Professor Khan Episode 5 Season 2 by Zanoor Writes Complete Episode
Professor Khan
Zanoor Writes
Season 2
Episode 5
(Series 2 in Professor Shah Novel)
دانین اور روحان سپیشل 😍🔥❣️۔۔
دانین اس رات کے بعد دو دن سے کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی۔آج وہ براون ڈریس میں اپنے بالوں کو کھلا چھوڑے باہر نکل ہی آئی تھی۔مِلی نے اسے نیچے آتے دیکھ کر مسکرا کر دیکھا تھا۔
روحان نے نظریں اٹھاتے اسےاچھے سے دیکھا تھا۔اتنے دنوں بعد اسے سامنے دیکھ کر اس کے بےچین دل کو سکون مل گیا تھا۔
دانین کو اپنی طرف دیکھتا محسوس کرکے وہ اپنے چہرے پر سخت تاثرات لاتا چہرہ بالکل سیدھا کر گیا تھا۔دانین نے ایک نظر اسے دیکھتے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے کھیلنا شروع کیا تھا۔
روحان نے کن اکھیوں سے اس کی یہ حرکت دیکھی تھی وہ اسے کافی نروس لگ رہی تھی۔
"مجھے باہر جانا ہے آج۔۔"
وہ گہرا سانس لیتی روحان کی طرف دیکھتی بولی تھی۔روحان نے دھیرے سے سر ہلایا تھا۔آج دھوپ نکلی تھی موسم کافی اچھا تھا تبھی وہ باہر جانا چاہتی تھی۔
"اوکے میم۔۔"
روحان نے سپاٹ انداز میں جواب دیتے اپنی ٹیم کو انفارم کیا تھا۔
ملی کے ناشتہ سرو کرنے کے بعد وہ ڈریس چینج کرتی لونگ کوٹ پہنتی مفلر گلے میں ڈالے نیچے آئی تھی۔روحان کو وہ انتہائی کیوٹ لگ رہی تھی۔
اپنے جذبات پر قابو پاتا وہ فورا پروفیشنل ہوا تھا۔ملی بھی ان کے ساتھ جارہی تھی۔روحان نے سر ہلاتے دانین کے لیے دروازہ کھولا تھا۔
"کیوٹ لگ رہی ہو۔۔"
اس کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولتے روحان نے دھیرے سے جھک کر اس کے کان میں کہا تھا۔دانین نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تھا۔
"سٹے ان یور لمٹس۔۔"
وہ غصے سے اسے گھورتی اونچی آواز میں بولی تھی۔باقی گارڈز اور ملی بھی اس کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔روحان نے بےساختہ اپنی مٹھیاں بھینچی تھیں۔۔
"کیا ہوا دانین ؟"
ملی نے مشکوک نظروں سے روحان کو گھورا تھا۔
"کچھ نہیں۔۔"
وہ نظریں پلٹتی تیزی سے بولی تھی۔روحان نے تیزی سے گاڑی کا دروازہ بند کرتے آگے والی سیٹ کا دروازہ کھولا تھا۔
"آپ کو آنے کی ضرورت نہیں کسی اور گارڈ کو بھیج دیں۔۔"
وہ سخت لہجے میں روحان سے بولی تھی۔روحان نے جبڑے بھینچتے کھولا ہوا دروازہ زور سے بند کیا تھا۔اونچی آواز سے وہ بری طرح بدکی تھی۔
"اوکے۔۔"
وہ سرد لہجے میں بولتا اپنے ساتھی سٹیون کو اشارہ کرچکا تھا۔اسے ساری ہدایات دیتا وہ پلٹ کر گھر کے انداز چلا گیا تھا۔دانین نے کن اکھیوں سے اسے جاتے دیکھا تھا۔ناجانے اس کی غیر موجودگی میں اسے شدید گھبراہٹ کیوں ہونے لگی تھی۔اس نے بےساختہ زور سے ملی کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔جس نے دھیرے سے اس کا ہاتھ تھامتے سہلاتے ہوئے اسے پرسکون کرنے کی کوشش کی تھی۔
روحان نے نظریں اٹھاتے اسےاچھے سے دیکھا تھا۔اتنے دنوں بعد اسے سامنے دیکھ کر اس کے بےچین دل کو سکون مل گیا تھا۔
دانین کو اپنی طرف دیکھتا محسوس کرکے وہ اپنے چہرے پر سخت تاثرات لاتا چہرہ بالکل سیدھا کر گیا تھا۔دانین نے ایک نظر اسے دیکھتے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے کھیلنا شروع کیا تھا۔
روحان نے کن اکھیوں سے اس کی یہ حرکت دیکھی تھی وہ اسے کافی نروس لگ رہی تھی۔
"مجھے باہر جانا ہے آج۔۔"
وہ گہرا سانس لیتی روحان کی طرف دیکھتی بولی تھی۔روحان نے دھیرے سے سر ہلایا تھا۔آج دھوپ نکلی تھی موسم کافی اچھا تھا تبھی وہ باہر جانا چاہتی تھی۔
"اوکے میم۔۔"
روحان نے سپاٹ انداز میں جواب دیتے اپنی ٹیم کو انفارم کیا تھا۔
ملی کے ناشتہ سرو کرنے کے بعد وہ ڈریس چینج کرتی لونگ کوٹ پہنتی مفلر گلے میں ڈالے نیچے آئی تھی۔روحان کو وہ انتہائی کیوٹ لگ رہی تھی۔
اپنے جذبات پر قابو پاتا وہ فورا پروفیشنل ہوا تھا۔ملی بھی ان کے ساتھ جارہی تھی۔روحان نے سر ہلاتے دانین کے لیے دروازہ کھولا تھا۔
"کیوٹ لگ رہی ہو۔۔"
اس کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولتے روحان نے دھیرے سے جھک کر اس کے کان میں کہا تھا۔دانین نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تھا۔
"سٹے ان یور لمٹس۔۔"
وہ غصے سے اسے گھورتی اونچی آواز میں بولی تھی۔باقی گارڈز اور ملی بھی اس کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔روحان نے بےساختہ اپنی مٹھیاں بھینچی تھیں۔۔
"کیا ہوا دانین ؟"
ملی نے مشکوک نظروں سے روحان کو گھورا تھا۔
"کچھ نہیں۔۔"
وہ نظریں پلٹتی تیزی سے بولی تھی۔روحان نے تیزی سے گاڑی کا دروازہ بند کرتے آگے والی سیٹ کا دروازہ کھولا تھا۔
"آپ کو آنے کی ضرورت نہیں کسی اور گارڈ کو بھیج دیں۔۔"
وہ سخت لہجے میں روحان سے بولی تھی۔روحان نے جبڑے بھینچتے کھولا ہوا دروازہ زور سے بند کیا تھا۔اونچی آواز سے وہ بری طرح بدکی تھی۔
"اوکے۔۔"
وہ سرد لہجے میں بولتا اپنے ساتھی سٹیون کو اشارہ کرچکا تھا۔اسے ساری ہدایات دیتا وہ پلٹ کر گھر کے انداز چلا گیا تھا۔دانین نے کن اکھیوں سے اسے جاتے دیکھا تھا۔ناجانے اس کی غیر موجودگی میں اسے شدید گھبراہٹ کیوں ہونے لگی تھی۔اس نے بےساختہ زور سے ملی کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔جس نے دھیرے سے اس کا ہاتھ تھامتے سہلاتے ہوئے اسے پرسکون کرنے کی کوشش کی تھی۔
"فاطمہ مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔ میں نے نورے کے حوالے سے تم پر اندھا یقین کیا اور تم اس کا فائدہ اٹھاتی اس پر ہاتھ اٹھانے لگی ؟"
میر شاہ کے لہجے میں غصہ اور مایوسی تھی۔
"م۔۔میر ایسا نہیں ہے نورے مجھ سے بدتمیزی کرتی تھی بس اسی وجہ سے میں نے ایک دو بار اس پر ہاتھ اٹھا دیا اس کے علاوہ میں نے کبھی اسے نہیں مارا۔۔"
فاطمہ بیگم آنکھوں میں آنسووں لاتی تڑپ کر بولیں تھیں۔
"فاطمہ میں کس کا یقین کروں ؟ اپنی بچوں کا جو سچ بول رہے ہیں یا تمھارے ان آنسووں کا۔۔؟ ایک دو بار ہاتھ اٹھانے کی بات نہیں یہاں بات مارنے کی ہے میں نے خود کب۔۔"
وہ بولتے بولتے رک گئے تھے انھیں اچانک وہ دن یاد آیا جب انھوں نے شاہزیب کو تھپڑ مارا تھا۔
"مجھے معاف کردیں میر اب میں کبھی ایسا نہیں کروں گی۔۔"
فاطمہ ان کے چہرے پر سائے لہراتے دیکھ کر تیزی سے بولیں تھیں۔
"ٹھیک ہے فاطمہ میں تم پر دوبارہ یقین کر رہا ہوں۔۔نورے پر اب کبھی ہاتھ مت اٹھانا۔۔"
وہ اپنی بیوی کے نم چہرے کو دیکھتے پلٹ کر باہر نکل گئے تھے۔
اپنے بیٹے پر یقین نہ کرنے کی پشیمانی اور بیٹی کے مایوس کن اور اجنبی انداز نے انھیں توڑ دیا تھا۔وہ اس وقت اس سب سے دور جانا چاہتے تھے۔فاطمہ سے تو وہ کافی دنوں سے بات کرنا چاہتے تھے مگر انھیں آج موقع ملا تھا۔
