Professor Khan Episode 6 Season 2 by Zanoor Writes Complete Episode

shiddat pasand novel by zanoor writes  N/A   0–10  zanoor writes  N/A   0–10  jan e buraq novel by zanoor writes  N/A   0–10  my girl by zanoor writes professor shah novel  0  30  12 January  professor shah novel zanoor  N/A   30  professor shah  N/A   10  professor shah novel by zanoor  N/A   10  professor shah novel by zanoor pdf download  N/A   10  novel professor shah by zanoor  N/A   10  professor shah season 2  N/A   0–10  professor shah farid ul haque  N/A   0–10  professor shah novel complete  N/A   0–10  professor shah novel by zanoor complete pdf zanoor writes fb  N/A   10  my girl novel by zanoor writes

 Professor Khan 

Zanoor Writes

Episode 6

(Series 2 in Professor
Shah Novel)


"اب انکل ٹھیک ہیں ؟"

افرحہ نے اس کے فریش ہوکر نکلتے پوچھا تھا۔

"ہمم۔۔"

وہ ہنکار بھرتا بیڈ پر بیٹھنے کے اندز میں لیٹی افرحہ کی گود میں منہ چھپا گیا تھا۔

"کچھ ہوا ہے شاہزیب ؟ "

اس نے نرمی سے اپنی انگلیاں شاہزیب کے بالوں میں چلاتے پوچھا۔

"میں نے انھیں معاف کردیا افرحہ۔۔"

وہ بھاری آواز میں بولا تھا۔افرحہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا جو ضرورت سے زیادہ ٹینس لگ رہا تھا۔

"کسے معاف کردیا ؟ انکل کو؟"

جوابا شاہزیب نے ہنکار بھرا تھا۔

"آپ اگر دل سے معاف نہیں کرسکتے تھے تو زبان سے بھی نہیں کرنا چاہیے تھا۔"

افرحہ اس کی حالت سمجھتی بولی تھی۔

"وہ مجھ پر کبھی یقین نہیں کریں گے اور ان کی حالت ایسی نہیں کہ انھیں سٹریس دیا جائے۔۔"

وہ لب بھینچ کر سپاٹ لہجے میں بولا تھا۔افرحہ نے اس کا چہرہ تھام کر اپنی گود سے اٹھایا تھا۔

"میں آپ کی حالت سمجھ سکتی ہوں شاہزیب۔۔"

وہ نرمی سے اس کی بئیرڈ پر ہاتھ پھیرتی اس کی کالی گہری آنکھوں میں دیکھ کر بولی تھی۔ شاہزیب نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈالتے اس کا چہرہ اپنے چہرے کے قریب کیا تھا۔

"تم میرے لیے ایک ایسا معجزا ہو جس کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔۔"

شاہزیب نے اس کے ماتھے پر شدت سے اپنے لب رکھتے ہوئے کہا تھا۔افرحہ نے اس کا ہاتھ تھام کر مسکراتے ہوئے ہونٹوں سے لگایا تھا۔

"اب ٹینشن مت لیں آپ تھک گئے ہوگیں سوجائیں۔۔"

افرحہ کے بولنے پر وہ دوبارہ اپنا سر اس کی گود میں رکھ چکا تھا۔افرحہ کی نرم انگلیوں کا سرسراتا لمس محسوس کرکے وہ چند لمحوں میں ہی سو گیا تھا۔ 

 "نور کیا ہوا آج کل کھانے کے لیے بھی باہر نہیں نکلتی۔۔؟"

صبح کے وقت نورے کی ناشتے پر مسلسل غیر موجودگی کو دیکھتے شاہزیب اس سے بات کرنے روم میں آیا تھا۔

"میرا دل نہیں کرتا سب کے ساتھ کھانے کو۔۔"

اس نے اپنے بیگ میں چیزیں ڈالتے بنا شاہزیب کی طرف دیکھتے کہا تھا۔جبکہ اس کے یوں فکرمند انداز سے اسے اندر ہی اندر خوشی محسوس ہوئی تھی جو اس نے چہرے پر واضح نہیں ہونے دی تھی۔

"کیا کسی نے کچھ کہا ہے تم سے؟"

اس کا اشارہ فاطمہ بیگم کی طرف تھا۔نورے نے ہلکے سے سر نفی میں ہلایا تھا۔

"نہیں کسی نے کچھ نہیں کہا۔۔مجھے لیٹ ہورہا ہے بعد میں بات کریں گے۔۔"

وہ ٹائم دیکھتی تیزی سے باہر کی طرف بڑھ گئی تھی۔

"ویٹ نورے آج میں تمھیں یونیورسٹی چھوڑ کر آوں گا۔۔"

