگر افسوس کوئی کام نہ بن پایا ڈین نے کسی بھی طرح کی مدد کرنے سے صاف انکار کردیا تھا کیونکہ جب سے نیا چئیر پرسن آیا تھا تب سے یونیورسٹی میں کافی سختی ہوچکی تھی۔اسے پتا چلا تھا چیٹنگ کی وجہ سے نورے کو مزید پیپرز میں بیٹھنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔۔جبکہ نورے کے خلاف سخت ایکشن لینے کے لیے بھی کہا گیا تھا۔ساتھ ہی اسے یونیورسٹی سے سسپینڈ کر دیا گیا تھا۔

"کیا کہا انھوں نے بھیا۔۔؟"
وہ جو کمرے میں جانے کی بجائے وہاں ہی کھڑی تھی اس نے سرخ آنکھوں سے پرامید لہجے میں پوچھا تھا۔شاہزیب لب بھینچ کر نفی میں سر ہلا گیا تھا۔
"م۔۔میں باقی پیپرز تو دے پاوں گی؟"
اس نے ایک کانپتی سانس خارج کرتے پوچھا تھا۔شاہزیب مایوسی سے نظریں پھیر گیا تھا۔نورے اپنے کانپتے ہونٹوں کو بھینچتی اپنے کمرے میں بھاگ گئی تھی۔
اس کی اتنے ہفتوں کی محنت ضائع چلی گئی تھی اس کا دل کر رہا تھا سونیا کو کچھ کردے۔۔مگر اب کیا ہوسکتا تھا؟ وہ روتے ہوئے بیڈ پر لیٹ گئی تھی۔شدید مایوسی سے وہ آنکھیں میچتی تکیے میں منہ چھپا گئی تھی۔

شازل کا خیال آتے ہی اس نے کانپتے ہاتھوں سے موبائل اٹھاتے اسے کال ملائی تھی۔ایک بار، دو بار اور پھر کئی بار مگر دوسری جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔

وہ ہار مان کر موبائل رکھنے ہی والی تھی جب شازل نے اس کی کال پک کرلی تھی۔وہ کچھ بولنے کے لیے منہ کھولنے ہی لگی تھی جب شازل کی بات نے اس کے منہ پر تالا لگا دیا تھا۔

"کیا پرابلم ہے نورے کیوں بار بار کال کرکے تنگ کر رہی ہو جب میں کال پک نہیں کر رہا تو سمجھ جاو میں بات نہیں کرنا چاہتا۔۔ناو ڈونٹ ڈسٹرب می۔۔"
وہ اپنی بات بولتا کال کاٹ گیا تھا۔نورے اس کی بات سنتی خاموش سی ہوگئی تھی ساکت آنکھوں سے نکلتے آنسو تکیے میں جذب ہونے لگے تھے۔فون ویسے ہی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر تکیے پر گر چکا تھا۔

کچھ دیر بعد اس کے فون پر اعمار کی کال آئی تھی۔اسے لگا تھا شاید شازل نے کال کی ہے مگر اعمار کا نام دیکھ کر اس نے آنکھیں میچتے کال پک کرلی تھی۔
"مجھے ابھی پتا چلا تمھارے ساتھ کیا ہوا ہے۔۔"
وہ پریشان سا بولا تھا۔ساری بات اسے بھی نہیں معلوم تھی۔
"کیا تمھیں کچھ پتا ہے پروفیسر خان یونیورسٹی کیوں نہیں آرہے؟"
اس نے بنا اعمار کی بات کا جواب دیے پوچھا تھا۔
"ہاں میں نے سنا ہے وہ کچھ دنوں پہلے یونیورسٹی چھوڑ چکے ہیں۔۔"
اعمار نے جواب دیا تھا۔
"اوکے۔۔"
وہ جواب دیتی بنا مزید کوئی بات سنے کال کٹ کرتی موبائل بیڈ پر کہیں پھینکتی آنکھیں میچ گئی تھی۔ذہن میں ہزاروں خیال گھوم رہے تھے۔

اسے سوچوں میں ڈوبے پتا ہی نہ لگا وہ کب سوگئی تھی۔شام کو اس کے کمرے میں ہوئی دستک کی وجہ سے اس کی آنکھ کھلی تھی۔افرحہ اس کے لیے کھانا لے کر آئی تھی۔
"یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے نورے؟"
"بچے ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں انھیں دل پر نہیں لیتے۔۔"
افرحہ نے نرمی سے اس کے ماتھے سے بال ہٹاتے کہا تھا۔
"بھابھی میں کچھ دیر اکیلا رہنا چاہتی ہوں پلیز۔۔"
وہ رونے سے بھاری ہوئی آواز کے ساتھ بولی تھی۔
"اچھا ٹھیک ہے لیکن یاد سے کھانا کھا لینا اوکے۔۔"
افرحہ کی بات پر وہ سر ہلا گئی تھی۔افرحہ کے جانے کے بعد وہ کافی دیر ساکت ہی لیٹی رہی تھی۔

اس کی سوچوں کا مرکز شازل خان تھا۔دل میں ڈھیروں وسوسے تھے۔۔اور اس پر جی بھر کر غصے بھی آرہا تھا۔وہ اپنے ہوش و حواس کھونے لگی تھی۔اپنے جذبات اور ڈپریس سٹیٹ میں اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔ 

Professor Khan

Zanoor Writes
Episode 18
(Series 2 in Professor Shah Novel)

 اس نے اٹھ کر بیٹھتے شازل کو کال ملائی تھی جو اس بار پہلی ہی بیل میں اٹھا لی گئی تھی۔
"پانچ منٹ ہیں آپ کے پاس شازل خان۔۔یہاں پہنچ جائیں۔۔۔ورنہ انجام کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔۔"
جنونی انداز، بکھرا حلیہ ، سرخ آنکھیں وہ ہوش و حواس میں نہیں لگ رہی تھی۔اس کے لہجے میں چھپا پاگل پن وہ اپنی مصروفیات میں سمجھ نہیں پایا تھا۔

"یہ کیا پاگل پن ہے نورے۔۔۔ڈونٹ کال می اگین آئی ایم ورکنگ۔۔"
شازل نے جھنجھلا کر کہا تھا۔
"چار منٹ۔۔"
وہ دھیرے سے سائیڈ ٹیبل کا دراز کھولتی اس میں سے ایک فولڈ کاغذ نکال چکی تھی۔جو اس نے بیت پہلے یہاں چھپا کر رکھا ہوا تھا۔

"میں نہیں آرہا نورے۔۔۔"
اس نے اس بار خاصہ زور دے کر کہا۔۔
"تین منٹ۔۔"
وہ کاغذ کو کھولتی بولی تھی۔نظریں سامنے لگے کلاک پر ہی تھیں۔۔

"سٹاپ اٹ نورے۔۔"
شازل غصے سے بولا تھا۔
"دو منٹ۔۔"
اس نے کاغذ سے بلیڈ نکالتے کہا تھا۔

"میں کال بند کر رہا ہوں میرے پاس تمھاری ان فضول باتوں کے لیے وقت نہیں ہے۔۔"
شازل نے سرد لہجے میں بولتے ہی کال کاٹ دی تھی۔جب ساتھ ہی نورے نے اسے ویڈیو کال کی تھی۔
اپنا غصہ ضبط کرتے اس نے کال پک کی تھی۔۔
"کیا چاہتی ہو نورے تم ؟ ڈیم اٹ ایک کام بھی سکون سے نہیں کرنے دے رہی۔۔"
وہ اکھڑے لہجے میں بولا تھا۔وہ جتنا اسے کچھ دنوں سے خود سے رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔وہ آج اتنا ہی ضد کر رہی تھی۔

نورے کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی۔اس نے موبائل کو تکیے کے سہارے رکھ کر ویڈیو کیمرے کا رخ اپنی طرف کر لیا تھا۔

"تیس سیکنڈ ہیں آپ کے پاس۔۔ ورنہ میں خود کو ختم کرلوں گی۔۔"
اس نے بلیڈ اپنی کلائی پر رکھا تھا۔شازل جو اسے کھڑی کھڑی سنانے لگا تھا۔وہ ساکت رہ گیا تھا۔
"تمھاری جان میں خود اپنے ہاتھوں سے لوں گا۔۔خبردار جو تم نے خود کو نقصان پہنچایا نورے۔۔"
وہ اس کے پاگل پن کو دیکھتا تیزی سے اپنی کار کی طرف بھاگا تھا۔۔

"آپ کچھ نہیں کر پائیں گے۔۔"
اس نے اذیت سے ہنستے بلیڈ کو ہلکے سے اپنے بازو پر رکھا تھا جس سے بازو پر دباو پڑنے سے تیز بلیڈ اس کی جلد کو چیر گیا تھا۔ہلکی خون کی لکیر نکلتی اس کے بازو پر بہہ گئی تھی۔
"نورے آئی سوئیر میں تمھاری جان اپنے ہاتھوں سے نکالوں گا۔۔"
وہ گاڑی فل سپیڈ سے ڈرائیو کرتا دھاڑا تھا۔ غصے سے اس کی رگیں پھول گئی تھیں۔

دل تو کر رہا تھا اس پاگل دیوانی کا گلا خود اپنے ہاتھوں سے دبا دے۔۔اور جتنا وہ غصے میں تھا ناجانے کر بھی ڈالتا۔۔
"آپ کی کھوکھلی دھمکیوں سے مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔"
وہ فون میں چیخی تھی۔شازل نے غصے سے مٹھیاں زور سے بھینچ لی تھیں.۔

"آج تمھیں ان سب دھمکیوں کو سچ کرکے دکھاوں گا نورے شازل خان۔۔جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔۔"
وہ سرد سپاٹ لہجے میں بولتا نورے کو ڈرا گیا تھا۔نورے کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوتی محسوس ہوئی تھی۔
وہ شازل کی بات سنتی کال کاٹتی بلیڈ سائیڈ پر رکھتی آرام سے اسے بےسکون کرکے لیٹ گئی تھی۔

شازل کی لاتعداد کالز اسے آرہی تھی مگر مجال تھی جو اس نے ایک بھی پک کی ہو دوسری طرف شازل کا پریشانی سے برا حال تھا۔

وہ پچھلے دنوں سے فیاض پر باذاتِ خود نظر رکھے ہوئے تھے وہ نورے سے اس کے دور تھا اور کوئی رابطہ نہیں رکھ رہا تھا تاکہ وہ محفوظ رہے اس کی وجہ سے نورے کو کوئی نقصان نہ پہنچے مگر وہ پگلی کہاں سمجھنے والی تھی۔اسے تو یہ ہی لگ رہا تھا وہ اسے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔۔

اس نے زندگی میں شاید ہی کبھی اتنی ریش ڈرائیونگ کی ہوگی۔۔جتنی وہ اس وقت کر رہا تھا۔فون کان سے لگائے وہ بار بار نورے کو کال ملا رہا تھا مگر دوسری جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا۔پریشانی سے اس کی ماتھے کی رگیں پھول گئی تھیں۔

آدھے گھنٹے کا سفر اس نے کیسے پورا کیا تھا یہ صرف وہ ہی جانتا تھا تھا اس نے پاس شاہزیب کا بھی نمبر نہیں تھا ورنہ وہ یقینا اسے کال کرکے فورا نورے کے پاس جانے کا بول دیتا۔۔

ان کے گھر کے سامنے گاڑی روکتے وہ بنا کار کو بند کیے دروازہ کھولتے اندر بھاگا تھا۔شاہزیب اور باقی سب گھر والے لاونچ میں بیٹھے نورے کے بارے میں ہی بات کر رہے تھے جب شازل کو بھاگ کر آتے دیکھ کر ایک دم کھڑے ہوئے تھے۔اس کے چہرے کا اڑا رنگ دیکھ کر شاہزیب کو کسی انہونی کا احساس ہوا تھا۔

شازل بنا کسی کی طرف دیکھےے سیدھا اوپر نورے کے کمرے کی جانب بھاگا تھا۔نورے کے کمرے کے پاس پہنچتے ہی اس نے جھٹکے سے دروازہ کھولا تھا۔نورے دروازہ کھلنے کی آواز پر فورا اس جانب مڑی تھی۔شازل نے اسے صحیح سلامت دیکھ کر ایک گہری سانس خارج کی تھی۔
" کیا ہوا ہے تم پاگلوں کی طرح کیوں بھاگ کر آئے ہو؟"
اپنے پیچھے سے شاہزیب کی آواز سن کر وہ اس کی جانب مڑا تھا۔
"میں کچھ دیر اپنی بیوی سے اکیلے بات کرنا چاہتا ہوں۔۔"
وہ شاید پہلی بار اس سے اتنی تمیز سے بول رہا تھا۔
"اوکے۔۔مگر نورے کو نقصان پہنچانے کا سوچنا بھی مت۔۔"
شاہزیب انگلی اٹھا کر بولتا ایک نظر نورے پر ڈالتا باہر نکل گیا تھا۔اگر اس نے نورے کو اس معاملے میں نہ پڑنے کا وعدہ نہ کیا ہوتا تو شاید وہ کبھی بھی شازل کو یوں اکیلے میں اس سے بات کرنے نہ دیتا۔۔

شاہزیب کے باہر نکلتے ہی شازل نے دروازہ فورا اندر سے لاک کیا تھا۔نورے اس کا خطرناک موڈ دیکھتے سیدھی ہوکر بیٹھ گئی تھی۔شازل دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اس کی جانب بڑھتا گہری نظروں سے اس کا جائزہ لے رہا تھا۔
"یہ حالت کیوں بنا رکھی ہے؟ "
انتہائی سنجیدگی سے پوچھا گیا تھا۔نورے نے بولنے کے لیے منہ کھولا تھا مگر شازل کی طرف دیکھتی وہ خاموش ہوگئی تھی۔
"میرے سوال کا جواب دو۔۔"
شازل نے زور سے دیوار میں مکہ مارتے پوچھا تھا۔

"م۔۔م۔۔مجھے س۔۔سونیا کی وجہ سے یونیورسٹی سے سسپینڈ کردیا گیا ہے می۔۔میری ساری محنت ضائع چلی گئی۔۔"
وہ کانپتی آواز میں بولی تھی۔شازل نے سختی سے لب بھینچتے دو قدم پیچھے لیے تھے۔
"کھڑی ہو۔۔"
اس کے بولنے پر نورے ویسے ہی بیٹھی رہی تھی۔شازل نے اسے بازو سے پکڑتے کھڑا کیا تھا۔
"یہ سب پاگل پن اس وجہ سے تھا؟"
اس نے نورے کا چہرہ دبوچتے پوچھا تھا۔راستے میں جو اس کی حالت تھی وہ شاید کبھی لفظوں میں بیان نہ کر پاتا۔۔۔

"ن۔۔نہیں۔۔"
وہ شازل کی سرخ آنکھوں میں دیکھتی نفی میں سر ہلا گئی تھی۔
"پھر کیا وجہ تھی؟"
اس نے نورے کی آنکھوں سے آنکھیں ملاتے پوچھا تھا۔
"آپ کو میری کوئی فکر نہیں ہے۔۔اتنے دنوں سے غائب تھے ایک بار بھی کال نہیں کی اور آج جب میں نے آپ کو اپنی پریشانی بتانے کی کوشش کی آپ نے ڈانٹ کر کال بند کردیا اس وقت جتنی تکلیف مجھے ہوئی اس کا اندازہ آپ نہیں لگا سکتے۔۔"
وہ رونے سے سوجی آنکھوں سے شازل کو دیکھتی ڈٹ کر بولی تھی۔

"صحیح۔۔تو کیا جب میں مصروف ہوں گا تو مجھ پر فرض ہے تمھاری کال پک کرنا تم سے محبت بھری باتیں کرنا۔۔نکل آو اس فیز سے نورے۔۔میرے پاس اتنا فضول وقت نہیں ہے میں تمھارے پاس بیٹھ کر محبت بھری باتیں کروں تمھارے ناز نخرے اٹھاوں۔۔"
وہ سخت غصے میں لگ رہا تھا۔اس کی باتوں نے نورے کو شدید تکلیف پہنچائی تھی۔

"میں نے کبھی ایسی کوئی ڈیمانڈ نہیں کی۔۔"
وہ شازل کے خاموش ہونے پر چیخ کر بولی تھی۔
"آپ کا میری زندگی میں آنا میری لیے سب سے بڑی سزا ہے۔۔"
وہ شازل کی طرف دیکھتی چیخی تھی۔
"بلیڈ کہاں ہے؟"
شازل نے سرد لہجے میں پوچھا تھا۔نورے خاموش ہی رہی تھی۔شازل نے اسے سائیڈ کرتے بیڈ کے سائیڈ ٹیبل سے کاغذ نکالا تھا اسے تیزی سے کھولا تھا جس میں سے چند بلیڈ نکلے تھے۔نورے آنکھیں پھیلائے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔جو بلیڈ تھامے اس کی جانب بڑھی تھی۔

"ی۔۔یہ کیا کر رہے ہیں آپ ؟"
اس نے کانپتی آواز میں پوچھا تھا۔شازل نے اس کا ہاتھ ہکڑتے اس کی کلائی پر لگا چھوٹا سا کٹ دیکھا تھا۔
"تمھیں پتا ہے اسے دیکھ کر مجھے کیسا محسوس ہوا تھا۔؟"
شازل کے سپاٹ لہجے میں پوچھنے پر نورے کو اس سے شدید خوف محسوس ہوا تھا۔

وہ نورے کا ہاتھ چھوڑتا چند قدم پیچھے ہٹتا بلیڈ پکڑتا اپنے ہاتھ پر تیزی سے پھیر چکا تھا۔نورے کا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا۔ایک زور دار چیخ اس کے حلق سے نکلی تھی۔

"شازل۔۔"
اس کی آنکھوں میں تیزی سے آنسو آئے تھے۔۔وہ شازل کی جانب بڑھنے لگی تھی۔جب شازل نے اسے روک دیا تھا۔
"ایک بھی قدم میری طرف مت بڑھانا اسی بلیڈ سے اپنی نس کاٹ لوں گا۔۔"
وہ پیچھے ہٹتا صوفے پر جاکر اب اس کی بےسکون حالت کو ساکت نظروں سے دیکھ رہا تھا۔چند منٹوں پہلے اس سے بھی بدتر حالت اس کی تھی۔

