Professor Khan Episode 7 Season 2 by Zanoor Writes Complete Episode
Professor Khan
Zanoor Writes
Episode 7 (Part 1)
(Series 2 in Professor Shah Novel)
دن تیزی سے گزرنے لگ گئے
تھے۔نورے کی ٹھوڑی کا زخم بھی کافی حد تک ٹھیک ہوچکا تھا۔سونیا کو واپس کلاس میں
دیکھ کر نورے کو شدید غصہ آیا تھا۔اس کی وجہ سے ٹھوڑی پر اس کے نشان پڑ گیا تھا۔
کالے سمپل سے سوٹ اور ریڈ
دوپٹے میں کالے سینڈل پہنے وہ معمول سے ہٹ کر تیار ہوئی تھی۔آج شازل نے ان کے ٹیسٹ
واپس کرنے تھے۔جو پچھلے ہفتے لیے تھے۔
نورے نے کچھ لکھا تو تھا
نہیں اس لیے امید تھی زیرو نمبر ملیں گے۔۔
"سب سے زیادہ مارکس سونیا
کے ہیں اور کم نورے کے ہیں۔۔"
نورے سونیا کا نام سن کر
ایک دم تپ اٹھی تھی۔اسے امید نہیں تھی وہ چالاک لومڑی اتنی لائق بھی ہوسکتی ہے۔۔سب
کو اپنی جانب مڑ مڑ کر دیکھنے پر اس نے غصے سے آنکھیں گھمائیں تھیں۔
"تم یہ کوئیز پانچ بار لکھ
کر لاو گی نورے۔۔"
اس کے سامنے زورسے کوئیز
کا پیپر رکھتے وہ سنجیدگی سے بولا تھا۔نورے نے منہ بگاڑ کر پیپر کو دیکھا تھا اس
کا کوئی ارادہ نہیں تھا یہ پانچ بار لکھنے کا پڑھائی میں شروع سے ہی نکمی تھی تبھی
اس نے ایک چھوٹی یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا کہ آسانی سے بنا پڑھے پاس ہوجائے گی
مگر اسے کیا پتا تھا شازل جیسے سنکی سے اس کا سامنا ہوگا۔
"اوکے پروفیسر۔۔"
وہ لب کاٹتی زبردستی
مسکرا کر بولی تھی۔شازل نے اس کی مصنوعی مسکراہٹ پر اسے گھور کر دیکھا تھا۔بدلے
میں وہ ائبرو اچکا کر اسے دیکھنے لگی تھی جیسے پوچھ رہی ہو کوئی مسئلہ ہے۔۔
اپنا سر جھٹک کر شازل آگے
بڑھ گیا تھا۔سونیا کو اس کا ٹیسٹ واپس دیتے اس نے چند تعریفی الفاظ بولے تھے جس سے
سونیا تو خوشی سے جھوم اٹھی تھی مگر نورے جل اٹھی تھی۔
غصے سے اپنے ہاتھ میں
موجود پین کو زور سے دباتے اس نے پیچھے مڑ کر جلتی آنکھوں سے شازل کو دیکھا تھا جو
سونیا کو ٹیسٹ پکڑاتا آگے بڑھ گیا تھا۔
سونیا نے طنزیہ مسکراتے
نور کو ونک کیا تھا جس پر وپ جل بھن پی اٹھی تھی۔اپنا ٹیمپر لوز ہوتے دیکھ کر وہ
تیزی سے اپنا بیگ لیتی پیپر کو مڑوڑ کر اپنے ہاتھ میں پکڑتی تیزی سے کلاس سے نکل
گئی تھی۔
اگر وہ کچھ دیر مزید اندر
رکتی تو شاید سونیا کے بال نوچ لیتی۔۔۔اس کا ہاتھ بےساختہ اپنی ٹھوڑی پر موجود
نشان پر گیا تھا جس سے اسے شدید نفرت ہوگئی تھی۔اسے وہ شدید برا لگتا تھا۔
خود پر قابو کرتی وہ
لائبریری میں اپنی اسائمنٹ بنانے چلی گئی تھی۔سونیا سے اپنا بدلہ لینے کا بھی وہ
اپنے ذہن میں پختہ ارادہ بنا چکی تھی۔
Ⓩⓐⓝⓞⓞⓡ Ⓦⓡⓘⓣⓔⓢ
شازل لیکچر دیتا کلاس سے
نکل آیا تھا نورے کا یوں بےدھڑک کلاس سے نکل جانا اسے شدید غصہ دلاتا تھا۔وہ اپنا
سر جھٹکتا اپنے آفس کی جانب بڑھ گیا تھا۔آج یونیورسٹی میں معمول سے زیادہ ہلچل تھی
جس کی وجہ سے وہ بخوبی واقف تھا۔یونیورسٹی کا چئیر پرسن جو واپس آرہا تھا۔
جس لمحے کا وہ اتنے دنوں
سے انتظار کر رہا تھا وہ بلآخر آہی گیا تھا جس پر اس کی رگوں میں موجود بدلے کی آگ
کچھ مزید جوش سے بھڑکنے لگی تھی اس کا آج کا پورا پلان تھا۔چئیر پرسن کے آتے ہی اس
کا کام تمام کرنے کا۔۔
اسے بس رات کا ہی انتظار
تھا۔چئیر پرسن کے واپس آتے ہی سب کی ان کے ساتھ میٹنگ تھی۔وہ بھی اس میٹنگ میں
شامل تھا۔چئیر پرسن وقار محمود کو ہنستے دیکھ کر وہ اپنا ضبط آزما رہا تھا۔
بس چند گھنٹے مزید وہ جلد
ہی اس شخص کی سانسیں بند کرنے والا تھا۔سب کے چئیر پرسن سے ملنے پر اسے بھی مجبور
اس گھٹیا شخص سے ہاتھ ملانا پڑا تھا۔خود کو بےحد درجہ نارمل رکھتے وہ مسکرا کر ملا
تھا جبکہ آنکھیں ضبط کی شدت سے سرخ پڑ رہی تھی۔
میٹنگ ختم ہوتے ہی وہ
وہاں سے نکلتا اپنے شیڈیول کے مطابق کلاس لیتا واپس چلا گیا تھا۔گاڑی میں بیٹھتے
وہ اپنے اپارٹمنٹ میں گیا تھا۔وہاں سے کپڑے بدلتا بلیک ٹراوزر اور شرٹ پہن کر بلیک
ماسک سے اپنا چہرہ ڈھانپتا اپنی گنز کو بوٹ اور جیکٹ میں چھپاتے وہ وہاں سے اپنی
ایکسٹرا کار لے کر نکلا تھا۔رات کے سائے ہر جانب چھا گئے تھے۔
اس نے ٹائم دیکھتے عسکری
کو کال ملائی تھی۔
"عسکری کام شروع کرو۔۔"
اس نے بلوٹوتھ اپنے کان