شاہزیب نے اسے روکتے کہا تھا۔

"اس کی ضرورت نہیں میں ڈرائیور کے ساتھ چلی جاوں گی۔۔"

نورے نے دھیرے سے سر ہلاتے نرم آواز میں کہا تھا۔

"میں دو منٹ میں کیز لے کر آرہا ہوں تم تب تک نیچے جا کر با۔۔بابا سے بات کرلو کل رات ان کی کافی طبیعت خراب تھی۔"

اس نے میر شاہ کے نام کی بجائے بمشکل "بابا" کا لفظ ادا کیا تھا۔نورے نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔

اسے کسی نے بتایا نہیں تھا میر شاہ کی طبیعت خراب ہے وہ سر ہلاتی نیچے میر شاہ سے بات کرنے چلی گئی تھی۔

میر شاہ سے ان کی صحت کے بارے میں پوچھتے نورے نے پوری طرح فاطمہ بیگم کو نظر انداز کر دیا تھا۔شاہزیب کے نیچے آتے ہی وہ یونی کے لیے نکل گئی تھی۔ 

 شازل نے صبح ہی کچھ چھوٹے کمرے منگوائے تھے جو اس نے گراونڈ کی پچھلی طرف خود لگانے کا سوچا تھا۔کل وہ نورے سے اس شخص کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا مگر غصے میں اس کے ذہن سے نکل گیا تھا۔

کالی شلوار قمیض کے ساتھ سکن کلر کا کوٹ پہنے وہ انتہائی پرکشش لگ رہا تھا۔گورا رنگ اور تیکھے نین نکوش بہت سی نظروں کو اپنی جانب متوجہ کر رہے تھے۔

آج یونیورسٹی کے بعد اس کا ارادہ حیدر سلطان سے ملنے کا تھا جو بہت دنوں سے اسے اپنے فارم ہاوس بلا رہا تھا۔وہ جانا تو نہ چاہتا تھا مگر حیدر سلطان نے کچھ مال منگوایا تھا وہ اسے دیکھنا چاہتا تھا۔

اسے پتا چلا تھا ایک ہفتے تک چئیرپرسن واپس یونیورسٹی لوٹنے والا ہے اسے ختم کرنے کا پلان بناتے وہ پہلے ہی ساری پلاننگ کرچکا تھا بس اب اس شخص کا انتظار تھا۔

آج وہ لیکچر سے پانچ منٹ پہلے ہی کلاس روم میں آچکا تھا۔ابھی چند ایک سٹوڈنٹس ہی کلاس میں موجود تھے وہ لیپ ٹاپ کھولتا لیکچرز کی سلائیڈز نکالنے لگا تھا۔

کلاس کا ٹائم ہوتے ہی سٹوڈنٹس کلاس روم میں آنے لگے تھے۔سونیا تو سب سے پہلے آکر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی تھی۔

نورے نے کلاس میں داخل ہوتے شازل کو دیکھ کر منہ گندا سا منہ بنایا تھا کل کی چائے کا ذائقہ محسوس کرکے اسے جھرجھری محسوس ہوئی تھی۔

وہ سٹیپ لیتی پچھلے ڈسک پر جارہی تھی جب اپنی سوچوں میں گم وہ سونیا کو ٹانگ آگے کرتے دیکھ نہ پائی اور بری طرح لڑکھڑائی تھی۔ اس کی ٹھوڑی ٹیبل کے کونے پر زور سے لگی تھی۔

اس کے منہ سے بےساختہ چیخ نکلی تھی۔شازل جو کن اکھیوں سے اسے ہی دیک رہا تھا وہ فورا چوکنا ہوا۔سونیا کی حرکت وہ دیکھ چکا تھا۔۔اپنی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھتی وہ تیزی سے سیدھی ہوئی تھی۔تکلیف سے اسے اپنے سر میں ٹیسیں اٹھتی محسوس ہونے لگی تھی۔خون تیزی سے اس کی ٹھوڑی سے نکلتا زمین پر گرنے لگا تھا۔

"نورے۔۔"

وہ تیزی سے اس کی جانب بڑھا تھا کوٹ کی جیب سے اپنا رومال نکالتے اس نے نورے کا ہاتھ ہٹا کر وہاں سے زور سے دبا دیا تھا۔ساری کلاس پریشانی سے نورے کو دیکھ رہی تھی۔

"اسے زور سے دبا کر رکھو۔۔"