"شازل پلیز۔۔ دیکھیں کتنی تیزی سے خون نکل رہا ہے۔۔"
نورے کی آنکھوں سے آنسو نکلتے اس کے زرد گالوں کو بھگونے لگے تھے۔وہ باقاعدہ کانپ رہی تھی۔اس نے ایک قدم شازل کی جانب بڑھانے کی ناکام سی کوشش کی تھی جب شازل نے وہ بلیڈ اٹھاتے اپنی کلائی پر رکھا تھا۔نورے اپنی جگہ پر منجمد ہوگئی تھی۔
"آئی ایم سوری۔۔ اب میں کبھی ایسا نہیں کروں گا۔۔پلیز سٹاپ اٹ۔۔"
وہ روتے ہوئے گھٹنوں کے بل زمین پر گر گئی تھی۔مزید کھڑا رہنے کی سکت نہیں تھی۔شازل چند منٹ اسے روتے دیکھنے کے بعد کھڑا ہوا تھا اس کے قریب آتے اس نے نورے کی ٹھوڑی تھامتے اس کی بھیگی آنکھوں کو شدت سے چوما تھا۔وہ بےساختہ اس کے لمس پر آنکھیں بند کرگئی تھی۔سکون کی ایک لہر اس کے وجود میں سرایت کرگئی تھی۔
"جاو فرسٹ ایڈ باکس لے کر آو۔۔"
شازل کی بات پر وہ تیزی سے فرسٹ ایڈ باکس لے آئی تھی۔شکر تھا کٹ گہرا نہیں تھا۔اس نے نرمی سے شازل کا زخم صاف کرتے اس کے بینڈیج کردی تھی۔

"دوبارہ میری توجہ اس طریقے سے حاصل کرنے کی کوشش بھی مت کرنا نورے۔۔اس بار آسانی سے چھوڑ رہا ہوں اگلی بار تم سوچ بھی نہیں سکتی میں کیا کرسکتا ہوں۔۔"
وہ نورے کے بینڈیج کرنے کے بعد اپنے دائیں ہاتھ سے اس کے بالوں کو پکڑتا اس کا چہرہ اپنے چہرے کے بےحد قریب کرتا سفاکیت سے بولا تھا۔

"مجھے اچھا سمجھنے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔بہت برا ہوں تمھیں اس سے بھی زیادہ تکلیف دے سکتا ہوں۔۔"
وہ نورے کے بھیگے گالوں کو صاف کرتا سرد لہجے میں بولا تھا۔نورے خاموش سے اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔

"آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں آپ یونیورسٹی چھوڑ چکے ہیں۔۔"
اس نے شازل کے گال پر ہاتھ رکھتے بھاری آواز میں پوچھا تھا۔
"یونیورسٹی میں میرا کام ختم ہوچکا ہے۔۔اور تمھارے ساتھ جو سونیا نے کیا ہے اسے اس کی سزا ضرور ملے گی۔۔ اس کے لیے اب پریشان مت ہونا۔۔"
وہ سنجیدگی سے انگوٹھے سے نورے کے گال کو سہلاتا بولا تھا۔
"کیا اب آپ مجھ سے ملا بھی نہیں کریں گے؟"
اس نے شازل کے چہرے پر نظریں جمائے پوچھا تھا۔

"تمھیں لگتا ہے تم مجھ سے ملے بنا رہ سکو گی؟ یا مجھے رہنے دو گی؟"
وہ اس کی بھیگی پلکوں کو چھوتا طنزیہ پوچھ رہا تھا جس پر وہ مسکرا اٹھی تھی۔
"مجھ سے دور جانے کا سوچیے گا بھی مت۔۔"
وہ شازل کی شرٹ کو مٹھیوں میں جکڑتی شدت سے بولی تھی۔
"میں کچھ عرصہ تم سے مل نہیں پاوں گا مجھے امید ہے تم دوبارل ایسا کوئی پاگل پن کرنے کی کوشش نہیں کرو گی۔۔"
وہ سختی سے بول رہا تھا۔وہ اب مکمل طور پر فیاض کو ختم کرنے کی طرف توجہ دینا چاہتا تھا اس کے پاس نورے کے پاگل پن اور اس کی محبت کے لیے وقت نہ تھا۔وہ جلد سے جلد اپنا کام کرنا چاہتا تھا۔

"اچھا۔۔"
وہ خاموشی سے شازل کو ایک نظر دیکھتی چہرے کا رخ پھیر گئی تھی۔
"میں اب چلتا ہوں بعد میں ملاقات ہوگی دوبارہ کوئی پاگل پن مت کرنا۔۔ میں تم سے کچھ عرصہ تک مل نہیں پاوں گا اپنا خیال رکھنا۔۔"
وہ نورے کے ماتھے کو چومتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔نورے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھ رہی تھی۔
"آپ روزانہ مجھ سے بات کریں گے۔۔"
اس نے ضدی انداز میں کھڑے ہوتے شازل کی شرٹ کو پکڑتے کہا تھا۔
"اوکے۔۔"
شازل نے سر ہلاتے جواب دیا۔
"مجھے روزانہ صبح گڈ مارننگ کا میسج کریں گے؟"
اس نے مان بھرے انداز میں پوچھا تھا۔
"ہاں۔۔"
شازل نے اس کے چہرے پر آتی آوارہ لٹوں کو کان کے پیچھے اڑسا تھا۔
"مجھ سے پیار سے بات کریں گے؟"
وہ شازل کی آنکھوں میں دیکھتی بولی تھی۔
"بالکل۔۔"
اس نے سر کو خم دیتے جواب دیا۔
"مجھے رات کو گڈ نائیٹ بولا کریں گے۔۔"
اس نے بچوں کی طرح فرمائش کی تھی شازل بےساختہ ہنس پڑا تھا۔اس کی کمر کے گرد بازو پھیلاتے اس نے نورے کو سینے سے لگا لیا تھا۔
"تم جو کہو گی میں کردوں گا دوبارہ کبھی مجھے ایسے مت ڈرنا۔۔اوکے؟"
شازل نے اس کے بالوں پر ہونٹ رکھتے کہا تھا جس پر مسکرا اٹھی تھی۔یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی اسے خوش کردیتی تھیں۔

"آج یونیورسٹی میں جو ہوا وہ میں کل کال پر ڈٹیل سے پوچھ لوں گا اپنا خیال رکھنا۔۔۔"
وہ اس کا سر چومتا پیچھے ہٹ گیا تھا۔نورے نے آنکھیں پھیلا کر اسے دروازے کی جانب جاتے دیکھا تھا۔
وہ دروازے کے پاس جاتا اچانک رک گیا تھا تیزی سے واپس آتے اس نے سارے بلیڈ اٹھائے تھے اور واشروم میں جاتے فلش کردیے تھے۔نورے بس خاموشی سے دیکھتی رہی تھی۔

"لاسٹ بار وارن کر رہا ہوں نورے دوبارہ ایسی گھٹیا حرکت کرکے مجھے بلیک میل مت کرنا ورنہ تم اچھے سے جانتی ہو میں کیا کر سکتا ہوں۔۔"
بلیڈز دیکھ کر اسے ایک بار پھر شدید غصے آیا تھا تبھی نورے کی گردن میں ہاتھ ڈالتے وہ سختی سے بولا تھا۔
"جواب دو ڈیم اٹ۔۔"
شازل کے چلانے پر وہ سہم گئی تھی۔
"میں اب ایسا کچھ نہیں کروں گی۔۔"
وہ لب تر کرتے بولی تھی شازل کی نظر بےساختہ اس کے ہونٹوں کی طرف گئی تھی۔وہ شدت سے اس کے ہونٹوں پر جسارت کرتا باہر نکل گیا تھا۔پیچھے وہ اسے اپنے لمس کے حصار میں قید کر گیا تھا۔

"نورے ٹھیک ہے؟"
شازل کے باہر نکلتے ہی شاہزیب نے پوچھا تھا۔اس کی نظر بےساختہ شازل کے ہاتھ کی طرف گئی تھی۔وہ اسے سائیڈ کرتا کمرے میں داخل ہوا تھا نورے کو صحیح سلامت دیکھتے دوبارہ باہر نکلا تھا۔
"اس کے پاس بلیڈز تھے وہ اپنی کلائی کاٹنے لگی تھی اگر میں اس سے ملنے نہ آتا۔۔"
وہ لب بھینچ کر شاہزیب کو بتا رہا تھا۔
"کیا بکواس کر رہے ہو تم؟"
شاہزیب نے شاکڈ کی کیفیت میں پوچھا تھا۔
"یہ تم خود اپنی بہن سے پوچھ لینا۔۔میں بس اتنا کہوں گا بہنیں بہت انمول ہوتی ہیں اس کا خیال رکھو ایسا نہ ہو وقت ہاتھ سے نکل جائے اور بس پچھتاوا رہ جائے۔۔"
شازل سنجیدگی سے بولتا لمبے لمبے ڈھگ بھرتا نکل گیا تھا اسے اس وقت شدت سے اپنی بہن کی یاد آرہی تھی۔دل میں تکلیف اٹھتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔

"نورے تم نے مجھے بہت مایوس کیا۔۔"
شاہزیب نے نورے سے جاکر کہا تھا۔
"کیا یہ حرکت کرنے والی تھی اور بلیڈز کہاں سے آئے تمھارے پاس؟"
شاہزیب نے سختی سے پوچھا تھا۔
"س۔۔سوری بھیا اب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔"
وہ شاہزیب سے ڈانٹ سنتی شدید شرمندہ ہوگئی تھی۔
"آئیندہ کے بعد کوئی بھی سٹریس ہوا تو میرے پاس آجایا کرو نورے یوں الٹی سیدھی حرکتیں مت کیا کرو۔۔میں تمھیں کھونا نہیں چاہتا۔۔"
شاہزیب نے اسے پکڑ کر سینے سے لگایا تھا۔
"آج کا دن ہی برا تھا میں کافی ڈیپریس فیل کر رہی تھی اب ایسا کبھی نہیں کروں گی۔۔"
نورے کی بات پر شاہزیب نے سر ہلاتے اسے اپنی گرفت سے آزاد کیا تھا۔
"تم نے کھانا نہیں کھایا ؟"
شاہزیب کی نگاہ بےساختہ ٹیبل پر پڑی ڈھکی ہوئی ٹرے پر گاءی تھی۔نورے نے خاموشی سے سر نفی میں ہلایا تھا۔
"چلو شاباش فورا کھانا کھالو۔۔"
شاہزیب کی بات پر وہ ہاتھ دھو کر کھانا کھانے لگی تھی۔شاہزیب اس کے کھانے کے بعد اسے ریسٹ کرنے کا بول کر چلا گیا تھا۔
نورے شازل کو دیکھنے کے بعد پرسکون ہوگئی تھی اب اسے پتا تھا وہ کم سے کم اسے روزانہ میسج تو کءا کرے گا۔۔ 

جاری ہے۔۔ 

Professor Khan

Zanoor Writes
Episode 19
(Series 2 in Professor Shah Novel)

 "فیاض بہت تیز ہے اس نے چند دن پہلے اپنے ارد گرد سکیورٹی ڈبل کرلی ہے۔۔"
حیدر کی میز پر پھینکی گئی تصویریں اٹھا کر دیکھتا شازل ماتھے پر بل ڈالے بولا تھا۔

"تمھیں اور چوکنا رہنا چاہیے۔۔وہ پہلے ہی چئیر پرسن کے اصل قاتل کی تلاش میں ہیں۔۔"
عسکری نے اپنے لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلاتے جواب دیا تھا۔
"ہمم۔۔اور اس کی کالز پر کچھ سننے کو ملا؟"
شازل نے ماتھے پر بل ڈالے پوچھا تھا۔

"ہاں وہ آج کل کسی گرینڈ سیلبریشن کی بات کر رہے ہیں۔۔جو شاید ایک مہینے بعد ہوگی۔۔"
عسکری نے سر ہلاتے جواب دیا تھا۔
"اس پارٹی کے بارے ساری انفارمیشن نکالو اس کے گھر کے گرد جتنی سکیورٹی ہے ہم اسے وہاں ہاتھ بھی نہیں لگا سکیں گے۔۔"
شازل نے سگریٹ سلگاتے ہوئے سنجیدگی سے کہا تھا۔

"تم کل رات کو فیاض کے گھر کے ارد گرد کا معائنہ کرنے گئے تھے نہ؟ "
حیدر نے اچانک پوچھا تھا۔شازل نے گہرا سانس بھرا تھا۔
"ایک ضروری کام کی وجہ سے مجھے کہیں جانا پڑا تھا۔"
شازل نے سگریٹ کا دھواں فضا میں چھوڑتے کہا تھا۔
"کہیں وہ ضروری کام نورے تو نہیں تھی۔۔"
حیدر سلطان کی بات پر وہ ایک دم سیدھا ہوتا اس کی جانب مڑا تھا۔

"مجھے پسند نہیں تم بار بار اس کا ذکر محفل میں کرو۔۔وہ کوئی ایری غیری لڑکی نہیں ہے۔۔میری بیوی ہے۔۔"
وہ انگلی اٹھاتا حیدر سلطان کو سخت لہجے اور سرد انداز میں وارن کرگیا تھا۔
"اس کی وجہ سے تم مشن سے ہٹ رہے ہو۔۔"
اب کی بار عسکری ہلکی آواز میں منمنایا تھا۔شازل نے تیز نظروں سے اسے دیکھا تھا۔

"میں تم دونوں کو جواب دینے کا پابند نہیں ہوں۔۔"
وہ سگریٹ زمین پر پھینکتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"اور تم دونوں اپنی حد میں رہو اس سب میں نورے کو دوبارہ بیچ میں لانے کی کوشش بھی مت کرنا ورنہ سارے لحاظ بھول جاوں گا۔۔"
وہ اپنے براون بالوں میں ہاتھ پھیرتا سپاٹ لہجے میں انھیں وارن کرگیا تھا۔عسکری خاموش ہوگیا تھا جانتا تھا وہ اپنی مرضی کا مالک ہے۔۔

"ہم صرف اتنا چاہتے ہیں تم اس مشن کے دوران اس سے دور رہو ورنہ اگر وہ لوگوں کی نظروں میں آگئی تو اسے بچانا مشکل ہوجائے گا۔۔"
حیدر نے کھڑا ہوتے سنجیدگی سے کہا تھا۔
"اس کی حفاظت میں کرسکتا ہوں۔۔"
شازل نے سرد لہجے میں کہا تھا۔
"وہ تو تم اپنی بہن کی بھی کرسکتے تھے۔۔"
حیدر کی بات پر غصے سے شازل کی رگیں ابھر آئی تھی۔ایک ہی جھٹکے میں حیدر کے پاس پہنچتے وہ ایک زوردار مکہ اس کے چہرے پر جڑ چکا تھا۔
"سچ برداشت نہیں ہورہا۔۔؟"
حیدر اپنے پھٹے ہونٹ کو صاف کرتا طنزیہ بولا تھا۔عسکری معاملہ سنگین ہوتا دیکھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔
"اپنی حد میں رہو۔۔"
شازل اس کا کالر دبوچتا غصے سے سرخ ہوتا غرایا تھا۔

"شازل کالم ڈاون۔۔حیدر سٹاپ اٹ۔۔"
عسکری نے بمشکل شازل کے فولاد وجود کو حیدر سے دور دھکیلا تھا۔
"تم جتنا مرضی چھپاو سچ یہ ہی اپنی آزادی کے لیے تم اپنی ذمہ داریوں سے آزاد ہوگئے تھے۔اس کی بربادی کی وجہ تم بھی تھے۔۔تمھاری لاپرواہی اور ضد کی وجہ سے یہ سب ہوا۔۔"
حیدر سلطان غصے میں چیخ رہا تھا۔شازل ساکت سا ہوگیا تھا۔اپنی بہن کو وہ بچا سکتا تھا یہ سوچتے ہی ایک کسک اس کے دل میں اٹھی تھی۔

"حیدر شٹ اپ۔۔"
اب کی بار عسکری بھی اس کی باتوں پر بھڑک اٹھا تھا۔
"مجھے تو خاموش کروا لو گے مگر حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے اب یہ پھر اپنی خودغرضی میں ایک بےقصور لڑکی کی زندگی تباہ کرنے لگا ہے جبکہ یہ جانتا ہے وہ ارسل نامی شخص پہلے ہی اس کے بارے میں ناجانے کس کس کو بتا چکا ہے۔۔"
حیدر غصے سے شازل کو گھورتا ہوا بولا تھا۔شازل اس کی باتوں پر جیسے پتھر کی مورت بن گیا تھا۔

"اس سب کی جو وجہ ہے اس کا پل پل میں عذاب بنا دوں گا۔۔تم غلط ہو حیدر یہ سب میری وجہ سے نہیں ہوا۔۔جو اس کی وجہ ہے اسے اس سب کی سزا ضرور ملے گی۔۔"
وہ سرد لہجے میں بولتا اپنی گاڑی کی چابیاں اٹھاتا لمبے لمبے ڈھگ بھرتا وہاں سے نکل گیا تھا۔

"تم نے یہ سب کیوں کیا حیدر ؟ اب وہ جلد بازی میں کوئی نہ کوئی غلط فیصلہ کرلے گا۔۔"
عسکری نے غصے سے پوچھا تھا۔
"وہ اصل مقصد بھول رہا تھا۔اسے یاد دلانا ضروری تھا۔"
حیدر سپاٹ لہجے میں بنا اس کی جانب دیکھے بولا۔۔
"تم پاگل ہو۔۔یہ کوئی طریقہ تھا؟ "
عسکری غصے سے بڑبڑاتا اپنا لیپ اٹھاتا اپنے گھر چلا گیا تھا۔وہاں صرف حیدر ہی رہ گیا تھا۔وہ سختی سی آنکھیں میچ گیا تھا۔اس کی آنکھوں کے سامنے چھن سے ایک نازک سراپا لہرایا تھا۔درد کی ٹیسیں اس کے دل میں بےساختہ اٹھی تھی۔اس نے بےبسی سے زور سے اپنے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑ لیا تھا۔وہ بس اتنا چاہتا تھا شازل جلد سے جلد سب مجرموں کو ختم کردے تاکہ اس کے سلگتے دل کو بھی تھوڑی راحت مل جائے۔۔ 