گھبراہٹ محسوس کرتے انھوں نے گھر سے باہر نکلتے اپنی شرٹ کے بٹن کھولے تھے۔
"آپ کی طبیعت ٹھیک ہے۔"
شاہزیب جو نیچے پانی لینے آیا تھا وہ ان کو دیکھتے ان کے پاس آیا تھا جو زرد چہرہ لیے آسمان کو دیکھ رہے تھے۔
"ہاں۔۔بس گھبراہٹ ہورہی ہے۔۔"
وہ شاہزیب کی طرف دیکھتے بولے تھے۔شاہزیب نے اپنے ہاتھ میں پکڑی پانی کی بوٹل ان کی جانب بڑھائی تھی۔
"مجھے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی میرے ساتھ ہوسپٹل چلیں۔۔میں اپنی گاڑی کی چابی لے کر آیا۔۔"
وہ تیزی دے بولتا بنا ان کا جواب سنے کمرے میں بھاگ گیا تھا۔اس کی فکر مندی پر ان کی آنکھیں بھیگ گئی تھی۔پانی پی کر بوٹل وہ سائیڈ پر رکھ چکے تھے۔۔
شاہزیب افرحہ کو بتاتا انھیں ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا۔ان کا بی پی کافی ہائی تھا انھیں ڈرپ لگی تھی۔ڈاکٹر نے اسے بتایا تھا کہ وہ میر شاہ کو بروقت لے آیا ورنہ انھیں ہرٹ اٹیک بھی ہوسکتا تھا۔
شاہزیب ڈاکٹر کی بات سن کر پریشان ہوگیا تھا۔جیسے بھی تھے میر شاہ اس کے باپ تھے۔
"شاہزیب۔۔ میری ایک خواہش پوری کردو۔۔"
انھوں نے اپنے پاس کھڑے شاہزیب کو اپنے قریب بلایا تھا۔شاہزیب سوالیہ نظروں سے ان کی جانب جھکا تھا۔
"مجھے معاف کردو۔۔"
میر شاہ کی بات پر وہ ساکت ہوا تھا۔
"میں نے آپ کو معاف کیا۔۔"
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا بولا تھا۔
"دل سے؟"
میر شاہ نے امید سے پوچھا۔
"جی۔۔"
اس نے سر ہلایا تھا۔میر شاہ پر ایک سکون دار مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔شاہزیب نے ان کا ہاتھ ہلکے سے دبایا تھا۔وہ کیا بتاتا کہ آپ کی ابھی تک بےاعتباری اسے تکلءف پہنچاتی ہے لیکن باپ کی ناساز حالت نے خاموش کروا دیا تھا۔
میر شاہ کے لہجے میں غصہ اور مایوسی تھی۔
"م۔۔میر ایسا نہیں ہے نورے مجھ سے بدتمیزی کرتی تھی بس اسی وجہ سے میں نے ایک دو بار اس پر ہاتھ اٹھا دیا اس کے علاوہ میں نے کبھی اسے نہیں مارا۔۔"
فاطمہ بیگم آنکھوں میں آنسووں لاتی تڑپ کر بولیں تھیں۔
"فاطمہ میں کس کا یقین کروں ؟ اپنی بچوں کا جو سچ بول رہے ہیں یا تمھارے ان آنسووں کا۔۔؟ ایک دو بار ہاتھ اٹھانے کی بات نہیں یہاں بات مارنے کی ہے میں نے خود کب۔۔"
وہ بولتے بولتے رک گئے تھے انھیں اچانک وہ دن یاد آیا جب انھوں نے شاہزیب کو تھپڑ مارا تھا۔
"مجھے معاف کردیں میر اب میں کبھی ایسا نہیں کروں گی۔۔"
فاطمہ ان کے چہرے پر سائے لہراتے دیکھ کر تیزی سے بولیں تھیں۔
"ٹھیک ہے فاطمہ میں تم پر دوبارہ یقین کر رہا ہوں۔۔نورے پر اب کبھی ہاتھ مت اٹھانا۔۔"
وہ اپنی بیوی کے نم چہرے کو دیکھتے پلٹ کر باہر نکل گئے تھے۔
اپنے بیٹے پر یقین نہ کرنے کی پشیمانی اور بیٹی کے مایوس کن اور اجنبی انداز نے انھیں توڑ دیا تھا۔وہ اس وقت اس سب سے دور جانا چاہتے تھے۔فاطمہ سے تو وہ کافی دنوں سے بات کرنا چاہتے تھے مگر انھیں آج موقع ملا تھا۔
گھبراہٹ محسوس کرتے انھوں نے گھر سے باہر نکلتے اپنی شرٹ کے بٹن کھولے تھے۔
"آپ کی طبیعت ٹھیک ہے۔"
شاہزیب جو نیچے پانی لینے آیا تھا وہ ان کو دیکھتے ان کے پاس آیا تھا جو زرد چہرہ لیے آسمان کو دیکھ رہے تھے۔
"ہاں۔۔بس گھبراہٹ ہورہی ہے۔۔"
وہ شاہزیب کی طرف دیکھتے بولے تھے۔شاہزیب نے اپنے ہاتھ میں پکڑی پانی کی بوٹل ان کی جانب بڑھائی تھی۔
"مجھے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی میرے ساتھ ہوسپٹل چلیں۔۔میں اپنی گاڑی کی چابی لے کر آیا۔۔"
وہ تیزی دے بولتا بنا ان کا جواب سنے کمرے میں بھاگ گیا تھا۔اس کی فکر مندی پر ان کی آنکھیں بھیگ گئی تھی۔پانی پی کر بوٹل وہ سائیڈ پر رکھ چکے تھے۔۔
شاہزیب افرحہ کو بتاتا انھیں ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا۔ان کا بی پی کافی ہائی تھا انھیں ڈرپ لگی تھی۔ڈاکٹر نے اسے بتایا تھا کہ وہ میر شاہ کو بروقت لے آیا ورنہ انھیں ہرٹ اٹیک بھی ہوسکتا تھا۔
شاہزیب ڈاکٹر کی بات سن کر پریشان ہوگیا تھا۔جیسے بھی تھے میر شاہ اس کے باپ تھے۔
"شاہزیب۔۔ میری ایک خواہش پوری کردو۔۔"
انھوں نے اپنے پاس کھڑے شاہزیب کو اپنے قریب بلایا تھا۔شاہزیب سوالیہ نظروں سے ان کی جانب جھکا تھا۔
"مجھے معاف کردو۔۔"
میر شاہ کی بات پر وہ ساکت ہوا تھا۔
"میں نے آپ کو معاف کیا۔۔"
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا بولا تھا۔
"دل سے؟"
میر شاہ نے امید سے پوچھا۔
"جی۔۔"
اس نے سر ہلایا تھا۔میر شاہ پر ایک سکون دار مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔شاہزیب نے ان کا ہاتھ ہلکے سے دبایا تھا۔وہ کیا بتاتا کہ آپ کی ابھی تک بےاعتباری اسے تکلءف پہنچاتی ہے لیکن باپ کی ناساز حالت نے خاموش کروا دیا تھا۔
وہ چونکہ گھر میں اکیلا تھا اس نے اپنے لیے کچھ کھانے کے لیے بنانے کا سوچا تھا۔اپنا بلیک کورٹ اتار کر صوفے پر پھینکتا وہ اپنی سلیوز فولڈ کرنے لگا تھا۔دانین پر وہ چاہ کر بھی غصہ نہیں کر پارہا تھا کیونکہ جانتا تھا لمٹ اس نے خود کراس کی تھی۔
اپنے لیے برگر بنانے کا سوچتا وہ ساری چیزیں نکال کر تیزی سے ہاتھ چلانے لگا تھا۔کام کرتے وقت ہر پل اس گڑیا کا خیال ذہن میں تھا جو اسے گھاس تک نہیں ڈال رہی تھی۔
ایک سرد آہ بھرتے وہ کیچن میں موجود سٹول کھینچ کر بیٹھتا اپنا برگر کھانے لگا تھا۔ ابھی پہلی بائٹ ہی لی تھی جب اس کا فون رنگ ہوا تھا۔ برگر رکھتے اس نے سٹیون کی کال دیکھتے فورا ریسیو کی تھی۔
"روحان دانین کو پینک اٹیک ہو رہا ہے وہ کسی کو اپنے قریب نہیں آنے دے رہی ہمیں تمھاری ضرورت ہے۔۔"
اس کی بات سنتے وہ بجلی کی تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھتا باہر بھاگا تھا۔ باہر کی ٹھنڈی ہوا اس کے چہرے سے ٹکرائی تھی۔
"لوکیشن سینڈ کرو مجھے۔۔۔اور اس کے قریب مت جاو ملی کو کہو وہ کچھ ہیلپ کرے۔۔۔ہوا کیا ہے؟ "
اس نے گاڑی میں بیٹھتے پوچھا تھا۔
"ہم لوگ پارک میں اچانک ایک بچہ کھیلتے کھیلتے گر گیا اس کے سر پر چوٹ لگ گئی اس کے سر سے نکلتا خون دیکھ کر وہ گہرے گہرے سانس لینے لگی اور کچھ بڑبڑانے لگی ملی اور ہم نے اس کے پاس جانے کی کوشش کر مگر وہ چیخنے لگتی ہے۔۔۔"
روحان نے اس کی بات سنتے اپنی گرفت سٹیرینگ ویل پر مضبوط کرتے گاڑی کی سپیڈ بڑھائی تھی۔ پندرہ منٹ کا فاصلہ اس نے پانچ منٹ میں طے کیا تھا۔
تیزی سے گاڑی روکتا وہ دروازہ بنا بند کیے بنا پارک میں بھاگا تھا۔کچھ لوگ ان کے ارد گرد کھڑے تھے۔وہ سب کو پیچھے ہٹاتا آگے بڑھا تھا۔وہ زمین پر گھٹنوں کے گرد بازو باندھے تیزی سے کچھ بڑبڑا رہی تھی۔سر کو نفی میں ہلاتی وہ لوگوں کو دیکھتی تیز تیز سانس لے رہی تھی۔