میں لگاتے عسکری سے کہا تھا ساتھ ہی اپنی گاڑی یونیورسٹی کے پچھلی سائیڈ پر چھوٹی
سی گلی میں کھڑی کرتا وہ اس کی نیچی سی دیوار سے پھلانگ کر اندر گیا تھا۔
"میں نے سلیپنگ گیس ایکٹیو
کردی ہے وہ بےہوش ہے۔۔"
عسکری نے اسے بتایا تھا
کچھ دنوں پہلے شازل نے ہی ایک چھوٹی سی ڈیوائس چئیرپرسن کے آفس میں لگائی تھی جس
سے سلیپنگ گیس نکلتی تھی۔
"اس ایڈیٹ نے ہمارا کام
آسان کردیا ڈرنک کرنے کے لیے وہ پہلے ہی اپنے پیون کو منا کر چکا تھا اسے ڈسٹرب نہ
کیا جائے۔۔"
عسکری نے ہنس کر شازل کو
بتایا تھا جو یونیورسٹی میں موجود سٹوڈنٹس سے چھپ کر چئیر پرسن کے آفس کی طرف
جارہا تھا۔
"اوکے۔۔میں پہنچ گیا ہوں
آفا کے قریب تم کیمرے سے ارد گرد کا خیال رکھو اور چوکنا رہو۔۔"
شازل دھیرے سے بولتا ادھر
ادھر دیکھتا ہاتھوں پر گلفس ڈال کر تیزی سے اس کے آفس میں کھولتا داخل ہوچکا
تھا۔آفس کو اندر سے لاک کرتے شازل تیزی سے قدم اٹھاتا اس کے قریب گیا تھا۔
اس کا نیند میں ڈوبے سکون
دار چہرے کو دیکھ کر شازل کو شدید طیش آیا تھا دوسروں کو بےسکون کرکے وہ کتنے مزے
سے سو رہا تھا۔
"چٹاخ۔۔"
ایک زوردار تھپڑ اس کے
دائیں گال پر مارتے شازل نے اسے جگانے کی کوشش کی تھی۔اس گیس کا اثر بس آدھے گھنٹے
ہی رہنا تھا۔
چئیر پرسن وقار محمود نے
نیند سے بھری سرخ آنکھیں کھولتے ناسمجھی سے شازل کو دیکھا تھا جس نے ایک اور
زوردار تھپڑ اس کے منہ پر جڑ دیا تھا۔
"ک۔۔کون ہو تم ؟"
دھیرے دھیرے ہوش میں آتے
وقار نے پوچھا تھا۔
"تمھاری موت۔۔"
انتہائی سرد لہجے میں
جواب دیا گیا تھا۔وقار محمود کے ہوش اڑ گئے تھے۔اس نے تیزی سے چیخنے کی کوشش کی
تھی جب شازل نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے ایک انجیکشن اپنی جیب سے نکالتے اس کے
بازو میں چبھو دیا تھا۔
"ی۔۔یہ کیا کیا تم نے۔۔؟"
شازل کے ہاتھ ہٹانے پر
وقار محمود بےجان لہجے میں بولا تھا اسے اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔اپنا
جسم بےجان محسوس کرکے وہ سفید پڑنے لگا تھا۔
"بہت بری موت دوں گا
تمھیں۔۔"
شازل نے اس کے منہ پر ٹیپ
لگاتے سرد لہجے میں بولتے اپنی جیکٹ سے سگریٹ نکال کر لائیٹر سے جلائی تھی۔
وقار محمود کی آنکھیں
پھیل گئی تھی جب شازل نے جلتی سیگریٹ اس کے گال پر رکھ کر مسلی تھی وہ بری طرح تڑپ
اٹھا تھا وہ چیخنا چاہتا تھا لیکن اس کا گلا ٹپ نے گھونٹا ہوا تھا۔
شازل نے سگریٹ کو جگہ جگہ
اس کے چہرے پر مسلا تھا۔اس کے چہرے پر نشان دیکھ کر اسے سکون سا مل گیا تھا۔ختم
ہوئی سیگریٹ کو بجھاتے وہ واپس جیب میں ڈالتا دوسری سیگریٹ نکال چکا تھا۔
"اس سیگریٹ سے کچھ یاد
آیا۔۔دو سال پہلے کے تمھارے کرتوت۔۔"
شازل کے بولنے پر وقار
محمود کے سامنے ایک معصوم سی لڑکی کا چہرہ آیا تھا جو تکلیف سے سسکتی اس سے رحم کی
بھیک مانگ رہی تھی۔۔
"تمھارے چہرے سے لگ رہا ہے
تمھیں یاد آگیا ہے میں کس کی بات کر رہا ہوں۔۔"
شازل نے اسکا منہ دبوچتے
کہا تھا۔اس کے چہرے کے اڑے رنگ نے اس پر بہت کچھ آشکار کر دیا تھا۔
"میں تمھاری جان بخش دوں
گا مجھے بس یہ جاننا ہے تمھارے ساتھ کون کون تھا۔"
شازل نے سرد لہجے میں اس
کی آنکھوں میں دیکھتے پوچھا تھا۔
وقار محمود نے تیزی سے سر
ہلایا تھا۔
"اگر چیخنے کی کوشش کی تو
بھیجا اڑا دوں گا۔۔"
شازل نے کھینچ کر اس کے
چہرے سے ٹیپ ہٹاتے کہا تھا۔اپنی گن وہ اس کے سر پر تان چکا تھا۔
"ایس ایس پی فراز شیخ ،
ایم این اے شفیق رضوان ا۔۔اور اس کا بھتیجا فیاض ب۔۔بس باقی ایک اور شخص تھا
م۔۔مگر میں اسے نہیں جانتا و۔۔وہ آخر میں آیا تھا۔"
وقار محمود نے تیزی سے
بتایا تھا۔
"چھ لوگ تھے تم لوگ۔۔۔تم
نے مجھے صرف تین لوگوں کا نام بتایا ہے۔۔"
شازل نے گن اس کے ماتھے
میں زور سے مارتے کہا تھا۔
"م۔۔مجھے باقیو کا نہیں
پتا میں جلدی واپس چلا گیا تھا۔۔"
اس نے جھٹ سے جواب دیا
موت کے سائے سر پر منڈلاتے دیکھ کر اس کا سانس سوکھنے لگا تھا۔
شازل نے تیزی سے اس کا
گریبان پکڑتے تیزی سے اس کے منہ پر مکے مارے تھے۔اس کا دل کر رہا تھا مقابل کا دل
نوچ لے جس نے کسی کی معصومیت کو نوچ لیا تھا۔
"ت۔۔تم نے کہا تھا تم مجھے
چھوڑ دو گے۔۔"
وہ تکلیف سے بلبلاتا بولا
تھا۔
"تجھ جیسا وحشی بھیڑیا مجھ