 وہ کوئی کتاب نکال اس کے اوراق پلٹنے میں مصروف تھی مگر سوچوں کا مرکز شازل خان تھا۔صبح اس کے میسج پر وہ نہال سی ہوگئی تھی۔تبھی سارا دن پرسکون سا گزرا تھا۔

وہ اس سے کال پر بات کرنا چاہتی تھی مگر لگتا تھا شازل مصروف ہے۔تبھی اس کا میسج تک بھی نہیں آیا تھا۔وہ کچھ دیر مزید انتظار کرتی بےزار سی فریش ہوتی سونے کی تیاری کرنے لگی تھی۔

گھڑی رات کے ایک بجا رہی تھی وہ نائٹ بلب اون کرتی سونے لگی تھی جب دروازہ کھلنے کی آواز پر اس کی کچی نیند سے آنکھیں کھل گئی تھیں۔اس نے فورا اٹھ کر بیٹھتے لائٹ اون کی تھی۔دل میں فورا شازل کا خیال آیا تھا۔

"شازل"
اس نے مسکرا کر شازل کو دیکھا تھا مگر جلد ہی اس کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔وہ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔اس کا چہرہ شدید زرد دکھائی دے رہا تھا۔
"آپ ٹھیک ہیں؟"
اس نے گھبرا کر بیڈ سے کھڑے ہوتے پوچھا تھا۔شازل چند قدم اٹھاتا سائیڈ پر پڑے صوفے پر گر گیا تھا۔
"ہاں۔۔"
فقط ایک لفظی جواب دیا گیا تھا۔وہ اس کی حالت پر پریشان سی ہوگئی تھی۔
"کوئی پریشانی ہے شازل؟"
اس نے شازل کے ساتھ بیٹھتے نرمی سے پوچھا تھا۔
"میں ابھی کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔۔"
شازل نے سرد لہجے میں کہتے اپنا سر صوفے کی پشت سے ٹکالیا تھا۔حیدر کی باتیں اس کے دماغ میں ہتھوڑے کی مانند بج رہی تھیں۔ابھی نورے کو اپنے قریب پاکر اس کے بھڑکتے دل کو تھوڑا سکون ملا تھا۔مگر حیدر کی کاٹ دار باتیں ابھی بھی کانوں میں گونج رہی تھیں۔

وہ سختی سے آنکھیں موند گیا تھا۔نورے نے اسے دیکھتے نرمی سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلانا شروع کی تھیں۔وہ اس کی انگلیوں کا نرم لمس محسوس کرتا ایک ٹھنڈی سانس خارج کرتا ریلکس ہوگیا تھا۔
"سر میں درد ہو رہا ہے؟ چائے بنا دوں؟"
اس نے نرم سے شازل سے پوچھا تھا۔
"نہیں میں بس کچھ دیر سکون سے گزارنا چاہتا ہوں۔۔"
وہ سپاٹ لہجے میں بولتا نورے کی کمر میں ہاتھ ڈالتا اسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگاچکا تھا۔اسے کھو دینے کی احساس سے دل بےہنگم انداز میں دھڑک رہا تھا۔اسے سینے سے لگاتے سکون کی ایک لہر اس کے وجود میں اتر سی گئی تھی۔نورے اس کی طبیعت کا خیال کرتی خاموشی سے اس کے سینے پر سر رکھتی اس کی مدھم دھڑکنوں کے شور کو سننے لگی تھیں۔
وہ اس کی خوشبو خود میں اتارتا کچھ ہی دیر میں گہری نیند کی وادیوں میں کھو گیا تھا۔نورے کچھ پل جاگتی رہی تھی مگر جلد ہی وہ بھی سو گئی تھی۔

صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی جبکہ شازل کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا جس پر وہ خاصا مایوس ہوگئی تھی۔وہ شاید جلدی میں تھا جو اسے بھی جاتے ہوئے بتانا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ 

 "ہیلو پروفیسر۔۔ اوہ سوری اب تو آپ ہمارے پروفیسر نہیں رہے۔۔شازل۔۔"
سونیا اپنے بال کانوں کے پیچھے اڑستی معصنوعی معصومیت کا مظاہرہ کرتی کرسی کھینچ کر اس کے رو برو بیٹھ گئی تھی۔

شازل نے اپنے سامنے پڑی چائے کو پیتے آنکھیں چھوٹی کرکے اس چالاک لڑکی کو گھورا تھا۔اس کے منہ سے اپنا نام سن کر اسے اپنا نام ہی زہر لگنے لگا تھا۔

"پیپرز کیسے ہورہے ہیں؟"
اس نے سرسری انداز میں پوچھا تھا۔ویٹر کے آتے ہی سونیا نے اپنے لیے جوس آرڈر کیا تھا۔شازل کا سوال سنتی وہ مسکرا اٹھی تھی۔
"بہت اچھے ہورہے ہیں۔۔بس آپ کو مس کر رہی ہوں۔۔"
اس کی بےباکی پر شازل نے سختی سے جبڑے بھینچ لیے تھے۔اس کی نظروں کے سامنے نورے کا آنسووں سے تر چہرہ لہرایا تھا۔وہ چائے کے کپ پر اپنی گرفت مضبوط کرگیا تھا۔اس نے پیپر کے بعد سونیا کو یونیورسٹی کے کیفے سے کچھ دور ملنے کے لیے بلایا تھا۔

"میں نے سنا نورے کو سسپینڈ کردیا گیا ہے۔۔ کیا یہ سچ ہے؟"
شازل نے چائے کا گھونٹ بھرتے سرد لہجے میں پوچھا تھا۔سونیا کے چہرے سے مسکراہٹ سمٹی تھی۔
"ج۔۔جی وہ چیٹنگ کر رہی تھی۔ واٹ آ ڈمب گرل۔۔"
سونیا تمسخرانہ انداز میں بولی تھی۔نورے کو پھنسا کر نکلوانے پر اسے سکون مل گیا تھا۔
"کیا تم نے وہ چیٹنگ والا پیپر اس کے پاس پھینکا تھا۔؟"
شازل کے پوچھنے پر وہ گھبرا گئی تھی۔

"میں ایسا کیوں کروں گی؟"
سونیا نے معصوم بنتے ہوئے پوچھا تھا۔
"کیا تم نے وہ پیپر پھینکا تھا ہاں یا نہیں؟"
شازل نے اپنی ویسٹ سے گن نکالتے اس کے سامنے رکھی تھی سونیا کا سانس سوکھ گیا تھا۔شازل کے لہجے میں چھپی وارننگ محسوس کرکے اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک پڑی تھیں۔

"شا۔۔شازل۔۔"
اس نے آنکھیں پھیلا کر شازل کی جانب دیکھا تھا۔
"شٹ اپ اپنے منہ سے میرا نام دوبارہ مت لینا۔۔اس کا حق صرف میں نے اپنی بیوی کو دیا ہے۔۔اب بتاو ہاں یا ناں؟"
اس نے گن کی سیفٹی ہٹاتے سخت لہجے میں کہا تھا۔
"ہ۔۔ہاں م۔۔میں نے پھینکا تھا وہ پیپر۔۔"
اس نے کانپتی آواز میں شازل کی جانب دیکھتے جواب دیا تھا اس کے چہرے کے سرد تاثرات دیکھ کر سونیا کے چہرے کا رنگ فق ہوچکا تھا۔
"کیوں؟"
اس نے سرد لہجے میں سونیا کے چہرے کی جانب دیکھتے پوچھا تھا۔
"م۔۔مجھے نہیں پسند اس کا آپ کی طرف دیکھنا بھی۔۔ جو ہمارے درمیان آئے گا میں اس کے ساتھ ایسا ہی کروں گی۔"
وہ جنونی انداز میں بولی تھی۔
شازل اس کی بات سنتا ہنس پڑا تھا۔سونیا اسے حیرانی سے ہنستے ہوئے دیکھ رہی تھی۔

"ہمارے درمیان ایسا کوئی رشتہ ، تعلق یا واسطہ نہیں جو تم ایسا بولنے کا حق رکھو۔۔"
"وہ کوئی عام لڑکی نہیں ہے۔۔جسے تمھارا دل کیا اپنے راستے سے ہٹا دو گی۔۔"
"وہ میری بیوی ہے۔۔"
"اسے نقصان پہنچانے والے کسی بھی شخص کو میں آسانی سے نہیں چھوڑوں گا۔۔"
"نورے شازل خان کو تکلیف پہنچانے والے ہر شخص سے میں سود سمیت اس کے آنسووں کا بدلہ لوں گا۔"
وہ انتہائی سنجیدگی سے گن کو میز پر گھوماتا بول رہا تھا۔اس کے منہ سے نورے کو بیوی تسلیم کرنے کا سن کر اس نے سختی سے لب بھینچ لیے تھے۔اس کی نگاہ گن کی طرف سے ہٹتی ارد گرد گئی تھی جہاں کیفے میں چند لوگ ہی تھے جو اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔

"میں نے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔۔"
وہ گردن اکڑاتی اپنے ڈر کو چھپاتی بولی تھی۔مگر وہ بھی شازل خان تھا مقابل کے کانپتے ہاتھ ، بگڑے تنفس اور اڑے رنگ نے اس کے کیفیت ظاہر کر دی تھی۔

"تمھاری وجہ سے اس کی ساری محنت ضائع ہوگئی اسے یونیورسٹی سے سسپینڈ کردیا گیا۔۔اس نے تمھاری وجہ سے خود کو نقصان پہنچایا۔۔"
"اور تمھیں لگتا ہے تم نے کچھ نہیں کیا؟"
شازل نے غصے سے بھری نظروں سے اس کی جانب دیکھتے پوچھا تھا۔ سونیا لاجواب سی ہوگئی تھی۔
"تم صبح یونیورسٹی جاکر سب سے اپنے جرم کا اعتراف کرو گی۔۔ورنہ جو اتنی آسانی سے بخش رہا ہوں اس سے کئی زیادہ اذیت دوں گا۔۔اور مجھے مزاق میں لینے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔نورے کے معاملے میں ، میں بالکل بھی رحم دل نہیں ہوں۔۔"
وہ اپنی گن ویسٹ میں رکھتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔اس کی بات پر سونیا کا سانس سوکھ گیا تھا۔اس نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا اس کی چال اس پر ہی الٹی پڑ سکتی ہے۔۔
"اٹھارہ گھنٹے ہیں تمھارے جو بھی فیصلہ کرو گی سوچ سمجھ کر کرنا۔۔اگر کل تک میری بیوی کو یونیورسٹی سے کال نہ آئی تو تمھارے گھر والوں کو تمھارے غائب ہونے کی کال ضرور چلی جائے گی۔۔"
وہ سفاکیت سے بولتا اپنے والٹ سے چند نوٹ نکال کر میز پر پھینکتا بے لمبے ڈھگ بھرتا وہاں سے نکل گیا تھا۔اس کو جاتے دیکھ کر سونیا نے اپنا سر ہاتھوں میں گرا لیا تھا۔شازل کے انداز سے اسے پتا چل گیا تھا وہ مزاق بالکل بھی نہیں کر رہا تھا۔ 

 وہ کچھ دنوں سے موقع کی طاق میں تھا کہ کب اسے وقت ملتا ہے اور کب وہ دانین سے کھل کر بات کرتا ہے۔۔وہ کافی دنوں سے اسے دکھائی بھی نہیں دی تھی جس کی وجہ سے اسے عجیب بےچینی ہورہی تھی۔ملائکہ بھی عجیب خاموش سی ہوگئی تھی اس سے وہ جب بھی دانین کے بارے میں کچھ پوچھتا وہ کوئی جواب نہ دیتی۔۔آج آغا خان میٹنگ کے سلسلے میں آوٹ آف سٹی گئے ہوئے تھے مگر ملائکہ گھر ہی تھی وہ رات ہونے کا انتظار کر رہا تھا تاکہ دانین سے بات کرسکے۔۔

رات کے کھانے کے بعد وہ اپنے ساتھیوں سے ایکسکیوز کرتا گھر کے اندر داخل ہوا تھا۔ملائکہ کے کمرے کی لائٹ آف دیکھتے اس نے سکون کا سانس بھرا تھا وہ بنا آواز پیدا کیے قدم آگے بڑھانے لگا تھا۔
"اس طرح چھپ کر جانے سے بہتر تھا تم مجھ سے ایک بار پوچھ لیتے روحان۔۔"
ملائکہ کی آواز سنتا وہ ایک دم ساکت ہوگیا تھا۔
"میں بس ایک بار اس سے بات کرنا چاہتا ہوں۔۔"
وہ ملائکہ کی طرف رخ کرتا التجائیہ انداز میں بولا تھا۔
"کیا بات کرو گے؟"
"وہ اپنے باپ پر گئی ہے تمھاری کوئی بات نہیں سنے گی اب جو اس نے ٹھان لیا ہے وہ کرکے رہے گی۔۔"
ملائکہ بےتاثر انداز میں بولی تھی۔روحان نے ٹھٹھک کر اس کی جانب دیکھا تھا۔

"آپ کہنا کیا چاہتی ہیں؟ "
"جو بات ہے صاف صاف بتا دیں۔۔"
روحان نے لب بھینچ کر کہا تھا۔
"تمھیں میری بات سمجھ آجائی گی جاو اس سے بات کرلو لیکن تمھارے پاس صرف پندرہ منٹ ہے اس کے بعد میں کمرے میں آجاوں گی۔۔اور اسے کوئی نقصان پہنچانے کی جرت بھی مت کرنا۔۔"
ملائکہ نے اسے وارن کیا تھا۔
"آپ کو لگتا ہے میں اسے نقصان پہنچاوں گا؟"
غصے سے روحان کے ماتھے کی رگیں ابھر آئیں تھیں۔
"میرا مرد ذات سے بھروسہ اٹھ چکا ہے اب مجھے تم بھی سب مردوں جیسے لگتے ہو۔۔"
ملائکہ کی بات پر وہ لب بھینچ کر خاموشی سے سیڑھیاں پھلانگتا اس سے بات کرنے چلا گیا تھا۔ملائکہ گہرا سانس خارج کرتی وہاں لاونج میں ہی بیٹھ گئی تھی۔

وہ ناک کرتا اس کے روم میں داخل ہوا تھا۔دانین کو لگا تھا ملائکہ ہوگی مگر اس کی جگہ روحان کو دیکھتے وہ حیرانی سے اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی تھی۔
"کیا کوئی ہے آپ کو؟"
اس نے پل میں اپنے چہرے کے تاثرات پتھریلے کرتے روحان سے پوچھا تھا۔
"میرے ساتھ یوں اجنبیوں والا بہیو کیوں کر رہی ہو؟"
اس نے ماتھے پر بل ڈالے پوچھا تھا۔
"کیسا بہیو ؟"
اس نے سینے پر بازو باندھتے سخت لہجے میں پوچھا تھا۔
"تم جانتی ہو میں کیا بات کر رہا ہوں۔۔"
روحان نے اس کی جانب ایک قدم بڑھاتے مٹھیاں بھینچتے کہا تھا۔
"اپنی لمٹ میں رہیں مسٹر روحان۔۔ میں آپ کو کسی بات کے لیے جوابدہ نہیں ہوں۔۔"
وہ پیچھے قدم اٹھاتی سپاٹ انداز میں بولی تھی۔
"تم میرے جذبات کے ساتھ یوں کھیل نہیں سکتی دانین۔۔"
وہ غصے سے دھاڑا تھا۔
"کیسے جذبات ؟ کونسے جذبات کی بات کر رہے ہیں آپ؟"
وہ اس کے غصے سے بنا ڈرے بولی تھی۔
روحان اس کی بات سنتا ایک ہی جھٹکے میں اس کے قریب پہنچتا اس کے بازوؤں کو مضبوطی سے پکڑ گیا تھا۔
"میں تم سے پیار کرتا ہوں ڈیم اٹ۔۔"
"مجھ سے نہیں برداشت ہورہا تمھارا یہ سرد رویہ۔۔"
وہ اسے جھنجھوڑتا چیخا تھا۔
"خاموش ہوجائیں۔۔ مجھے کچھ نہیں سننا نکل جائیں میرے کمرے سے اس سے پہلے میں چیخ کر سب کو بلا لوں اور آپ کو اس کمرے سے دھکے دے کر باہر نکلواوں۔۔"
وہ روحان کے بازوں جھٹکتی زور سے چیختی روحان کو ساکت کر گئی تھی۔

"اگر تم نے ایسا ہی کرنا تھا تو کیوں میرے قریب آئی ؟ کیوں جانتے بوجھتے میرے جذباتوں سے کھیلی۔۔؟"
وہ دوبارہ اس کے بازووں کو تھامتے اسے جھنجھوڑتا ہوا پوچھنے لگا تھا۔
"مجھے نہیں پتا تھا آپ میری نرمی کو میری محبت سمجھ لیں گے۔۔"
"میری سب سے بڑی غلطی آپ سے ملنا تھا جان بوجھ کر میرے سر پر سوار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔کتنی بار بول چکی ہوں نہیں کرتی آپ سے کوئی محبت میں۔۔چھوڑ دیں میرا پیچھا۔۔آپ کی موجودگی سے بس اب میرا دم گھٹتا ہے۔۔فورا نکل جائیں میرے کمرے سے۔۔"
اسے روحان کی انگلیاں اپنے بازوؤں میں کھبتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں۔روحان اس کے منہ سے زہر خند باتیں سن کر سناٹے کی زد میں آگیا تھا۔
"ہاہاہا۔۔"
وہ اسے جھٹکے سے چھوڑتا ہنسنے لگا تھا۔
"بہت چالاک لڑکی ہو تم۔۔یہ ٹراما کا ڈرما کرکے معصوم بننے کی کوشش کر رہی ہو۔۔۔مگر اب مجھے سب واضح ہوگیا ہے کیسی لڑکی ہو تم۔۔ تم تو سانپ سے بھی زیادہ زہریلی ہو۔۔"
وہ اس کا جبڑا دبوچتا سفاکیت سے بولا تھا۔دل کرچی کرچی ہوچکا تھا۔
"اچھا ہوا جلدی تم سمجھ گئے۔۔"
وہ اپنے آنسووں گلے میں اتارتی بولی تھی۔وہ اسے کیا بتاتی وہ کس حال سے گزر رہی ہے۔۔وہ جو بھی کررہی تھی وہ اس کے بھلا کے لیے کر رہی تھی۔