"میری شکل کیا دیکھ رہے ہو ہٹاو ان سب کو۔۔"
سب کو اپنی جانب دیکھتا وہ سٹیون کی طرف مڑتا تیز آواز میں بولا تھا۔اس کی نظریں گھاس پر بیٹھی دانین پر پی ٹکی تھی۔پاوں کے بل زمین پر بیٹھتے اس نے نرم آواز میں اسے پکارا تھا۔
"دانین۔۔"
"دانین میری طرف دیکھو۔۔"
وہ مضبوط لہجے میں تھوڑا اونچی آواز میں بولا تھا۔دانین کی بھیگی نم آنکھیں بےساختہ اس کی جانب اٹھی تھیں۔وہ ایک دم خاموش ہوگئی تھی۔
"ریلکس۔۔کوئی تمھیں کچھ نہیں کہہ رہا۔۔تم سیف ہو۔۔"
وہ ہاتھ اٹھاتا دھیرے دھیرے اس کے پاس جارہا تھا۔دانین آنکھیں پھیلائے اسے دیکھتی گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔
"د۔۔دور رہو۔۔"
چند آنسو نکلتے اس کی گال پر بہہ نکلے تھے۔روحان اپنی جگہ پر رک گیا تھا۔
"اٹس اوکے۔۔جسٹ ریلکس۔۔ "
وہ مضبوط لہجے میں بولا تھا۔اس کی گہری آواز سن کر دانین واقعی ہوش میں آنے لگی تھی۔پلکیں جھپکتے اس نے روحان کو دیکھا تھا جو اس کی بات مانتا بالکل سٹل بیٹھا تھا۔
"م۔۔مجھے گھر جانا ہے۔۔"
وہ تیز تنفس سے بنا کسی کی طرف دیکھے روحان سے مخاطب ہوئی تھی۔روحان نے سر ہلاتے اس کی جانب ہاتھ بڑھایا تھا۔
"ہم گھر جائیں گے۔۔"
اس کے ہاتھ کی طرف دیکھتے دانین نے اس کے چہرے کو دیکھا تھا۔پھر دھیرے سے اپنا نازک کانپتا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا۔روحان کے ہاتھوں میں اس کا ہاتھ چھوٹا سا لگ رہا تھا۔روحان نے اسے ہاتھ سے تھامتے کھڑا کیا تھا۔ملی منہ کھولے کبھی ان دونوں کی طرف اور کبھی ان کے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔اسے یقین نہیں آرہا تھا دانین نے کسی کو خود کو چھونے دیا تھا۔
سٹیون کو اشارہ کرتا روحان اسے اپنے ساتھ لیتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا۔اس کے لیے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولتے اس نے دانین کو بیٹھنے میں مدد کی تھی۔
دانین کے سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر اس نے جھکتے اس کی سیٹ بیلٹ باندھی تھی۔دانین نے اس کے جھکنے پر سانس روک لی تھی۔روحان نے مسکراہٹ دباتے اس کی یہ حرکت محسوس کی تھی۔
اس کی سیٹ بیلٹ باندھتے اس نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی تھی۔
روحان کو دانین کا یوں ہاتھ تھام کر اس پر بھروسہ کرنے کا انداز سرور بخش رہا تھا۔اس کو ایک انجانی خوشی محسوس ہورہی تھی۔
دانین کو خود پر حیرت تھی اس نے کیسے روحان کو چھوا اسے خود سمجھ نہیں آرہی تھی۔روحان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ دیکھتی وہ فورا اپنی نظریں جھکا گئی تھی۔گھر پہنچتے وہ تیزی سے نکل کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔
روحان نے اس کے جانے کے بعد اپنا ٹھنڈا برگر گرم کرکے کھاتے سٹیون کے آنے کے بعد ان سے سارا واقعہ تفصیل سے پوچھا تھا پھر اسے ملی سے پتا چلا تھا کہ خون سے بھی اس کا پینک اٹیک ٹریگر ہوجاتا ہے انھیں اس بات کی خبر نہیں تھی۔
اپنے لیے برگر بنانے کا سوچتا وہ ساری چیزیں نکال کر تیزی سے ہاتھ چلانے لگا تھا۔کام کرتے وقت ہر پل اس گڑیا کا خیال ذہن میں تھا جو اسے گھاس تک نہیں ڈال رہی تھی۔
ایک سرد آہ بھرتے وہ کیچن میں موجود سٹول کھینچ کر بیٹھتا اپنا برگر کھانے لگا تھا۔ ابھی پہلی بائٹ ہی لی تھی جب اس کا فون رنگ ہوا تھا۔ برگر رکھتے اس نے سٹیون کی کال دیکھتے فورا ریسیو کی تھی۔
"روحان دانین کو پینک اٹیک ہو رہا ہے وہ کسی کو اپنے قریب نہیں آنے دے رہی ہمیں تمھاری ضرورت ہے۔۔"
اس کی بات سنتے وہ بجلی کی تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھتا باہر بھاگا تھا۔ باہر کی ٹھنڈی ہوا اس کے چہرے سے ٹکرائی تھی۔
"لوکیشن سینڈ کرو مجھے۔۔۔اور اس کے قریب مت جاو ملی کو کہو وہ کچھ ہیلپ کرے۔۔۔ہوا کیا ہے؟ "
اس نے گاڑی میں بیٹھتے پوچھا تھا۔
"ہم لوگ پارک میں اچانک ایک بچہ کھیلتے کھیلتے گر گیا اس کے سر پر چوٹ لگ گئی اس کے سر سے نکلتا خون دیکھ کر وہ گہرے گہرے سانس لینے لگی اور کچھ بڑبڑانے لگی ملی اور ہم نے اس کے پاس جانے کی کوشش کر مگر وہ چیخنے لگتی ہے۔۔۔"
روحان نے اس کی بات سنتے اپنی گرفت سٹیرینگ ویل پر مضبوط کرتے گاڑی کی سپیڈ بڑھائی تھی۔ پندرہ منٹ کا فاصلہ اس نے پانچ منٹ میں طے کیا تھا۔
تیزی سے گاڑی روکتا وہ دروازہ بنا بند کیے بنا پارک میں بھاگا تھا۔کچھ لوگ ان کے ارد گرد کھڑے تھے۔وہ سب کو پیچھے ہٹاتا آگے بڑھا تھا۔وہ زمین پر گھٹنوں کے گرد بازو باندھے تیزی سے کچھ بڑبڑا رہی تھی۔سر کو نفی میں ہلاتی وہ لوگوں کو دیکھتی تیز تیز سانس لے رہی تھی۔
"میری شکل کیا دیکھ رہے ہو ہٹاو ان سب کو۔۔"
سب کو اپنی جانب دیکھتا وہ سٹیون کی طرف مڑتا تیز آواز میں بولا تھا۔اس کی نظریں گھاس پر بیٹھی دانین پر پی ٹکی تھی۔پاوں کے بل زمین پر بیٹھتے اس نے نرم آواز میں اسے پکارا تھا۔
"دانین۔۔"
"دانین میری طرف دیکھو۔۔"
وہ مضبوط لہجے میں تھوڑا اونچی آواز میں بولا تھا۔دانین کی بھیگی نم آنکھیں بےساختہ اس کی جانب اٹھی تھیں۔وہ ایک دم خاموش ہوگئی تھی۔
"ریلکس۔۔کوئی تمھیں کچھ نہیں کہہ رہا۔۔تم سیف ہو۔۔"
وہ ہاتھ اٹھاتا دھیرے دھیرے اس کے پاس جارہا تھا۔دانین آنکھیں پھیلائے اسے دیکھتی گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔
"د۔۔دور رہو۔۔"
چند آنسو نکلتے اس کی گال پر بہہ نکلے تھے۔روحان اپنی جگہ پر رک گیا تھا۔
"اٹس اوکے۔۔جسٹ ریلکس۔۔ "
وہ مضبوط لہجے میں بولا تھا۔اس کی گہری آواز سن کر دانین واقعی ہوش میں آنے لگی تھی۔پلکیں جھپکتے اس نے روحان کو دیکھا تھا جو اس کی بات مانتا بالکل سٹل بیٹھا تھا۔
"م۔۔مجھے گھر جانا ہے۔۔"
وہ تیز تنفس سے بنا کسی کی طرف دیکھے روحان سے مخاطب ہوئی تھی۔روحان نے سر ہلاتے اس کی جانب ہاتھ بڑھایا تھا۔
"ہم گھر جائیں گے۔۔"
اس کے ہاتھ کی طرف دیکھتے دانین نے اس کے چہرے کو دیکھا تھا۔پھر دھیرے سے اپنا نازک کانپتا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا۔روحان کے ہاتھوں میں اس کا ہاتھ چھوٹا سا لگ رہا تھا۔روحان نے اسے ہاتھ سے تھامتے کھڑا کیا تھا۔ملی منہ کھولے کبھی ان دونوں کی طرف اور کبھی ان کے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔اسے یقین نہیں آرہا تھا دانین نے کسی کو خود کو چھونے دیا تھا۔
سٹیون کو اشارہ کرتا روحان اسے اپنے ساتھ لیتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا۔اس کے لیے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولتے اس نے دانین کو بیٹھنے میں مدد کی تھی۔
دانین کے سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر اس نے جھکتے اس کی سیٹ بیلٹ باندھی تھی۔دانین نے اس کے جھکنے پر سانس روک لی تھی۔روحان نے مسکراہٹ دباتے اس کی یہ حرکت محسوس کی تھی۔