جیسے لوگوں کے ہاتھوں سے مڑنے کے لیے ہوتے ہیں۔۔تو نے سوچ بھی کیسے لیا میں ایک
ریپسٹ کو معاف کردوں گا جو کسی کا قاتل ہے۔۔"
وہ اپنی گن سے اس کے سر
پر دیوانوں کی طرح وار کرتا دھاڑا کرتا بولا تھا۔کانوں میں ایک میٹھی سی کھنکتی
آواز کئی دور سے اسے آتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔وحشت سے غصے میں آتے اس نے ٹیبل پر
زور سے اس کا سر مارا تھا۔
وقار محمود کا جسم بےجان
ہونے لگا تھا۔
"شازل بس کام ختم کرو اب
نکلو یہاں سے کوئی بھی اس طرف آسکتا ہے۔۔"
عسکری کی آوازسن کر شازل
نے تیزی سے گن پر سائلنسر لگاتے اس کے سر پر رکھ کر ایک کے بعد کئی گولیاں اس کے
اندر اتارتے اس کو ختم کردیا تھا۔سکون کی ایک لہر اسے اپنے اندر اترتی ہوئی محسوس
ہوئی تھی۔
Ⓩⓐⓝⓞⓞⓡ Ⓦⓡⓘⓣⓔⓢ
"مس اٹھیں۔۔لائبریری بند
کرنے کا وقت ہوگیا ہے۔۔"
کسی کے بلانے پر نورے کی
آنکھ کھلی تھی جھٹ سے سیدھا ہوتے اس نے ارد گرد دیکھا تھا۔اپنے سامنے کھڑے
لائبریرین کو دیکھ کر اسے یاد آیا تھا وہ یہاں اسائمنٹ بناتے ہوئے سوگئی تھی۔
"اوہ۔۔شٹ مجھے پتا نہیں
چلا۔۔"
وہ تیزی سے اپنی چیزیں
سمیٹ کر بیگ میں ڈال کر اٹھ کر باہر نکل گئی تھی۔
ڈرائیور کو کال کرتی وہ
فریش ہونے کے لیے واشروم میں آگئی تھی۔فریش ہوکر باہر نکلتے وہ تیزی سے باہر کی
جانب بڑھ رہی تھی جب سامنے آتے شخص کو دیکھ کر وہ ساکت ہوئی تھی۔وہ اسے جانتی تھی
وہ شخص ہی شازل کے بارے میں بات کرتا تھا اسی نے اس کے چہرے پر تھپڑ بھی مارے تھے۔
وہ تیزی سے گھبراتی دوسری
طرف موجود راہداری کہ طرف بھاگی تھی اسے ایسا لگ رہا تھا وہ شخص اس کے یچھے آرہا
ہے۔۔تیزی سے بھاگتے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا وہ شخص اسی کے پیچھے آرہا تھا۔
شازل جو کام نبٹا کر تیزی
سے باہر نکلتا راہداری سے گزر رہا تھا۔نورے سیدھے اس میں آتی ٹکرائی تھی۔
"ہیلپ می۔۔"
وہ اپنے سامنے کالے لباس
میں ملبوس شخص کی شکل دیکھے بغیر بولی تھی۔شازل نے نورے کو دیکھتے سامنے دیکھا
تھا۔جہاں کوئی شخص اپنا چہرہ ماسک میں چھپائے کھڑا تھا۔
نورے نے نظر اٹھا کر ماسک
کے پیچھے سے نظر آتی گہری نیلی آنکھوں کو دیکھا تھا وہ تو اسے کئی دور سے بھی
پہچان سکتی تھی۔
"ش۔۔شازل۔۔"
وہ دھیمی آواز میں بولی
تھی۔شازل نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تھا۔مقابل کو گن نکالتے دیکھ کر اس نے اپنی
حیرت پر قابو پاتے اسے تیزی سے اپنے پیچھے کیا تھا جب مقابل کھڑے شخص کی گن سے
نکلتی گولی سیدھی اس کے پیٹ میں لگی تھی۔
شازل نے تیزی سے اپنی گن
نکالتے اس کے ہاتھ پر نشانہ لیا تھا۔گن اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گری تھی۔وہ شازل کی
طرف دیکھتا تیزی سے اپنا ہاتھ پکڑتا گن اٹھا کر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرنے لگا
تھا جب شازل نے اس کی ٹانگ میں گولی چلائی تھی۔
اپنے زخم پر زور سے نورے
کے بازوں کی گرفت محسوس کرکے اس نے سختی سے اپنے لب بھینچ لیے تھے۔وہ اس کے ساتھ
لگی کپکپارہی تھی۔شازل نے تیزی سے اسے بازو سے پکڑتے اپنے سامنے کیا تھا۔اس کا
بازو تھامتے وہ تیزی سے وہاں سے نکلا تھا۔اسے اس وقت دوسرے آدمی کو مارنے سے زیادہ
یہاں سے نکلنے کی جلدی تھی کسی بھی وقت وقار محمود کے قتل کی نیوز یونیورسٹی میں
پھیل سکتی تھی۔
نورے ساکت سی اس کے ساتھ
کھینچی چلی جارہی تھی۔اپنے ہاتھ پر کچھ گلا محسوس کرکے اس کی نظر بےساختہ اپنے
بازو پر گئی تھی۔کسی انہونی کے احساس سےاس کا دل تیزی سے دھڑکا تھا۔لیکن اندھیرے
کی وجہ سے وہ دیکھنے سے قاصر تھی۔
یونیورسٹی کا پچھلا گیٹ
کھلا دیکھ کر اس نے شکر ادا کیا تھا۔وہ تیزی سے نورے کو نکلتا اپنی گاڑی کی طرف
بڑھ گیا تھا۔تکلیف سے اس کے ماتھے پر پسینہ چمکنے لگا تھا۔
"ہیلو۔۔عسکری ایک کام
کرو۔۔ایک آدمی کو یونیورسٹی بھیجو بیک سائیڈ پر جہاں جہاں اگر خون گرا ہے تواسے
صاف کروا دو فورا۔۔"
عسکری نے اس کی بات سنتے
ان کی ٹیم کے دوسرے بندے کو کال کی تھی جو یونیورسٹی میں ہی موجود تھا شازل اسے
راہداری کا بھی بتا چکا تھا۔
"خون۔۔"
باہر سے آتی ہلکی سی
روشنی میں وہ اپنا سرخ بازو دیکھ کر چیخی تھی۔شازل نے ایک نظر اس پر ڈالتے گاڑی