روحان اسے جھٹکے سے چھوڑتا جانے کے لیے مڑا تھا جب اس کی کھڑکی سے اندر آتی لال روشنی کو دیکھتا ساکت ہوا تھا۔دانین اس کے چھوڑتے ہی رخ پھیر گئی تھی۔
"دانین نیچے جھکو۔۔"
وہ اونچی آواز میں چیخا تھا۔دانین ناسمجھی سے پیچھے مڑی تھی جب روحان اس پکڑتا زمین پر گرا تھا۔بجلی کی تیزی سے ایک گولی کھڑکی کے شیشے کو توڑتی اندار داخل ہوئی تھی۔دانین کے منہ سے ایک زور دار چیخ نکلی تھی۔

"We are under attack sir.."
اپنے کورڈینیٹ کی بات اپنے کان میں لگے بلوٹوتھ میں سنتا وہ تیزی سے سیدھا ہوا تھا۔
"Call the emergency backup."
وہ بولتا ہوا اپنی گن نکال چکا تھا۔
"تم ٹھیک ہو؟"
اس نے سنجیدگی سے دانین سے پوچھا تھا جس پر وہ دھیرے سے سر ہلا گئی تھی۔اس کی بےچین نظریں روحان کو دیکھ رہی تھیں کہ کہیں اسے کوئی چوٹ تو نہیں لگی مگر وہ بھی ٹھیک تھا۔

"شش۔۔بیڈ کے نیچے جاو۔۔اور کچھ بھی سنو مگر باہر مت نکلنا۔۔"
روحان سرد لہجے میں بولا تھا۔
"روحان۔۔"
دانین نے اسے پکارا تھا۔
"شٹ اپ جو بول رہا ہوں خاموشی سے وہ کرو۔۔"
اس بار وہ درشتگی سے بولتا دانین کو ڈرا گیا تھا۔دانین لب بھینچتی خاموشی سے بیڈ کے نیچے گھس گئی تھی۔روحان نے نیچے جھکتے اپنے پیچھے موجود دیوار پر لگے سوئچ کو آف کردیا تھا جس سے کمرے میں اندھیرا چھا گیا تھا۔وہ تیزی سے اٹھتا کھڑکی والی دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا تھا۔
اس نے پردہ ہٹاتے باہر جھانکا تھا مگر وہاں کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔
"باہر سچوئیشن کیسی ہے؟"
اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا تھا۔
"سر ہم گھر کے اندر بیک ڈور والی سائیڈ پر ہیں ملائکہ ہمارے ساتھ سیف ہے بیک اپ کال کرلیا گیا ہے ٹوٹل پانچ لوگ فرنٹ گیٹ پر ہیں۔۔"
"اوکے۔۔تم ملائکہ کے ساتھ بیک ڈور سے باہر نکل جاو۔۔میری فکر مت کرنا میں ٹھیک ہوں دانین بھی ٹھیک ہے تم وہاں سے نکلتے ہی باہر جو پہلی گاڑی ہے اس میں بیٹھ کر چلے جانا اور پیچھے مت مڑنا۔۔ملائکہ کو کسی سیف جگہ پہنچاو۔۔"
وہ پردے سے باہر جھانکتا تیزی سے بولا تھا۔
"بٹ سر ہم آپ کو کیسے چھوڑ کر جاسکتے ہیں؟"
اس کے ساتھی نے اعتراض کیا۔۔

"اٹس مائی آرڈر لیو دا ہاوس ناو۔۔"
وہ سختی سے بولا تھا۔
"سر آپ بھی آجائیں ہمارے ساتھ۔۔"
اس کے ساتھی نے بولا تھا۔
"اتنا ٹائم نہیں ہے ڈیم اٹ۔۔ویسے بھی گولیاں چل رہی ہیں دانین زخمی ہوسکتی ہے۔۔۔سارے گھر کی پاور بھی آف کردو اور باہر نکل جاو۔۔ہمارا سڑیٹ کے کارنر پر انتظار کرو۔۔اوکے؟ میں کسی بھی طرح دانین کو باہر نکلوا کر بھیجتا ہوں۔۔دانین نے آتے ہی یہان سے نکل جانا۔۔میرا انتظار مت کرنا"
وہ باہر کے دروازے پر چلتی گولیاں سنتا تیز لہجے میں بولتا تیزی سے دانین کی طرف بڑھتا اسے بازو سے پکڑتا تیزی سے بیڈ کے نیچے سے نکالتا باہر کی جانب بھاگا تھا اس کے ساتھی ساری پاور کٹ کرگئے تھے جس کی وجہ سے گھر میں اندھیرا چھا گیا تھا۔گولیوں کی آواز سن کر دانین کانپنے لگی تھی۔روحان اسے پکڑتا تیزی سے ٹیریس کے دروازے کی جانب بھاگا تھا۔وہاں بنے چھوٹے سے کمرے سے نکل کر چھت کا راستہ آتا تھا جہاں ٹائلز لگی ہوئی تھیں۔

"سٹے کوائیٹ۔۔"
"اوپر چڑھو۔۔"
اس کے بولنے پر وہ کانپتی ٹانگوں سے تیزی سے اس چھوٹے سے روم میں چڑھ گئی تھی۔باہر دروازہ ٹوٹنے کی آواز سن کر دانین نے منہ سے بےساختہ چیخ نکلی تھی۔روحان نے بےساختہ اس کے منہ پر ہاتھ رکھا تھا۔
"بےوقوف لڑکی تم ہم دونوں کو مرواو گی۔۔"
اس کے بولنے پر دانین اپنی زبان دانتوں تلے دبا گئی تھی۔
"یہاں سے نکلو اور احتیاط سے بنا آواز پیدا کیے ٹالز کو تھامتے ہوئے پچھلے راستے کی جانب بنی بالکونی میں کود کر نیچے اتر جانا اور یہاں سے نکلتے ہی سیدھا کارنر پر کھڑی گاڑی کے پاس چلی جانا۔۔"
روحان نے اسے ہدایت دی تھی۔
"آپ۔۔؟"
اس نے سوالیہ نگاہوں دے اسے دیکھا تھا۔روحان اس کی بات اگنور کر گیا تھا اسے اس کے ایک ساتھی نے بتایا تھا وہ لان میں چھپا ہوا ہے جس پر اس نے نیا پلان بنایا تھا۔
"میں انھیں ڈسٹریکٹ کر رہا ہوں۔۔یہ والکی ٹالکی لے لو اس کے ذریعے تم میرے ساتھیوں سے بات کرسکو گی۔۔مجھے ابھی کین نے بتایا ہے وہ پچھلے لان میں چھپا تمھارا انتظار کر رہا ہے۔۔تمھارا بس اتنا کام ہے تم نے کسی بھی طرح اس کے پاس پہنچنا ہے اور پیچھے مڑنے کی غلطی بھی مت کرنا۔۔جاو اب۔۔"

روحان کی بات پر وہ سر ہلا گئی تھیں۔کتنی باتیں تھیں جو وہ اس سے کرنا چاہتی تھی۔کتنے جذبات تھے جو وہ چھپائے بیٹھی تھی۔کتنے ادھورے جملے تھے جو وہ اسے بتانا چاہتی تھی۔سب کے سب اس کے ہونٹوں میں دبے رہ گئے تھے۔روحان کے بولنے پر وہ آہستہ سے وہاں بنے چھوٹے سے راستے سے باہر ٹیریس پر نکل آئی تھی۔قدموں کی چاپ قریب آتے محسوس کرتے اس روم کا دروازہ بند کرتے روحان نے اپنی گن نکال لی تھی۔اس کے پاس ایک ہی گن تھی جس میں صرف چھ گولیاں تھیں۔اس کے پاس ایکسٹرا بلٹس بھی نہیں تھیں اسے پتا تھا اسے بس انھیں بیک اپ کے آنے تک روکے رکھنا تھا بیک اپ کے آنے میں بھی دس سے پندرہ منٹ لگ جانے تھے۔اب تک وہ بس کچھ دور ہی تھے۔روحان کے پاس والکی ٹالکی بھی نہیں رہا تھا جس سے اس کا بلوٹوتھ کونیکٹ تھا۔

وہ خاموشی سے دروازہ بند کرتا وہاں سے نکلتا ساتھ والی دیوار سے چپک گیا تھا جب سامنے سے ٹارچ لے کر آتے آدمی کو دیکھ کر وہ مزید اندھیرے میں چھپتا اپنی سانس روک گیا تھا۔
اس آدمی کے قریب آتے ہی اس کو پیچھے سے گردن میں بازو ڈالتے اس نے اسے اٹھا کر وہاں بنی لکڑی کی گرل جس سے لاونچ کا منظر نظر آتا تھا نیچے پھینک دیا تھا۔
"چار۔۔"
وہ بڑبڑایا تھا ساتھ ہی اس نے گن نکالتے اپنی جانب آتے دو لوگوں پر تیزی سے فائر کیا تھا ساتھ ہی وہ گرل کے ساتھ موجود بڑے سے پلر کے پیچھے چھپ گیا تھا وہ دونوں میں سے ایک کے بازو پر گولی لگی تھی دوسرا صحیح سلامت تھا۔تبھی وہ دونوں تیزی سے فائر کرتے اس کی جانب بڑھ رہے تھے۔وہ بس اتنا ہی چاہتا تھا۔بس دانین یہاں سے بحفاظت نکل جائے۔۔

دوسری جانب دانین کانپتی ٹانگوں سے بمشکل ٹائلز پر چل رہی تھی۔خوف ، گھبراہٹ اور روحان کا سوچ کر اس کے سانس خشک ہوچکے تھے۔۔وہ اپنی سوچوں میں گم بری طرح ٹائل میں الجھتی گرتی ہوئی نیچے جانے لگی تھی جب عین وقت پر اس نے وہاں موجود ایک ٹائل کو تھام لیا تھا۔شور کی آواز سے نیچے موجود ایک آدمی چوکنا ہوا تھا وہ دانین کی کھڑکی سے باہر نکلتا پائپ کے سہارے اوپر چڑھنے لگا تھا۔
دوسری جانب ان کے قریب آتے ہی روحان نے ایک بار پھر اپنی گن چلائی تھی اب کی بار ایک کے سر میں سیدھی گولی لگی تھی۔دوسرا جس کا بازو زخمی تھا اس نے روحان پر تیزی سے فائر کیا تھا۔ایک گولی روحان کے کان کی لو کو چیرتی پیچھے پیوست ہوگئی تھی۔روحان بہت مشکل سے بچا تھا۔خون اس کی لو سے نکلتا تیزی سے اس کی گردن پر بہنے لگا تھا۔اس کا کان گولی لگنے سے بند ہوگیا تھا۔عجیب سٹیوں کی آواز سنائی دینے لگی تھی۔وہ ایک تکلیف دہ سانس بھرتا پیچھے کو پلر کے ساتھ ٹیک لگا گیا تھا۔اس کی گن میں صرف ایک گولی رہ گئی تھی۔دماغ تیزی سے گھوم رہا تھا۔وہاں گری ٹارچ لائٹ سے اسے عکس دکھائی دے رہا تھا۔

اس نے گہرا سانس بھرتے اپنا سر جھٹکتے عکس کو دیکھتے تیزی سے باہر نکلتے وہ گولی اپنے قریب آتے شخص کے گلے پر چلا دی تھی۔جس سے وہ موقع پر گر گیا تھا۔اب اس کی گن میں کوئی گولی نہیں تھی جبکہ ایک اور شخص سامنے سے ٹارچ لائٹ کے ساتھ آتا دکھائی دے رہا تھا۔

اس نے زور سے گن زمین پر پھینکی تھی اور ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنی جانب آنے کا اشارہ کیا تھا اس شخص کے پاس چاقو تھا وہ ٹارچ لائٹ زمین پر پھینکتا تیزی سے حملہ کرنے کے لیے روحان پر جھپٹا تھا۔روحان نے اس کے پیٹ میں کک مارتے اس کے ہاتھ پر بازو سے جھٹکا دیا تھا۔مقابل نے روحان کے سینے پر چاقو پیوست کرنے کی کوشش کی تھی جب روحان نے اس کے سر پر زور سے سر مارتے اس کے ہاتھ سے چاقو چھڑوا کر نیچے پھینکنے کی کوشش کی تھی۔۔مگر مقابل بھی ہوشیار تھا اپنی دائیں ٹانگ کا استعمال کرتے اس نے زور سے روحان کو نیچے گرایا وہ اس افتاد پر بری طرح چونک گیا تھا جس کا فائدہ اٹھاتے اس آدمی نے روحان کے کندھے میں وہ چاقو پیوست کردیا تھا۔

دوسری جانب وہ شخص پائپ کے ذریعے اوپر چڑھتا تیزی سے دانین کو تلاش کرنے لگا تھا جو زیادہ مشکل نہیں تھا۔اس نے تیزی سے دانین پر نشانہ باندھتے گولی چلائی تھی۔ مگر دانین اسے دیکھ چکی تھی تبھی چیختی ہوئی نیچے جھک گئی تھی۔گولی اس کے بےحد قریب سے گزر کر گئی تھی۔پچھلی جانب چھپے شخص نے باہر نکلتے کسی انجان شخص کو دیکھتے گولیاں چلانی شروع کی تھیں۔دانین نیچے جھکتی تیزی سے اس سے بچتی دوسری جانب بھاگنے لگی تھی وہ روحان کے ساتھی سے بات کرنے کے لیے والکی ٹالکی اپنی ڈریس کی جیب سے نکالنے لگی تھی جب اسے خالی دیکھ کر اس کا سانس پھول گیا تھا اس کے نیچے گرنے کی وجہ سے شاید وہ اس کی جیب سے نکلتا نیچے گر گیا تھا۔

وہ پیچھے سے گولیوں کی آواز سنتی فرنٹ سائیڈ کی طرف تیزی سے ٹائلز کو تھامتی جانے لگیں تھیں۔جب سائرن کی آواز سنتے اس نے سکون کا سانس لیا تھا تبھی اس کا پاوں پھسلا تھا وہ بل کھاتی ہوئی سیدھا نیچے والی بالکونی میں گر گئی تھی۔

سائرن کی آواز سنتے ہی روحان نے سکون کا سانس لیا تھا جبکہ وہ شخص روحان سے خود کو چھڑواتا تیزی سے وہاں سے بھاگ گیا تھا مگر نیچے جاتے ہی اسے سکیورٹی نے پکڑ لیا تھا اسی طرح چھت پر موجود شخص بھی گولی لگنے کی وجہ سے بل کھاتا نیچے گرگیا تھا۔

روحان کے زخم سے خون نکلتا اس کی کالے کوٹ کے نیچے چھپی سفید شرٹ کو بھگو گیا تھا۔وہ اپنی آنکھوں کے آگے آتا اندھیرا جھٹکتا کھڑا ہوا تھا۔
"روحان۔۔"
اپنے نام کی پکار سنتا وہ سر جھٹکتا پیچھے مڑا تھا دانین کو صحیح سلامت دیکھ کر اس نے ایک سکون کا سانس لیا تھا۔ٹیم نے آتے ہی ساری لائٹس اون کردی تھیں۔روشنی میں روحان کی حالت دیکھتے وہ ساکت ہوگئی تھی۔ٹیم کے قدموں کی آواز سنتا روحان ہمت ہارتا زمین پر گر گیا تھا ساتھ ہی اس کی آنکھیں بند ہوگئی تھیں۔دانین کے حلق سے ایک زور دار چیخ نکلی تھی۔آنسووں اس کی آنکھوں سے نکلتے گالوں کو بھگونے لگے تھے اس کی ساکت نظریں زمین پر بےجان ہڑے روحان جے وجود پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔ 

 وہ کتنی خوش تھی جب اسے اگلے دن صبح صبح یونیورسٹی سے کال آئی تھی۔اس کے دوبارہ پیپرز ہورہے تھے۔جو چھوٹ گئے تھے وہ آخر میں اس کے سب سے الگ ہونے تھے۔اسے یہ بھی پتا چلا تھا سونیا کو سسپینڈ کردیا گیا ہے اس نے خود اعتراف کیا تھا کہ اس نے نورے کو جیلسی کی وجہ سے پھنسایا تھا۔

ایک ہفتہ کیسے پیپرز میں گزر گیا اسے پتا ہی نہیں چلا تھا۔اس نے شازل کو کال کرکے اس کا شکریہ بھی ادا کیا تھا وہ جانتی تھی یہ کام شازل کا ہی ہے۔۔آخر اس کے سارے طریقوں سے وہ باخبر تھی۔

آج اس کے پیپرز فائنلی ختم ہوگئے تھے وہ فریش ہوتی نیچے آئی تھی جب لاونچ میں سب لوگوں کو بیٹھے دیکھ کر وہ ان کے پاس آئی تھی۔ماحول میں چھائی عجیب فضا کو محسوس کرتے اس نے حیرانی سے افرحہ کی جانب دیکھا تھا جو اس پر ایک نگاہ ڈالتی افسوس سے نظریں جھکا گئی تھی۔اس نے سب کی جانب دیکھا تھا فاطمہ بیگم کے علاوہ سب اسے دکھ سے دیکھ رہے تھے۔