اس کی سیٹ بیلٹ باندھتے اس نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی تھی۔
روحان کو دانین کا یوں ہاتھ تھام کر اس پر بھروسہ کرنے کا انداز سرور بخش رہا تھا۔اس کو ایک انجانی خوشی محسوس ہورہی تھی۔
دانین کو خود پر حیرت تھی اس نے کیسے روحان کو چھوا اسے خود سمجھ نہیں آرہی تھی۔روحان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ دیکھتی وہ فورا اپنی نظریں جھکا گئی تھی۔گھر پہنچتے وہ تیزی سے نکل کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔
روحان نے اس کے جانے کے بعد اپنا ٹھنڈا برگر گرم کرکے کھاتے سٹیون کے آنے کے بعد ان سے سارا واقعہ تفصیل سے پوچھا تھا پھر اسے ملی سے پتا چلا تھا کہ خون سے بھی اس کا پینک اٹیک ٹریگر ہوجاتا ہے انھیں اس بات کی خبر نہیں تھی۔
صبح اٹھ کر اپنے چہرے کی حالت دیکھتے اس نے یونیورسٹی جانے کا ارادہ کینسل کرنے کا سوچا پھر اچانک فاطمہ بیگم کا سوچتے اس نے ارادہ بدل لیا تھا گلابی رنگ کا سمپل سا کرتا اور سفید ٹراوزر پہنے نورے نے ہلکا سا میک اپ اور لپ اسٹک سے اپنا زخمی ہونٹ اچھے سے کور کر لیا تھا۔بالوں کو ڈھیلے انداز میں کچھ اس طرح باندھے نے چند آوارہ لٹیں اس کے چہتے کا احاطہ کیے ہوئے تھے۔
اس نے ہلکی مسکراہٹ کھینچتے خود کو آئینہ میں دیکھا تھا۔دیکھنے والوں کو وہ خوش رہنے والی حسین لڑکی دکھائی دینی تھی۔اس نے مسکراہٹ سمٹ کر دوپٹہ کندھے پر ڈالتے بیگ اٹھایا تھا بنا ناشتہ کیے وہ گھر سے نکل گئی تھی۔
یونیورسٹی پہنچتے اسے اپنی کلاس کی طرف جاتے ہوئے اپنی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاتا ہوا محسوس ہوا تھا۔اس نے کل دوپہر سے کچھ نہیں کھایا تھا جس کے اثرات اب ظاہر ہورہے تھے۔
اپنا سر جھٹکتے اس نے آنکھوں کے آگے سے اندھیرا ہٹانا چاہا تھا۔کلاس کے سامنے پہنچ کر وہ بری طرح لڑکھڑائی تھی جب ایک لڑکے نے اسے بازو سے تھام کر گرنے سے بچایا تھا۔
"آر یو آلرائیٹ ؟"
اس لڑکے نے نورے کو سیدھا کھڑا کرتے پوچھا تھا۔نورے نے آنکھیں جھپک کر دھیرے سے سر ہلایا تھا۔
"اگر آپ لوگوں کی باتیں ختم ہوگئی ہو تو کلاس کا راستہ چھوڑیں گے۔۔؟"
شازل کی غصے سے بھری آواز سنتے نورے نے بھنویں بھینچ کر شازل کو دیکھا تھا جو غصے سے سرخ آنکھوں کے ساتھ اس لڑکے کے ہاتھ کو نورے کے بازو پر دیکھ رہا تھا۔
"جی سر۔۔"
وہ لڑکا تیزی سے نورے کا بازو چھوڑتے پیچھے ہٹ گیا تھا۔
"تھینک یو۔۔"
شازل کے گزرنے کے بعد نورے نے لڑکے کا شکریہ ادا کیا تھا جو مسکرا کر سر ہلاتا کلاس میں چلا گیا تھا۔وہ بھی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی کلاس میں داخل ہوگئی تھی۔
شازل کی نظروں کی تپش محسوس کرکے نورے نے ناسمجھ نظروں سے اسے دیکھا تھا جو معمول سے زیادہ غصے میں لگ رہا تھا۔
شازل نے غصے سے مارکر پکڑ کر بورڈ کر سرپرائز کوئیز لکھا تھا۔نورے کو لڑکے کے ساتھ دیکھ کر ناجانے کیوں اسے شدید غصہ آرہا تھا۔
کوئیز کا سن کر ساری کلاس اونچی اونچی بولنے لگی تھی۔سونیا نے ناگوار نظروں سے نورے کو دیکھا تھا جو پیچھے جاکر بیٹھ گئی تھی۔
غصے میں شازل نے انتہائی مشکل کوئیز دے دیا تھا جس سے ساری کلاس پریشان سی بیٹھی تھی۔نورے پیج اپنے سامنے رکھے بس گھورے جارہی تھی ایک بھی لفظ اس نے ابھی تک نہیں لکھا تھا اور ٹائم ختم ہونے والا تھا۔
"اگر تمھیں لگتا ہے اسے گھورنے سے کوئیز خود بخود لکھا جائے گا تو تم بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہو نورے۔۔"
شازل جو کب سے اسے دیکھ رہا تھا باآلاخر اس کے پاس آتا بول ہی پڑا تھا۔
"کیا آپ کے ڈسٹرب کرنے کے مجھے مارکس ملیں گے ؟"
اس کے اونچی آواز میں پوچھنے پر کلاس ان کی طرف مڑ کر دیکھنے لگی تھی۔
"سب لوگ اپنے کوئیز پر فوکس کریں۔۔"
شازل کے غصے سے بولنے ہر سب کی گردنین پیپر پر جھک گئی تھیں سوائے سونیا کے جو انھیں ہی گھور رہی تھی۔
"اپنی زبان کو قابو میں رکھنا سیکھو نورے ورنہ میرے پاس بہت سے طریقے ہیں اسے بند کرنے۔۔"
وہ تیز لہجے میں بولتا پلٹ گیا تھا۔نورے میں ہمت نہیں تھی ورنہ ضرور اسے کرارا سا جواب دے دیتی۔۔
کوئیز ختم ہونے پر اس نے خالی پیپر پکڑا دیا تھا۔شازل نے اس کا پیپر تھامتے آنکھیں گھمائی تھی۔اسے یقین تھا وہ خالی ہی دے گی۔
نورے کا چہرہ قریب سے دیکھنے پر اسے اس کا پھٹا ہوا ہونٹ لپ اسٹک کے نیچے دکھا تھا۔جس پر نظر پڑتے ہی اس نے زور سے جبڑے بھینچ لیے تھے۔نورے کوئیز دیتی کچھ کھانے کے لیے تیزی سے کیفے چلی گئی تھی۔
شازل کوئیز اکٹھے کرتا جانے لگا تھا جب سونیا نے اسے روکا تھا۔شازل نے سوالیہ نظروں دے اسے دیکھا تھا۔
"کیا آپ مجھے ایکسٹرا لیکچرز دے سکتے ہیں ؟ میرے جو لیکچرز مس ہوچکے ہیں ان میں مجھے کافی مشکل ہورہی ہے۔۔"
اس نے مسکرا کر پوچھا تھا۔
"میں سلائیڈز شئیر کردوں گا مجھے یقین ہیں انھیں پڑھنے کے بعد آپ مجھے تکلیف نہیں دیں گی۔۔"
وہ آنکھیں گھما کر اکھڑے لہجے میں بولتا وہاں سے چلا گیا تھا۔سونیا نے اس کے جواب پر پیر پٹھکے تھے۔۔
اس نے ہلکی مسکراہٹ کھینچتے خود کو آئینہ میں دیکھا تھا۔دیکھنے والوں کو وہ خوش رہنے والی حسین لڑکی دکھائی دینی تھی۔اس نے مسکراہٹ سمٹ کر دوپٹہ کندھے پر ڈالتے بیگ اٹھایا تھا بنا ناشتہ کیے وہ گھر سے نکل گئی تھی۔
یونیورسٹی پہنچتے اسے اپنی کلاس کی طرف جاتے ہوئے اپنی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاتا ہوا محسوس ہوا تھا۔اس نے کل دوپہر سے کچھ نہیں کھایا تھا جس کے اثرات اب ظاہر ہورہے تھے۔
اپنا سر جھٹکتے اس نے آنکھوں کے آگے سے اندھیرا ہٹانا چاہا تھا۔کلاس کے سامنے پہنچ کر وہ بری طرح لڑکھڑائی تھی جب ایک لڑکے نے اسے بازو سے تھام کر گرنے سے بچایا تھا۔
"آر یو آلرائیٹ ؟"
اس لڑکے نے نورے کو سیدھا کھڑا کرتے پوچھا تھا۔نورے نے آنکھیں جھپک کر دھیرے سے سر ہلایا تھا۔
"اگر آپ لوگوں کی باتیں ختم ہوگئی ہو تو کلاس کا راستہ چھوڑیں گے۔۔؟"
شازل کی غصے سے بھری آواز سنتے نورے نے بھنویں بھینچ کر شازل کو دیکھا تھا جو غصے سے سرخ آنکھوں کے ساتھ اس لڑکے کے ہاتھ کو نورے کے بازو پر دیکھ رہا تھا۔
"جی سر۔۔"
وہ لڑکا تیزی سے نورے کا بازو چھوڑتے پیچھے ہٹ گیا تھا۔
"تھینک یو۔۔"
شازل کے گزرنے کے بعد نورے نے لڑکے کا شکریہ ادا کیا تھا جو مسکرا کر سر ہلاتا کلاس میں چلا گیا تھا۔وہ بھی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی کلاس میں داخل ہوگئی تھی۔
شازل کی نظروں کی تپش محسوس کرکے نورے نے ناسمجھ نظروں سے اسے دیکھا تھا جو معمول سے زیادہ غصے میں لگ رہا تھا۔
