Professor Khan Episode 9 Season 2 by Zanoor Writes
Professor Khan
Zanoor Writes
Season 2
Episode 9
(Series 2 in Professor Shah Novel)
وہ دو دن سے یونیورسٹی نہیں جا رہی تھی۔آج بھی وہ بےجان انداز میں اٹھ کر تیار ہوئی تھی۔شارٹ شرٹ اور کھلا ٹرازر پہنے اس نے اپنے بالوں کو پونی میں مقید کیاہوا تھا آگے سے چند آوارہ لٹیں اس کے چہرے پر جھول رہی تھیں۔
ناشتہ کرتی وہ خاموشی سے یونیورسٹی کے لیے روانہ ہوگئی تھی۔فاطمہ بیگم سےسامنا کرنے سےوہ کترا رہی تھی بلکہ ان کی شکل دیکھنا بھی اسے پسند نہیں تھا۔
شیڈیول میں شازل کا لیکچر دیکھتے وہ لب بھینچ کر کلاس میں جاکر بیٹھ گئی تھی۔اسے نہ جانے دو دن نہ دیکھنے کی بےچینی تھی یا کیا وجہ وہ بہت بےچین تھی۔
شازل بھی دو دن کے بعد آج یونیورسٹی آیا تھا اسے کافی تیز بخار تھا جو کل ہی ہلکا ہوا تھا۔محب خان کو شک تھا کہ شازل کا یونیورسٹی میں ہونے والے حادثے میں ہاتھ ہے مگر شازل نے ڈاکٹر کو سختی سے اپنے زخم کے بارے میں کسی کو بھی خبر نہ ہونے کی دھمکی دی تھی تبھی محب خان اور گل خان کو اس کے بخار کی اصل وجہ بھی پتا نہیں چلی تھی۔
شازل کو کلاس میں داخل ہوتے دیکھ کر اس نے پین سے کتاب پر ویسے ہی لکریں لگانا شروع کردی تھیں۔بس ایک سرسری نظر شازل پر ڈالی تھی جو سکائی بلیوں کلر کی شرٹ اور ڈارک بلیو جینز کے ساتھ کوٹ پہنے ہوئے انتہائی ڈیشنگ لگ رہا تھا۔
اس کا بے ساختہ دل دھڑکا تھا۔اپنا سر جھٹکتے اس نے نظریں جھکا لی تھیں۔
"میں آپ لوگوں کو ٹاپک دوں گا اس پر دو لوگوں کو پریزینٹیشن دینی ہوگی۔۔میں ٹاپک سی آر کو سینڈ کر رہا ہوں سب بچے اپنے پئیر بنا کر ٹاک ڈیسائیڈ کرکے سی آر کو بتا دے۔۔اور سی آر اس کی لسٹ مجھے شام تک مل جائے۔۔"
شازل نے اپنی بھاری آواز میں سب کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا تھا۔نورے کا جھکا ہوا سر دیکھ کر اس نے کوئی تاثرات ظاہر نہیں کیے تھے۔
سب سٹوڈنٹس تیزی سے موبائل نکال کر اپنا پارٹنر اور ٹاپک ڈیسائیڈ کرنے لگے تھے۔نورے ویسے ہی موبائل نکال کر سکرالنگ کرنے لگی تھی۔
سونیا نے شازل سے کچھ پوچھنے کے لیے بلایا تھا۔شازل اس کے ٹیبل کے پاس جاکر اسے سمجھانے لگا تھا۔
نورے نے کن اکھیوں سے پیچھے مڑتے شازل کو دیکھا تھا جو سونیا کے پاس کھڑا اسے ٹاپک سمجھا رہا تھا۔
"یو آر آ گڈ سٹوڈنٹ سونیا۔۔"
"ویل ڈن۔۔"
اس کے منہ سے سونیا کی تعریف سن کر نورے کا چہرہ ہلکا ہلکا غصے سے گلابی پڑنے لگا تھا۔
"گڈ سٹوڈنٹ مائی فٹ۔۔"
وہ غصے میں بڑبڑائی تھی۔اپنی مٹھیاں زور سے بھینچے وہ ان کی ہی باتیں سننے کی کوشش کر رہی تھی۔
"تھینک یو سر۔۔ میں نے ریسنٹلی ایک پریزینٹیشن بھی پری پئیر کی ہے کیا آپ وہ دیکھیں گے۔۔"
سونیا ایک نظر نورے پر ڈالتی تمسخرانہ انداز میں بولی تھی۔
"وائے ناٹ۔۔تم اس لیکچر کے بعد میرے آفس آجانا۔۔"
شازل نورے کی نظریں خود پر محسوس کرتا سونیا کو دیکھ کر بولا تھا۔
"غنڈا، بدتمیز۔۔میرے آفس آجانا۔۔"
وہ غصے میں منہ بناتی اس کے انداز میں بولی تھی۔اس کا ہاتھ بےساختہ اپنی ٹھوڑی کے نشان پر گیا تھا۔جو اسے داغ لگتا تھا۔جس کی وجہ صرف و صرف چالاک لومڑی سونیا تھی۔
وہ ابھی انھیں سوچوں میں گم تھی جب اس کے آگے بیٹھے لڑکے نے اس کی جانب مڑتے اسے بلایا تھا۔
"کیا آپ میری پارٹنر بنیں گی ؟"
وہ لڑکا بالوں میں ہاتھ پھیرتا پوچھ رہا تھا۔شازل کی نظروں کا زاویہ بےساختہ نورے اور اس لڑکے کی جانب مڑ گیا تھا۔
"وائے ناٹ۔۔"
نورے نے زبردستی ہونٹوں پر مسکراہٹ کھینچتے کہا تھا۔شازل نے بےساختہ اپنی مٹھیاں بھینچی تھیں۔
"سر ایکسکیوز می سر۔۔"
سونیا کے زور سے بلانے پر وہ سر جھٹکتا سونیا کی جانب مڑا تھا۔
"باقی سب کچھ ہم آفس میں ڈسکس کر لیں گے۔۔"
وہ سونیا کو بولتا اپنے ڈائس کے پاس کھڑا ہوگیا تھا۔جبکہ اب کی باری نورے کی بجائے وہ بےچین ہوگیا تھا۔
ناشتہ کرتی وہ خاموشی سے یونیورسٹی کے لیے روانہ ہوگئی تھی۔فاطمہ بیگم سےسامنا کرنے سےوہ کترا رہی تھی بلکہ ان کی شکل دیکھنا بھی اسے پسند نہیں تھا۔
شیڈیول میں شازل کا لیکچر دیکھتے وہ لب بھینچ کر کلاس میں جاکر بیٹھ گئی تھی۔اسے نہ جانے دو دن نہ دیکھنے کی بےچینی تھی یا کیا وجہ وہ بہت بےچین تھی۔