اس کا بازو تھامتے تیزی سے اسے کلاس سے باہر لے جاتے شازل نے تیز لہجے میں کہا تھا۔یونیورسٹی میں کوئی ایسا انتظام نہیں تھا کہ اس کی ٹھوڑی پر لگے زخم کا علاج ہو پاتا وہ اسے یونیورسٹی سے کچھ دور ہوسپٹل لے کر جا رہا تھا۔

"م۔۔مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔۔"

وہ بھیگی آنکھوں سے اس کے ساتھ چلتی بول رہی تھی۔تکلیف سے اس کا نچلا ہونٹ کانپ رہا تھا۔شازل نے اس کی سسکی سن کر جبڑے بھینچے تھے سونیا کی حرکت پر وہ اسے اچھے سے سبق سکھانے کا سوچ رہا تھا۔

"جسٹ کالم ڈاون۔۔"

گاڑی کا دروازہ کھول کر نورے کو بیٹھاتے شازل نے تیزی سے کہتے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی تھی۔

"میں نے کہا تھا اسے زور سے پکڑ کر رکھو۔۔"

وہ رومال کو اس کی ٹھوڑی پر ڈھیلا دیکھ کر غصے سے بولا تھا۔خون اس کی ٹھوڑی سے نکلتے اس کے سکن سوٹ پر گرنے لگا تھا۔

"م۔۔مجھے درد محسوس ہوتا ہے دبانے سے۔۔"

وہ کانپتی آواز میں بولی تھی۔شازل نے اس کا چہرہ تھام کر اسے اپنی طرف جھکاتے زور سے رومال اس کے زخم پر دباتے اس کے چہرے پر گرفت مضبوط کرلی تھی۔تکلیف سے مچلتے نورے نے اپنے ناخن اس کے ہاتھ میں زور سے گاڑے تھے۔

"مم۔۔۔مجھے جانے دیں۔۔۔ چھوڑیں میرا چہرہ۔۔ مم۔۔مجھے درد ہو رہا ہے۔۔"

وہ کانپتی آواز میں چیخ رہی تھی۔گاڑی کو ایک ہاتھ سے چلاتے شازل نے اس کی جانب مڑتے سخت نظروں سے اسے گھور کر اس کا منہ ببد کروایا تھا۔

اسے ہوسپٹل تک جانے کا فاصلہ میلوں کا لگ رہا تھا۔ہوسپٹل پہنچتے ہی شازل اسے تیزی سے اسے کھینچتے اندر لے گیا تھا۔

نورے کے کافی گہرا زخم تھا اسے ٹھوڑی پر ٹانکے لگے تھے۔سٹیچیز لگوانے کے دوران وہ سختی سے شازل کا ہاتھ تھامے رہی تھی۔

شازل گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جو آنکھیں زور سے میچیں ہلکا ہلکا کانپ رہی تھی اسے بےساختہ سونیا پر شدید غصہ آیا تھا۔اسے ڈین کی کال بھی آچکی تھی اور وہ انھیں ساری بات بھی بتا چکا تھا۔

"ت۔۔تھینک یو۔۔"

سٹیچیز لگوانے کے بعد شازل کا ہاتھ چھوڑتی وہ نظریں جھکائے دھیمی آواز میں بولی تھی۔

"اپنے گھر کال کر دو تمھیں لے جائیں۔اس حالت میں تم کلاسزز اٹینڈ نہیں کرسکتی۔۔"

شازل نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے سنجیدگی سے کہا تھا۔

نورے نے سر ہلاتے ڈرائیور کو کال کی تھی وہ شاہزیب کو نہیں بلا سکتی تھی اور نہ ہی اس کا نمبر نورے کے پاس تھا۔

"ی۔۔یہ سونیا کی وجہ سے ہوا ہے۔۔"

وہ ڈرائیور کو کال کرنے کے بعد غصے سے منہ پھولا کر دھیمی آواز میں بولی تھی۔

"اگر تم اپنی نظریں آسمان کی بجائے زمین پر رکھ کر انسانوں کی طرح چلتی تو یہ سب نہ ہوتا۔۔"

شازل سرد لہجے میں بولا تھا اس کی بےتوجہی کا اندازا اسے دیکھتے ہی ہوگیا تھا۔

"آپ اس حالت میں بھی مجھے ڈانٹیں گے؟ ایک تو مجھے چوٹ لگی ہے اور جس کی وجہ سے لگی ہے اسے ڈانٹنے کی بجائے مجھے ہی بول رہے ہیں۔۔"

وہ غصے سے بولی تھی شازل کا ڈانٹنا اسے طیش دلا گیا تھا۔

"شٹ اپ۔۔"