شازل نے غصے سے مارکر پکڑ کر بورڈ کر سرپرائز کوئیز لکھا تھا۔نورے کو لڑکے کے ساتھ دیکھ کر ناجانے کیوں اسے شدید غصہ آرہا تھا۔
کوئیز کا سن کر ساری کلاس اونچی اونچی بولنے لگی تھی۔سونیا نے ناگوار نظروں سے نورے کو دیکھا تھا جو پیچھے جاکر بیٹھ گئی تھی۔
غصے میں شازل نے انتہائی مشکل کوئیز دے دیا تھا جس سے ساری کلاس پریشان سی بیٹھی تھی۔نورے پیج اپنے سامنے رکھے بس گھورے جارہی تھی ایک بھی لفظ اس نے ابھی تک نہیں لکھا تھا اور ٹائم ختم ہونے والا تھا۔
"اگر تمھیں لگتا ہے اسے گھورنے سے کوئیز خود بخود لکھا جائے گا تو تم بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہو نورے۔۔"
شازل جو کب سے اسے دیکھ رہا تھا باآلاخر اس کے پاس آتا بول ہی پڑا تھا۔
"کیا آپ کے ڈسٹرب کرنے کے مجھے مارکس ملیں گے ؟"
اس کے اونچی آواز میں پوچھنے پر کلاس ان کی طرف مڑ کر دیکھنے لگی تھی۔
"سب لوگ اپنے کوئیز پر فوکس کریں۔۔"
شازل کے غصے سے بولنے ہر سب کی گردنین پیپر پر جھک گئی تھیں سوائے سونیا کے جو انھیں ہی گھور رہی تھی۔
"اپنی زبان کو قابو میں رکھنا سیکھو نورے ورنہ میرے پاس بہت سے طریقے ہیں اسے بند کرنے۔۔"
وہ تیز لہجے میں بولتا پلٹ گیا تھا۔نورے میں ہمت نہیں تھی ورنہ ضرور اسے کرارا سا جواب دے دیتی۔۔
کوئیز ختم ہونے پر اس نے خالی پیپر پکڑا دیا تھا۔شازل نے اس کا پیپر تھامتے آنکھیں گھمائی تھی۔اسے یقین تھا وہ خالی ہی دے گی۔
نورے کا چہرہ قریب سے دیکھنے پر اسے اس کا پھٹا ہوا ہونٹ لپ اسٹک کے نیچے دکھا تھا۔جس پر نظر پڑتے ہی اس نے زور سے جبڑے بھینچ لیے تھے۔نورے کوئیز دیتی کچھ کھانے کے لیے تیزی سے کیفے چلی گئی تھی۔
شازل کوئیز اکٹھے کرتا جانے لگا تھا جب سونیا نے اسے روکا تھا۔شازل نے سوالیہ نظروں دے اسے دیکھا تھا۔
"کیا آپ مجھے ایکسٹرا لیکچرز دے سکتے ہیں ؟ میرے جو لیکچرز مس ہوچکے ہیں ان میں مجھے کافی مشکل ہورہی ہے۔۔"
اس نے مسکرا کر پوچھا تھا۔
"میں سلائیڈز شئیر کردوں گا مجھے یقین ہیں انھیں پڑھنے کے بعد آپ مجھے تکلیف نہیں دیں گی۔۔"
وہ آنکھیں گھما کر اکھڑے لہجے میں بولتا وہاں سے چلا گیا تھا۔سونیا نے اس کے جواب پر پیر پٹھکے تھے۔۔
دانین گہری نیند میں تھی جب نیچے سے آتی اونچی آوازیں سن کر وہ فورا اٹھ بیٹھی تھی۔اپنے باپ کی آواز سنتی وہ تیزی سے کمرے کا دروازہ کھولتی باہر نکلی تھی۔
"تم اور تمھاری ٹیم کسی کام کی نہیں ہے میری بیٹی کی ڈھنگ سے حفاظت بھی نہیں کرسکتے۔۔"
آغا خان کی اونچی آواز سارے گھر میں گونج رہی تھی۔اس نے آنکھیں پھیلا کر انھیں دیکھا تھا۔
"سر میم نے کہا تھا وہ باہر جانا چاہتی ہیں اور ہمیں کسی نے نہیں بتایا تھا کہ بلڈ سے ان کا پینک اٹیک ٹریگر ہوجاتا ہے۔۔"
روحان حد درجہ پرسکون لہجے میں بولا تھا۔
"چٹاخ۔۔۔"
آغا خان نے غصے میں اس کے منہ پر تھپڑ مارا تھا۔دانین نے بےساختہ منہ پر ہاتھ رکھا تھا۔
روحان نے مٹھیاں بھینچتے سرخ نظروں سے آغا خان کو گھورا تھا۔
"مجھ سے زبان درازی کی کوشش بھی مت کرنا اپنی غلطی ایکسپٹ کرو۔۔"
آغا خان غصہ میں بولے تھے۔
"آئی کوئٹ۔۔"
روحان نے غصے سے بلو ٹوتھ نکالتے زمین پر پھینکا تھا۔دانین اس کی بات سنتی ساکت ہوگئی تھی۔
تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتی وہ نیچے اتری تھی۔
"بابا ان کی کوئی غلطی نہیں ہے وہ سب کچھ اچانک ہوا تھا۔"
وہ تیزی سے بولی تھی۔روحان نے ایک نظر اس پر ڈالی تھی۔
"جانے دو۔۔۔ آیا بڑا پتا نہیں خود کو سمجھتا کیا ہے۔۔ان جیسے لوگ ہمارے پیسوں پر پلتے ہیں اور ہمیں ہی آنکھیں دکھاتے ہیں۔۔"
آغا خان ہنکار بھرتے غصے میں بولے تھے۔
روحان ان کی بات سنتا رکا تھا۔آغا خان کی طرف مڑتے وہ دو قدم چلتا ان کے سامنے گیا تھا۔
ہلکی مسکان کے ساتھ انھیں دیکھتے اس نے اپنے کوٹ میں ہاتھ ڈالتے چیک بک نکالی تھی۔
"بلینک چیک ہے جتنا چاہیں بھر لیں۔۔یہ کام میں شوقیہ کرتا ہوں ورنہ اتنے پیسے ہیں میرے پاس آپ کو کھڑے کھڑے خرید سکتا ہوں۔۔"
روحان طنزیہ مسکراتا چیک ان کی طرف پھینکتا بولا تھا۔احساس اہانت سے آغا خان کا چہرہ سرخ سیب بن گیا تھا۔دانین آنکھیں پھیلائے کبھی اسے اور کبھی آغا خان کو دیکھ رہی تھی۔
"تم دفع ہوجاو میرے گھر سے۔۔"
آغا خان چیخے تھے۔
"شوق سے۔۔"
وہ ایک نظر پریشان کھڑی دانین پر ڈالتا مڑ گیا تھا۔
"بابا اس کی کوئی غلطی نہیں تھی۔۔آپ نے ایسا کیوں کیا۔۔"
وہ روحان کو جاتے دیکھ کر چیخی تھی۔آغا خان نے حیرانی سے اپنی بیٹی کو دیکھا تھا جو ان سے چیخ کر بات کر رہی تھی۔
"دانین اس شخص کو جانے دو میں نیو باڈی گارڈ ہائیر کر لوں گا۔۔"
آغا خان نے پیار سے اسے کہا تھا۔
"نہیں مجھے وہ ہی چاہیے۔۔"
وہ کانپتی آواز میں چیختی گہرے گہرے سانس لینے لگی تھی۔
"مجھے چھوئیں مت۔۔"
وہ آغان خان کا ہاتھ اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر لڑکھڑا کر پیچھے ہٹتی چیخ کر بولتی اپنے کمرے میں بھاگ گئی تھی۔پیچھے آغا خان اسے آواز دیتے رہے تھے لیکن وہ رکی نہیں تھی۔
"تم اور تمھاری ٹیم کسی کام کی نہیں ہے میری بیٹی کی ڈھنگ سے حفاظت بھی نہیں کرسکتے۔۔"
آغا خان کی اونچی آواز سارے گھر میں گونج رہی تھی۔اس نے آنکھیں پھیلا کر انھیں دیکھا تھا۔
"سر میم نے کہا تھا وہ باہر جانا چاہتی ہیں اور ہمیں کسی نے نہیں بتایا تھا کہ بلڈ سے ان کا پینک اٹیک ٹریگر ہوجاتا ہے۔۔"
روحان حد درجہ پرسکون لہجے میں بولا تھا۔
"چٹاخ۔۔۔"
آغا خان نے غصے میں اس کے منہ پر تھپڑ مارا تھا۔دانین نے بےساختہ منہ پر ہاتھ رکھا تھا۔
روحان نے مٹھیاں بھینچتے سرخ نظروں سے آغا خان کو گھورا تھا۔
"مجھ سے زبان درازی کی کوشش بھی مت کرنا اپنی غلطی ایکسپٹ کرو۔۔"
آغا خان غصہ میں بولے تھے۔
"آئی کوئٹ۔۔"
روحان نے غصے سے بلو ٹوتھ نکالتے زمین پر پھینکا تھا۔دانین اس کی بات سنتی ساکت ہوگئی تھی۔
تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتی وہ نیچے اتری تھی۔
"بابا ان کی کوئی غلطی نہیں ہے وہ سب کچھ اچانک ہوا تھا۔"
وہ تیزی سے بولی تھی۔روحان نے ایک نظر اس پر ڈالی تھی۔
"جانے دو۔۔۔ آیا بڑا پتا نہیں خود کو سمجھتا کیا ہے۔۔ان جیسے لوگ ہمارے پیسوں پر پلتے ہیں اور ہمیں ہی آنکھیں دکھاتے ہیں۔۔"
آغا خان ہنکار بھرتے غصے میں بولے تھے۔
روحان ان کی بات سنتا رکا تھا۔آغا خان کی طرف مڑتے وہ دو قدم چلتا ان کے سامنے گیا تھا۔
ہلکی مسکان کے ساتھ انھیں دیکھتے اس نے اپنے کوٹ میں ہاتھ ڈالتے چیک بک نکالی تھی۔
"بلینک چیک ہے جتنا چاہیں بھر لیں۔۔یہ کام میں شوقیہ کرتا ہوں ورنہ اتنے پیسے ہیں میرے پاس آپ کو کھڑے کھڑے خرید سکتا ہوں۔۔"
روحان طنزیہ مسکراتا چیک ان کی طرف پھینکتا بولا تھا۔احساس اہانت سے آغا خان کا چہرہ سرخ سیب بن گیا تھا۔دانین آنکھیں پھیلائے کبھی اسے اور کبھی آغا خان کو دیکھ رہی تھی۔