شازل بھی دو دن کے بعد آج یونیورسٹی آیا تھا اسے کافی تیز بخار تھا جو کل ہی ہلکا ہوا تھا۔محب خان کو شک تھا کہ شازل کا یونیورسٹی میں ہونے والے حادثے میں ہاتھ ہے مگر شازل نے ڈاکٹر کو سختی سے اپنے زخم کے بارے میں کسی کو بھی خبر نہ ہونے کی دھمکی دی تھی تبھی محب خان اور گل خان کو اس کے بخار کی اصل وجہ بھی پتا نہیں چلی تھی۔
شازل کو کلاس میں داخل ہوتے دیکھ کر اس نے پین سے کتاب پر ویسے ہی لکریں لگانا شروع کردی تھیں۔بس ایک سرسری نظر شازل پر ڈالی تھی جو سکائی بلیوں کلر کی شرٹ اور ڈارک بلیو جینز کے ساتھ کوٹ پہنے ہوئے انتہائی ڈیشنگ لگ رہا تھا۔
اس کا بے ساختہ دل دھڑکا تھا۔اپنا سر جھٹکتے اس نے نظریں جھکا لی تھیں۔
"میں آپ لوگوں کو ٹاپک دوں گا اس پر دو لوگوں کو پریزینٹیشن دینی ہوگی۔۔میں ٹاپک سی آر کو سینڈ کر رہا ہوں سب بچے اپنے پئیر بنا کر ٹاک ڈیسائیڈ کرکے سی آر کو بتا دے۔۔اور سی آر اس کی لسٹ مجھے شام تک مل جائے۔۔"
شازل نے اپنی بھاری آواز میں سب کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا تھا۔نورے کا جھکا ہوا سر دیکھ کر اس نے کوئی تاثرات ظاہر نہیں کیے تھے۔
سب سٹوڈنٹس تیزی سے موبائل نکال کر اپنا پارٹنر اور ٹاپک ڈیسائیڈ کرنے لگے تھے۔نورے ویسے ہی موبائل نکال کر سکرالنگ کرنے لگی تھی۔
سونیا نے شازل سے کچھ پوچھنے کے لیے بلایا تھا۔شازل اس کے ٹیبل کے پاس جاکر اسے سمجھانے لگا تھا۔
نورے نے کن اکھیوں سے پیچھے مڑتے شازل کو دیکھا تھا جو سونیا کے پاس کھڑا اسے ٹاپک سمجھا رہا تھا۔
"یو آر آ گڈ سٹوڈنٹ سونیا۔۔"
"ویل ڈن۔۔"
اس کے منہ سے سونیا کی تعریف سن کر نورے کا چہرہ ہلکا ہلکا غصے سے گلابی پڑنے لگا تھا۔
"گڈ سٹوڈنٹ مائی فٹ۔۔"
وہ غصے میں بڑبڑائی تھی۔اپنی مٹھیاں زور سے بھینچے وہ ان کی ہی باتیں سننے کی کوشش کر رہی تھی۔
"تھینک یو سر۔۔ میں نے ریسنٹلی ایک پریزینٹیشن بھی پری پئیر کی ہے کیا آپ وہ دیکھیں گے۔۔"
سونیا ایک نظر نورے پر ڈالتی تمسخرانہ انداز میں بولی تھی۔
"وائے ناٹ۔۔تم اس لیکچر کے بعد میرے آفس آجانا۔۔"
شازل نورے کی نظریں خود پر محسوس کرتا سونیا کو دیکھ کر بولا تھا۔
"غنڈا، بدتمیز۔۔میرے آفس آجانا۔۔"
وہ غصے میں منہ بناتی اس کے انداز میں بولی تھی۔اس کا ہاتھ بےساختہ اپنی ٹھوڑی کے نشان پر گیا تھا۔جو اسے داغ لگتا تھا۔جس کی وجہ صرف و صرف چالاک لومڑی سونیا تھی۔
وہ ابھی انھیں سوچوں میں گم تھی جب اس کے آگے بیٹھے لڑکے نے اس کی جانب مڑتے اسے بلایا تھا۔
"کیا آپ میری پارٹنر بنیں گی ؟"
وہ لڑکا بالوں میں ہاتھ پھیرتا پوچھ رہا تھا۔شازل کی نظروں کا زاویہ بےساختہ نورے اور اس لڑکے کی جانب مڑ گیا تھا۔
"وائے ناٹ۔۔"
نورے نے زبردستی ہونٹوں پر مسکراہٹ کھینچتے کہا تھا۔شازل نے بےساختہ اپنی مٹھیاں بھینچی تھیں۔
"سر ایکسکیوز می سر۔۔"
سونیا کے زور سے بلانے پر وہ سر جھٹکتا سونیا کی جانب مڑا تھا۔
"باقی سب کچھ ہم آفس میں ڈسکس کر لیں گے۔۔"
وہ سونیا کو بولتا اپنے ڈائس کے پاس کھڑا ہوگیا تھا۔جبکہ اب کی باری نورے کی بجائے وہ بےچین ہوگیا تھا۔
سب کے کلاس سے نکلتے ہی وہ اک اچٹتی نگاہ مسکراتی ہوئی سونیا اور لیپ ٹاپ بند کرتے شازل پر ڈالتی باہر نکل گئی تھی۔
کلاس سے نکلتے تھوڑے آگے جاکر وہ ایک جگہ کھڑی ہوگئی تھی۔جب وہ ہی لڑکا اس کے پاس آیا تھا جو اس کا پارٹنر بننے کا پوچھ رہا تھا اس کا نام اعمار تھا۔
"ہم کب سے تیاری سٹارٹ کریں گے۔۔؟"
اس لڑکے نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے مسکرا کر پوچھا تھا۔نورے نے ایک نگاہ کلاس روم کے دروازے پر ڈال کر سامنے کھڑے لڑکے پر ڈالی تھی۔
"مجھے سٹڈیز میں کوئی دلچسپی نہیں ہے جو آپ کو ٹاپک اچھا لگے وہ بتا دیجیے گا میں اسے دیکھ لوں گی۔۔"
وہ سنجیدگی سے مقابل کو دیکھتے بولی تھی اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا مقابل کو اپنے ساتھ زیادہ فری ہونے دینے کا۔
"اوہ۔۔ اوکے۔۔آپ کا نمبر مل سکتا ہے میں رات کو میسج کردوں گا۔"