سٹارٹ کی تھی۔
"ش۔۔شازل۔۔"
وہ جھٹکے سے شازل کی جانب
مڑی تھی جو سختی سی سٹئیرینگ ویل کو پکڑے تکلیف سے اپنے لب بھینچے بیٹھا تھا۔
"ایک لفظ بھی مت بولنا۔۔"
وہ غصے میں دھاڑا
تھا۔نورے اس کے چیخنے پر ڈرتی گاڑی کے دروازے سے چیخ کر بیٹھ گئی تھی۔اسے شازل سے
شدید خوف محسوس ہو رہا تھا جبکہ اس کی چوٹ کا سوچ کر بےحد پریشانی بھی ہورہی
تھی۔اپنے جذباتوں کی اسے بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔
Ⓩⓐⓝⓞⓞⓡ Ⓦⓡⓘⓣⓔⓢ
گاڑی بلڈنگ کی پارکنگ لاٹ
میں روکتے وہ تیزی سے باہر نکلا تھا۔نورے جو گاڑی میں بیٹھی تھی اس کے خاموشی سے
جانے پر وہ بھی تیزی سے نکلتی اس کے پیچھے چل پڑی تھی۔
اس کے قدموں کی آہٹ سن کر
وہ تیزی سے قدم اٹھاتا لفٹ کی جانب بڑھ گیا تھا۔نورے بھی تیزی دے چلتی لفٹ میں
اینٹر ہوگئی تھی۔
مطلوبہ فلور پر پہنچ کر
وہ نورے کا ہاتھ پکڑتا اسے کھینچ کر تیزی سے اپنے اپارٹمنٹ کے پاس لے گیا
تھا۔اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے اس نے تیزی سے اپنی جیکٹ اتار کر پھینکی تھی۔
لاونچ میں موجود صوفے پر
بیٹھتے اس نے دروازے کے پاس ساکت کھڑی نورے کی جانب دیکھتے اپنی شرٹ کے بٹن کھولنا
شروع کیے تھے۔ماسک اتار کر وہ ٹیبل پر پھینک چکا تھا۔
"یہاں بےوقوفوں کی طرح
کھڑے رہنے سے اچھا ہے اپنے ہاتھ پاوں چلاو۔۔سامنے موجود روم کے واشروم میں فرسٹ
ایڈ کٹ پڑی ہے وہ نکال کر لاو۔۔"
وہ تیز لہجے میں بولا
تھا۔نورے اس کی آواز سنتی تیزی سے کمرے کی جانب بھاگی تھی۔
وہ اپنی شرٹ ہٹاتا اپنے
زخم کو دیکھنے لگا تھا جس سے خون تیزی سے نکل رہا تھا۔نورے کے کٹ لانے کے بعد وہ
سیدھا ہوا تھا۔
اس کا برہنہ سینے دیکھتی
وہ گھبرا کر اپنا چہرہ جھکا گئی تھی۔
"آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانا
چاہیے۔۔"
وہ اس کے زخم پر نظر
ڈالتی منہ پر بےساختہ ہاتھ رکھتی کپکپاتی آواز میں بولی تھی۔شازل نے اسے نظر انداز
کرتے ایک سرد آہ خارج کی تھی۔
"ادھر آو۔۔"
شازل نے انگلیوں کے اشارے
سے اسے اپنے قریب بلایا تھا۔نورے فورا اس کے قریب گئی تھی۔
"میری انگلیاں زخم کے اندر
نہیں جارہی تمھاری انگلیاں باریک ہیں۔۔ان کا استعمال کرو اور گولی کو ٹٹول کر باہر
نکالو۔۔"
اس کی بات سنتے نورے کی
آنکھیں پھیل گئی تھیں۔اس نے تیزی سے سر نفی میں ہلایا تھا۔
"م۔۔مجھ سے یہ نہیں ہوگا۔۔"
وہ لب کاٹتے بولی تھی۔
"شٹ اپ یہ سب تمھاری وجہ
سے ہوا ہے تم ہی اب اس کا علاج کرو گی۔۔"
اس کی کلائی پکڑ کر شازل
نے سخت لہجے میں کہا تھا۔وہ پریشانی سے کانپنتی آہستہ سے زمین پر جھکی تھی۔اسے پتا
تھا یہ سب اسی کی وجہ سے ہوا ہے۔۔
شازل نے اسے دیکھتے اس کے
ہاتھ پکڑتے باریک گلوز پہنائے تھے۔
"جلدی کرو۔۔"
شازل کے بولنے پر اس نے
تیزی سے اپنی انگلیاں اس کے زخم کے اندر ڈالی تھیں۔۔زورسے آنکھیں میچ کر وہ محسوس
کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔گولی کی طرح کچھ محسوس کرکے اس نے باہر کی جانب کھینچا
تھا۔
شازل تکلیف سے لب بھینچ
کر زور سے صوفے کی پشت کو تھام کر ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔اس کے گولی نکالنے پر وہ
تیزی سے سیدھا ہوتا سپرٹ سے زخم صاف کرتا سوئی میں دھاگا ڈال کر بنا نورے پر نظر
ڈالے اپنے زخم کو بند کرنے لگا تھا۔
نورے گولی ٹیبل پر
پھینکتی منہ کھولے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھ رہی تھی۔جس کا چہرہ تکلیف سےسرخ پڑا
ہوا تھا مگر ایک بھی آواز اس کے لبوں سے نہیں نکلی تھی۔ اس کی ہمت کی داد دیتی وہ
ساکت نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
خون کی کمی کی وجہ سے اسے
چکر آنے لگے تھے۔اس نے اپنا سر تھامتے سٹیچیز لگانے کے بعد عسکری کو کال ملائی
تھی۔اس دوران وہ نورے کو مکمل نظر انداز کر چکا تھا۔
"مجھے خون کی ضرورت ہے کسی
بھروسے مند ڈاکٹر کو فورا میرے اپارٹمنٹ پر بھیجو۔۔"
عسکری نے اس کی بات پر
بنا کوئی سوال پوچھے تیزی سے اپنے ایک دوست کو کال کی تھی جو لوکل ہوسپٹل میں
ڈاکٹر تھا۔اسے شازل کے بلڈ گروپ کا بتاتے وہ خود اسے لیتا اپارٹمنٹ آیا تھا۔اسے
شازل کی ف#Professor_Khan
💕
#Zanoor_Writes