"کیا ہوا ؟ سب مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں جیسے میں نے کوئی چوری کرلی ہے؟"
اس نے ہلکے پھلکے لہجے میں کہا تھا۔شاہزیب نے کھڑے ہوتے تیزی سے اسے سینے سے لگا لیا تھا۔
"کیا ہوا بھیا ؟ کچھ بتائیں گے مجھے۔۔؟"
اس نے حیرانی و کچھ پریشانی سے پوچھا تھا۔
شاہزیب نے آنکھیں میچ کر کھولتے اپنے کوٹ سے ایک فینسی انوئیٹیشن کارڈ نکالتے اس کی جانب بڑھایا تھا۔

نورے نے ایک نظر شاہزیب کے چہرے پر ڈالتے کارڈ اس کے ہاتھ سے پکڑا تھا اس کا دل عجیب انداز میں دھڑک رہا تھا۔انجانے خوف سے اس کے ہاتھ ہلکے ہلکے ہلکے کانپ رہے تھے۔
"ی۔۔یہ کیسا مزاق ہے بھیا۔۔؟"
اس نے کارڈ کھول کر پڑھتے فق چہرے کے ساتھ شاہزیب کی جانب دیکھتے پوچھا تھا۔
"نورے۔۔"
شاہزیب نے اسے تھامنا چاہا تھا جب وہ بےساختہ پیچھے ہٹ گئی تھی۔کارڈ پر سنہری حروف میں شازل کے ساتھ انجانی لڑکی کا نام دیکھ کر اس کے سانسیں بند ہونے لگی تھیں۔وہ کارڈ نکاح کا تھا جو آج سے چار دن بعد تھا۔

"بھیا بول دیں یہ جھوٹ ہے۔۔"
وہ بےیقینی سے پوچھ رہی تھی۔کانپتی آواز نم آنکھیں اسے اپنی آنکھوں پر بھی یقین نہیں آرہا تھا۔سب کچھ تو اتنا اچھا چل رہا تھا پھر یہ کیا ہوگیا۔۔
"آج ہی مجھے یہ ملا ہے نورے۔۔میرا دل کر رہا تھا اس شخص کا منہ توڑ دیتا میں صرف و صرف تم سے کئے گئے وعدے کی وجہ سے رک گیا ہوں۔۔"
شاہزیب لب بھینچ کر بولا تھا۔
"م۔۔میں کچھ دیر اکیلی رہنا چاہتی ہوں۔۔"
وہ کانپتے ہاتھوں سے وہ کارڈ مضبوطی سے تھامتی سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگی تھی۔

"نورے۔۔تمھیں فیصلہ کرنا ہوگا۔۔"
میر شاہ نے کھڑے ہوتے اسے روکا تھا۔
"بابا ابھی وہ اس حالت میں نہیں ہے جانے دیں اسے۔۔"
شاہزیب نے میر شاہ کو خاموش کروایا تھا۔
"چچ۔۔ ایسا ہی ہوتا ہے جب یونیورسٹی میں جاکر لڑکے پھنساو گے اور گھر والوں کے خلاف جاکر شادی کرو۔۔ایسے لڑکوں کا جب ایک سے دل بھر جاتا ہے تب دوسری یاد آ جاتی یے ویسے بھی اس نے کونسا دنیا کے سامنے اس سے نکاح کیا تھا۔چھپ کر کی گئی شادی کی یہ ہی اوقات ہوتی ہے۔۔"
فاطمہ بیگم کی بات نے اس کے زخموں پر نمک چھڑک دیا تھا۔
"بس۔۔ خاموش ہوجائیں میری بہن کے بارے میں مزید ایک لفظ بھی برداشت نہیں کروں گا۔۔"
شاہزیب غصے سے بولا تھا۔افرحہ نورے کو کانپتے دیکھ کر اس کی جانب بڑھی تھی مگر کانپتے ہاتھ کے اشارے سے اس نے افرحہ کو روک دیا تھا۔
"فاطمہ تم کمرے میں جاو۔۔"
میر شاہ کی بات پر وہ ایک تمسخرانہ نظر نورے پر ڈالتی کنرے میں چلی گئی تھی۔نورے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی سیڑھیوں کی جانب بڑھنے لگی تھی۔دماغ میں مختلف باتیں گردش کر رہی تھیں۔اس نے کانپتے ہاتھوں سے گرل کو تھامتے قدم اٹھائے تھے۔

کیا ملا تھا اسے شازل سے محبت کرکے؟ دھوکا، رسوائی ، تکلیف ، آنسو۔۔وہ جان مانگتا تو وہ جان بھی دے دیتی مگر اپنی محبت میں شراکت داری؟ اسے اپنے گلے میں پھندے کی طرح لگ رہی تھی۔

اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگے تھے۔اس کی گرل سے گرفت ڈھیلی پڑی تھی سیڑھیوں پر پاوں رکھتے اس کے قدم ڈگمگائے تھے۔وہ سب کی نظروں کے سامنے چندھ سیڑھیوں سے بری طرح لڑکھڑاتی ہوئی نیچے گری تھی۔اپنی محبت کی بےوفائی دل میں کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی۔آخر شازل خان بھی اس کے لیے باقیوں کی طرح ظالم اور سفاک ثابت ہوا تھا۔اس کا آج ہر رشتے سے بھروسہ اٹھ گیا تھا۔ 


Professor Khan

Zanoor Writes
Episode 20
 (Series 2 in Professor Shah Novel)

 "روحان۔۔تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟"
شہناز پریشانی سے ہوسپٹل کے روم میں داخل ہوتی بولی تھی۔انھیں جیسے ہی روحان کی حالت کا پتا چلا وہ فورا ہوسپٹل چلی آئی تھیں۔

"موم آئی ایم فائن۔۔"
وہ لب بھینچ کر بولا تھا۔جب سے اٹھا تھا دانین کی غیر موجودگی بری طرح کھٹک رہی تھی اس نے اپنے ساتھیوں سے بھی کئی بار پوچھنے کی کوشش کی مگر وہ اسے ملنے بھی نہیں آرہے تھے۔تبھی اس نے عادل کی ہیلپ لی تھی وہ اسی کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔

"روحان جھوٹ مت بولو۔۔ کیا مجھ سے اتنی نفرت ہے کہ مجھے اب اپنے بارے میں بتانا ضروری نہیں سمجھتے۔۔؟"
ان کے لہجے کا شکوہ روحان کو شرمندہ کر گیا تھا۔
"سوری موم آئیندہ خیال رکھوں گا۔۔"
وہ نرم لہجے میں بولا تھا۔
"تم کہیں جانے والے ہو؟"
اسے اٹھتے دیکھ کر انھوں نے جھٹ سے پوچھا تھا۔
"جی ایک ضروری کام ہے رات کو آپ سے بات کروں گا۔۔"
وہ اٹھتا بولا تھا۔
"اپنا چہرہ دیکھا ہے کتنا زرد ہوا پڑا ہے؟ اتنی جلدی کس بات کی ہے؟"
وہ پریشانی سے بولی تھیں۔
"ایک بہت ضروری کام ہے موم۔۔"
وہ ان کے گال پر بوسہ لیتا نرمی سے بولتا ان کے احتجاج خاموش کروا گیا تھا۔
وہ اسے خیال رکھنے کا بولتی پریشان سی واپس چلی گئی تھیں۔عادل کے آتے ہی وہ تیار ہوچکا تھا۔عادل سے گاڑی کی چابی لیتا وہ سیدھا ہیڈ کوارٹرز گیا تھا۔

جہاں اسے پتا چلا تھا اس کا کنٹریکٹ دانین کے ساتھ ختم ہوچکا ہے۔۔بالکل اس سے بھی حیران کن خبر یہ تھی کہ وہ پاکستان جاچکی تھی۔۔

اس کے پاس کوئی خبر نہیں تھی وہ پاکستان میں کہاں ہوں گی؟ وہ کیوں بنا ملے اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی؟ وہ پاگل ہونے کو تھا۔

"ویٹ روحان۔۔"
وہ مٹھیاں بھینچتا ہیڈ کوارٹر سے نکل رہا تھا جب اس کے ایک ساتھی نے اسے روکا تھا۔
روحان نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔
"یہ ملی نے دی تھی تمھیں دینے کے لیے۔۔"
اس نے ایک خط روحان کو پکڑایا تھا۔روحان نے اسے پکڑتے مٹھی میں زور سے بھینچ لیا تھا۔

وہ تیزی سے وہاں سے نکلتا اپنی گاڑی میں بیٹھتا خط کھول کر پڑھنے لگا تھا۔
"اگر واقعی اسے محبت کرتے ہو اور اسے اپنا بنانا چاہتے ہو تو ایک آخری کوشش کے لیے یہ ایڈریس دے کر جارہی ہوں۔۔امید ہے مایوس نہیں کرو گے۔۔"
ملائکہ نے ایک چھوٹا سا نوٹ اور آخر میں پاکستان کا ایڈریس چھوڑ کر گئی تھی۔جسے دیکھتے ہی اس نے ایک سکون کی سانس خارج کی تھی ورنہ چند منٹ پہلے اسے لگا تھا اس کا سانس بند ہوجائے گا۔۔

اس نے فورا پاکستان کے لیے فلائٹ بک کرواتے اپنے فلیٹ جاتے اپنی پیکنگ کی تھی۔اس کی فلائٹ رات کو تھی جس سے پہلے وہ شہناز سے مل کر بھی آچکا تھا۔وہ اس کے لیے بےحد پریشان تھی مگر وہ انھیں تسلی دیتا واپس آچکا تھا۔ 

 "بھیا مجھے شازل سے ملنا ہے۔۔"
وہ اٹھی تو اس کے لبوں سے سب سے پہلے یہ جملہ سن کر شاہزیب کی رگیں تن گئی تھیں۔ابھی تو ڈاکٹر چیک اپ کرکے اس کو ریسٹ کرنے کا سجیسٹ کرکے گیا تھق۔
"تمھارا دماغ ٹھکانے پر ہے نورے؟"
وہ بھڑک ہی اٹھا تھا۔
"میں ان سے بات کرنا چاہتی ہوں۔۔"
اس نے سپاٹ لہجے میں کہا تھا شاہزیب کے غصے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔اس نے ساکت نظریں اٹھا کر اپنے پاس کھڑے میر شاہ اور افرحہ کو دیکھا تھا جو خاموشی سے کھڑے پریشان نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔

"میں ایسا کچھ نہیں کروں گا۔۔حالت دیکھی ہے تم نے اپنی۔۔اس شخص کے لیے پاگل ہورہی ہو جسے تمھاری پرواہ تک نہیں ہے۔۔"
وہ تلخی سے بولا تھا۔
نورے نے دھیرے سے اس کا ہاتھ تھامتے اسے مسکرا کر دیکھا تھا۔
"ایک بار ملنا چاہتی ہوں لے جائیں نہ۔۔"
بےحد پیار سے بولتی وہ شاہزیب کے دل کو ٹکڑے ٹکڑے کر گئی تھی۔
"یہ آخری بار ہے نور اس کے بعد تم دوبارہ اس شخص کی شکل بھی نہیں دیکھو گی۔۔"
وہ نورے کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامتا بولا تھا۔
"تھینک یو بھیا۔۔"
وہ جس ضبط کا مظاہرہ کر رہی تھی اسے دیکھتے افرحہ کی آنکھیں بھی نم پڑ گئی تھیں۔
"اس شخص کو بول دینا نورے دوبارہ ہمارے گھر کا رخ نہ کرے ورنہ تمھارے آنسووں کا حساب اس کو اپنے خون سے چکانا پڑے گا۔۔"
میر شاہ جو کب سے خاموش تھے بولنے پر آئے تو سب کو حیران کر گئے تھے۔نورے سر ہلاتی نظریں پھیر گئی تھیں۔اسے لگ رہا تھا یہ کوئی بہت برا مزاق کر رہا ہے۔۔وہ شازل سے مل کر تصدیق کرنا چاہتی تھی۔ 

 "پندرہ منٹ ہیں تمھارے پاس نورے۔۔جو بھی بات کرنی ہے جلدی کر لینا۔۔اس سے زیادہ میں انتظار نہیں کروں گا۔۔"
شاہزیب کی بات پر وہ سر ہلاتی گاڑی دے نکل آئی تھی ہاتھوں میں شازل کا نکاح کا انویٹیشن موجود تھا۔وہ اس کے اپارٹمنٹ آئی تھی اسے امید تھی وہ یہاں موجود ہوگا۔۔
اپارٹمنٹ کے باہر پہنچتے اس نے کانپتے ہاتھوں سے بیل بجائی تھی آنے والے وقت کا سوچ کر اس کا دل کانپ رہا تھا۔اس نے گہرا سانس لے کر خود کو پرسکون کیا تھا۔
بیل رنگ کرتے وہ اپنے لب کاٹنے لگی تھی۔پہلی ہی بیل پر دروازہ شازل نے کھول دیا تھا۔وہ اسے دیکھتا حیران ہوا تھا۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"
اس نے نورے کو بازو سے پکڑ کر اپارٹمنٹ کے اندر کھینچتے سخت لہجے میں پوچھا تھا۔

"مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔"
وہ لب تر کرتی اس کی آنکھوں میں دیکھتی بولی تھی۔جن میں اجنبیت کی ایک سرد لہر دکھائی دے رہی تھی۔
"جو بھی بات ہے جلدی کرلو مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔۔"
وہ سینے پر بازو باندھتا سرد لہجے میں بولا تھا۔
"یہ کیا ہے شازل؟"
اس نے وہ کارڈ شازل کے سامنے کرتے تھوڑا غصے سے پوچھا تھا۔
"جو تمھیں دکھائی دے رہا ہے۔۔ میرے نکاح کا انویٹیشن کارڈ۔۔"
اس کے جواب پر وہ ساکت رہ گئی تھی۔

"آپ تو مجھ سے محبت کرتے ہیں نہ پھر کیوں کر رہے ہیں یہ شادی ؟"
وہ اس بار نرمی سے بولی تھی۔
"محبت؟"
"کیا کبھی میں نے تم سے محبت کا اظہار کیا ؟ کبھی نہیں۔۔"
وہ زہر خند لہجے میں بول رہا تھا۔نورے ساکت سی کھڑی اسے یک ٹک دیکھ رہی تھی جو اس کی محبت کا جنازہ نکال رہا تھا۔
"محبت لفظ سے مجھے سب سے زیادہ نفرت ہے دوبارہ اپنی زبان پر یہ الفاظ مت لانا آگ لگا دوں گا۔"
وہ جبڑے بھینچ کر ہر لفظ چبا چبا کر بولتا اسے ہر گز بھی شازل خان نہیں لگا تھا۔
"مت کریں یہ شادی شازل۔۔میں شراکت داری برداشت نہیں کرپاوں گی۔۔"
وہ تڑپ کر بولی تھی۔اس کی باتیں دل چیر رہی تھیں۔
"وہ میرے بچپن کی منگ ہے تم اس کے بعد ہو۔۔اگر تم خود اپنے منہ سے نکاح کے لیے نہ بولتی تو آج میری زندگی میں تمھاری کوئی جگہ نہ ہوتی۔۔"
شازل سپاٹ لہجے میں بنا اس کی جانب دیکھے اس کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر گیا تھا۔

"تو کیوں کیا مجھ سے زبردستی نکاح؟"
"کیوں میرے باپ کے سر پر بندوق تان کر مجھ سے شادی کی۔۔؟"
"کیوں کی میری زندگی تباہ ؟ جب تمھاری منگ موجود تھی تو کیوں بنایا مجھے اپنی بیوی؟"
وہ اس کا کالر دبوچتی پھٹ پڑی تھی۔شازل سپاٹ نظروں سے اسے چیختے ہوئے دیکھ رہا تھا۔

"کیوں کیا میرے جذبوں کا قتل؟ جب محبت نہیں تھی تو کیوں آئے میرے قریب؟ کیوں مجھ سے محبت کے جھوٹے دکھاوے کیے؟"
"کیوں کیا یہ سب؟ کیا قصور تھا میرا؟"
اس نے چیخ کر زور سے اپنی آنکھیں میچ لی تھیں۔کئی آنسو اس کی آنکھ سے نکلتے گال پر بہہ نکلے تھے۔شازل نے بےساختہ ہاتھ اٹھاتے اس کے آنسو پونچھنا چاہے تھے جب وہ اس کا ہاتھ زور سے جھٹکتی پیچھے ہٹ گئی تھی۔

"بہت برا پچھتائیں گے۔۔پل پل ترسیں گے میری شکل دیکھنے کو۔۔"
وہ اذیت سے بولتی مسکرائی تھی۔

"آپ بھی کیا یاد رکھیں گے شازل خان میں نورے شازل خان آپ کو دوسری شادی کی اجازت دیتی ہوں۔۔"
وہ سرخ بھیگی آنکھوں کو بےدردی سے صاف کرتی سرد لہجے میں بولی تھی۔شازل خان بغور اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔

"لیکن ایک بات یاد رکھیے گا۔۔دوبارہ کبھی مجھ سے ملنے کی جرت بھی مت کیجیے گا۔۔اگر سامنے آئے تو اپنے ہاتھوں سے جان لے لوں گی۔۔"
وہ انگلی اٹھا کر سپاٹ انداز میں بولی تھی۔
"ایڈوانس دوسرا نکاح مبارک شازل خان۔۔"
وہ طنزیہ بولتی اس کے پتھر بنے وجود پر ایک نظر ڈالتی تیزی سے وہاں سے نکل گئی تھی۔اس کی شادی کا سوچ کر سانسیں بند ہونے لگی تھیں۔اسے آج ایک بات سمجھ آگئی تھیں وہ جتنا خوشیوں کے پیچھے بھاگتی تھی خوشیاں اتنا اس سے دور بھاگتی تھیں۔

شازل نے اس کے ارمانوں کا ہی نہیں اس کی امید کا قتل بھی کیا۔اس نے ثابت کردیا ہے محبت اگر ظالم و سفاک شخص سے ہوجائے تو زندگی رول دی جاتی ہے۔۔
لیکن اس کی قصور وار تو وہ خود بھی تھی نہ؟ اس نے کیوں اس شخص کو اچھا سمجھا ؟ کیوں یہ جانتے بوجھتے کہ وہ قاتل ہے اس سے محبت کی؟ کیوں اس کے اندر اچھائی دیکھنے کی کوشش کی؟ اب انجام تو بھگتنا ہی پڑنا تھا۔۔ 