اعمار نے اپنا موبائل کا لاک کھولتے پوچھا تھا۔نورے نے سر ہلاتے اس کا موبائل پکڑ کر اپنا نمبر ٹائپ کیا تھا۔
کلاس روم سے سونیا کے ہمراہ باہر نکلتے نورے پر نظر پڑتے وہ نظروں کا زاویہ بدلنے لگا تھا جب اچانک اس کے ساتھ کھڑے لڑکے پر نظر پڑتے اس نے اپنے جبڑے بھینچ لیے تھے۔
ایک کٹیلی نگاہ دونوں پر ڈالتا وہ سونیا کے ساتھ وہاں سے گزر گیا تھا۔نورے نے اعمار کو موبائل پکڑاتے ایک نظر شازل اور سونیا کو جاتے دیکھ کر مقابل سے ایکسکیوز کیا تھا۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ان کے پیچھے چل پڑی تھی۔اپنے گلابی لبوں کو کاٹتی اسے خود سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کررپی ہے ؟ اور کیوں کر رہی ہے۔۔؟
شازل کے آفس کے باہر پہنچ کر وہ دروازے سے کان لگا کر کھڑی ہوگئی تھی۔اسے اندر سے ہلکی ہلکی آوازیں آرہی تھیں۔سونیا کے ہنسنے کی آواز سن کر اس نے منہ بگاڑا تھا۔
"چالاک لومڑی۔۔چڑیل۔۔جن کی طرح ہنس رہی ہے۔۔"
وہ ماتھے پر بل ڈالے منہ بنا کر بول رہی تھی۔جب اچانک دروازہ کھولا تھا اور وہ جو دروازے کے سہارے تھی اس کے ساتھ ہی زمین بوس ہوئی تھی۔
بےساختہ ایک سسکی اس کے منہ سے نکلی تھی۔
"ہائے مرگئے۔۔"
اس نے آنکھیں میچتے کہا تھا۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو نورے ؟"
سونیا کی چنگھارتی آواز سن کر اس نے دھیرے سے آنکھیں کھول کر دیکھا تھا اس کے بالکل سامنے شازل اپنے سینے ہر بازو باندھے چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
شازل نے اپنے لبوں کو دبا کر بمشکل اپنی مسکراہٹ روکی تھی۔کسی کی موجودگی محسوس کرتے اس نے اچانک دروازہ کھولا تھا جب نورے نیچے گری تھی۔
"م۔۔میں پروفیسر سے بات کرنے آئی تھی۔"
وہ ایک دم اپنے قدموں پر کھڑی ہوتی اپنے ہاتھوں کو جھاڑتی سر ہلا کر بولی تھی۔شازل نے نفی میں سر ہلایا تھا سونیا نے غصےسے چھوٹی آنکھیں کرکے نورے کو گھورا تھا جس نے شازل کے ساتھ اس کا ٹائم ڈسٹرب کیا تھا۔
"کیا بات کرنی نورے ؟"
شازل نے ائبرو اچکاتے پوچھا تھا۔
"وہ مجھے ٹاپک کے بارے میں ڈسکشن کرنی تھی لیکن لگتا ہے آپ بہت بزی ہیں میں بعد میں آجاوں گی۔۔"
وہ لب بھینچ کر سلگتے لہجے میں سونیا پر ایک نظر ڈالتے بنا شازل کا جواب سنے وہاں سے نکل گئی تھی۔
شازل نے اس کے جانے کے بعد سونیا کو بھی فارغ کردیا تھا۔اسے تھکن محسوس ہورہی تھی۔وہ کرسی پر بیٹھتا اس کی پشتسے ٹیک لگاتا نورے کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔
اسے اپنے کیے پر پچھتاوا تھا اسے احساس تھا کہ اسے نورے کا گلا دبانا نہیں چاہیے وہ اس سے بات بھی کرنا چاہتا تھا لیکن اپنی انا کی وجہ سے وہ رکا ہوا تھا۔
یونیورسٹی میں اب پولیس نہیں تھی لیکن تحقیقات ہورہی تھیں۔کسی کا بھی شک اس کی طرف نہیں تھا جس پر وہ پرسکون تھا۔اب اس کا نیکسٹ ٹارگٹ ایس ایس پی فراز شیخ تھا اس کا ٹرانسفر کسی اور شہر میں ہوچکا تھا وہ ساری انفارمیشن نکلوا چکا تھا لیکن وہ اچانک یہاں سے سب کچھ چھوڑ کر نہیں جاسکتا تھا تبھی وہ صبر سے کام لے رہا تھا۔
کلاس سے نکلتے تھوڑے آگے جاکر وہ ایک جگہ کھڑی ہوگئی تھی۔جب وہ ہی لڑکا اس کے پاس آیا تھا جو اس کا پارٹنر بننے کا پوچھ رہا تھا اس کا نام اعمار تھا۔
"ہم کب سے تیاری سٹارٹ کریں گے۔۔؟"
اس لڑکے نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے مسکرا کر پوچھا تھا۔نورے نے ایک نگاہ کلاس روم کے دروازے پر ڈال کر سامنے کھڑے لڑکے پر ڈالی تھی۔
"مجھے سٹڈیز میں کوئی دلچسپی نہیں ہے جو آپ کو ٹاپک اچھا لگے وہ بتا دیجیے گا میں اسے دیکھ لوں گی۔۔"
وہ سنجیدگی سے مقابل کو دیکھتے بولی تھی اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا مقابل کو اپنے ساتھ زیادہ فری ہونے دینے کا۔
"اوہ۔۔ اوکے۔۔آپ کا نمبر مل سکتا ہے میں رات کو میسج کردوں گا۔"
اعمار نے اپنا موبائل کا لاک کھولتے پوچھا تھا۔نورے نے سر ہلاتے اس کا موبائل پکڑ کر اپنا نمبر ٹائپ کیا تھا۔
کلاس روم سے سونیا کے ہمراہ باہر نکلتے نورے پر نظر پڑتے وہ نظروں کا زاویہ بدلنے لگا تھا جب اچانک اس کے ساتھ کھڑے لڑکے پر نظر پڑتے اس نے اپنے جبڑے بھینچ لیے تھے۔