شازل نے سرد نگاہوں سے اسے دیکھتے کہا تھا۔نورے ایک دم چپ ہوگئی تھی۔شازل نے اسے اس لیے چپ کروایا تھا تاکہ زیادہ بولنے سے اس کی چِن میں تکلیف نہ ہو۔۔

ڈرائیور کے آنے کے بعد نورے گھر چلی گئی تھی۔وہ بھی خاموشی سے یونیورسٹی چلا گیا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں ابھی تک نورے کے زخم کا خون لگا ہوا تھاجسے وہ نظر انداز کر گیا تھا۔ 

 "کیا عقل اور تمیز نام کی چیز ہے تم میں ؟"

وہ غصے سے پھنکارا تھا۔

"تم سمجھتی کیا ہو خود کو؟ آج تمھاری وجہ سے نورے کو چوٹ لگی ہے۔۔ابھی تو بچت ہوگئی اس کی آنکھ یا سر پر بھی چوٹ لگ سکتی تھی۔"

شازل نے واپس یونیورسٹی آتے ہی سونیا کو اپنے آفس میں بلایا تھا۔سونیا اس کی اونچی آواز سن کر بری طرح ڈری تھی۔

"س۔۔سر میری غلطی نہیں ہے و۔۔وہ خود دیکھ کر نہیں چل رہی تھی۔"

سونیا نے بنا شرمندہ ہوتے سنجیدگی سے کہا تھا۔اسے دیکھتے شازل نو نئے سرے سے غصہ آیا تھا۔

"تمھیں کیا لگتا ہے ؟ کیا میرے پاس آنکھیں نہیں ؟ میں نے خود دیکھا ہے نورے کو جان بوجھ کر تم نے گرایا ہے۔۔اور اس کی سزا بھی تمھیں ملے گی۔۔"

شازل سرد لہجے میں پھنکارا تھا۔

"میں نے کچھ نہیں کیا۔۔آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔۔"

وہ سزا کے بارے میں سنتی معصوم بنتی بولی تھی۔شازل نے غصے سے اسے دیکھا تھا جو انتہائی چالاک لومڑی لگ رہی تھی۔معصومیت کا تو دور دور اس سے تعلق نہیں تھا۔

"شٹ اپ ڈین کے آفس میں جاو۔۔ایک ہفتے کے لیے میری کلاس میں مت آنا۔۔"

وہ غصے سے بولا تھا۔سونیا نے دانت کچکچا کر لب بھینچ لیے تھے۔جہاں نورے کو تکلیف پہنچا کر وہ خوش ہوئی تھی وہاں ہی شازل کی اس کے لیے کئیر دیکھ کر وہ جل اٹھی تھی۔

"ایسا مت کریں سر میرا پہلے ہی کافی سٹڈیز میں لوس ہوچکا ہے۔۔"

وہ منمنا کر بولی تھی۔شازل نے ایک سرد آہ خارج کرتے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔

"گٹ لاسٹ۔۔ایک ہفتے تک میری کلاس کے آس پاس بھی نظر نہ آنا۔۔"

وہ بنا لحاظ کیے ٹیبل پر غصے سے ہاتھ مار کر بولا تھا۔وہ تیزی سے شازل کے غصے سے ڈرتی باہر نکل گئی تھی۔ 

 رات کا اندھیرا چھاتے ہی شازل خاموشی سے چھوٹے کمرے لیتا گراونڈ کی پچھلہ سائیڈ کی طرف بڑھ گیا تھا۔آج پھر وہ نورے سے اس آدمی کے پوچھنے کے بارے میں بھول چکا تھا۔

درخت کے پاس کھڑے ہوتے اس نے تیزی سے کیمرے کو فکس کیا تھا۔ایک کیمرہ جھاڑیوں اسر پھر دیوار سے اٹیچ کرتے وہ خاموشی سے پلٹ گیا تھا۔

گاڑی میں بیٹھ کر اب اس کی منزل حیدر سلطان کے فارم ہاوس کی طرف تھی۔

"عسکری میں نے کیمرے فکس کردیے ہیں تم چیک کرلو سب سیٹ ہے اور خاص نظر رکھنا۔۔"

شازل نے اسے کال کرتے بتایا تھا۔

"ہاں میں نے چیک کرلیے ہیں سب سیٹ ہے کچھ غیر معمولی ہوا تو میں تمھیں بتا دوں گا۔۔اب کہاں ہو؟"

عسکری نے پوچھا تھا۔

"میں حیدر سے ملنے جا رہا ہوں کچھ چیزیں لینی تھیں۔"

شازل نے سپاٹ انداز میں جواب دیا تھا۔

"شازل تمھیں اب کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے تم فضول میں چیزیں لے کر حیدر کو بھی مشکوک کر رہے ہو۔۔"