 وہ گھر واپس آتی بنا کسی سے بات کیے کمرے میں بند ہوگئی تھی۔شاہزیب اس کے لیے شدید پریشان تھا اسے ڈر تھا وہ جذباتوں میں بہہ کر کوئی غلط قدم ہی نہ اٹھا لے۔۔
"آپ بیٹھیں میں اس سے بات کرکے دیکھتی ہوں۔۔"
افرحہ نے شاہزیب کے ہاتھ کو تھامتے تسلی دی تھی جس پر وہ سر ہلا گیا تھا۔

"نور۔۔"
وہ دروازہ ناک کرتی روم میں داخل ہوئی تھی۔نائٹ بلب کی روشنی میں افرحہ کو نورے بیڈ پر سیدھی ہوکر بیٹھتی دکھائی دی تھی۔
"بھابھی۔۔کیا کوئی کام تھا آپ کو؟"
اس نے بھاری آواز میں پوچھا تھا۔افرحہ کو اس کی آواز سے پتا چل گیا تھا یقینا وہ کافی دہر سے رو رہی تھی۔
"نور تمھیں مضبوط بننے کی ضرورت نہیں ہے بچے۔۔"
افرحہ کی بات پر وہ ہلکے سے ہنسی تھی۔چند آنسو مزید اس کی سرخ آنکھوں سے نکل پڑے تھے۔

"محبت رسوا کردیتی ہے بھابھی۔۔"
وہ لب کاٹتی بولی تھی افرحہ نے اس کا ہاتھ اپنی ہاتھوں میں لیتے نرمی سے سہلایا تھا۔

"میں بہت عام سی لڑکی تھی بس اتنی سی چاہ تھی کہ "محبت " مل جائے۔۔کوئی ایسا شخص مل جائے جو میرے بچپن کی ساری محرومیاں ، دکھ ،درد اور تکلیف مٹا دے۔۔میری بکھری ذات کو خود میں سمیٹ لے۔۔پر اس ایک خواہش نے اس شخص کے پیچھے مجھے اتنا رلایا کہ اب اپنا آپ "محبت" کے قابل نہیں لگتا۔۔"
"محبت۔۔ اب مجھے بےمعنی لگنے لگی ہے یہ ایک ایسا ناسور ہے جو مجھے پل پل اذیت میں مبتلا کر رہا ہے۔۔"
وہ سپاٹ نظروں سے چھت کی جانب دیکھتی بولی تھی۔اس کی تکلیف اس کے لفظوں میں چھلک رہی تھی۔

"میں سمجھ سکتی ہوں نورے۔۔"

"ن۔۔نہیں آپ یا کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا میری حالت۔۔"
وہ افرحہ کی بات کاٹتی بولی تھی۔
"آپ بس ایک کام کردیں شاہزیب بھائی کو کمرے میں بھیج دیں مجھے ان سے بات کرنی ہے۔۔"
وہ اپنا چہرہ دوپٹے سے صاف کرتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔افرحہ جانتی تھی وہ اس سے اب مزید بات نہیں کرنا چاہتی تھی تبھی وہ چلی گئی تھی۔

شاہزیب افرحہ کے بتانے پر تیزی سے نورے کے پاس چلا آیا تھا۔وہ ناک کرتا روم میں داخل ہوا تھا۔نورے کو دیکھ کر وہ رک گیا تھا۔

"بھیا"
"مجھے یہاں سے کہیں دور بھیج دیں میں اس شخص کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔۔"
سرخ آنکھیں اور بکھرے بال اس کی اجڑی حالت دیکھتے شاہزیب نے اسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگایا تھا بہن کی ایسی حالت دیکھتے دل خون کے آنسو رو روہا تھا۔

"مجھے نفرت ہے اس شخص سے۔۔"
"آپ صحیح کہتے تھے وہ شخص میرے قابل تھا ہی نہیں۔۔"
"ترسے گا میری شکل دیکھنے کے لیے۔۔لیکن آپ اسے میرے بارے میں مت بتائیے گا۔۔"

"جس تکلیف سے میں گزر رہی ہوں وہ بھی گزرے گا۔۔"
وہ شاہزیب سے دور ہٹتی اپنی آنکھوں سے گرم سیال بےدردی سے صاف کرتے ہوئے بولی تھی۔

"اچھا۔۔چپ ہوجاو نورے۔۔ تم پیکنگ کرو میں تمھاری فلائٹ بک کرواتا ہوں میں افرحہ کو بھیجتا ہوں وہ تمھاری مدد کرواتی ہے۔۔مگر اب ایک بھی آنسو نہیں نکلنا چاہیے اپنی حالت درست کرو۔۔اس کو تمھارے رونے سے کوئی تکلیف نہیں ملے گی۔۔"
شاہزیب کی آخری بات اس کے زخموں پر نمک چھڑک گئی تھی۔وہ سر ہلاتی لب بھینچ کر تیزی سے سوٹ کیس نکالتی اپنے کپڑے اس میں پھینکنے لگی تھی شاہزیب ایک گہری سانس خارج کرتا اس پر ایک نظر ڈالتا باہر نکل گیا تھا۔

نورے نے اس کے جاتے ہی زور سے اپنے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑ لیا تھا۔وہ وہی کر رہی تھی جو اس کا دماغ بول رہا تھا وہ جانتی تھی وہ یہاں رہی تو خود کے ساتھ زیادتی کرجائے گی۔۔اور ویسے بھی اس گھر سے بس اسے وحشت پی محسوس ہوتی تھی وہ بس جلد سے جلد یہاں سے کہیں دور چلی جانا چاہتی تھی۔ 

 سرخ جوڑے میں خود کو دیکھتے اس نے نفرت سے اپنی نگاہیں پھیر لی تھیں۔دل میں شدید تکلیف اٹھ رہی تھی۔وہ جسے بےہوشی کی حالت میں چھوڑ آئی تھی اس کا سوچ کر دل عجیب انداز میں پھٹ رہا تھا۔

"بہت پیاری لگ رہی ہو میری گڑیا۔۔"
آغا خان کی بات پر وہ سختی سے آنکھیں میچ گئی تھی۔۔
"اس کی زندگی خراب مت کریں بابا۔۔اس کی پہلے ہی ایک بیوی ہے۔۔"
وہ لب بھینچ کر پر امید نگاہوں سے انھیں دیکھتی بولی تھی کہ شاید انھیں اس پر رحم آجائے۔۔
"وہ اس کی صرف منکوحہ ہے۔۔اور پہلا حق تمھارا تھا اور ہمیشہ اس پر رہے گا۔۔محب نے اسے پہلے ہی اس بات سے آگاہ کیا ہوا تھا۔۔اب مزید فضول کچھ مت بولنا۔۔"
آغا خان کی بات پر وہ ایک پل کو خاموش ہوگئی تھی۔

"آپ کیوں نہیں سمجھتے بابا۔۔؟ میں نہیں رہ پاوں گی اس کے ساتھ۔۔"
وہ نم آنکھوں سے انھیں دیکھتی بولی تھی۔
"تم رہو گی اور تمھیں رہنا پڑے گا۔۔"
وہ چٹانوں کی سی سختی سے بولے تھے۔وہ دہل کر رہ گئی تھی۔
"تم ایک بار مجھے سب کے سامنے شرمندہ کر چکی ہو امید ہے اس بار اپنی باپ کی عزت کا خیال رکھو گی۔۔"
آغا خان کی بات نے دانین کے سارے احتجاج ختم کر دیے تھے۔وہ انھیں کیا بتاتی کہ دل پر زور نہیں چلتا۔۔

"آپ جیسا کہیں گے میں ویسا ہی کروں گی۔۔ بابا۔۔"
وہ ہلکی مسکان لے ساتھ بولی تھی آغا خان اس کے سر پر ہاتھ رکھتے باہر چلے گئے تھے۔
دانین کی آنکھوں کے سامنے چند دنوں پہلے کے مناظر آئے تھے کیسے وہ روحان کے ساتھ ہوسپٹل گئی تھی۔۔کیسے آغا خان زبردستی اسے واپس پاکستان لے آئے تھے تاکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری شازل کو دے سکے۔۔وہ جس حال میں ان کے ساتھ آئی تھی یہ وہ ہی جانتی تھی۔اس کے ذہن میں روحان کو دیکھ کر بس ایک ہی خیال تھا کہ اس کی موت کی وجہ وہ بننے والی تھی۔

"زیادہ مت سوچو جو تمھاری قسمت میں ہوگا وہ تمھیں مل جائے گا۔۔"
ملائکہ کی بات سنتے ہی دانین کا دھیان ان کی طرف گیا تھا۔
"بہت غلط ہو رہا ہے ملی۔۔ میں یہ سب نہیں چاہتی تھی۔۔"
وہ ہونٹ بھینچتی نم آنکھوں سے بولی تھی۔
"ہم جو چاہتے ہیں ہمیشہ ویسا ہی نہیں ہوتا دانین۔۔"
"زندگی کی تلخیوں کو ایکسیپٹ کرنا سیکھو۔۔"
وہ اس کا کندھے پر پڑا دوپٹہ صحیح کرتی سنجیدگی سے بولی تھیں۔
"آپ پر بابا کا اثر ہونے لگا ہے۔۔ان کے جیسی کڑوی باتیں کرنے لگی ہیں۔"
وہ ان کی جانب شکوہ کن نظروں سے دیکھتی بولی تھی۔
"تم کیا چاہتی ہو دانین ؟ میں کیا کہو؟ شازل روحان جیسا نہیں ہے۔۔ یہ بات یاد رکھنا۔۔"
ملائکہ نے اسے حقیقت سے آگاہ کیا تھا۔
"اس کے جیسا تو کوئی بھی نہیں ہے ملی۔۔"
وہ دھیرے سے مسکراتی اپنی انگلیاں مڑوڑنے لگی تھی۔ملائکہ خاموش ہوگئی تھی۔
گزرتے وقت کے ساتھ دانین کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوتا جارہا تھا مہمانوں کے آنے کی آوازیں اسے سنائی دینے لگی تھیں۔اس کا دل بے دھڑک انداز میں دھڑک رہا تھا۔اس کا دل کر رہا تھا وہ آنکھ کھولے اور یہ سب ایک خواب بن جائے۔۔ 

 "اتنا ٹائم گزر گیا ہے محب شازل کا دور دور تک کوئی نشان نہیں میرا دل گھبرا رہا ہے۔۔"
گل نے پریشانی سے وقت دیکھتے کہا تھا جہاں نکاح کا وقت دو بجے کا تھا اور اب تین بج کر دس منٹ ہوچکے تھے۔

"میں اسے کال کرکے تھک چکا ہوں۔۔وہ کال پک نہیں کر رہا۔۔"
محب خان نے پریشانی سے بتایا تھا۔سب مہمانوں میں چہ مگوئیاں ہونے لگی تھیں۔

"محب شازل کہاں ہے؟"
"لوگ طرح طرح کی باتیں کرنے لگے ہیں۔۔ فورا شازل کو بلاو۔۔"
آغا خان کی گرجدار آواز پر محب خان لب بھینچ گئے تھے۔
"بھائی صاحب اس سے ہمارا رابطہ نہیں ہو پارہا۔۔آپ خود کوشش کرلیجیے۔۔"
محب خان نے سپاٹ لہجے میں کہا تھا۔

"بہت لاپرواہ ہے تمھارا بیٹا محب۔۔"
وہ شازل کو کال ملاتے سرد لہجے میں بولے تھے۔
"ضرور کچھ ہوا ہوگا بھائی صاحب شازل ایسا نہیں ہے۔۔"
گل خان نے شازل کی سائیڈ لی تھی۔
"نہیں اٹھا رہا وہ فون۔۔۔"
وہ غصے سے بولے تھے محب خان اور گل خان خاموش ہی کھڑے رہے تھے۔۔
ایک کے بعد دو گھنٹے گزر چکے تھے۔کچھ لوگ واپس بھی جانے لگے تھے۔
"میری بیٹی کی رسوائی کا بدلہ میں شازل سے وصول کروں گا۔۔"
آغا خان انگلی اٹھا کر محب خان سے بولے تھے۔جو لب بھینچ گئے تھے۔ایک طرف بڑا بھائی تھا تو دوسری طرف واحد سر پھری اولاد۔۔

لوگ باتیں کرتے اٹھ کر جانے لگے تھے آغا خان سر ہاتھوں میں گراتے صوفے پر ڈھے گئے تھے جب لوگوں کی چہ مگوئیوں میں ایک جانی پہچانی آواز انھیں سنائی دی تھی۔

"میں دانین سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔"
آغا خان نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا تھا۔اس کو دیکھ کر وہ فورا اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
اس وقت وہ جس کیفیت میں تھے اس کا مقابل کو بخوبی معلوم تھا تبھی اس نے موقع کا فائدہ اٹھایا تھا۔وہ تو کئی دنوں سے موقع کی طاق میں تھا۔جو اسے مل چکا تھا۔

"محب مولوی صاحب کو بلاو۔۔"
انھوں نے محب خان کو آواز دی تھی۔محب خان نے فورا جاتے ہوئے مولوی صاحب کو روک لیا تھا۔

"مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ملی۔۔"
"اتنی دیر گزر گئی یے۔۔۔"
وہ جالی دار دوپٹے کی اوٹ سے بیڈ پر بیٹھی ملائکہ کو دیکھتے بولی تھیں۔
"ڈرنے کی ضرورت نہیں تم درود پاک پڑھو۔۔ میں ابھی باہر سے ہوکر آئی۔۔"
ملائکہ اسے تسلی دیتی باہر نکلی تھی جب گل خان نے اسے ساری صورتحال کا بتایا تھا۔
"کون ہے وہ لڑکا؟ دکھنے میں کیسا ہے؟"
ملائکہ نے پریشانی سے پوچھا تھا۔
"اچھا خاصا نوجوان ہے یہاں کا نہیں لگتا۔۔"
گل خان کی بات پر وہ سر ہلا گئی تھیں۔
"تمھارا نکاح شازل سے نہیں کسی اور سے ہو ہو رہا ہے۔۔"
ملائکہ نے روم میں داخل ہوتے دانین کے سر پر بم پھوڑا تھا۔
"میں کسی اور سے نکاح نہیں کرنا چاہتی ملی۔۔ پلیز یہ شادی رکوا دیں۔۔شازل کے ساتھ میں اپنی سزا سمجھ کر رہ لیتی مگر کسی اور کے ساتھ۔۔۔ یہ ممکن نہیں۔۔"
وہ تڑپ کر بولی تھی۔۔
"اب کچھ نہیں ہوسکتا دانین تمھارا باپ فیصلہ کرچکا ہے۔۔باہر ایجاب و مراحل مکمل ہوچکے ہیں سب اب ادھر ہی آرہے ہیں۔۔اب یہ تم پر منحصر کرتا ہے تم کیا فیصلہ کرتی ہو۔۔"
ملائکہ کی بات پر وہ لب بھینچ گئی تھی۔آنکھیں بےساختہ بھیگنے لگی تھیں۔۔
آغا خان جب مولوی صاحب اور گواہوں کے ہمراہ آئے تھے تب اس نے ایک نظر اپنے باپ پر ڈالتے بنا کچھ سنے "قبول ہے" کہتے اپنی ساری زندگی ایک انجان شخص کے نام کردی تھی۔ 

Professor Khan

Zanoor Writes
Episode 21
(Series 2 in Professor Shah Novel)

 سن ہوتی ہتھیلیوں کو آپس میں مسلتی وہ خاصی اضطراب کی کیفیت میں لگ رہی تھی ماتھے پر ڈھیروں سلوٹیں ، دل میں اٹھتا جذباتوں کا طلاطم۔۔۔
وہ آنے والے وقت کا سوچتی شدید گھبرا رہی تھی۔۔روحان کا سوچتے آنکھوں کے گوشے نم سے تھے۔۔دل میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔

"تمھارا شوہر تم سے ملنے آنے والا ہے دانین۔۔"
اسے ملائکہ کی دھیمی آواز سنائی دی تھی جس پر وہ بےساختہ سر ہلا گئی تھی۔اپنے حصے کے خسارے کا سوچ کر دماغ کی رگیں پھٹنے والی ہوگئی تھیں۔
وہ کھڑی ہوتی چند قدم اٹھاتی کھڑکی کے پاس جاکر کھڑی ہوگئی تھی۔دروازے کی جانب سے رخ پھیرنے کا مقصد مطلوبہ آنے والے شخص کا سامنا کرنے سے کترانا تھا۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر اس کی ہتھیلیاں بھیگ گئی تھیں۔دھڑکنیں خوف سے مزید بڑھ گئی تھیں۔ماتھے پر پسینے کی بوندیں دکھائی دینے لگی تھیں۔

بھاری قدموں کو اپنے قریب آتے محسوس کرکے وہ اپنے لہنگے کو مٹھیوں میں بھینچ گئی تھی۔مقابل کی گہری گرم سانسیں اپنی گردن پر محسوس کرتے وہ سختی سے آنکھیں میچ گئی تھی۔

"تمھیں کیا لگا تھا میری حالت کا فائدہ اٹھا کر مجھ سے دور بھاگو گی تو میں تمھیں جانے دوں گا؟"
"بہت بڑی غلط فہمی کا شکار تھی۔۔ تمھارا پیچھا میں موت تک نہیں چھوڑوں گا۔۔"
جانی پہچانی آواز سنتے اس نے بےیقینی سے آنکھیں کھول کر جھٹکے سے پیچھے مڑتے روحان کو دیکھا تھا جو اس کے چہرے کو سپاٹ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

دانین نے بےیقینی کی کیفیت میں اپنا ہاتھ اس کے گال پر دھیرے سے رکھا تھا۔اس کو محسوس کرتے دانین نے ایک کانپتی سانس خارج کی تھی۔
اس کی نرم انگلیوں کا ٹھنڈا لمس محسوس کرکے بھی وہ بنا تاثر دیے کھڑا رہا تھا۔