ایک کٹیلی نگاہ دونوں پر ڈالتا وہ سونیا کے ساتھ وہاں سے گزر گیا تھا۔نورے نے اعمار کو موبائل پکڑاتے ایک نظر شازل اور سونیا کو جاتے دیکھ کر مقابل سے ایکسکیوز کیا تھا۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ان کے پیچھے چل پڑی تھی۔اپنے گلابی لبوں کو کاٹتی اسے خود سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کررپی ہے ؟ اور کیوں کر رہی ہے۔۔؟
شازل کے آفس کے باہر پہنچ کر وہ دروازے سے کان لگا کر کھڑی ہوگئی تھی۔اسے اندر سے ہلکی ہلکی آوازیں آرہی تھیں۔سونیا کے ہنسنے کی آواز سن کر اس نے منہ بگاڑا تھا۔
"چالاک لومڑی۔۔چڑیل۔۔جن کی طرح ہنس رہی ہے۔۔"
وہ ماتھے پر بل ڈالے منہ بنا کر بول رہی تھی۔جب اچانک دروازہ کھولا تھا اور وہ جو دروازے کے سہارے تھی اس کے ساتھ ہی زمین بوس ہوئی تھی۔
بےساختہ ایک سسکی اس کے منہ سے نکلی تھی۔
"ہائے مرگئے۔۔"
اس نے آنکھیں میچتے کہا تھا۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو نورے ؟"
سونیا کی چنگھارتی آواز سن کر اس نے دھیرے سے آنکھیں کھول کر دیکھا تھا اس کے بالکل سامنے شازل اپنے سینے ہر بازو باندھے چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
شازل نے اپنے لبوں کو دبا کر بمشکل اپنی مسکراہٹ روکی تھی۔کسی کی موجودگی محسوس کرتے اس نے اچانک دروازہ کھولا تھا جب نورے نیچے گری تھی۔
"م۔۔میں پروفیسر سے بات کرنے آئی تھی۔"
وہ ایک دم اپنے قدموں پر کھڑی ہوتی اپنے ہاتھوں کو جھاڑتی سر ہلا کر بولی تھی۔شازل نے نفی میں سر ہلایا تھا سونیا نے غصےسے چھوٹی آنکھیں کرکے نورے کو گھورا تھا جس نے شازل کے ساتھ اس کا ٹائم ڈسٹرب کیا تھا۔
"کیا بات کرنی نورے ؟"
شازل نے ائبرو اچکاتے پوچھا تھا۔
"وہ مجھے ٹاپک کے بارے میں ڈسکشن کرنی تھی لیکن لگتا ہے آپ بہت بزی ہیں میں بعد میں آجاوں گی۔۔"
وہ لب بھینچ کر سلگتے لہجے میں سونیا پر ایک نظر ڈالتے بنا شازل کا جواب سنے وہاں سے نکل گئی تھی۔
شازل نے اس کے جانے کے بعد سونیا کو بھی فارغ کردیا تھا۔اسے تھکن محسوس ہورہی تھی۔وہ کرسی پر بیٹھتا اس کی پشتسے ٹیک لگاتا نورے کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔
اسے اپنے کیے پر پچھتاوا تھا اسے احساس تھا کہ اسے نورے کا گلا دبانا نہیں چاہیے وہ اس سے بات بھی کرنا چاہتا تھا لیکن اپنی انا کی وجہ سے وہ رکا ہوا تھا۔
یونیورسٹی میں اب پولیس نہیں تھی لیکن تحقیقات ہورہی تھیں۔کسی کا بھی شک اس کی طرف نہیں تھا جس پر وہ پرسکون تھا۔اب اس کا نیکسٹ ٹارگٹ ایس ایس پی فراز شیخ تھا اس کا ٹرانسفر کسی اور شہر میں ہوچکا تھا وہ ساری انفارمیشن نکلوا چکا تھا لیکن وہ اچانک یہاں سے سب کچھ چھوڑ کر نہیں جاسکتا تھا تبھی وہ صبر سے کام لے رہا تھا۔
"آج اتنے لیٹ ہوگئے میں کافی دیر سے آپ کا انتظار کر رہی تھی۔"
افرحہ کی آنکھ کمرے میں موجود روشنی سے کھلی تھی۔شاہزیب آفس کی پارٹی میں گیا تھا۔وہ اس کا انتظار کرتے ہوئے سو گئی تھی۔
"ہاں بس ٹائم گزرتے پتا نہیں چلا۔۔"
شاہزیب اس سے نظریں چراتا ہوا بولا تھا۔
"اچھا چلیں کچھ نہیں ہوتا آپ جائیں جاکر فریش ہوجائیں۔۔میں کپڑے نکال دیتی ہوں۔۔"
وہ اپنے بال سمیٹتی نیند سے بھری آنکھیں مسلتی الماری کی طرف بڑھ گئی تھی۔
"تم رہنے دیتی میں خود نکال لیتا۔۔"
شاہزیب نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔
"میرے ہوتے ہوئے آپ کو ان کاموں کو خود کرنے کی ضرورت نہیں۔۔"
افرحہ نے اس کے ہاتھوں میں نائٹ سوٹ تھمایا تھا۔
"شکریہ میری جان۔۔"
شاہزیب نے جھک کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔افرحہ نے اس کے منہ سے آتی ناگوار بو محسوس کرکے اپنی ناک چڑھائی تھی۔وہ بےساختہ دو قدم شاہزیب سے پیچھے ہٹی تھی۔
"آ۔۔آپ نے ڈرنک کی ہے۔۔"
وہ بےیقینی سے پوچھ رہی تھی۔
"آپ نے وعدہ کیا تھا اس حرام چیز کو دوبارہ ہاتھ نہیں لگائیں گے۔۔"
وہ اسے اس کا وعدہ یاد دلا رہی تھی جواس نے پاکستان آکر اس سے کیا تھا کہ نہ تو وہ کبھی شراب کو ہاتھ لگائے گا اور نہ ہی ڈرگز کو۔۔اس کی باقاعدہ کاونسلنگ بھی افرحہ نے کروانی چاہی تھی مگر شاہزیب نے انکار کر دیا تھا وہ اب صرف سگریٹ ہی پیتا تھا۔جس سے وہ چھٹکارا نہیں چاہتا تھا اس کے متعلق پھر افرحہ نے بھی کچھ نہ کہا تھا۔