عسکری نے سر جھٹک کر اسے بتایا تھا جس کے دماغ میں کوئی بات جلدی نہیں بیٹھتی تھی۔

"تم سے کسی نے مشورہ نہیں مانگا عسکری۔۔تم اپنا کام کرو اور مجھے اپنا کام کرنے دو۔۔"

وہ غصے سے بولتا کال کٹ کرچکا تھا۔حیدر سے مل کر وہ کچھ چیزیں لے چکا تھا۔

"کیا تم مجھے بتاو گے تم ان گنز اور چیزوں کو کہاں استعمال کر رہے ہو؟"

حیدر سلطان نے اسے سگریٹ سلگاتے دیکھ کر پوچھا تھا۔

"وقت آنے پر تمھیں بتا دوں گا۔۔"

شازل نے سرد لہجے میں کہا تھا۔

"شازل اگر تم اپنی بہن کی وج۔۔۔"

وہ ابھی بول ہی رہا تھا جب شازل نے سگریٹ پھینکتے اسے کالر سے دبوچا تھا۔

"اس کا نام بھی مت لینا۔۔"

اس کے لہجے میں وارننگ تھی۔

"تو اس کا مطلب یہ سچ ہے تم بدلہ لے رہے ہو۔۔"

وہ سپاٹ نظروں سے شازل کو دیکھتا بولا تھا۔

"اس معاملے سے دور رہو حیدر یہ تمھارے لہے بہتر ہوگا۔۔"

شازل نے اسے سرد آواز میں وارن کیا تھا۔

"اوکے۔۔"

وہ لب بھینچ کر شازل کو دور دھکیلتا سگریٹ سلگاتا اس سے دور چلا گیا تھا۔شازل کی بہن کے بارے میں سوچتے اس کے سامنے ایک انتہائی حسین لڑکی کی شبہہ ابھری تھی۔

وہ سر جھٹکتا شازل کے الفاظ سمجھتا سگریٹ کے کش لینے لگا تھا۔ 

 نورے کی چوٹ دیکھ کر گھر میں سب پریشان ہوگئے تھے۔شاہزیب تو غصے میں یونیورسٹی جاکر سونیا کا قتل کرنے کا سوچ رہا تھا افرحہ نے بمشکل اسے روکا تھا۔شاہزیب نے اسے ایک ہفتے تک یونیورسٹی نہیں جانے دیا تھا۔نورے نے کافی ضد کی تھی مگر شاہزیب ہٹ دھرم بنا رہا تھا۔

"تم کہاں جارہی ہو نورے؟"

شاہزیب نے نورے کو تیار ہوکر نیچے اترتے دیکھ کر پوچھا تھا۔اس کے سٹیچیز کل ہی کھلے تھے۔گھر رہ کر اسے کوفت ہونے لگی تھی۔شاہزیب سے وہ زیادہ بات تو اب بھی نہ کرتی تھی لیکن وہ آہستہ آہستہ اس سے گھل مل رہی تھی۔اس کی پچھلے دنوں میں اپنے لیے فکر اور پریشانی دیکھ کر وہ خوشی محسوس کر رہی تھی۔

"میں یونیورسٹی جارہی ہوں۔۔"

وہ اپنے چہرے سے لٹیں ہٹاتے تیزی سے بول کر باہر بھاگ گئی تھی۔

"نورے رکو۔۔"

شاہزیب نےا سے روکنے کی کوشش کی تھی۔

"اسے جانے دیں شاہزیب۔۔"

نورے کی حرکت پر مسکراہٹ دباتی افرحہ نے اسے بازو سے پکڑ کر روکا تھا۔

"ابھی وہ ٹھیک نہیں ہوئی اگر اسے دوبارہ چوٹ لگ گئی تو؟"

وہ پریشانی سے ماتھے پر بل ڈال کر افرحہ سے پوچھ رہا تھا جو اس کی پریشانی جان کر اسے سمجھانے لگی تھی۔

"وہ بچی نہیں ہے شاہزیب اسے اس کی زندگی جینے دیں۔۔اور مجھے دیر ہورہی ہے اب ڈرائیور تو نورے کو لے گیا ہے آپ مجھے چھوڑ آئیں۔۔"

وہ شاہزیب کا دھیان نورے سے کامیابی سے ہٹا چکی تھی۔شاہزیب سر ہلاتا اسے یونیورسٹی ڈراپ کرنے چلا گیا تھا۔ 