"تم دفع ہوجاو میرے گھر سے۔۔"
آغا خان چیخے تھے۔
"شوق سے۔۔"
وہ ایک نظر پریشان کھڑی دانین پر ڈالتا مڑ گیا تھا۔
"بابا اس کی کوئی غلطی نہیں تھی۔۔آپ نے ایسا کیوں کیا۔۔"
وہ روحان کو جاتے دیکھ کر چیخی تھی۔آغا خان نے حیرانی سے اپنی بیٹی کو دیکھا تھا جو ان سے چیخ کر بات کر رہی تھی۔
"دانین اس شخص کو جانے دو میں نیو باڈی گارڈ ہائیر کر لوں گا۔۔"
آغا خان نے پیار سے اسے کہا تھا۔
"نہیں مجھے وہ ہی چاہیے۔۔"
وہ کانپتی آواز میں چیختی گہرے گہرے سانس لینے لگی تھی۔
"مجھے چھوئیں مت۔۔"
وہ آغان خان کا ہاتھ اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر لڑکھڑا کر پیچھے ہٹتی چیخ کر بولتی اپنے کمرے میں بھاگ گئی تھی۔پیچھے آغا خان اسے آواز دیتے رہے تھے لیکن وہ رکی نہیں تھی۔
"وہ کل رات سے روم میں بند ہے کھانے کے لیے بھی روم نہیں کھول رہی۔۔"
ملی نے کھانے کی ٹرے ٹیبل پر رکھتے صوفے پر بیٹھے آغا خان کو کہا تھا جو آرام سے بیٹھے تھے۔دانین کے پینک اٹیک کا سن کر وہ شدید پریشان ہوگئے تھے تبھی اپنا بزنس ٹرپ شارٹ کرتے وہ رات کو ہی واپس آگئے تھے۔
"میں بات کرتا ہوں۔۔"
آغا خان نے سرد آہ بھرتے کہا تھا۔ملی نے سر جھٹکا تھا۔
"آپ نے اچھا نہیں کیا۔۔"
آغا خان اٹھے ہی تھے جب مقابل کی بات سنتے انھوں نے حیرانی سے ائبرو اچکاتے اسے دیکھا تھا۔
"میں نے کیا اچھا نہیں کیا ملائکہ ؟"
انھوں نے ملی کو گھورتے ہوئے بےحد سنجیدگی سے پوچھا تھا۔
"روحان کو تھپڑ مار کر یہاں سے نکال کر۔۔"
وہ آغا خان کی نظروں سے نظریں ملاتی بولی تھی۔اپنا پورا نام سن کر غصے سے وہ دانت ہیس کر رہ گئی تھی ایک عرصے سے کسی نے اسے اس نام سے نہیں بلایا تھا۔
"وہ ڈیزرو کرتا تھا۔۔"
وہ غصے میں بولے تھے۔
"وہ اس وقت ہمارے ساتھ نہیں تھا کیونکہ آپ کی بیٹی نے اسے ساتھ آنے سے منع کردیا تھا۔"
"اور سب سے حیران کن بات پتا ہے کیا ہے ؟ آپ کی بیٹی کو اس نے ریلکس کیا تھا۔۔اس کی آواز سن کر اس کا پینک اٹیک رکا تھا۔۔"
وہ بھی غصے میں بولی تھی۔ملائکہ عرف ملی دس سال کی عمر سے دانین کے ساتھ تھیں۔ملی دانین کے لیے ایک سرونٹ سے بڑھ کر تھیں۔۔جس کا اندازہ سب کو تھا۔
"کبھی دماغ سے بھی سوچ لیے کریں خان صاحب۔۔"
وہ ملامتی نظروں سے انھیں دیکھتی اپنے کمرے میں چلی گئی تھیں۔۔وہ کبھی ان سے ایسا نہ بولتی اگر وہ روحان کے ساتھ ایسا سلوک نہ کرتے۔۔
"دانین دروازہ کھولو۔۔"
ملائکہ کی بات پر وہ غصے سے سرخ پڑ گئے تھے ایک گہری سانس خارج کرتے اپنا غصہ قابو کرتے وہ تیزی سے اوپر دانین کے کمرے میں گئے تھے۔
"مجھے آپ سے بات نہیں کرنی۔۔"
وہ بھاری آواز میں بولی تھی۔
"اچھا ناراضگی مجھ سے ہے تو کھانے سے کونسی دشمنی ہے۔۔؟"
انھوں نے پریشانی سے پوچھا تھا۔
"مجھے کچھ نہیں سننا۔۔۔ آپ نے اس کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔۔میں آپ کو بتا رہی ہوں مجھے کوئی اور باڈی گارڈ اس کے علاوہ گھر کے اندر دکھائی دیا میں اپنے ہاتھوں سے اس کا گلا دبا دوں گی۔"
اس کی دھمکی ہر ناچاہتے ہوئے بھی آغا خان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی تھی۔
"میں اس مغرور شخص کو دوبارہ ہائیر نہیں کر رہا دانین۔۔"
وہ ایک دم سنجیدہ ہوتے روحان کے بارے میں سوچتے غصے سے بولے تھے۔
"جب تک آپ اسے واپس نہیں لائیں گے میں دروازہ نہیں کھولوں گی۔۔"
اس نے چیخ کر کہا تھا۔جوابا آغا خان نفی میں سر ہلاتے چلے گئے تھے۔ان کی انا کو کہا منظور تھا روحان کو دوبارہ ہائیر کرتے۔۔
ملی نے کھانے کی ٹرے ٹیبل پر رکھتے صوفے پر بیٹھے آغا خان کو کہا تھا جو آرام سے بیٹھے تھے۔دانین کے پینک اٹیک کا سن کر وہ شدید پریشان ہوگئے تھے تبھی اپنا بزنس ٹرپ شارٹ کرتے وہ رات کو ہی واپس آگئے تھے۔
"میں بات کرتا ہوں۔۔"
آغا خان نے سرد آہ بھرتے کہا تھا۔ملی نے سر جھٹکا تھا۔
"آپ نے اچھا نہیں کیا۔۔"
آغا خان اٹھے ہی تھے جب مقابل کی بات سنتے انھوں نے حیرانی سے ائبرو اچکاتے اسے دیکھا تھا۔
"میں نے کیا اچھا نہیں کیا ملائکہ ؟"
انھوں نے ملی کو گھورتے ہوئے بےحد سنجیدگی سے پوچھا تھا۔
"روحان کو تھپڑ مار کر یہاں سے نکال کر۔۔"
وہ آغا خان کی نظروں سے نظریں ملاتی بولی تھی۔اپنا پورا نام سن کر غصے سے وہ دانت ہیس کر رہ گئی تھی ایک عرصے سے کسی نے اسے اس نام سے نہیں بلایا تھا۔
"وہ ڈیزرو کرتا تھا۔۔"
وہ غصے میں بولے تھے۔
"وہ اس وقت ہمارے ساتھ نہیں تھا کیونکہ آپ کی بیٹی نے اسے ساتھ آنے سے منع کردیا تھا۔"
"اور سب سے حیران کن بات پتا ہے کیا ہے ؟ آپ کی بیٹی کو اس نے ریلکس کیا تھا۔۔اس کی آواز سن کر اس کا پینک اٹیک رکا تھا۔۔"
وہ بھی غصے میں بولی تھی۔ملائکہ عرف ملی دس سال کی عمر سے دانین کے ساتھ تھیں۔ملی دانین کے لیے ایک سرونٹ سے بڑھ کر تھیں۔۔جس کا اندازہ سب کو تھا۔
"کبھی دماغ سے بھی سوچ لیے کریں خان صاحب۔۔"
وہ ملامتی نظروں سے انھیں دیکھتی اپنے کمرے میں چلی گئی تھیں۔۔وہ کبھی ان سے ایسا نہ بولتی اگر وہ روحان کے ساتھ ایسا سلوک نہ کرتے۔۔
"دانین دروازہ کھولو۔۔"
ملائکہ کی بات پر وہ غصے سے سرخ پڑ گئے تھے ایک گہری سانس خارج کرتے اپنا غصہ قابو کرتے وہ تیزی سے اوپر دانین کے کمرے میں گئے تھے۔
"مجھے آپ سے بات نہیں کرنی۔۔"
وہ بھاری آواز میں بولی تھی۔
"اچھا ناراضگی مجھ سے ہے تو کھانے سے کونسی دشمنی ہے۔۔؟"
انھوں نے پریشانی سے پوچھا تھا۔
"مجھے کچھ نہیں سننا۔۔۔ آپ نے اس کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔۔میں آپ کو بتا رہی ہوں مجھے کوئی اور باڈی گارڈ اس کے علاوہ گھر کے اندر دکھائی دیا میں اپنے ہاتھوں سے اس کا گلا دبا دوں گی۔"
اس کی دھمکی ہر ناچاہتے ہوئے بھی آغا خان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی تھی۔
"میں اس مغرور شخص کو دوبارہ ہائیر نہیں کر رہا دانین۔۔"
وہ ایک دم سنجیدہ ہوتے روحان کے بارے میں سوچتے غصے سے بولے تھے۔
"جب تک آپ اسے واپس نہیں لائیں گے میں دروازہ نہیں کھولوں گی۔۔"
اس نے چیخ کر کہا تھا۔جوابا آغا خان نفی میں سر ہلاتے چلے گئے تھے۔ان کی انا کو کہا منظور تھا روحان کو دوبارہ ہائیر کرتے۔۔
"جلدی کرو لڑکے وہ خان پروفیسر پھر میرے پیچھے پڑ جائے گا۔۔"
نورے جو کنٹین سے چیزیں لے کر بیگ میں ڈالتی واپس مڑنے لگی تھی پیون کی بات سنتی وہ ایک دم چوکنا ہوئی تھی۔۔
پیون کے چائے پکڑ کر جانے کے بعد وہ تیزی سے جوس سٹال پر گئی تھی وہاں سے پیسے دے کر نمک پکڑتے وہ تیزی سے پیون کے پیچھے بھاگی تھی۔
"بات سنیں۔۔"
نورے نے پیون کو روکا تھا۔
"وہاں سر اکرم آپ کو بلا رہے ہیں۔۔"
وہ تیزی سے بولی تھی۔
"میں یہ چائے دے کر ان کے بات سن لوں گا۔۔"
پیون ماتھے پر بل ڈال کر بولا تھا۔