"آئی ایم سوری۔۔ مجھے کسی نے فورس کیا تھا میں نے بس ایک دو سپ ہی لیے تھے۔۔"
وہ شرمندہ تھا۔افرحہ نے سختی سے لب بھینچ لیے تھے۔
"مجھ سے بات مت کیجیے گا۔۔"
وہ غصے سے بولتی اس کی طرف سے رخ پھیر گئی تھی۔شاہزیب لب بھینچ گیا تھا وہ اسے منانا چاہتا تھا لیکن اس نے پہلے فریش ہونے کا سوچا تھا۔شاہزیب کے واشروم میں جاتے ہی وہ تکیہ لے کر صوفے پر جاکر لیٹ گئی تھی۔
اسے شاہزیب پر شدید غصہ آرہا تھا۔چادر سر پر تان کر وہ باتھ روم کا دروازہ کھلنے کی آواز سن کر اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی تھی۔
"افرحہ۔۔"
شاہزیب نے ناگواریت سے اسے وہاں لیٹے ہوئے دیکھا تھا وہ لمبے لمبے ڈھگ بھرتا اس کے پاس پہنچا تھا۔
اس نے افرحہ کے سرسے چادر کھینچتے اس کے کچھ سوچنے سمجھنے سے پہلے اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا تھا۔
"آہ۔۔ پاگل ہوگئے ہیں کیا؟"
افرحہ نے چیختے ہوئے اس کے گلے میں بازو ڈالا تھا۔
"ہاں تمھارے لیے شروع سے ہی میں پاگل ہوں۔۔"
وہ افرحہ کی گال کو چومتا بولا تھا۔افرحہ نے فورا دوسرے ہاتھ سے اپنا گال صاف کیا تھا۔ افرحہ کی حرکت پر شاہزیب نے دوبارہ اس کے گال پر لب رکھے تھے۔اس کے بعد وہ رکا نہیں تھا اس کے ہونٹوں کی گستاخیاں افرحہ کے سارے چہرے پر گلنار بکھیر گئی تھیں۔
"شاہزیب سٹاپ اٹ۔۔"
وہ شرمندہ سی اس کے سینے میں منہ چھپا رہی تھی۔
"دوبارہ میرا لمس مٹانے کی کوشش مت کرنا بہت برا پیش آوں گا۔۔"
وہ افرحہ کو بیڈ پر لیٹاتا اس کے ساتھ لیٹ کر اپنے باہوں کے حصار میں قید کرچکا تھا۔افرحہ اس سے دور ہوکر لیٹنا چاہتی تھی لیکن شاہزیب کی بازو نے اسے روکا ہوا تھا۔
"ہماری ناراضگی اپنی جگہ لیکن دوبارہ صوفے پر جاکر لیٹنے کی کوشش مت کرنا۔۔"
وہ سخت لہجے میں بولا تھا۔افرحہ نے منہ پھولایا تھا۔
"آئی ایم سوری جاناں۔۔ میں اب دوبارہ کبھی شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگاوں گا۔۔"
وہ افرحہ کی خاموشی محسوس کرتا اس کا رخ اپنی طرف کرتا اس کے ماتھے پر اپنے تشنہ لب رکھتا بولا تھا۔
"اگر آپ نے دوبارہ ایسا کیا تو میں بہت برا ناراض ہوجاوں گی۔۔"
اس کی بات سن کر شاہزیب کے لب مسکرا اٹھے تھے۔
"میں ایسا ہونے نہیں دوں گا جاناں۔۔"
وہ اسے اپنے سینے میں بھینچتا بولا تھا۔افرحہ دھیرے سے مسکرا اٹھی تھی۔وہ آنکھیں موندتی شاہزیب کے گرد بھی اپنا حصار باندھ گئی تھی۔
افرحہ کی آنکھ کمرے میں موجود روشنی سے کھلی تھی۔شاہزیب آفس کی پارٹی میں گیا تھا۔وہ اس کا انتظار کرتے ہوئے سو گئی تھی۔
"ہاں بس ٹائم گزرتے پتا نہیں چلا۔۔"
شاہزیب اس سے نظریں چراتا ہوا بولا تھا۔
"اچھا چلیں کچھ نہیں ہوتا آپ جائیں جاکر فریش ہوجائیں۔۔میں کپڑے نکال دیتی ہوں۔۔"
وہ اپنے بال سمیٹتی نیند سے بھری آنکھیں مسلتی الماری کی طرف بڑھ گئی تھی۔
"تم رہنے دیتی میں خود نکال لیتا۔۔"
شاہزیب نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔
"میرے ہوتے ہوئے آپ کو ان کاموں کو خود کرنے کی ضرورت نہیں۔۔"
افرحہ نے اس کے ہاتھوں میں نائٹ سوٹ تھمایا تھا۔
"شکریہ میری جان۔۔"
شاہزیب نے جھک کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔افرحہ نے اس کے منہ سے آتی ناگوار بو محسوس کرکے اپنی ناک چڑھائی تھی۔وہ بےساختہ دو قدم شاہزیب سے پیچھے ہٹی تھی۔
"آ۔۔آپ نے ڈرنک کی ہے۔۔"
وہ بےیقینی سے پوچھ رہی تھی۔
"آپ نے وعدہ کیا تھا اس حرام چیز کو دوبارہ ہاتھ نہیں لگائیں گے۔۔"
وہ اسے اس کا وعدہ یاد دلا رہی تھی جواس نے پاکستان آکر اس سے کیا تھا کہ نہ تو وہ کبھی شراب کو ہاتھ لگائے گا اور نہ ہی ڈرگز کو۔۔اس کی باقاعدہ کاونسلنگ بھی افرحہ نے کروانی چاہی تھی مگر شاہزیب نے انکار کر دیا تھا وہ اب صرف سگریٹ ہی پیتا تھا۔جس سے وہ چھٹکارا نہیں چاہتا تھا اس کے متعلق پھر افرحہ نے بھی کچھ نہ کہا تھا۔
"آئی ایم سوری۔۔ مجھے کسی نے فورس کیا تھا میں نے بس ایک دو سپ ہی لیے تھے۔۔"
وہ شرمندہ تھا۔افرحہ نے سختی سے لب بھینچ لیے تھے۔