#Episode_7(Part 2)
(Series 2 in Professor
Shah Novel)
"تم جاو جاکر اپنے ہاتھ
دھو کر خون صاف کرکے آو"
شازل نے کال بند کرکے فون
ٹیبل پر پھینکتے نورے سے کہا تھا۔جو ساکت سی بیٹھی تھی۔
"آئی ایم سو سوری۔۔ میری
وجہ سے آپ کو چوٹ لگی۔۔ آپ میری وجہ سے تکلیف میں ہیں۔۔"
وہ شازل کی جانب جھکتی نم
آنکھوں سے بولی تھی کالے نین کٹوروں میں پانی بھرنے لگا تھا۔اسے معاملے کی سنگینی
کا احساس ہو رہا تھا۔
شازل نے دھیرے سے اپنا
ہاتھ اٹھاتے اس کے گال پر بہتا آنسوصاف کیا تھا۔
"مجھے کچھ نہیں ہوگا۔۔"
وہ اس کی آنکھوں میں
دیکھتا بولا تھا۔
"وعدہ کریں مجھ سے۔۔ آپ کو
کچھ نہیں ہوگا۔۔"
وہ اس کا ہاتھ تھامتی
کانپتی آواز میں بولی تھی۔وہ اس کی بند ہوتی آنکھیں دیکھ کر سفید پڑنے لگی تھی۔
"تمھیں میری بات کا یقین
کیوں نہیں آتا۔۔ پاگل ہو تم۔۔"
وہ آخر میں بڑبڑاتا
آنکھیں موند گیا تھا۔
"شازل۔۔۔ش۔۔شازل۔۔"
وہ گھبراتی رونے لگی
تھی۔اسے کھو دینے کے احساسسے دل بند ہوا محسوس ہونے لگا تھا۔تیزی سے اٹھ کر اس کے
چہرہ تھپتھپاتی وہ اسے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
اچانک اپارٹمنٹ کا دروازہ
کھلا تھا عسکری اپنے دوست کے ساتض بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا تھا شازل کے اوپر جھکی
کسی لڑکی کو چیختے دیکھ کر اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
"پیچھے ہٹیں یہ ڈاکٹر ہے
انھیں دیکھنے دیں۔۔"
عسکری نے اونچی آواز میں
روتی ہوئی نورے سے کہا تھا جو تیزی سے پیچھے ہٹ گئی تھی۔
"اسے میرے ساتھ روم میں لے
کر چلو۔۔"
ڈاکٹر دانیال نے زخم
دیکھتے تیزی سے عسکری کو کہا تھا جو اس کی مدد کرتا جلدی سے شازل کو تھامتا اس کے
بیڈ روم کی طرف لے گیا تھا۔
نورے بھی تیزی سے چلتی ان
کے پیچھے پیچھے چل پڑی تھی۔
"پ۔۔پلیز انھیں بچا لیں۔۔
یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔۔"
وہ روتی ہوئے بول رہی
تھی۔عسکری نے مڑ کر ایک سرسرہ نظر اس پر ڈالی تھی۔دانیال تیزی سے بلڈ کی بوتل شازل
سے اٹیچ کرتا اس کے زخم کا معائینہ کرنے لگا تھا۔
"مجھے سٹیچیز دوبارہ لگانے
پڑیں گے۔۔"
دانیال نے بتاتے ہوئے
تیزی سے اپنا بیگ کھول کر ٹیبل پر رکھا تھا۔عسکری اس کی مدد کر رہا تھا۔اس کے
سٹیچیز کھولتے دانیال نے اچھے سےزخم صاف کرتے اس کے دوبارہ سٹیچیز لگائے تھے۔۔
نورے ان دونوں کے جواب نہ
دینے پر خاموشی سے شازل پر نظریں گاڑھے آنسو بہانے لگی تھی۔اپنے فون کی بیل اسے
کہیں دورسے آتی ہوئی محسوس ہورہی تھی مگر وہ ساکت و جامد کھڑی بس شازل کو دیکھ رہی
تھی۔
"مجھ کچھ میڈسنز چاہیے
عسکری مجھے فورا وہ لاکر دو۔۔"
ڈاکٹر دانیال نے تیزی سے
ایک کاغذ پر کچھ چیزیں لکھ کر دی تھیں۔عسکری نے اس پرچی کی تصویر اپنے ایک ساتھی
کو سینڈ کی تھی۔شازل اب کافی حد تک سٹیبل تھا۔
"میں نہیں جانتا آپ کون
ہیں لیکن شازل کے اٹھنے سے پہلے آپ کو میں یہاں سے جانے نہیں دوں گا۔۔اگر اپنے گھر
میں کسی کو بتانا چاہتی ہیں تو فورا بتا دیں۔۔"
عسکری نے روتی ہوئی نورے
کے سامنے کھڑے ہوتے سرد لہجے میں کہا تھا۔نورے نے آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھا
تھا۔وہ گھر والوں کو کیا بتائے گی۔۔
"میرے سامنے کال کریں اور
ہوشیاری کرنے کی کوشش بھی مت کیجیے گا۔۔"
اپنی گن نکالتے عسکری نے
نورے کو وارن کیا تھا۔وہ لڑکھڑاتی ہوئی ایک نظر شازل پر ڈالتی تیزی سے اپنے فون کی
جانب بڑھ گئی تھی۔
اس نے ڈرائیور سے کال کر
اسے واپس جانے کا بولتے اسے یہ کہا تھا وہ آج رات اپنی دوست کے گھر رک رہی
ہے۔۔ڈرائیور سے افرحہ کا نمبر لیتے اس نے افرحہ سے بات کی تھی۔
"بھابھی میں آج رات اپنی
فرینڈ کی طرف رک رہی ہوں آپ پلیز بھائی کو سنبھال لیں۔۔"
اس نے شاہزیب سے اسی وجہ
سے بات کرنے سے گریز کیا تھا وہ جانتی تھی وہ سو سوال کرے گا۔۔
"اچھا کوئی خاص وجہ یا
ویسے ہی رک رہی ہو؟"
افرحہ نے پریشانی سے
پوچھا۔
"وہ بھابھی کل ہماری پریزینٹیشن
پے بس اس کی تیاری کر رہے ہیں آپ فکر مت کریں۔۔"
اس نے عسکری پر نظر ڈالتے
افرحہ کو تسلی دلوائی تھی۔افرحہ اسے گڈ لک وش کرتی فون بند کر گئی تھی۔
"اس روم میں چلی جائیں۔۔"
عسکری نے اسکے فون بند