"وہ دیکھیں سر اکرم آپ کو بلا رہے ہیں۔۔"
اس نے ہاتھ کا اشارہ کیا تھا پیون کے گردن موڑنے پر اس نے تیزی سے نمک چائے میں انڈیل دیا تھا۔
"کہاں ہے لڑکی ؟؟ وہاں کوئی بھی نہیں ہے۔۔"
پیون نے تھوڑا غصے سے کہا تھا۔
"لگتا ہیں اب چلے گئے ہیں۔۔"
وہ تیزی سے مڑتی بھاگ گئی تھی۔پیون اسے گھورتا شازل کو چائے دینے چلا گیا تھا۔
شازل نے ابھی ایک گونٹ ہی بھرا تھا جب وہ فورا کی صورت اس کے منہ سے نکل گئی تھی۔اتنا گندا ٹیسٹ۔۔؟
"رکو یہ کہاں سے لے کر آئے ہو؟ اس میں لگتا ہے دودھ کی جگہ بھی نمک ڈالا ہوا ہے۔۔"
وہ غصے میں بولا تھا۔اس کے منہ کا سارا ذائقہ خراب ہوگیا تھا۔
"سر جی کیفے سے لے کر آیا ہوں۔۔"
پیون گھبراتے ہوئے بولا تھا۔
"ُپھر اس میں نمک کہاں سے آیا ؟"
وہ ائبرو اچکاتے سخت لہجے میں پوچھ رہا تھا۔
"سر جی ایک لڑکی نے راستے میں روکا تھا شاید اس نے شرارت کی ہوگی۔۔"
پیون نے سوچتے ہوئے بتایا۔۔
"نورے۔۔۔"
وہ غصے میں دانت پیس کر رہ گیا تھا۔
"اس لڑکی کو میرے آفس میں بھیجو۔۔"
وہ نورے کا نام اور اس کی کلاس پیون کو بتاتا بولا تھا جو جھٹ سر ہلا کر نکل گیا تھا۔
نورے شازل کے بلاوے پر گھبرا گئی تھی۔پیون سارا راستہ اسے گھورتا آیا تھا۔شازل کے آفس کے سامنے پہنچ کر وہ لب کاٹتی اندر داخل ہوئی تھی۔
"تم جاو یہاں سے۔۔"
نورے کو گھورتے شازل نے پیون کو اشارہ کیا تھا۔پیون کے جاتے ہی اپنی کرسی سے کھڑے ہوتے اس نے اپنی جیکٹ سے گن نکالی تھی۔
"ادھر آو۔۔"
گن کے اشارے سے شازل نے اسے میز کے پاس بلایا تھا۔نورے نے جھٹ سے سر نفی میں ہلایا تھا پنک سوٹ میں وہ سر ہلاتی معصوم بچی لگ رہی تھی۔
"سنائی نہیں دیا میں نے کہا ادھر آو۔۔"
شازل کے تیز آواز میں بولنے پر وہ مردہ قدم اٹھاتی اس کے قریب گئی تھی۔
"تم نے میری چائے میں نمک میں ڈالا ہے۔۔اب تم ہی یہ چائے پیو گی۔۔"
نورے کے قریب آنے پر اس نے میز پت پڑی چائے کی طرف اشارہ کیا تھا۔
"ن۔۔نہیں میں نے کچھ نہیں کیا اور مجھے چائے پسند نہیں۔۔"
اس نے جھٹ سے بولا تھا۔نمک سے بھری چائے پینے کا سوچ کر اسے جھرجھری محسوس ہورہی تھی۔
"میرا دماغ خراب کرنے کی کوشش مت کرو۔۔فورا کپ اٹھاو۔۔"
گن سے اپنا ماتھا مسلتے اس نے سخت لہجے میں کہا تھا۔نورے نے لب کچلے تھے۔
"میں کسی کا جھوٹا نہیں پیتی۔۔"
وہ چائے کے کپ کو گھورتی فورا بولی تھی۔
"میرے تین تک گننے سے پہلے یہ کپ اٹھا لو ورنہ جس طریقے سے میں تمھیں خود چائے پلاوں گا وہ تمھیں پسند نہیں آئے گا۔۔"
وہ کرسی سے اٹھتا کپ اس کی طرف کرتا سختی سے بولا تھا۔
نورے نے ڈر کر فورا کپ اٹھا لیا تھا اس غنڈا کا کیا بھروسہ تھا ؟ کچھ بھی کرجاتا۔۔
"اب جلدی سے چائے پیو۔۔"
شازل غصے سے اسے گھورتا بول رہا تھا نورے نے آنکھیں زور سے میچ کر ایک ہی سانس میں ساری چائے اپنی اندر انڈیل لی تھی۔نمک کا ذائقہ محسوس کرکے اس کا جی متلانے لگا تھا۔بری طرح کھانستے اس نے میز پر پڑا شازل کا جھوٹا پانی کا گلاس پکڑ کر ہونٹوں سے لگا لیا تھا۔
اسے چائے پیلا کر شازل کو سکون مل گیا تھا۔چائے کا ذائقہ کتنا خراب تھا اسے ایک گھونٹ سے اندازہ ہو گیا تھا۔
"آپ بہت ظالم اور پتھر دل ہیں۔"
وہ غصے سے شازل کو گھور کر بولتی وہاں سے بھاگ گئی تھی۔آفس سے نکلتے اس کا ٹکراو بری طرح سونیا سے ہوا تھا۔
"اندھی ہو ؟ "
سونیا اس کا سرخ چہرہ دیکھ کر چیخ کر بولی تھی۔نورے اسے اگنور کرتی کیفے کی طرف بھاگی تھی۔ابھی وہ جلد سے جلد کچھ میٹھا کھا کر اپنے منہ کا ذائقہ ٹھیک کرنا چاہتی تھی۔
ایک نظر دروازے سے ہلکا سا مسکراتے شازل کو دیکھ کر وہ کچھ اور ہی سمجھی تھی۔مٹھیاں بھینچتی تیزی سے وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔
نورے جو کنٹین سے چیزیں لے کر بیگ میں ڈالتی واپس مڑنے لگی تھی پیون کی بات سنتی وہ ایک دم چوکنا ہوئی تھی۔۔
پیون کے چائے پکڑ کر جانے کے بعد وہ تیزی سے جوس سٹال پر گئی تھی وہاں سے پیسے دے کر نمک پکڑتے وہ تیزی سے پیون کے پیچھے بھاگی تھی۔
"بات سنیں۔۔"
نورے نے پیون کو روکا تھا۔
"وہاں سر اکرم آپ کو بلا رہے ہیں۔۔"
وہ تیزی سے بولی تھی۔
"میں یہ چائے دے کر ان کے بات سن لوں گا۔۔"
پیون ماتھے پر بل ڈال کر بولا تھا۔
"وہ دیکھیں سر اکرم آپ کو بلا رہے ہیں۔۔"
اس نے ہاتھ کا اشارہ کیا تھا پیون کے گردن موڑنے پر اس نے تیزی سے نمک چائے میں انڈیل دیا تھا۔
"کہاں ہے لڑکی ؟؟ وہاں کوئی بھی نہیں ہے۔۔"
پیون نے تھوڑا غصے سے کہا تھا۔
"لگتا ہیں اب چلے گئے ہیں۔۔"
وہ تیزی سے مڑتی بھاگ گئی تھی۔پیون اسے گھورتا شازل کو چائے دینے چلا گیا تھا۔
شازل نے ابھی ایک گونٹ ہی بھرا تھا جب وہ فورا کی صورت اس کے منہ سے نکل گئی تھی۔اتنا گندا ٹیسٹ۔۔؟
"رکو یہ کہاں سے لے کر آئے ہو؟ اس میں لگتا ہے دودھ کی جگہ بھی نمک ڈالا ہوا ہے۔۔"
وہ غصے میں بولا تھا۔اس کے منہ کا سارا ذائقہ خراب ہوگیا تھا۔
"سر جی کیفے سے لے کر آیا ہوں۔۔"
پیون گھبراتے ہوئے بولا تھا۔
"ُپھر اس میں نمک کہاں سے آیا ؟"
وہ ائبرو اچکاتے سخت لہجے میں پوچھ رہا تھا۔
"سر جی ایک لڑکی نے راستے میں روکا تھا شاید اس نے شرارت کی ہوگی۔۔"
پیون نے سوچتے ہوئے بتایا۔۔
"نورے۔۔۔"
وہ غصے میں دانت پیس کر رہ گیا تھا۔
"اس لڑکی کو میرے آفس میں بھیجو۔۔"
وہ نورے کا نام اور اس کی کلاس پیون کو بتاتا بولا تھا جو جھٹ سر ہلا کر نکل گیا تھا۔
نورے شازل کے بلاوے پر گھبرا گئی تھی۔پیون سارا راستہ اسے گھورتا آیا تھا۔شازل کے آفس کے سامنے پہنچ کر وہ لب کاٹتی اندر داخل ہوئی تھی۔
"تم جاو یہاں سے۔۔"
نورے کو گھورتے شازل نے پیون کو اشارہ کیا تھا۔پیون کے جاتے ہی اپنی کرسی سے کھڑے ہوتے اس نے اپنی جیکٹ سے گن نکالی تھی۔
"ادھر آو۔۔"
گن کے اشارے سے شازل نے اسے میز کے پاس بلایا تھا۔نورے نے جھٹ سے سر نفی میں ہلایا تھا پنک سوٹ میں وہ سر ہلاتی معصوم بچی لگ رہی تھی۔
"سنائی نہیں دیا میں نے کہا ادھر آو۔۔"
شازل کے تیز آواز میں بولنے پر وہ مردہ قدم اٹھاتی اس کے قریب گئی تھی۔
"تم نے میری چائے میں نمک میں ڈالا ہے۔۔اب تم ہی یہ چائے پیو گی۔۔"
نورے کے قریب آنے پر اس نے میز پت پڑی چائے کی طرف اشارہ کیا تھا۔
"ن۔۔نہیں میں نے کچھ نہیں کیا اور مجھے چائے پسند نہیں۔۔"
اس نے جھٹ سے بولا تھا۔نمک سے بھری چائے پینے کا سوچ کر اسے جھرجھری محسوس ہورہی تھی۔
"میرا دماغ خراب کرنے کی کوشش مت کرو۔۔فورا کپ اٹھاو۔۔"
گن سے اپنا ماتھا مسلتے اس نے سخت لہجے میں کہا تھا۔نورے نے لب کچلے تھے۔
"میں کسی کا جھوٹا نہیں پیتی۔۔"
وہ چائے کے کپ کو گھورتی فورا بولی تھی۔
"میرے تین تک گننے سے پہلے یہ کپ اٹھا لو ورنہ جس طریقے سے میں تمھیں خود چائے پلاوں گا وہ تمھیں پسند نہیں آئے گا۔۔"