"مجھ سے بات مت کیجیے گا۔۔"
وہ غصے سے بولتی اس کی طرف سے رخ پھیر گئی تھی۔شاہزیب لب بھینچ گیا تھا وہ اسے منانا چاہتا تھا لیکن اس نے پہلے فریش ہونے کا سوچا تھا۔شاہزیب کے واشروم میں جاتے ہی وہ تکیہ لے کر صوفے پر جاکر لیٹ گئی تھی۔
اسے شاہزیب پر شدید غصہ آرہا تھا۔چادر سر پر تان کر وہ باتھ روم کا دروازہ کھلنے کی آواز سن کر اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی تھی۔
"افرحہ۔۔"
شاہزیب نے ناگواریت سے اسے وہاں لیٹے ہوئے دیکھا تھا وہ لمبے لمبے ڈھگ بھرتا اس کے پاس پہنچا تھا۔
اس نے افرحہ کے سرسے چادر کھینچتے اس کے کچھ سوچنے سمجھنے سے پہلے اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا تھا۔
"آہ۔۔ پاگل ہوگئے ہیں کیا؟"
افرحہ نے چیختے ہوئے اس کے گلے میں بازو ڈالا تھا۔
"ہاں تمھارے لیے شروع سے ہی میں پاگل ہوں۔۔"
وہ افرحہ کی گال کو چومتا بولا تھا۔افرحہ نے فورا دوسرے ہاتھ سے اپنا گال صاف کیا تھا۔ افرحہ کی حرکت پر شاہزیب نے دوبارہ اس کے گال پر لب رکھے تھے۔اس کے بعد وہ رکا نہیں تھا اس کے ہونٹوں کی گستاخیاں افرحہ کے سارے چہرے پر گلنار بکھیر گئی تھیں۔
"شاہزیب سٹاپ اٹ۔۔"
وہ شرمندہ سی اس کے سینے میں منہ چھپا رہی تھی۔
"دوبارہ میرا لمس مٹانے کی کوشش مت کرنا بہت برا پیش آوں گا۔۔"
وہ افرحہ کو بیڈ پر لیٹاتا اس کے ساتھ لیٹ کر اپنے باہوں کے حصار میں قید کرچکا تھا۔افرحہ اس سے دور ہوکر لیٹنا چاہتی تھی لیکن شاہزیب کی بازو نے اسے روکا ہوا تھا۔
"ہماری ناراضگی اپنی جگہ لیکن دوبارہ صوفے پر جاکر لیٹنے کی کوشش مت کرنا۔۔"
وہ سخت لہجے میں بولا تھا۔افرحہ نے منہ پھولایا تھا۔
"آئی ایم سوری جاناں۔۔ میں اب دوبارہ کبھی شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگاوں گا۔۔"
وہ افرحہ کی خاموشی محسوس کرتا اس کا رخ اپنی طرف کرتا اس کے ماتھے پر اپنے تشنہ لب رکھتا بولا تھا۔
"اگر آپ نے دوبارہ ایسا کیا تو میں بہت برا ناراض ہوجاوں گی۔۔"
اس کی بات سن کر شاہزیب کے لب مسکرا اٹھے تھے۔
"میں ایسا ہونے نہیں دوں گا جاناں۔۔"
وہ اسے اپنے سینے میں بھینچتا بولا تھا۔افرحہ دھیرے سے مسکرا اٹھی تھی۔وہ آنکھیں موندتی شاہزیب کے گرد بھی اپنا حصار باندھ گئی تھی۔
نائٹ بلب اون کرتی وہ بیڈ پر لیٹ گئی تھی۔اس کی سوچوں کا مرکز شازل اورسونیا تھے۔
"میرا دماغ خراب ہوگیا ہے جو میں اس سنکی انسان کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔۔"
نورے نے اپنے سر پر ایک تھپڑ مارا تھا۔
"مجھے تو کاٹ کھابے کو دوڑتا ہے۔۔اس سونیا سے کیسے نرمی سے بات کر رہا تھا۔۔غنڈا۔۔"
وہ سوچتی ہوئی کروٹ بدل گئی تھی۔
"مجھے کیوں جلن ہورہی ہے میری طرف سے بھاڑ میں جائے۔۔وہ قاتل ہے۔۔لیکن اس نے مجھے بچایا بھی تھا۔"
وہ اپنی سوچوں میں بری طرح الجھی ہوئی تھی۔
اس کی سوچوں کا ارتکاز موبائل کی رنگ نے توڑا تھا۔اعمار کا میسج دیکھ کر اس نے آنکھیں گھمائی تھی۔
"افف۔۔ یہ پڑھائی میرے بس کی بات نہیں ہے۔۔"
وہ ٹاپک دیکھ کر بڑبڑائی تھی۔
"صبح ایک بار دیکھ لوں گی۔۔"
وہ بڑبڑاتی ہوئی موبائل سائیڈ پر رکھ کر آنکھیں موند گئی تھی۔
دوسری طرف شازل بھی اپنی کیفیت سے بےخبر تھا۔عسکری نے اس آدمی کا پتا لگوا لیا تھا جس نے نورے پر حملہ کیا تھا اس کا نام ارسل تھا اور اسوقت اسی کی تلاش جاری تھی۔
"شازل مجھے تم سے بات کرنی میرے اسٹڈی روم میں آو۔"
شازل کے گھر آتےہی محب خان نے اسے اپنے اسٹڈی روم میں بلایا تھا۔
"یس ڈیڈ ؟"
اس نے ان کے سامنے کاوچ پر بیٹھتے پوچھا تھا۔
"میں بس ایک بار پوچھوں گا۔۔کیا یونیورسٹی والے حادثے میں تمھارا ہاتھ ہے ؟"
محب خان نے سنجیدگی سے پوچھا تھا۔
"نہیں۔۔"
وہ بےتاثر انداز میں بولا تھا۔
"مجھ سے جھوٹ مت بولو تمھارا باپ ہوں تمھاری رگ رگ سے واقف ہوں۔۔"
محب خان کی بات پر وہ دھیرے سے مسکرایا تھا۔
"آپ جب جانتے ہیں میرا جواب پھر کیوں پوچھ رہے ہیں۔؟"
شازل نے ان کی طرف دیکھتے پوچھا تھا۔
"میں تمھیں بھی اپنی بیٹی کی طرح کھونا نہیں چاہتا۔۔"
ان کے لہجے میں دکھ تھا۔شازل ان کی بات پر لب بھیبچ گیا تھا۔