کرنے کے بعد اسے شازل کے ساتھ والے روم میں جانے کا کہا تھا۔
"نہیں میں شازل کے پاس
رکوں گی۔۔"
وہ سر نفی میں ہلاتی بولی
تھی۔عسکری نے سرد آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔اپارٹمنٹ کی بیل ہونے سےاسے پتا چل گیا
تھا اس کا ساتھی میڈسن اور باقی چیزیں کے آیا ہے۔۔وہ ایک نظر نورے پر ڈالتا تیزی
سے دروازے کی جانب بڑھ گیا تھا۔اپنے ساتھی سے ساری چیزیں لیتا وہ اسے واپس بھجواتا
دروازے کو اندر سے پاسورڈ لاک لگاچکا تھا تاکہ نورے بھاگ نہ سکے۔۔وہ نورے پر بنا
نظر ڈالے تیزی سے روم میں چلا گیا تھا۔
وہ عسکری کے پیچھے شازل
کے روم میں جانے لگی تھی لیکن عسکری اس کے منہ پر دروازہ بند کر چکا تھا اسے نورے
پر بالکل بھی بھروسہ نہیں تھا۔
نورے پریشان سی دروازے کے
ساتھ موجود دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھی۔اس کی نظروں کے سامنے بار بار شازل
کا چہرہ آرہا تھا اپنی سوچوں میں گم ناجانے کب اس کی آنکھ لگ گئی اسے پتا ہی نہ
چلا تھا۔
Ⓩⓐⓝⓞⓞⓡ Ⓦⓡⓘⓣⓔⓢ
صبح پانچ بجے اس کی آنکھ
کھلی تھی۔دانیال کی وجہ سے وہ کافی حد تک بہتر محسوس کر رہا تھا۔دانیال نے اسے
آرام کرنے کا کہا تھا مگر وہ نہیں مانا تھا اس نے عسکری کو اشارہ کرتے دانیال سے
پین کلر میڈسن کا ہوچھ کر وہ کھالی تھیں۔۔وہ جانتا تھا چئیر پرسن کا قتل ہوا ہے
اگر وہ نہ گیا تو سب کا شک اس پر جائے گا تبھی اسے مجبورا آج جانا پڑنا تھا وہ
اچانک جوب نہیں چھوڑ سکتا تھا۔
وہ دانیال کو واپس بھجوا
چکا تھا۔عسکری سے بھی سارا معاملہ ڈسکس کر چکا تھا۔عسکری اسے نورے کا بھی بتا چکا
تھا۔وہ اسے واپس بھجوا چکا تھا۔
تیزی سے فریش ہوتا وہ
بلیک شلوار قمیض پہنتا تیار ہوچکا تھا۔روم سے باہر نکلتے اس کی نظر نورے پر پڑی
تھی۔جو دیوار سے ٹیک لگائے سو رہی تھی۔وہ کتنی معصوم لگ رہی تھی۔اس کے گال پر
سوکھے آنسووں کے نشان دیکھ کر اس کا ہاتھ بےساختہ نورے کے گال کی طرف گیا تھا۔اس
کے ٹھنڈے ہاتھ کے لمس کو محسوس کرتے نورے نے مندی مندی سے آنکھیں کھولی تھیں۔۔
شازل کو اپنے اوپر جھکے
دیکھ کر اس کی آنکھیں پٹ سے کھل گئی تھیں۔۔شازل نے اس کے اٹھنے پر اپنا ہاتھ اس کے
چہرے سے ہٹا لیا تھا۔
"آپ ٹھیک ہیں۔۔"
اس نے اوپر سے نیچے تک
شازل کو بغور دیکھتے پریشانی سے پوچھا۔
"جاو جاکر فریش ہوجاو میں
تمھیں تمھارے گھر چھوڑ کر آوں۔۔"
شازل کے جواب نہ دینے پر
اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔۔
"آپ پہلے میرے سوال کا
جواب دیں آپ ٹھیک ہیں۔۔"
وہ ضدی لہجے میں پوچھ رہی
تھی۔۔
"تمھیں کس اینگل سے میں
ٹھیک نہیں لگ رہا ؟ فضول سوال بولنے سے بہتر ہے میری بات چپ چاپ مان لیا کرو۔۔"
وہ سرد نگاہوں سے نورے کو
گھورتے ہوئے بول رہا تھا۔نورے لب بھینچ کر ایک نظر اس پر ڈالتی تیزی سے فریش ہونے
چلی گئی تھی۔
نورے کے فریش ہونے کے بعد
وہ اسے لیتا روانہ ہوا تھا۔گاڑی میں گہری خاموشی تھی نورے نظریں جھکائے اپنی سوچوں
میں گم تھی۔
شازل کی سپاٹ آواز نے
گاڑی میں موجود گہری خاموشی کو توڑا تھا۔
"تم نے کل مجھے یونیورسٹی
میں نہیں دیکھا تھا۔۔اس بارے میں اگر تم نے کسی کو بھی بتایا تو تمھارے گھر والوں
کے ساتھ جو میں کروں گا اس کی ذمہ دار تم خود ہوگی۔۔"
نورے نے آنکھیں پھیلا کر
اس کی طرف دیکھا تھا۔
"ک۔۔کیوں؟"
نورے نے دھیمی آواز میں
پوچھا تھا۔
اس نے گاڑی ایک جھٹکے سے
روکتے نورے کو بازو سے کھینچتے اپنے قریب کیا تھا۔
"جو بات میں ایک بار بول
دوں اسے فورا دماغ میں بٹھا لیا کرو۔۔یہ فضول سوال پوچھ کر میرا دماغ مت گھمایا
کرو۔۔"
شازل کی غصے سے بھری آواز
سن کر اور اس کی سخت گرفت اپنے بازو پر محسوس کرتے اس کے منہ سے بےساختہ سسکی نکلی
تھی۔
"میں سب کو بتاوں گی آپ جو
کرنا چاہتے ہیں کرلیں۔۔"
وہ اپنا بازو چھڑوانے کی
کوشش کرتی تیز لہجے میں بولی تھی۔مقابل کی دھمکیوں نے اسے طیش دلا دیا تھا۔وہ بھی
نورے میر شاہ تھی کہاں پیچھے ہٹنے والی تھی۔
شازل اس کی بات پر
مسکرایا تھا۔اچانک اس کا بازو چھوڑتے اس نے نورے کا چہرہ دبوچتے اس کی آنکھوں میں
دیکھا تھا۔
"میرے ضبط کو مت آزماو۔۔
تمھارے ساتھ کچھ غلط ہوجائے گا۔۔"
وہ اس کے چہرے کو دبا کر
چھوڑتا سرد آواز میں بولا تھا۔