 ملائکہ نے زبردستی دانین کو کچھ کھلایا تھا ورنہ وہ کچھ کھانے کو راضی نہیں تھی۔آغا خان تو اپنی بیٹی کی ضد پر حیران و پریشان تھے جو ان کا چہرہ دیکھنے کو بھی راضی نہیں تھی۔اس کے خیال میں آغا خان نے اس کے زیادتی کی تھی۔

"بابا مجھے آپ سے بات نہیں کرنی۔۔"

وہ آغا خان کو دیکھ کر ناراض سی بولی تھی۔

"تم کیا چاہتی ہو تمھارے بابا اس مغرور شخص کے آگے ہاتھ پھیلائیں؟"

آغا خان نے بھینچے لبوں کے ساتھ کہا تھا۔

"بابا آپ نے غلط کیا ہے میں آپ کو ہاتھ پھیلانے کا نہیں بول رہی میں بس اتنا چاہتی ہوں آپ ان سے بات کرکے یہ مسئلہ سولو کردیں۔۔"

وہ نرمی سے بولی تھی آغا خان نے سرد آہ خارج کی تھی۔اس کی بات کو ناچاہتے ہوئے بھی وہ مان گئے تھے۔

دانین سے مل کر انھوں نے سیکیورٹی کمپنی سے بات کرلی تھی۔وہ روحان سے بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔کمپنی نے روحان کو آغا خان سے ملنے کا کہا تھا پہلے تو روحان نے صاف انکار کر دیا تھا پھر اپنی بوس کی بات مانتا وہ ملنے ان کے گھر آگیا تھا۔

"میں نے سنا آپ کو میری ضرورت ہے؟"

وہ صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ جما کر بیٹھے اکڑ کر بولا تھا۔آغا خان نے غصے سے اسے گھورا تھا۔

"نہیں میں تو تم جیسے شخص کو دوبارہ پلٹ کر بھی نہ دیکھتا اگر میری بیٹی مجبور نہ کرتی۔۔"

وہ بھی اکڑ کر سنجیدگی دے بولے تھے۔روحان نے آنکھیں گھمائی تھیں۔

"چچ۔۔ آپ تو بہت مجبور شخص ہیں۔۔اور میں مجبور لوگوں کو مزید پریشان نہیں کرتا آپ بتائیں کیا کام ہے۔۔"

وہ دانین کے بارے میں سنتا اپنی مسکراہٹ دبا کر سپاٹ لہجے میں بولتا انھیں تپا گیا تھا۔

"میری بیٹی چاہتی ہے تم دوبارہ اپنی ڈیوٹی سٹارٹ کردو۔۔وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ کمفرٹیبل نہیں ہے۔۔"

انھوں نے بےزاریت سے کہا تھا۔روحان نے ائبرو اچکا کر انھیں دیکھا تھا۔

"اوکے میں کل سے اگین جوب سٹارٹ کردوں گا لیکن میں پےمنٹ نہیں لوں گا۔۔"

اس نے سپاٹ انداز میں کہا تھا۔

"تمھاری سیلری میں کمپنی کو بھیج دوں گا۔۔اور جوب آج سے ہی سٹارٹ کرو اب میری بیٹی کی حفاظت کی ذمہداری تم ہر ہے اگر اسے ایک خراش بھی آئی تو تمھارا برا حشر کردوں گا۔۔"

آغا خان کھڑے ہوکر بولتے بنا روحان کا جواب سنے کمرے میں بڑھ گئے تھے۔ان کی اٹیٹیوڈ پر روحان نے آنکھیں گھمائی تھی۔

خود پر کسی کی نظریں محسوس کرکے اس نے چہرہ اٹھا کر اوپر کی جانب دیکھا تھا جہاں وہ دیوار کی اوٹ میں چھپ کر اسے دیکھ رہی تھی۔اس کی جھلک پر وہ جی جان سے مسکرایا تھا۔دانین اس کی نظریں خود پر محسوس کرتی تیزی سے کمرے میں بھاگ گئی تھی۔ 

 "مجھے کچھ پوچھنا ہے تم سے۔۔اس دن تم نے گروانڈ کی بیک سائیڈ پر اس شخص کی کیا باتیں سنی تھیں۔؟"

کلاس کے خالی ہونے کے بعد شازل نے اس کی ٹھوڑی کا گہری نظروں سے جائزہ لیتے پوچھا تھا۔

"میں نے کچھ خاص نہیں سنا تھا وہ بس آپ کا نام لے رہا تھا اور کسی کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔"

وہ اپنا دوپٹہ کندھے سے ٹھیک کرتی بولی تھی۔اسے لگا تھا وہ اسے روک کر اس کے زخم کے بارے میں پوچھے گا لیکن اس کے سوال نے اس کا موڈ آف کردیا تھا۔