"ڈیڈ مجھے کچھ نہیں ہوگا۔میرے بارے میں پریشان مت ہوں۔۔"
اس نے اٹھ کر محب خان کے پاس جاتے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔
محب خان نے اس کے چہرے کی طرف دیکھتے اپنا سر ہلایا تھا وہ جانتے تھے شازل کو روک نہیں پائیں گے۔۔تبھی خاموش ہوگئے تھے۔
"میرا دماغ خراب ہوگیا ہے جو میں اس سنکی انسان کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔۔"
نورے نے اپنے سر پر ایک تھپڑ مارا تھا۔
"مجھے تو کاٹ کھابے کو دوڑتا ہے۔۔اس سونیا سے کیسے نرمی سے بات کر رہا تھا۔۔غنڈا۔۔"
وہ سوچتی ہوئی کروٹ بدل گئی تھی۔
"مجھے کیوں جلن ہورہی ہے میری طرف سے بھاڑ میں جائے۔۔وہ قاتل ہے۔۔لیکن اس نے مجھے بچایا بھی تھا۔"
وہ اپنی سوچوں میں بری طرح الجھی ہوئی تھی۔
اس کی سوچوں کا ارتکاز موبائل کی رنگ نے توڑا تھا۔اعمار کا میسج دیکھ کر اس نے آنکھیں گھمائی تھی۔
"افف۔۔ یہ پڑھائی میرے بس کی بات نہیں ہے۔۔"
وہ ٹاپک دیکھ کر بڑبڑائی تھی۔
"صبح ایک بار دیکھ لوں گی۔۔"
وہ بڑبڑاتی ہوئی موبائل سائیڈ پر رکھ کر آنکھیں موند گئی تھی۔
دوسری طرف شازل بھی اپنی کیفیت سے بےخبر تھا۔عسکری نے اس آدمی کا پتا لگوا لیا تھا جس نے نورے پر حملہ کیا تھا اس کا نام ارسل تھا اور اسوقت اسی کی تلاش جاری تھی۔
"شازل مجھے تم سے بات کرنی میرے اسٹڈی روم میں آو۔"
شازل کے گھر آتےہی محب خان نے اسے اپنے اسٹڈی روم میں بلایا تھا۔
"یس ڈیڈ ؟"
اس نے ان کے سامنے کاوچ پر بیٹھتے پوچھا تھا۔
"میں بس ایک بار پوچھوں گا۔۔کیا یونیورسٹی والے حادثے میں تمھارا ہاتھ ہے ؟"
محب خان نے سنجیدگی سے پوچھا تھا۔
"نہیں۔۔"
وہ بےتاثر انداز میں بولا تھا۔
"مجھ سے جھوٹ مت بولو تمھارا باپ ہوں تمھاری رگ رگ سے واقف ہوں۔۔"
محب خان کی بات پر وہ دھیرے سے مسکرایا تھا۔
"آپ جب جانتے ہیں میرا جواب پھر کیوں پوچھ رہے ہیں۔؟"
شازل نے ان کی طرف دیکھتے پوچھا تھا۔
"میں تمھیں بھی اپنی بیٹی کی طرح کھونا نہیں چاہتا۔۔"
ان کے لہجے میں دکھ تھا۔شازل ان کی بات پر لب بھیبچ گیا تھا۔
"ڈیڈ مجھے کچھ نہیں ہوگا۔میرے بارے میں پریشان مت ہوں۔۔"
اس نے اٹھ کر محب خان کے پاس جاتے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔
محب خان نے اس کے چہرے کی طرف دیکھتے اپنا سر ہلایا تھا وہ جانتے تھے شازل کو روک نہیں پائیں گے۔۔تبھی خاموش ہوگئے تھے۔
روحان کپڑے چینج کرکے واپس اپنی جگہ کھڑا ہو گیا تھا۔ملائکہ نے اسے کافی بنا کر دے دی تھی اور دانین کے لیے بھی وہ کافی بنا کر لے گئی تھی۔
"روحان دانین کو بہت تیز بخار ہے مجھے لگتا ہے اسے سردی لگ گئی ہے۔۔"
ملائکہ پریشان سی نیچے آتی ہوئی بولی تھی۔روحان کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
"اس وقت تو ہم ڈاکٹر کے پاس نہیں جاسکتے۔۔اگر گھر میں کوئی میڈسن ہے تو وہ دہے دیں۔۔"
روحان باہر ہوتی تیز سنو فال کو دیکھتا پریشانی سے بولا تھا۔
"ہاں کچھ میڈسنز ہیں میرے پاس تم بھی ایک دفع چیک کرلو۔"
ملائکہ نے اس کے سامنے نکال کر کچھ میڈسنز رکھی تھیں۔روحان نے ڈاکٹر سے کال پر کچھ میڈسنز پوچھ لی تھیں۔جو گھر میں ہی موجود تھیں۔
ملائکہ نے اس کے لیے سوپ بنا دیا تھا۔وہ روحان کے ساتھ سوپ لے کر دانین کے کمرے میں گئی تھی۔جو کمبل میں دبکی بیٹھی تھی۔
"دانین اٹھو اور یہ سوپ پی کر میڈسن لو بہتر فیل کرو گی۔۔"
ملائکہ نے دانین کو پکارا تھا۔دانین نے دھیرے سے اپنا سر کمبل سے باہر نکالا تھا۔
"میرا دل نہیں کر رہا۔۔"
وہ نڈھال سی بولی تھی۔روحان نے گہری نظروں سے اسے دیکھا تھا جس کا سفید چہرہ لال گلابی ہوا پڑا تھا آنکھیں بھی سرخ دکھائی دے رہی تھیں۔
ملائکہ نے اسے بہت بار سوپ پلانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ملائکہ کے ہاتھ سے سوپ نہیں پی رہی تھی۔
"آپ جائیں میں پلا دیتا ہوں۔۔"
روحان کی بات سن کر ملائکہ نے حیرتسے اسےدیکھا تھا پھر کچھ سوچتے اس نے اٹھ کر سوپ روحان کو تھما دیا تھا۔
روحان دانین سے کچھ فاصلے پر بیڈ پر بیٹھ گیا تھا۔
"میں نے کہا تھا نہ بیمار پڑ جاو گی۔۔"
روحان نے سوپ میں چمچ ہلاتے اس کی سرخ چھوٹی سی ناک کو دیکھ کر کہا تھا۔