"آوٹ۔۔"
وہ اس کے گھر پر نظر
ڈالتا غرایا تھا۔نورے ایک نظر اس پر ڈالتی خفگی بھری ایک نظر اس پر ڈالتی باہر نکل
گئی تھی۔اگر وہ زخمی نہ ہوتا تو شاید وہ کچھ الٹا سیدھا ضرور کرتی۔۔
"مجھے بالکل پسند نہیں آیا
نورے تمھارا کسی کے گھر رکنا۔۔آئیندہ کے بعد ایسا کبھی مت کرنا۔۔"
وہ اپنے کمرے میں جارہی
تھی جب شاہزیب نے اسے روکا تھا۔اس کی بات سنتے اس نے بےساختہ لب کاٹے تھے۔
"میں آئیندہ خیال رکھوں
گی۔۔"
وہ سر ہلا کر بولتی اپنے
روم میں چلی گئی تھی۔اس وقت وہ بس اپنا مائینڈ کول کرنا چاہتی تھی۔رات کے واقعہ
یاد کرکے اس کا یونیورسٹی جانے کا بھی دل نہیں کر رہا تھا تبھی اس نے یونیورسٹی جانے
کا ارادہ ترک کرتے آرام کرنے کا سوچا تھا۔
"نورے تمھاری آج
پریزینٹیشن ہے تم نے یونی نہیں جانا؟"
اس کا یونیورسٹی کا ٹائم
ہوتے دیکھ کر افرحہ اس کے کمرے میں آئی تھی۔
"نہیں بھابھی و۔۔وہ سر نے
آج کینسل کردی ہے اب کل ہے۔۔"
وہ ایک پل کو گھبراتی
فورا خود کو سنبھالتی ہوئی بولی تھی۔
"اوکے تم تھکی ہوئی لگ رہی
ہو ریسٹ کرو۔۔"
نورے پر ایک نظر ڈالتی وہ
چلی گئی تھی اپنی جان بچ جانے پر اس نے شکریہ ادا کیا تھا۔
Ⓩⓐⓝⓞⓞⓡ Ⓦⓡⓘⓣⓔⓢ
شازل کے یونیورسٹی جانے
پر اسے چئیر پرسن کی ڈیتھ کی خبر ملی تھی جس پر اس نے اندر سے مسکراتے باہر سے
حیرانی و پریشانی کا مظاہرہ کیا تھا۔
اس حادثے کے باعث سب
ٹیچرز کے بیان لیے جارہے ہیں تھے۔جو رات کو یونیورسٹی میں موجود تھے۔وہ سکون میں
تھا چونکہ وہ گارڈز کے مطابق چار بجے ہی گھر جاچکا تھا۔اس نے ڈین کے کہنے پر کلاسزز
لیں تھیں۔۔یونیورسٹی میں ہرجگہ چئیر پرسن کے قتل کی خبر پھیل چکی تھی۔شازل مسرور
سا سارے لیکچرز لیتا واپس گھر آگیا تھا نورے کی غیر موجودگی پر اس نے زیادہ دھیان
نہیں دیا تھا وہ جانتا تھا کل کے واقعات نے اس کو اچھا خاصا تھکا دیا تھا۔
اپنے اپارٹمنٹ میں واپس
آکر اس نے ڈاکٹر دانیال کو کال کر اہنی بینڈیج چینج کرنے کے لیے بلایا تھا پین
کلرز وہ واپس آتے ہی لے گیا تھا۔
بینڈیج چینج کرنے کے بعد
اس نے عسکری سے بات کی تھی۔
"مجھے وہ شخص ہر حال میں
چاہیے اس سے میں اپنے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لوں گا۔۔"
وہ عسکری سے بولا
تھا۔جبکہ اصل وجہ تو نورے تھی وہ اسے کسی خطرے میں نہیں دیکھ سکتا تھا جب اس خطرے
کی وجہ بھی وہ خود ہو۔۔
"اوکے باس۔۔ویسے اس شخص کی
شکل کیمرے میں واضح ہوچکی ہے۔۔میں رات کو باقی سارے کیمرے بھی یونیورسٹی سے ہٹوا
چکا ہوں۔۔اب میں اس آدمی کے بارے میں ہی سرچ کر رہا ہوں بےفکر رہو دو دن میں اسے
ڈھونڈ نکالوں گا۔۔تم یہ بتاو تمھاری پیاری سٹوڈنٹ کیسی ہے؟"
عسکری کے نورے کے بارے
میں پوچھنے پر اس کی سوچوں کا رخ اس کی جان. مڑ گیا تھا۔
"شٹ اپ فضول بکواس مت کیا
کرو۔۔"
اس نے ڈانٹ کر عسکری کو
چپ کروایا تھا جب اچانک اپارٹمنٹ میں ہوتی بیل کو سنتا وہ عسکری کی کال کاٹتا
دروازے کی جانب بڑھ گیا تھا۔دروازہ کھولتے اس کا سامنا حیدر سلطان سے ہوا تھا۔
"تم یہاں کیا کر رہے ہو۔۔؟"
شازل نے ماتھے پر بل ڈالے
پوچھا تھا۔
"اندر آنے دو گے یا یہاں
ہی شروع ہوجاوں۔۔؟"
حیدر نے سرد آہ خارج کرتے
پوچھا۔شازل نے اسے سائیڈ پر ہٹ کر اندر آنے کی جگہ دی تھی۔
"تم نے وقار کا قتل کیا ہے
نہ۔۔؟"
حیدر نے اس کی جانب مڑتے
پوچھا تھا۔شازل نے بےتاثر انداز میں اس کی جانب دیکھا تھا۔
"تم کیا بول رہے ہو مجھے
کچھ سمجھ میں نہیں آرہی۔۔"
وہ بور انداز میں بولتا
کاوچ پر بیٹھ گیا تھا۔
"تم مجھے بےوقوف نہیں بنا
سکتے شازل۔۔"
حیدر نے چڑ کر سنجیدگی سے
کہا تھا۔اس کا لاپرواہ انداز اسے غصہ دلا رہا تھا۔
"اچھا۔۔"
شازل نے ایل ای ڈی چلاتے
کہا تھا۔حیدر گہرا سانس بھرتا اس کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔
"کیا تمھیں اسے مار کر
سکون مل گیا شازل؟"
حیدر نے سنجیدگی سے
پوچھا۔
"ہاں بہت زیادہ۔۔یہ ہی
سننا چاہتے تھے نہ ؟ میں نے ہی مارا ہے اسے۔۔ میں ہر اس شخص کو ختم کردوں گا جو اس
کام میں شامل تھا۔"
وہ حیدر کی جانب مڑتا سرد
لہجے میں غرایا تھا۔
"اوکے پھر مجھے بھی مدد
کرنے دو۔۔ میں بھی تمھارا ساتھ دینا چاہتا ہوں تمھارے کام آنا چاہتا ہوں۔۔"
حیدر نے اس کے کندھے پر