"تم اس روپ میں جس قدر خوبصورت لگ رہی ہو اس کی تعریف میں چاہ کر بھی نہیں کرسکتا۔۔ پتا ہے کیوں؟"
وہ اس کے دونوں جانب بازو ٹکاتے اس کے چہرے پر جھکا تھا۔دانین کی آنکھوں میں ابھی تک بےیقینی تھی۔

"کیونکہ تمھارا یہ سجا سنورا روپ میرے لیے نہیں ہے۔۔"
وہ زور سے دائیں جانب موجود دیوار پر ہاتھ مارتا اس کے کان کے قریب پھنکارا تھا۔
"ر۔۔روحان۔۔"
اس کے منہ سے کانپتی آواز میں سرگوشی نکلی تھی۔
"ڈونٹ۔۔۔ دوبارہ میرا نام مت لینا۔۔"
وہ سرد ترین لہجے میں دھاڑا تھا۔غصہ ، شدت اور اس کی بےوفائی سوچ کر دماغ کی شریانیں پھٹنے والی ہوگئی تھیں۔

دانین کے چہرے پر گہرے سائے لہرائے تھے۔آنکھیں نمکین پانی سے بھرنے لگی تھیں۔اپنے سرخ لب کاٹتے اس نے اپنی آنکھیں شرمندگی سے جھکا لی تھیں۔
"آپ مجھے سمجھ نہیں پائیں گے۔۔"
وہ آنکھیں میچ کر کھولتی ہمت مجتمع کرتی روحان کی جانب دیکھتی دکھی لہجے میں بولی تھی۔
"سمجھاو مجھے۔۔۔ تمھیں شروع سے پتا تھا تم کسی اور کی منگیتر ہو۔۔ پھر بھی تم نے میرے جذبات سے کھیلا۔۔ پھر جب میں مکمل طور پر تمھارے پیچھے پاگل ہوگیا تو مجھے چھوڑ کر یہاں بھاگی چلی آئی۔۔"
وہ سرخ آنکھوں سے دھیمی آواز میں زہر خند لہجے میں پھنکارا تھا۔
"ی۔۔یہ سچ نہیں ہے۔۔"
وہ بڑبڑائی تھی۔
"یہ ہی حقیقت ہے دانین بی بی۔۔"
"لیکن ایک بات اپنے اس خالی دماغ میں بیٹھا لو تمھارا پیچھے میں اپنی موت تک نہیں چھوڑوں گا۔۔"
وہ اس کے ماتھے پر انگلیاں ٹکاتا بولا تھا۔
اس کے میک اپ سے سجے حسین چہرے کو دیکھ کر اسے شدید تپ چڑھ رہی تھی۔اس کا بازو اپنی گرفت میں لیتا وہ بنا لحاظ کیے اسے کھینچتا ہوا واشروم میں لے گیا تھا۔
"ی۔۔یہ کیا کر رہے ہیں روحان۔۔"
وہ دبا دبا سا چیخی تھی۔
روحان نے اسے شاور کے نیچے کھڑا کرتے شاور چلا دیا تھا۔ٹھنڈا پانی محسوس کرتی وہ سن پڑ گئی تھی۔
وہ ہوش میں آتی شاور سے باہر نکلنے لگی تھی جب روحان نے اسے کھینچتے واپس اندر کرتے اس کو مضبوطی سے کمر سے تھامتے اپنی مضبوط گرفت میں لیا تھا۔

"روحان پلیز۔۔"
"شش۔۔ اب کچھ مت بولنا۔۔"
وہ اس کے سرخ لپ اسٹک سے بھیگے ہونٹوں پر اپنی انگلی ٹکاتا بھاری آواز میں بولا تھا۔دانین اس کے گرم لمس پر خاموش ہوگئی تھی۔اس نے بھیگا چہرہ اٹھاتے روحان کو دیکھا تھا جس نے اپنا دوسرا ہاتھ استعمال کرتے اس کے ماتھے پر لگا ٹیکا کھینچ کر اتارا تھا۔

دانین کے منہ سے ایک سسکی نکلی تھی جسے اگنور کرتے روحان نے اس کا بھاری کامدار دوپٹہ اتارتے شاور سے باہر زمین پر پھینک دیا تھا۔
"ایسا مت کریں پلیز۔۔"
وہ دوپٹہ سے بےنیاز اپنے بھیگے کانپتے وجود کے گرد بازو باندھتی کانپتی آواز میں بولی تھی۔۔
"مجھ پر یقین نہیں؟"
اس نے سرد آواز میں پوچھا تھا۔دانین نے اپنے لب کاٹتے بےساختہ سر ہاں میں ہلایا تھا۔روحان نے اپنے بھیگے بالوں میں ہاتھ ہھیرتے انھیں اپنی پیشانی سے دور کرتے شاور بند کردیا تھا جبکہ اس دوران دانین کو اس نے اپنی گرفت سے آزاد نہیں کیا تھا۔

اسے شاور سے باہر نکلاتے اسے شیشے کے سامنے لاتے روحان نے اسے کمر سے تھام کر کاونٹر پر بیٹھایا تھا۔دانین کے منہ سے بےساختہ ہلکی سی چیخ نکلی تھی۔جسے اگنور کرتے روحان نے اس کے بھیگے چہرے سے چپکے بالوں کو نرمی سے چہرے سے ہٹایا تھا۔

ان دونوں کے درمیان گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔روحان کے مردانہ ہاتھوں کا لمس محسوس کرتے اس کی دھڑکنیں پاگل ہونے کو تھی۔وہ بری طرح گھبراتی پیچھے کو ہٹی تھی جب اچانک روحان نے اس کی کمر میں بازو ڈالتے اسے دوبارہ اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔
"مجھ سے دور جانے کی کوشش تو کیا خیال بھی اپنے ذہن میں مت لانا۔۔ تمھاری سوچ سے زیادہ میں ہاگل ہوں۔۔"
روحان نے اس کی کانچ سی آنکھوں میں دیکھتے کہا تھا۔دانین نے بےساختہ اپنے سرخ ہونٹوں کو دانتوں تلے لے کر دبایا تھا۔روحان کی نظریں بھٹکتی ہوئی اس کے ہونٹوں کی جانب گئی تھیں۔جو دیکھنے میں انتہائی نازک اور نرم لگ رہے تھے۔

روحان نے بےساختہ اپنا انگوٹھا اٹھاتے اس کے ہونٹوں پر لگی سرخ لپ اسٹک کو نرمی سے مٹایا تھا۔لپ اسٹک اس کے گال پر پھیل سی گئی تھی۔۔شرمندگی سے دانین کے گالوں پر گلال سا بکھر گیا تھا۔آنکھوں میں حیا سی سمٹ آئی تھی۔
اس کے جھکے چہرے اور لرزتی پلکوں کو دیکھتے روحان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری تھی۔
"مجھ سے ڈر رہی ہو؟"
اس نے دانین کی گردن میں ہاتھ ڈالتے اس کا چہرہ جھٹکے سے اوپر اٹھاتے سنجیدگی سے پوچھا تھا۔دانین نے بےساختہ اپنا سر ہاں میں ہلایا تھا۔

"گڈ۔۔ مجھ سے ڈرنا بھی چاہیے۔۔"
وہ اس کے گلابی گالوں کو انگوٹھے سے سہلاتا لب بھینچ کر بولا تھا۔
"آپ جائیں پلیز۔۔ "
دانین گھبراتے ہوئے اس کے سینے پر ہاتھ رکھتے اسے دور ہٹاتے کہا تھا اس کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کرتے اس کی سانسیں سوکھ رہی تھیں۔
"کیا کہا ؟ دوبارہ کہنا ؟"
اس کے چہرے پر پتھریلے تاثرات آئے تھے۔اس کے پل میں بدلتے تاثرات اور جذبات کو دیکھتی وہ بےچین سی ہورہی تھی۔
"پلیز آئی ایم سوری۔۔"
وہ لرزتی پلکیں ، کپکپاتے ہونٹوں اور کانپتی آواز میں بولی تھی۔
"مجھے خود سے دور کرنے کا سوچنا بھی مت۔۔"
اس نے سخت آواز میں غراتے دانین کے گلے میں پہنے بھاری سیٹ کی ڈوری کو زور سے کھینچتے توڑ دیا تھا۔اپنی گردن پر جلن محسوس کرتے اس نے شکوہ کن نظروں سے روحان کو دیکھا تھا آنکھوں کے گوشے نم سے پڑ گئے تھے۔
"کیوں میرے دماغ کو خراب کر رہی ہو۔۔ جب جانتی ہو اس وقت میں کچھ سمجھنے کی حالت میں نہیں ہوں۔۔"
وہ اس کی نم پلکوں کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے چھوتا گھمبیر آواز میں بولا تھا۔اس کی حالت دیکھتے وہ نرم پڑنے لگا تھا مگر اس کا دھوکا بار بار ذہن میں آتے ہی اس کے دماغ کو شاٹ کر رہا تھا۔
روحان کا لمس محسوس کرتی وہ خود میں سمٹ سی گئی تھی۔

"آپ اگر میری جگہ ہوتے تو یقینا میں نے جیسا کیا ہے ویسے ہی کرتے۔۔"
اس نے روحان کا ہاتھ تھامتے نرمی سے کہا تھا۔اس کے لہجے میں التجا تھی۔
"میں چاہتا تھا ہماری شادی دھوم دھام سے ہو۔۔ نہ کہ ایسے جب تم کسی اور کے لیے سجی سنوری تھی۔۔"
وہ تکلیف سے بولا تھا۔اس نے دانین کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں بھر لیا تھا۔
"اور میں یہ بات کبھی نہیں بھولوں گا۔۔"
وہ بےرحمی سے بولا تھا۔اس کا دھوکا اتنی آسانی سے معاف کرنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔دانین نے بےبسی سے اپنے ہونٹوں کو کاٹا تھا۔روحان کی نظریں ایک بار پھر اس کے ہونٹوں کی طرف گئی تھی۔اس کی نظروں سے گھبراتی دانین نے فورا اپنے ہونٹوں کو آزاد کیا تھا۔اور ساتھ ہی اپنا چہرہ جھکا لیا تھا۔

روحان نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈالتے جھٹکے سے اس کا چہرہ اوپر اٹھاتے اس کے سرخ ہونٹوں کو اپنی شدت کا نشانہ بنایا تھا۔وہ شاکڈ کی کیفیت میں بےساختہ روحان کے سینے پر ہاتھ رکھتی اسے دور دھکیلنے لگی تھی۔اس کی مزاحمت محسوس کرتے روحان اس کی سانسوں کو آزادی بخشتا دور ہٹا تھا۔

دانین سرخ چہرے سے گہری سانسیں لیتی کانپپتی ہوئی اپنی آنکھیں میچ گئی تھی۔روحان نے اس کا اپنے سینے پر دھڑا ہاتھ پکڑتے اس کی کلائی پر بوسہ دیا تھا۔

اس کی ہونٹوں کا بےرحم لمس بازو پر محسوس کرتی وہ اسے کھینچنے لگی تھی۔مگر روحان کی سخت نظریں محسوس کرتی وہ ساکت ہوگئی تھی۔

روحان نے گہری نظروں سے اسے دیکھا تھا جو بگڑے تنفس اور سرخ گالوں کے ساتھ سراپائے قیامت لگ رہی تھی۔اس نے ایک نظر اس کے وجود پر ڈالی تھی سہ گیلے کپڑوں میں کانپ رہی تھی۔اس کے بھیگے وجود کو دیکھتے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے روحان نے نظریں پھیر لی تھیں۔گیلا تو وہ بھی ہوگیا تھا مگر اسے اس وقت سوائے دانین کے کسی چیز کا کوئی خیال نہیں تھااس کا نازک کلیوں سا وجود اسے بہکانے لگا تھا تبھی وہ جھٹکے سے اس سے دور ہٹتا رخ پھیر گیا تھا۔دانین کو لگا تھا جیسے اس نے اسے دھتکار دیا ہو۔۔اس سے منہ موڑ لیا ہو۔۔
"کپڑے چینج کرلو۔۔ ٹھنڈ لگ جائے گی۔۔"
وہ بولتا ہوا واپس پلٹ کر جانے لگا تھا جب دانین کی بات نے اسے ساکت کر دیا تھا۔
"صاف کہیں میرے وجود سے کراہت محسوس ہونے لگی ہے۔۔"
وہ حلق کے بل چلائی تھی۔روحان کی آنکھوں میں غصے ایک بار پھر امڈ آیا تھا۔
وہ ایک ہی جست میں دانین کے پاس پہنچتا اس کے کھلے بالوں میں ہاتھ ڈالتا اسے اپنے بےحد قریب کرتا پھنکارا تھا۔
"کس چیز سے تمھیں لگا مجھے تم سے کراہت محسوس ہوئی ہے۔۔"
وہ شدید غصے میں پھنکارا تھا۔
"چھوڑیں مجھے۔۔ جہاں جارہے تھے جائیں۔۔"
وہ اس کے سینے پر پے در پے کئج مکے مارتی چیخی تھی۔
"تمھیں مجھ سے چھٹکارا نہیں ملے گا۔۔ ڈیم اٹ۔۔"
وہ اس کی سرخ ڈوروں والی آنکھوں میں چیخا تھا۔

"مجھے کچھ نہیں سننا۔۔ جھوٹے ہیں آپ۔۔"
وہ بنا ڈرے غصے میں چیخی تھی۔
روحان نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے اسے کمر سے تھام کر مزید اپنے قریب کیا تھا۔وہ اب بھی کاونٹر میں بیٹھی تھی جبکہ اب روحان اس کے بالکل سامنے کھڑا تھا۔
"کیا چاہتی ہو؟ خود پر قابو کھو دوں۔۔ جس چیز کے لیے تم تیار نہیں ہو وہ کردو۔۔؟"
اس کی کمر پر لٹکتی ڈوری کو پکڑتا وہ سختی سے کھینچ کر توڑ چکا تھا۔ڈوری سے نکلتے موتی کاونٹر پر بکھرتے زمین پر گر گئے تھے۔جبکہ وہ سہمتی بےساختہ پیچھے ٹیک لگانے کی کوشش کرنے لگی تھی۔
"اب کیوں دور ہٹ رہی ہو۔۔؟"
"انسر می۔۔ڈیم اٹ۔۔"
وہ چلایا تھا۔وہ ڈرتی آنکھیں میچ گئی تھی۔اسے پتا چل گیا تھا وہ اسے واپس بلا کر بہت بڑی غلطی کرچکی تھی۔
"کب تمھیں میرے لمس سے محسوس ہوا مجھے تم سے کراہت محسوس ہورہی ہے۔۔انسر می۔۔"
وہ اپنی انگلیاں اس کی بیوٹی بون پر پھیرتا سختی سے پوچھ رہا تھا۔
"آپ مجھے ڈرا رہے ہیں۔۔"
وہ اس کے لمس پر کپکپاتی ہلکی آواز میں بولی تھی۔
"اور تم جو مجھے پاگل کر رہی ہو اس کا کیا؟"
"تمھارے منہ سے دوبارہ میں نے کوئی ایسی گھٹیا بات سنی تو کچھ بولنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا۔۔"
وہ گہرا سابس خارج کرتا سنجیدگی سے بولا تھا۔دانین نے فورا سر ہلایا تھا۔

"میری بےوفا جانم۔۔"
"میری ہمسفری مبارک!"
روحان نے اس کی ٹھوڑی تھامتے اس کا چہرہ نرمی سے اوپر اٹھاتے اس کی صبیح پیشانی پر شدت سے اپنے لب رکھتے اس کے گرد حصار باندھتے اسے اپنے سینے سے لگاتے سنجیدگی سے کہا تھا۔
اس کے بےوفا بولنے پر وہ سختی سے آنکھیں میچ گئی تھی۔

"کل ملاقات ہوگی۔۔ میں جلد ہی کینیڈا کی فلائیٹ بک کروا دوں لوں گا۔۔اور رخصتی اسی ہفتے کے اندر ہوگی۔۔ تمھیں اگر کوئی اعتراض ہے بھی تو وہ ختم ہوجانا چاہیے۔۔ورنہ میں اپنے طریقے سے تمھارے سارے گلے شکوے ختم کردوں گا۔۔"
روحان کی بات پر اس نے دھیرے سے سر ہلا دیا تھا۔وہ یہ نہ کہہ سکی کہ ابھی وہ اس سب کے لیے تیار نہیں ہے۔۔روحان ایک آخری بار اس کی آنکھوں کا بوسہ لیتا تیزی سے اپنے بہکتے جذباتوں پر بندھ باندھتا وہاں سے نکل گیا تھا۔دانین اس کے جانے کے بعد کچھ دیر ویسے ہی سوچوں میں گم بیٹھی رہی تھی۔ 

 رات کے ایک بجے وہ گھر میں داخل ہوا تھا۔براون سلکی بالوں میں کئی بار انگلیاں ہھیرنے کی وجہ سے وہ قدرے بکھرے ہوئے لگ رہے تھے۔بلیک پینٹ شرٹ پہنے شرٹ کے کف موڑے وہ مضبوط قدم اٹھاتا بنا ڈرے گھر میں داخل ہوا تھا۔

"مجھے پہلے ہی معلوم تھا تم جیسا سنکی انسان اتنی جلدی کبھی بھی دانین سے نکاح کے لیے مان نہیں سکتا تھا۔۔"
محب خان کی آواز سنتا وہ رک گیا تھا۔ہونٹوں پر ایک زہر خند مسکراہٹ ابھری تھی۔

"آپ کو کیا لگا تھا؟ میں اس سے شادی کروں گا؟ جس کی شکل تک سے مجھے نفرت ہے۔۔"
"وہ لڑکی اگر آپ کے بھائی کے بیٹی نہ ہوتی تو یقینا اس کا گلہ میں اپنے ہاتھوں سے دباتا۔۔"
اس کے لہجے کا زہر اور سچائی محسوس کرکے محب خان کے منہ پر چپی لگی تھی۔