"اوکے۔۔اور اتنے دن کلاس سے غائب ہونے کی وجہ بتاو۔۔؟

وہ لیپ ٹاپ بند کرتا بظاہر مصروف انداز میں پوچھ رہا تھا۔

"اگر آپ کی آنکھیں صحیح سلامت ہے تو آپ دیکھ سکتے ہیں میرے چوٹ لگی ہوئی تھی۔"

وہ اپنی ٹھوڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی تھی۔

"میرے خیال سے چوٹ تمھاری سر پر نہیں لگی تھی مگر اس کے اثرات تمھارے ذہن پر دکھائی ضرور دے رہے ہیں۔۔"

وہ نورے کو گھورتے ہوئے بولا تھا

"آپ کہنا کیا چاہتے ہیں میں پاگل ہوں؟"

وہ غصے سے لال پیلی ہوتی بولی تھی۔

"پاگل بھی کبھی مانا ہے وہ پاگل ہے۔۔"

اسے مزید تپاتے شازل نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے تھے۔

"آپ۔۔۔"

وہ غصے سے اسے دیکھتی باقی کے الفاظ منہ میں دباتی اپنی اگلی کلاس کی طرف بڑھ گئی تھی۔

آسمان پر گہرے بادلوں نے اچانک سے سایہ کیا تھا اور تیزی سے برسنا شروع کیا تھا۔اپنی آخری کلاس لیتی وہ تھک گئی تھی۔پھر اس کے بعد اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ گپ اسائمنٹ کرکے اس کی بس ہوگئی تھی۔اسے شام یونیورسٹی میں ہی ہوگئی تھی۔بادلوں کی وجہ سے چھ بجے ہی اندھیرا چھا گیا تھا۔

نورے نے ڈرائیور کو کال کی تھی۔جو معمول کے مطابق اٹھا نہیں رہا تھا اسے جی بھر کر غصہ آیا تھا۔شاہزیب کا نمبر نہیں تھا اس کے پاس ورنہ وہ اسے بلالیتی۔۔

تیز ٹھنڈی ہوا کے ساتھ بارش تیزی سے برس رہی تھی۔وہ پریشان سی بار بار ڈرائیور کو کال کر رہی تھی جو اٹھانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

"یہاں کھڑی کیا کر رہی ہو؟ ابھی تک گھر کیوں نہیں گئی؟"

اپنے پیچھے سے اچانک شازل کی بھاری آواز سن کر وہ بری طرح دبکی تھی۔

"آپ معصوم بچی کی جان لیں گے کیا؟"

وہ سینے پر ہاتھ رکھتی گھور کر شازل سے بولی تھی۔جو سپاٹ تاثرات کے ساتھ اسے دیکھ رہا تھا۔

"شٹ اپ۔۔گھر کیوں نہیں گئی ابھی تک؟"

اس نے اس بار قدرے روعب دار انداز میں پوچھا تھا۔

"ڈرائیور کال پک نہیں کر رہا۔۔"

اس نے منہ بناتے جواب دیا تھا۔

"میں ڈراپ کر دیتا ہوں چلو۔۔"

اس نے سرد آواز میں کہا تھا۔نورے نے حیرانی سے اس کی جانب دیکھا تھا۔

"آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ڈرائیور تھوڑی دیر تک آجائے گا۔۔"

وہ تیزی سے شازل کو قدم اٹھاتے دیکھ کر بولی تھی۔

"میں نے کہا چلو میرے ساتھ ایک بار میں تمھیں میری بات سمجھ نہیں آتی؟"

وہ اس بارے غصے سے بولا تھا۔نورے اس کے ایسے بولنے پر لب بھینچ کر چل پڑی تھی۔وہ یہاں اکیلے نہیں رکنا چاہتی تھی۔شازل پر اسے پورا بھروسہ تھا۔

"آپ شادی شدہ ہے یا سنگل شدہ ؟"

اس نے گاڑی کی میں موجود گہری خاموشی توڑتے شازل کی جانب رخ کرتے پوچھا تھا۔

"شٹ اپ۔۔"

وہ آنکھیں گھماتا بولا تھا۔

"اوکے آپ کو کیا ہنسنا منا ہے ؟"

وہ اس کا سنجیدہ چہرہ دیکھ کر بولی تھی۔شازل نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

"کیا آپ کی کوئی گرلفرینڈ یا منگیتر ہے؟"

اس نے ایک بار پھر پوچھا۔

"کیا تم تھوڑی دیر اپنی زبان کو قابو میں کرکے اپنا منہ بند کرسکتی ہو؟"