ہاتھ رکھتے کہا تھا۔
شازل نے گہری نظروں سے اس
کا جائزہ لیتے سوچا تھا۔
"اوکے مگر تم ویسا ہی کرو
گے جیسا میں کہوں گا۔۔"
اس نے حیدر کو وارن کیا
تھا جس پر وہ سر ہلا گیا تھا۔
"میں ابھی جاب نہیں چھوڑ
سکتا اس لیے جاب کرنے کے ساتھ مجھے نیکسٹ ٹارگٹ پر کام کرنا پڑے گا اس میں تمھاری
ہیلپ چاہیے ہوگی۔۔"
وہ پرسوچ نگاہوں سے ٹی وی
پر چلتے پروگرام کو دیکھتا بولا تھا۔
"تم جو کہو گے میں کروں گا
شازل۔۔"
حیدر کے مضبوط لہجے میں
بولنے پر اس نے ہنکار بھرا تھا۔۔
Ⓩⓐⓝⓞⓞⓡ Ⓦⓡⓘⓣⓔⓢ
روحان ٹائم دیکھتا اپنے
روم میں ریسٹ کرنے جارہا تھا جب اس کا دل ایک آخری نظر دانین پر ڈالنے کا کیا
تھا۔وہ اپنے الجھے بالوں میں ہاتھ پھیرتا سیڑھیاں چڑھتے اس کے کمرے میں گیا تھا۔
دھیرے سے دروازہ کھولتے
اس نے اندر جھانکا تھا۔کمرے میں لائٹ بلب جل رہا تھا۔وہ بنا آواز پیدا کیے اندر
داخل ہوتا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا دانین کے پاس گیا تھا۔جو آنکھیں بند کیے کمفرٹر
کو زور سے تھامے ہوئے تھی۔
اس کے معصوم چہرے پر نظر
ڈالتے اسے چھونے کی خواہش شدت سے اس کے دل میں اٹھی تھی۔اس کا ہاتھ بےساختہ اس کے
چہرے کی جانب بڑھا تھا۔ایک دم اپنا سر جھٹکتے اس نے خودکو روکا تھا۔
خودپر قابو پاتا وہ واپس
پلٹنے لگا تھا جب دانین کی سسکی سن کر وہ ایک دم ساکت ہوگیا تھا۔جھٹکے سے پیچھے
مڑتے اس نے دانین کو دیکھا تھا۔جو آنکھیں بند کیے کچھ بڑبڑائی رہی تھی۔
"ن۔۔نہیں چچ۔۔چھوڑ دو
م۔۔مجھے۔۔آہہہہ۔۔۔"
وہ بیڈ پر حرکت کرتی نائٹ
مئیر دیکھ رہی تھی۔روحان نے تیزی سے آگے بڑھتے اس کو کندھے سے تھام کر زور سے
ہلایا تھا۔
"دانین۔۔۔ہوش میں آو۔۔۔ تم
خواب دیکھ رہی ہو۔۔"
اس کے وجود کو جھنجھوڑتا وہ
اونچی آواز میں بول رہا تھا۔
"دانین۔۔"
اس کے پکارنے پر دانین نے
جھٹکے سے آنکھیں کھول کر گہرے سانس لینا شروع کیے تھے۔روحان کو دیکھتے اس نے
بےساختہ روحان کا ہاتھ تھام لیا تھا۔
"و۔۔وہ روحان م۔۔مجھے بچا
لیں۔۔"
وہ اس کی شرٹ مٹھی میں
جکڑتی بری طرح سسک رہی تھی۔اس کی آنکھوں سے نکلتے آنسووں روحان کو ساکت کرگئے
تھے۔۔
"پل۔۔پلیز انھیں
کہییں۔۔کہیں میرا پیچھا چھوڑ دیں۔۔"
وہ روحان کو جھنجھوڑتے
ہوئے التجا کر رہی تھی۔روحان نے بےساختہ اس کے گرد حصار باندھتے اسے خود میں بھیبچ
لیا تھا۔
"میرے ہوتے ہوئے تمھیں
کوئی چھو بھی نہیں سکتا۔۔ یہ روحان مصطفی کا وعدہ ہے دانین خان سے۔۔"
اس کی کمر سہلاتے وہ اسے
تسلی دے رہا تھا۔دانین اس کے سینے میں منہ چھپائے بری طرح سسک رہی تھی۔اس کی بات
سنتی اس کی آنکھوں سے بےشمار آنسو نکلے تھے۔
"پرامس۔۔"
اس نے روحان کے سینے سے
چہرہ ہٹاتے اس کے سامنے اپنی چھوٹی سی ہتھیلی پھیلائی تھی۔
"پرامس۔۔آج سے بعد تمھاری
حفاظت کی ذمہ داری میری ہے۔۔میرے ہوتے ہوئے کوئی تمھارے قریب بھی نہیں آپائے گا۔۔"
وہ اس کا ہاتھ تھامتا
دوسرے ہاتھ سے اس کی نم آنکھیں صاف کرتا اس کی کانچ سی آنکھوں میں جھانک کر بولتا
اسے آس دلا گیا تھا۔
نم آنکھوں سے مسکراتے
دانین نے سر ہلایا تھا۔اسے یقین تھا روحان اسے کچھ نہیں ہونے دے گا۔۔
"اب تم سو جاو۔۔ میں یہاں
ہی ہوں۔۔"
وہ دانین کو سونے کا
بولتا بیڈ سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس پڑے ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا۔دانین
اس کی جانب دیکھتی خاموشی سے لیٹ گئی تھی۔اس کی موجودگی سے ہی وہ خود کو بےحد
محفوظ کر رہی تھی۔ آنکھیں بند کرتی وہ جلد ہی سو گئی تھی۔روحان اس کی جانب دیکھتا
کرسی سے ٹیک لگائے ہی سو گیا تھا۔
جاری ہے۔
Yeh Nechy Writer Ky Page Ka Link Dia Hua Hai..Jo Jo Facebook Per Hai Wo Yeh Novel Writer Page Page Pr Se Hi Prehyy Aur Review Bhi De....Yahaan Novel Sirf Un Logo Ke Liye Upload Kia Jaa Rha Hai Jo Facebook Use Nhi Kar Sakty Ya Nhi Use Krty...Regards
نیچے دیے گئے میرے پیج کو لائک کریں اور اپنے دوستوں کو بھی انوائیٹ کریں۔
https://www.facebook.com/ZanoorWrites
Previous Episodes
Episode 1 - Season 2
Episode 2 - Season 2
Episode 3 - Season 2
Episode 4 - Season 2
Episode 5 - Season 2
Episode 6 - Season 2