"وہ اپنے حصہ کی سزا بھگت چکی ہے۔۔ چھوڑ دو اس کی جان۔۔"
محب خان عاجزی سے بولے تھے۔
"آپ اپنی بیٹی کو بھول سکتے ہیں لیکن میں اپنی بہن کو نہیں بھول سکتا ڈیڈ۔۔"
وہ لب بھینچ کر بولا تھا۔
"اس نے اپنے حصے کی سزا تو بھگت لی لیکن ابھی میری بہن کا حصہ باقی ہے۔۔ وہ جب تک یہاں رہے گی میں اس کا سانس لینا دو بھر کر دوں گا۔۔اسے مجھ سے بچا لیں ڈیڈ۔۔ میں اس کی زندگی عذاب بنا دوں گا۔۔ بہارے گل کے معاملے میں بالکل بھی رحم نہیں کھاوں گا۔۔"
اپنی بہن کا نام لیتے وہ لب بھینچ گیا تھا۔

"بھائی صاحب اپنی بیٹی کو تمھیں چھونے بھی نہیں دے گیں۔۔"
"اور تم پہلے ہی اپنا بدلہ لے چکے ہو اسے لوگوں کے سامنے رسوا کرکے۔۔"
محب خان سنجیدگی سے بولے تھے۔
"نہیں ڈیڈ وہ بدلہ نہیں تھا وہ تو جھلک تھی۔۔وہ واپس تو آگئی ہے لیکن یہاں سے اب کہیں نہیں جاسکے گی۔۔"
"دو سال پہلے میں نے اسے چھوڑ دیا تھا۔لیکن اب۔۔ اب کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بہارے گل کی ہر تکلیف کا ازالہ میں خود کروں گا۔۔"
وہ ان کی آنکھوں میں دیکھتا پتھریلے لہجے میں بولا تھا۔

"کیا کرو گے تم میری بیٹی کے ساتھ؟؟"
گہری خاموشی میں آغا خان کی آواز گونجی تھی۔
"بتاو کیا کرو گے میری بیٹی ساتھ؟"
آغا خان نے اس کے سینے پر ہاتھ مارتے اونچی آواز میں پوچھا تھا۔
"اسے برباد کردوں گا میں۔۔ اسے کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑوں گا۔۔"
"چٹاخ۔۔"
شازل کی بات سنتے غصے میں ابلتے آغا خان نے اس کے غصے سے سرخ چہرے پر ایک زور دار تھپڑ مارا تھا۔

"ہاہاہا۔۔ آپ کا یہ تھپڑ مجھے روک نہیں پائے گا۔۔"
وہ سرخ آنکھوں سے آغا خان کو دیکھتا دھاڑا تھا۔
"کہاں ہے وہ آپ کا داماد۔۔؟"
"بلائیں اسے۔۔"
"اسے بھی تو آپ کی پارسا بیٹی کے کرتوت پتا چلیں۔۔"
شازل اونچی آواز میں چلایا تھا اس کی آواز سنتے گل خان اہنے کمرے سے باہر نکل آئی تھیں۔شازل کو چلاتے دیکھ کر وہ بری طرح پریشان ہوئی تھیں۔ملائکہ بھی شور کی آواز سنتی اٹھ کر باہر چلی آئی تھی۔

"اپنی بکواس بند کرو شازل۔۔"
آغا خان چیخے تھے۔
"نہیں تو کیا کریں گے آپ؟؟ "
"قتل کریں گے مجھے؟؟"
وہ طنزیہ بولا تھا۔
"شازل خاموش ہوجاو۔۔"
محب خان پریشان سے شازل کی جانب بڑھتے اسے بازو سے تھام کر روکنے کی کوشش کرنے لگے تھے۔
"میں دیکھنا چاہتا ہوں آپ کیا کریں گے۔۔ یہ لیں گن چلائی مجھ پر۔۔ مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا۔۔ لیکن یاد رکھیے گا بہارے گل کے ایک ایک خون کے قطرے کا بدلہ دانین خان کو اپنے خون سے چکانا پڑے گا۔۔"
شازل نے اپنی گن نکالتے آغا خان کی جانب بڑھاتے دھاڑتے ہوئے کہا تھا۔گل خان منہ پر ہاتھ رکھ گئی تھی۔جبکہ معاملہ بگڑتے دیکھ کر ملائکہ آغا خان کی جانب بڑھ گئی تھی۔

"میرے زندہ رہتے میں تمھیں اپنی بیٹی کو چھونے بھی نہیں دوں گا۔۔خون بہانہ تو بہت دور کی بات ہے۔۔"
وہ غصے سے سرخ چہرے کے ساتھ دھاڑے تھے۔
"خان صاحب۔۔ جانے دیں بچہ ہے۔۔"
ملائکہ نے ان کے بازو کو تھامتے کہا تھا۔
"جو شخص آج تک اپنی بیوی کو اس کا درجہ نہ دے سکا وہ اپنی بیٹی کی حفاظت کیسے کرسکے گا۔۔؟"
شازل نے ان کی دکھتی رگ پر وار کیا تھا۔کوئی ان دونوں کو دیکھ کر کہہ بھی نہیں سکتا تھا کہ دو سال پہلے تک وہ دونوں تایا بھانجے کی بجائے بیسٹ فرینڈز تھے۔۔
اس کی بات پر آغا خان نے بری طرح ملائکہ کا ہاتھ جھٹکا تھا وہ بری طرح لڑکھڑائی تھیں۔احساس ذلت سے ملائکہ کا چہرہ سرخ پڑا تھا۔ گل خان نے تیزی سے اس کی جانب بڑھتے ملائکہ کو پکڑا تھا۔

"محب تم اپنے بیٹے کو میری نظروں سے دور لے جاو ورنہ میں کچھ غلط کر جاوں گا۔۔"
وہ غصے میں بولتے لمبے لمبے ڈھگ بھرتے گھر سے ہی نکل گئ تھی۔ملائکہ شرمندہ سی تیزی سے اپنے کمرے میں بھاگ گئی تھی۔

"شازل تمھیں زرا شرم نہیں آئی ملائکہ کے بارے میں یہ بولتے ؟ تم دونوں کی لڑائی میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔۔"
گل خان غصے میں بولتی واک آوٹ کرگئی تھیں۔
"جو ہمارے پاس چند قریبی رشتے ہیں تم ان کو بھی برباد کردو گے۔۔"
محب خان اسے ملامتی نظروں سے دیکھتے گل خان کے پیچھے کمرے میں چلے گئے تھے۔جبکہ اسے واقعی غصے میں بولے گئے اپنے آخری لفظوں پر پشیمانی ہوئی تھی۔ 

 اس نے کھڑکی سے پردہ ہٹاتے باہر دیکھا تھا جہاں گھپ اندھیرا تھا سٹریٹ لائٹس کی روشنی میں اس نے ارد گرد جھانک کر اچھے سے دیکھتے خالی سڑک کو دیکھتے گہرا سانس لیا تھا۔

"احمد پیک یور بیگ۔۔ ہم ابھی اور اسی وقت یہاں سے جارہے ہیں۔۔"
زرکشہ نے کانپتے ہاتھوں سے اپنا سکارف ٹھیک کرتے اپنے سے سات سال چھوٹے بھائی کو کہا تھا جو پندرہ سال کا تھا مگر دیکھنے میں اپنی عمر سے بڑا لگتا تھا۔

"دی ڈریے مت جب تک میں زندہ ہوں آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔"
احمد کی بات سنتے وہ ہلکا سا مسکائی تھی۔
"ہمارے پاس ابھی وقت نہیں ہے احمد پلیز جلدی سے اپنا بیگ پیک کرو۔۔"
وہ تیزی سے بولتی اپنے کمرے کی جانب چل دی تھی۔احمد بھی اس کی پیروی کرتا اپنے کپڑے پیک کرنے لگا تھا۔ان دونوں کا ارادہ یہ شہر جلد سے جلد چھوڑنے کا تھا جس کی سب سے بڑی وجہ ان کا باپ تھا۔جو پچھلے ایک ہفتے سے غائب تھا۔اس کا نام و نشان بھی نہیں پتا چل رہا تھا۔

"سب کچھ رکھ لیا نہ؟"
زرکشہ نے اپنے حجاب میں پن لگاتے پوچھا تھا جس پر احمد نے مثبت جواب میں سر ہلایا تھا۔
وہ دروازے کی جانب بڑھنے ہی لگے تھے جب جھٹکے سے دروازے کا لاک توڑتے دو لوگ اندر داخل ہوئے تھے۔

احمد نے فورا زرکشہ کو اپنے پیچھے کیا تھا۔زرکشہ کے چہرے پر خوف کے سائے لہرائے تھے۔اس نے بےساختہ احمد کا بازو زور سے پکڑ لیا تھا۔

"لڑکی کو ہمارے حوالے کر دو۔۔ورنہ تم جان سے جاو گے۔۔"
مقابل موجود غنڈے کی بات سنتے زرکشہ کے رنگ اڑ گئے تھے جبکہ وہ احمد کو مزید مضبوطی سے تھام گئی تھی۔

ان کے نہ ہلنے پر مقابل موجود غنڈے نے گن اٹھا کر احمد کا نشان لیا تھا۔گن چلنے کی آواز پر زرکشہ نے سختی سے آنکھیں میچ لی تھیں۔گہری خاموشی میں قدموں کہ چاپ سن کر اس نے دھیرے سے اپنی آنکھیں کھولی تھی اس کی نظر پہلے زمین پر گرے غنڈے کی طرف گئی تھی پھر چمچماتے کالے برینڈڈ شوذ کی طرف۔۔

اس نے دھیرے سے نظریں اٹھاتے سامنے دیکھا تھا۔جہاں کھڑے ڈینیل مارٹین کو دیکھتے اس کے سانس خشک ہوگئے تھے۔اس کے ہاتھ میں موجود گن دیکھتے زرکشہ نے ایک کانپتی سانس خارج کی تھی۔اسے دیکھتے ڈینیل نے گن اٹھاتے ایک اور فائر مقابل کے اندر اتار دیا تھا۔
زرکشہ اس کی حرکت پر ساکت رہ گئی تھی خون کے قطرے اسے اپنے پاوں پر محسوس ہوئے تھے جس پر وہ کانپ اٹھی تھی۔

"Hey Princess."
وہ اپنی بھاری آواز میں بولا تھا۔ڈینیل کے اشارے پر اس کے ایک آدمی نے آگے بڑھتے احمد کو قابو کیا تھا۔زرکشہ کے منہ سے زور دار چیخ نکلی تھی۔
"نہیں چھوڑ دو میرے بھائی کو۔۔"
وہ خوف پر قابو پاتی چیخی تھی۔
"شش۔۔ شٹ یور ماوتھ گرل۔۔ یو آر کازنگ می ہیڈک۔۔"
اس نے آگے بڑھتے زرکشہ کے بازو کو دبوچا تھا وہ اس کے مردانہ انگلیوں کے لمس کو محسوس کرتی تڑپ اٹھی تھی۔
"پلیز۔۔ ڈونٹ ٹچ می۔ "
اس کی کسی بھی بات کا ڈینیل پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا وہ اسے کھینچتا ہوا لفٹ کے ذریعے نیچے لے گیا تھا۔

"میرا بھائی۔۔ اسے چھوڑ دیں پلیز۔۔"
احمد کو اس غنڈے کے ساتھی کے ساتھ جاتا دیکھ کر وہ دوبارہ چیخی تھی۔
"شٹ اپ۔۔ چپ چاپ گاڑی میں بیٹھو ورنہ تمھارے بھائی کو تمھارے ہاتھوں سے سیدھا اوپر کی کرش لیڈنگ کرواوں گا۔۔"
ڈینیل کی دھمکی پر وہ غصے اور بےبسی سے گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔ڈینیل اس کے ساتھ ہی کچھ فاصلے پر بیٹھ گئی تھی۔وہ کھسک کر دروازے کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی تھی۔
"کال دا کلینگ کریو۔۔"
اس نے ڈرائیور کو کہا تھا جس پر وہ سر ہلا گیا تھا۔
"میر۔۔"
"ڈونٹ سے اینی تھنگ۔۔"
وہ سخت لہجے میں بولتا اس کی بولتی بند کروا گیا تھا۔ 

 وہ کافی دیر سے نورے کو کال ملا رہا تھا مگر اس کا فون مسلسل آف جارہا تھا۔اسے اپنے رویے پر پچھتاوا ہو رہا تھا۔جب نورے اس کے پاس آئی تب اس کا موڈ بری طرح خراب تھا۔جس کا نشانہ وہ بری طرح بنی تھی۔اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا دانین سے شادی کرنے کا بلکہ اسے تو دانین کے عکس سے بھی نفرت تھی۔لیکن وہ یہ جان چکا تھا اس نے نورے کو شدید تکلیف پہنچائی ہے۔۔جس ہر اسے مزید خود پر غصہ اور دانین کا گلا دبانے کا دل کر رہا تھا جس کے آنے سے اس کے دماغ میں شاٹ سرکٹ ہونے لگے تھے۔

اس نے تھک ہار کر غصے میں موبائل دیوار میں دے مارا تھا۔موبائل ٹوٹ کر زمین پر بکھر گیا تھا۔وہ اس وقت فلیٹ پر موجود تھا مگر سوچوں کا رخ بری طرح نورے کی جانب تھا وہ صبح ہوتے ہی یہاں آگیا تھا۔مگر ایک بھی پل وہ سو نہیں سکا تھا بار بار نورے کی باتیں ذہن میں آرہی تھی۔نیند سے سرخ آنکھوں کو مسلتے اس نے اس کے گھر جاکر اس سے ملنے کا فیصلہ کیا تھا۔

وہ چینج کرتا فریش ہوکر اس کو منانے کے لیے نکلا تھا۔دل میں عجیب سی کھلبی مچی ہوئی تھی۔اپنے ماتھے کو مسلتے اس نے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی تھی۔ایک طرف نورے کی ٹینشن تو دوسری طرف فیاض نے اس کا دماغ گھما دیا تھا۔

شاہ پیلس کے سامنے گاڑی روکتے وہ ایک گہری سانس بھرتا اس کی ناراضی کا سامنا کرنے کے لیے باہر نکلا تھا۔

"تمھاری ہمت کیسے ہوئی ہمارے گھر میں قدم رکھنے کی؟"
میر شاہ کی اونچی آواز سن کر اس نے بےتاثر انداز میں ان کی جانب دیکھا تھا۔
"میں اپنی بیوی سے ملنے آیا ہوں۔۔"
وہ بےتاثر انداز میں جواب دیتا سیڑھیوں کی جانب بڑھنے لگا تھا جب میر شاہ ان کے سامنے کھڑے ہوئے تھے۔
"تم جیسا بےشرم شخص میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔۔ پہلے میری بیٹی کی زندگی تباہ کردی اب اس کے زخموں پر نمک چھڑکنے آئے ہو۔۔"
میر شاہ اونچی آواز میں چلائے تھے۔
"میں اپنی بیوی سے بات کرنے آیا ہوں آپ کو میں جواب دہ نہیں ہوں۔۔"
شازل کے جواب پر میر شاہ کے غصے میں اضافہ ہوا تھا۔
"کیوں دوسری بیوی نے منہ نہیں لگایا جو پہلی بیوی کہ یاد آگئی ہے۔۔"
فاطمہ بیگم جو نماز ادا کرتی باہر نکلی تھی اس کو چلاتے دیکھ کر طنزیہ بولی تھیں۔
وہ انھیں اگنور کرتا نورے کے روم میں جانے لگا تھا جب میر شاہ کی بات نے اسے ساکت کردیا تھا۔
"وہ جاچکی ہے یہاں سے۔۔"
میر شاہ سپاٹ لہجے میں بولے تھے۔نورے اگر جاتے ہوئے ان سے وعدہ نہ لے کر جاتی تو وہ اس وقت یقینا شازل کا خون بہا چکے ہوتے۔۔
شازل ان پر ایک نظر ڈالتا تیزی سے انھیں پیچھے ہٹاتا ایک وقت میں کئی سیڑھیاں پھلانگتا نورے کے کمرے کی جانب بھاگا تھا۔اس کے خالی کمرے کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بےیقینی امڈ آئی تھی وہ تیزی سے اس کی الماری کی جانب بھاگا تھا اسے کھولتے ہی خالی الماری اسے منہ چڑھا رہی تھی۔اس کی شریانیں پھٹنے لگی تھیں۔وہ الٹے قدموں دوبارہ نیچے بھاگا تھا۔

"کہاں ہے میری بیوی؟"
وہ چلایا تھا۔
"ہمارے سامنے یہ ڈرامہ مت کرو۔۔ اس سے تم نورے کو بےوقوف بنا سکتے ہو ہمیں نہیں۔۔"
"اور اب کیوں پوچھ رہے ہو اس کا؟ دوسری بیوی ہے نہ تمھارے پاس جاو اس کے ساتھ ہنسی خوشی رہو اور میری بیٹی کی جان چھوڑ دو۔۔"
ان کی بات سن کر شازل نے سختی سے مٹھیاں بھینچ لی تھیں۔
"میری بیوی کہاں ہے۔۔؟ مجھے فورا بتا دیں ورنہ مجھے آپ جانتے ہیں اس کی خاطر میں ہر حد سے گزر جاوں گا۔۔"
وہ دھاڑا تھا۔غصے سے سفید رنگت میں سرخیاں گھلنے لگی تھیں۔
"کیا کرو گے تم ؟ ہم پر گن تانوں گے؟ میں ڈرتا نہیں ہوں تم سے۔۔"
میر شاہ بھی غصے سے بولے تھے۔
"میں اسے ڈھونڈ لوں گا۔۔ وہ پیتال میں بھی ہوئی میں اسے وہاں سے نکلوا لاوں گا۔۔ اور پھر آپ اسے دیکھنے کے لیے بھی ترسیں گے۔۔ یہ میرے الفاظ یاد رکھیے گا۔۔"
غصے سے اس کی شریانیں پھول چکی تھیں۔آنکھیں مزید لال ہو گئی تھیں۔میر شاہ نے اس کی بات پر تمسخرانہ انداز میں اسے دیکھا تھا۔شازل ان پر ایک نظر ڈالتا لمبے لمبے ڈھگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا۔اس کا رخ اب خان ہاوس کی طرف تھا۔ 

جاری ہے۔۔

List of All Episodes