شازل نے سرد لہجے میں پوچھا تھا۔نورے منہ بنا کر خاموش ہوگئی تھی۔

"سونیا کو کیا آپ نے پنش کیا ہے؟"

اس سے زیادہ دیر خاموش نہیں رہا گیا تھا تبھی جھٹ سے سونیا کا یاد کرتے پوچھنے لگی تھی اس نے آج بھی سونیا کو کلاس میں نہیں دیکھا تھا۔

شازل کے جواب نہ دینے پر وہ منہ بند کرکے بیٹھ گئی تھی۔بارش اب کافی حد تک رک چکی تھی۔شازل نے اس کے گھر کے سامنے گاڑی روکی تھی۔

"تھینک یو پروفیسر۔۔۔"

وہ مسکرا کر بولتی تیزی سے اندر بڑھ گئی تھی۔شازل کی نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔نورے کے اندر جاتے ہی وہ ہوا کی تیزی سے وہاں سے غائب ہوچکا تھا۔ 

 "آپ بیٹھ سکتے ہیں۔۔"

دانین نے ٹی وی دیکھتے روحان کو کہا تھا جو ہاتھ کمر پر باندھے کھڑا تھا۔آج صبح ہی آغا خان اپنے بزنس کے سلسلے سے دوسرے شہر گئے تھے۔اسے روحان سے سکون سے بات کرنے کا موقع ملا تھا۔روحان کو دوبارہ یہاں دیکھ کر اسے ایک انوکھی خوشی محسوس ہوئی تھی۔

"مجھے اب عادت ہوگئی ہے۔۔"

وہ ایک نظر دانین کے چہرے پر ڈالتا بولا تھا۔

"مجھے بات کرنی ہے آپ سے یہاں بیٹھ جائیں۔۔"

"پلیز۔۔"

اس کے اصرار کرنے پر روحان بالوں میں ہاتھ پھیرتا اس کے دائیں طرف موجود کاوچ پر بیٹھ گیا تھا۔

"بابا نے جو آپ کے ساتھ کیا اس کے لیے میں بےحد شرمندہ ہوں انھیں آپ پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا بلکہ آپ نے تو میری مدد کی تھی جس کی میں بےحد مشکور ہوں۔۔"

وہ ایک نظر روحان پر ڈال کر نظریں جھکا کر بولی تھی۔روحان گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

"اٹس اوکے تمھاری شرمندگی سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔۔"

وہ لب دبا کر بولا تھا۔دانین نے بےساختہ نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔

"آئی ایم سوری۔۔"

وہ دوبارہ لب کاٹتی بولی تھی۔

"کیا اور کچھ کہنا ہے تمھیں ؟"

وہ بھنویں بھیچ کر پوچھنے لگا۔

"ن۔۔نہیں۔۔"

وہ سر ہلا کر بولی تھی۔

"کیا تم مجھے بتا سکتی ہو کن چیزوں سے تمھارا پینک اٹیک ٹریگر ہوتا ہے؟"

وہ سنجیدگی سے دانین کی جانب دیکھتا پوچھنے لگا تھا۔

"خون ، کسی کے زبردستی چھونے سے یا بند جگہوں سے۔۔"

وہ نظریں جھکائے اپنی انگلیوں سے کھیلتی بتا رہی تھی آج تک اس نے ڈاکٹر کے علاوہ کسی کو یہ باتیں نہیں بتائی تھیں۔

"اوکے آپ اپنا کام کریں میں اپنی ڈیوٹی کرتا ہوں۔۔"

وہ کھڑا ہوتا بولا تھا۔

"ن۔۔نہیں آپ بیٹھ جائیں صبح سے کھڑیں ہیں تھک گئے ہوں گے۔۔"

وہ تیزی سے کانپتی آواز میں بولی تھی روحان نے اپنی مسکراہٹ دبائی تھی۔

"سارے دن کھڑے رہنے کی مجھے عادت ہے تمھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔۔"

وہ سنجیدگی سے بولتا اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا تھا۔دانین نے اس کے جواب پر ناک سکیڑی تھی۔وہ بار بار کن اکھیوں سے اسے گھور کر دیکھ رہی تھی جو روحان کی نظروں سے پوشیدہ نہ تھا۔

"تمھاری نظریں مجھے ڈسٹرب کر رہی ہیں۔۔"

وہ اونچی آواز میں ایک دم بولتا دانین کو شرمندہ کر گیا تھا۔وہ تیزی سے رموٹ پھینکتی سرخ چہرہ لیے اپنے کمرے میں بھاگ گئی تھی۔اس کی پھرتی دیکھ کر وہ مسکرا اٹھا تھا۔

 جاری ہے۔۔