"منہ کھولو۔۔"
روحان کی سنجیدہ آواز سن کر اس نے بےساختہ اپنا منہ کھول دیا تھا۔روحان نے پھونک مارتے سوپ سے بھرا چمچ اس کے منہ میں ڈالا تھا۔
"آئیندہ کے بعد سنو فال میں تمھارا باہر نکلنا منع ہے۔۔"
وہ پریشان سا اس کے سرخ چہرے کو دیکھتا بول رہا تھا۔دانین نے اپنا منہ پھولا لیا تھا۔وہ اسے سوپ پلاتا ہوا ساتھ ساتھ ڈانٹ بھی رہا تھا۔
"تمھارے بال گیلے ہیں۔۔؟"
روحان نے سوپ پلانے کے بعد اس کو میڈسن دیتے اس کے بالوں کو بغور دیکھا تھا۔جو ہلکے ہلکے گیلے دکھائی دے رہے تھے۔
"میں نے ڈرائے نہیں کیے تھے۔۔"
وہ لب کاٹتی بولی تھی۔روحان نے اسے تیز نظروں سے دیکھا تھا۔
"تمھاری اسی لاپرواہی کی وجہ سے تمھیں سردی لگ گئی ہے۔۔"
وہ سخت لہجے میں بولا تھا۔
"ہئیر ڈرائیر کہاں ہے ؟"
اس نے بیڈ سے اٹھتے پوچھا تھا دانین کے اشارہ کرنے پر اس نے جلدی سے ہئیر ڈرائیر نکالتے اس کے بال سکھائے تھے۔دانین بغور اسے دیکھ رہی تھی۔
"تھینک یو۔۔"
اس نے روحان کا ہاتھ بےساختہ پکڑتے مسکرا کر کہا تھا۔روحان نے اس کے چہرے کی طرف دیکھتے اس کی ناک کو ہلکے سے دبایا تھا۔
"ریسٹ کرو۔۔"
وہ اسے بولتا باہر نکل گیا تھا اس بات سے بےخبر ملائکہ نے ان دونوں کی ساری حرکتوں کو دیکھ لیا تھا۔
"روحان دانین کو بہت تیز بخار ہے مجھے لگتا ہے اسے سردی لگ گئی ہے۔۔"
ملائکہ پریشان سی نیچے آتی ہوئی بولی تھی۔روحان کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
"اس وقت تو ہم ڈاکٹر کے پاس نہیں جاسکتے۔۔اگر گھر میں کوئی میڈسن ہے تو وہ دہے دیں۔۔"
روحان باہر ہوتی تیز سنو فال کو دیکھتا پریشانی سے بولا تھا۔
"ہاں کچھ میڈسنز ہیں میرے پاس تم بھی ایک دفع چیک کرلو۔"
ملائکہ نے اس کے سامنے نکال کر کچھ میڈسنز رکھی تھیں۔روحان نے ڈاکٹر سے کال پر کچھ میڈسنز پوچھ لی تھیں۔جو گھر میں ہی موجود تھیں۔
ملائکہ نے اس کے لیے سوپ بنا دیا تھا۔وہ روحان کے ساتھ سوپ لے کر دانین کے کمرے میں گئی تھی۔جو کمبل میں دبکی بیٹھی تھی۔
"دانین اٹھو اور یہ سوپ پی کر میڈسن لو بہتر فیل کرو گی۔۔"
ملائکہ نے دانین کو پکارا تھا۔دانین نے دھیرے سے اپنا سر کمبل سے باہر نکالا تھا۔
"میرا دل نہیں کر رہا۔۔"
وہ نڈھال سی بولی تھی۔روحان نے گہری نظروں سے اسے دیکھا تھا جس کا سفید چہرہ لال گلابی ہوا پڑا تھا آنکھیں بھی سرخ دکھائی دے رہی تھیں۔
ملائکہ نے اسے بہت بار سوپ پلانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ملائکہ کے ہاتھ سے سوپ نہیں پی رہی تھی۔
"آپ جائیں میں پلا دیتا ہوں۔۔"
روحان کی بات سن کر ملائکہ نے حیرتسے اسےدیکھا تھا پھر کچھ سوچتے اس نے اٹھ کر سوپ روحان کو تھما دیا تھا۔
روحان دانین سے کچھ فاصلے پر بیڈ پر بیٹھ گیا تھا۔
"میں نے کہا تھا نہ بیمار پڑ جاو گی۔۔"
روحان نے سوپ میں چمچ ہلاتے اس کی سرخ چھوٹی سی ناک کو دیکھ کر کہا تھا۔
"منہ کھولو۔۔"
روحان کی سنجیدہ آواز سن کر اس نے بےساختہ اپنا منہ کھول دیا تھا۔روحان نے پھونک مارتے سوپ سے بھرا چمچ اس کے منہ میں ڈالا تھا۔
"آئیندہ کے بعد سنو فال میں تمھارا باہر نکلنا منع ہے۔۔"
وہ پریشان سا اس کے سرخ چہرے کو دیکھتا بول رہا تھا۔دانین نے اپنا منہ پھولا لیا تھا۔وہ اسے سوپ پلاتا ہوا ساتھ ساتھ ڈانٹ بھی رہا تھا۔
"تمھارے بال گیلے ہیں۔۔؟"
روحان نے سوپ پلانے کے بعد اس کو میڈسن دیتے اس کے بالوں کو بغور دیکھا تھا۔جو ہلکے ہلکے گیلے دکھائی دے رہے تھے۔
"میں نے ڈرائے نہیں کیے تھے۔۔"
وہ لب کاٹتی بولی تھی۔روحان نے اسے تیز نظروں سے دیکھا تھا۔
"تمھاری اسی لاپرواہی کی وجہ سے تمھیں سردی لگ گئی ہے۔۔"
وہ سخت لہجے میں بولا تھا۔
"ہئیر ڈرائیر کہاں ہے ؟"
اس نے بیڈ سے اٹھتے پوچھا تھا دانین کے اشارہ کرنے پر اس نے جلدی سے ہئیر ڈرائیر نکالتے اس کے بال سکھائے تھے۔دانین بغور اسے دیکھ رہی تھی۔
"تھینک یو۔۔"
اس نے روحان کا ہاتھ بےساختہ پکڑتے مسکرا کر کہا تھا۔روحان نے اس کے چہرے کی طرف دیکھتے اس کی ناک کو ہلکے سے دبایا تھا۔
"ریسٹ کرو۔۔"
وہ اسے بولتا باہر نکل گیا تھا اس بات سے بےخبر ملائکہ نے ان دونوں کی ساری حرکتوں کو دیکھ لیا تھا۔
جاری ہے۔۔