وہ کرسی سے اٹھتا کپ اس کی طرف کرتا سختی سے بولا تھا۔
نورے نے ڈر کر فورا کپ اٹھا لیا تھا اس غنڈا کا کیا بھروسہ تھا ؟ کچھ بھی کرجاتا۔۔
"اب جلدی سے چائے پیو۔۔"
شازل غصے سے اسے گھورتا بول رہا تھا نورے نے آنکھیں زور سے میچ کر ایک ہی سانس میں ساری چائے اپنی اندر انڈیل لی تھی۔نمک کا ذائقہ محسوس کرکے اس کا جی متلانے لگا تھا۔بری طرح کھانستے اس نے میز پر پڑا شازل کا جھوٹا پانی کا گلاس پکڑ کر ہونٹوں سے لگا لیا تھا۔
اسے چائے پیلا کر شازل کو سکون مل گیا تھا۔چائے کا ذائقہ کتنا خراب تھا اسے ایک گھونٹ سے اندازہ ہو گیا تھا۔
"آپ بہت ظالم اور پتھر دل ہیں۔"
وہ غصے سے شازل کو گھور کر بولتی وہاں سے بھاگ گئی تھی۔آفس سے نکلتے اس کا ٹکراو بری طرح سونیا سے ہوا تھا۔
"اندھی ہو ؟ "
سونیا اس کا سرخ چہرہ دیکھ کر چیخ کر بولی تھی۔نورے اسے اگنور کرتی کیفے کی طرف بھاگی تھی۔ابھی وہ جلد سے جلد کچھ میٹھا کھا کر اپنے منہ کا ذائقہ ٹھیک کرنا چاہتی تھی۔
ایک نظر دروازے سے ہلکا سا مسکراتے شازل کو دیکھ کر وہ کچھ اور ہی سمجھی تھی۔مٹھیاں بھینچتی تیزی سے وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔
"اتنے غصے میں کیوں ہو روحان ؟"
عادل نے حیرانی سے اس سے پوچھا تھا۔جو غصے میں سینڈ بیگ بھی پھاڑ چکا تھا۔صبح صبح اس نے عادل کو کال کرکے بلایا تھا۔اور کوئی دوست نہیں تھا جس سے وہ مشورہ لے پاتا تبھی اس نے عادل کو بلانے کا سوچان۔
"بس کسی نے دماغ خراب کر دیا ہے اس پر غصہ ہے۔۔"
وہ اپنے پسینے سے بھیگے بالوں میں ہاتھ پھیرتا بولا تھا۔
"آہ تمھاری گال پر انگلیوں کے نشان ہیں۔۔لگتا ہے کسی نازک حسینا کا تم سے ٹکراو ہوا ہے۔۔"
اپنی اور بریرہ کی ملاقات یاد کرتا وہ ہنس کر بولا تھا۔روحان نے کھاجانے والی نظروں سے اسے گھورا تھا۔
"اپنی بکواس بند رکھو عادل۔۔"
وہ پانی کی بوتل اٹھا کر منہ سے لگاتا بولا تھا۔
"تم تو ایکچولی کسی مسٹری جوب پر تھے نہ پھر اچانک واپس کیسے آگئے ؟"
عادل نے سنجیدہ ہوتے پوچھا تھا۔
"میں نے چھوڑ دی۔۔"
وہ پانی کی بوتل پر گرفت مضبوط کرتا بولا تھا۔عادل پرسوچ نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"تم پھر اپنی مدر کے ساتھ بزنس کیوں نہیں سنبھال لیتے ؟ یہ جوبز تو تم کرنے سے رہے آرام سے اپنا بزنس سنبھالو اور موجیں کرو۔۔"
عادل نے کرسی پر بیٹھتے اسے مفت میں مشور دیا تھا۔
"دو منٹ کے لیے تمھاری زبان بند نہیں ہوسکتی ؟"
وہ خاصا تپ کر بولا تھا۔
"اوکے برو۔۔"
وہ چپ کرتا آرام سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا تھا۔
"تمھیں کیسے پتا چلا تھا تم بریرہ کو پسند کرتے ہو؟"
اس نے اچانک پوچھا تھا۔جب سے جوب چھوڑ کر آیا تھا ایک عجیب سی بےچینی تھی۔بار بار آنکھوں کے آگے دانین کا چہرہ آرہا تھا۔
"اہمم۔۔ اہمم۔۔ لگتا ہے ہمارے لڑکے کو بھی کوئی لڑکی پسند آگئی ہے۔۔"
وہ طنزیہ ہنس کر بولا تھا۔روحان نے پانی کی بوتل اٹھا کر اس کے چہرے کی طرف پھینکی تھی جو ایک ہی جھٹکے میخ عادل کیچ کر چکا تھا۔
"شٹ اپ جو پوچھا ہے اس کا جواب دو ورنہ میں بریرہ سے خود پرسنلی پوچھ لوں گا۔۔"
روحان کی بات نے اسے غصہ دلا دیا تھا۔وہ ایک دم کھڑا ہوا تھا۔
"میری بیوی سے دور رہا کرو۔۔"
اس نے سنجیدگی سے روحان کو اگنور کیا تھا جس نے سر جھٹکا تھا۔
"جو پوچھا ہے اس کا سیدھا سیدھا جواب دو۔۔"
روحان نے آنکھیں گھماتے کہا تھا۔
"جب آپ کسی کو چاہتے ہیں تو آپ کا دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے۔۔مقابل کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنے کا دل کرتا ہے۔۔کوئی غیر اس کے ساتھ یا پاس ہو تو برداشت نہیں ہوتا۔۔"
عادل سادہ سے الفاظ میں جوابا بولا تھا۔
"اوکے اب جاو۔۔"
روحان نے ہاتھ کے اشارے سے اسے جانے کا کہا تھا۔عادل آنکھیں گھماتا بوتل واپس اس کی طرف پھینکتا مڑ گیا تھا۔وہ ڈیوٹی پر جانے سے پہلے اس سے ملنے آیا تھا۔اب وہ سیدھا پولیس اسٹیشن گیا تھا۔
عادل نے حیرانی سے اس سے پوچھا تھا۔جو غصے میں سینڈ بیگ بھی پھاڑ چکا تھا۔صبح صبح اس نے عادل کو کال کرکے بلایا تھا۔اور کوئی دوست نہیں تھا جس سے وہ مشورہ لے پاتا تبھی اس نے عادل کو بلانے کا سوچان۔
"بس کسی نے دماغ خراب کر دیا ہے اس پر غصہ ہے۔۔"
وہ اپنے پسینے سے بھیگے بالوں میں ہاتھ پھیرتا بولا تھا۔
"آہ تمھاری گال پر انگلیوں کے نشان ہیں۔۔لگتا ہے کسی نازک حسینا کا تم سے ٹکراو ہوا ہے۔۔"
اپنی اور بریرہ کی ملاقات یاد کرتا وہ ہنس کر بولا تھا۔روحان نے کھاجانے والی نظروں سے اسے گھورا تھا۔
"اپنی بکواس بند رکھو عادل۔۔"
وہ پانی کی بوتل اٹھا کر منہ سے لگاتا بولا تھا۔
"تم تو ایکچولی کسی مسٹری جوب پر تھے نہ پھر اچانک واپس کیسے آگئے ؟"
عادل نے سنجیدہ ہوتے پوچھا تھا۔
"میں نے چھوڑ دی۔۔"
وہ پانی کی بوتل پر گرفت مضبوط کرتا بولا تھا۔عادل پرسوچ نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"تم پھر اپنی مدر کے ساتھ بزنس کیوں نہیں سنبھال لیتے ؟ یہ جوبز تو تم کرنے سے رہے آرام سے اپنا بزنس سنبھالو اور موجیں کرو۔۔"
عادل نے کرسی پر بیٹھتے اسے مفت میں مشور دیا تھا۔
"دو منٹ کے لیے تمھاری زبان بند نہیں ہوسکتی ؟"
وہ خاصا تپ کر بولا تھا۔
"اوکے برو۔۔"
وہ چپ کرتا آرام سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا تھا۔
"تمھیں کیسے پتا چلا تھا تم بریرہ کو پسند کرتے ہو؟"
اس نے اچانک پوچھا تھا۔جب سے جوب چھوڑ کر آیا تھا ایک عجیب سی بےچینی تھی۔بار بار آنکھوں کے آگے دانین کا چہرہ آرہا تھا۔
"اہمم۔۔ اہمم۔۔ لگتا ہے ہمارے لڑکے کو بھی کوئی لڑکی پسند آگئی ہے۔۔"
وہ طنزیہ ہنس کر بولا تھا۔روحان نے پانی کی بوتل اٹھا کر اس کے چہرے کی طرف پھینکی تھی جو ایک ہی جھٹکے میخ عادل کیچ کر چکا تھا۔
"شٹ اپ جو پوچھا ہے اس کا جواب دو ورنہ میں بریرہ سے خود پرسنلی پوچھ لوں گا۔۔"
روحان کی بات نے اسے غصہ دلا دیا تھا۔وہ ایک دم کھڑا ہوا تھا۔
"میری بیوی سے دور رہا کرو۔۔"
اس نے سنجیدگی سے روحان کو اگنور کیا تھا جس نے سر جھٹکا تھا۔
"جو پوچھا ہے اس کا سیدھا سیدھا جواب دو۔۔"
روحان نے آنکھیں گھماتے کہا تھا۔
"جب آپ کسی کو چاہتے ہیں تو آپ کا دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے۔۔مقابل کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنے کا دل کرتا ہے۔۔کوئی غیر اس کے ساتھ یا پاس ہو تو برداشت نہیں ہوتا۔۔"
عادل سادہ سے الفاظ میں جوابا بولا تھا۔
"اوکے اب جاو۔۔"
روحان نے ہاتھ کے اشارے سے اسے جانے کا کہا تھا۔عادل آنکھیں گھماتا بوتل واپس اس کی طرف پھینکتا مڑ گیا تھا۔وہ ڈیوٹی پر جانے سے پہلے اس سے ملنے آیا تھا۔اب وہ سیدھا پولیس اسٹیشن گیا تھا۔
جاری ہے۔۔