Professor Khan Episode 8 Season 2 by Zanoor Writes
Professor Khan
Zanoor Writes
Season 2
Episode 8
(Series 2 in Professor Shah Novel)
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی پولیس کی گاڑیاں اور سنگین ماحول دیکھ کر نورے کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔سفید چوڑی دار پاجامہ اور پنک لانگ فراک میں کندھے پر دوپٹہ ڈالے وہ ارد گرد نظر ڈالتے جارہی تھی۔اس کا ارادہ پہلا لیکچر سٹارٹ ہونے سح پہلے شازل سے مل کر اس کے زخم کے بارے میں پوچھنے کا تھا۔
"ایکسکیوز می۔۔یہاں پولیس کیا کر رہی ہے کچھ ہوا ہے؟"
اس نے ایک لڑکی کو روکتے پوچھا تھا۔
"ایک دن پہلے چئیر پرسن کو کسی نے قتل کردیا اس کی وجہ سے یونیورسٹی میں سب سے پوچھا جارہا ہے۔۔"
لڑکی جواب دیتی گزر گئی تھی۔نورے نے اپنے چہرے پر آتے بالوں کو پیچھے ہٹایا تھا۔اس کے ذہن میں شازل کا مشکوک رویہ اور اس کی باتیں آئی تھیں۔
چلتے چلتے وہ ایک دم رک گئی تھی۔حیرت کی زیادتی سے اس کی آنکھوں کی پتلیاں پھیل گئی تھیں۔اسے چند منٹ لگے تھے سمجھنے میں۔۔
وہ لب کاٹتی اس کے آفس کی جانب بڑھ گئی تھی۔
"افف شاید اس آدمی نے مارا ہو ضروری تو نہیں شازل اسے مارے۔۔"
اس کے ذہن میں بےنام شخص آیا تھا جس نے اس پر حملہ کیا تھا۔وہ اپنا شک دور کرنا چاہتی تھی تبھی ناک کرتی اس کے آفس میں داخل ہوئی تھی۔
گرے کلر کے شلوار قمیض میں بازوں کے کف موڑے وہ کرسی پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلا رہا تھا جب نورے کو دیکھتے اس کے ہاتھوں کی حرکت تھمی تھی نظریں اٹھا کر اس نے نورے کی جانب دیکھا تھا جو عجیب نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"آپ نے چئیر پرسن کو قتل کیا ہے۔۔؟"
اس نے شازل کو اپنی جانب دیکھتے ہی پوچھ ڈالا تھا۔شازل جبڑے بھینچتا ایک دم کھڑا ہوا تھا۔
شازل کے چہرے کے تاثرات اس کا شک سچا ثابت کر گئے تھے اس کا دل زورسے دھڑکا تھا۔خوف سے ہلکے ہلکے اس کے ہاتھ کانپنے لگے تھے۔
"آ۔۔آپ قاتل ہیں۔۔"
وہ پیچھے ہٹتی شازل کی طرف دیکھ کر اس بار اونچی آواز میں چیخی تھی۔
"شٹ اپ۔۔"
وہ ایک ہی جست میں اس کے پاس پہنچتا منہ پر سختی سے ہاتھ جما گیا تھا۔پولیس ابھی بھی یونیورسٹی میں لوگوں سے بیان لے رہی تھی اگر اس کی آواز باہر چلی جاتی تو ناجانے کیا ہوجاتا۔۔
نورے نے اپنے منہ پر گرفت محسوس کرتے اس کے ہاتھ پر اپنے تیز ناخن چبھوئے تھے۔شازل نے لب بھینچتے غصے سے غضب ناک نظروں سے مقابل کو گھورا تھا اس کے ہاتھ سے خون کی ایک باریک سی لکیر نکلی تھی۔
اس نے جھٹکے سے نورے کو دھکا دے کر چھوڑا تھا۔وہ لڑکھڑاتی دیوار سے جالگی تھی۔
"جاو جاکر بتا دو سب کو۔۔میں بھی دیکھتا ہوں تم کیا کرسکتی ہو۔۔"
چبھتا لہجہ ، سلگتا انداز وہ طیش میں سرخ پڑ گیا تھا۔دل کر رہا تھا مقابل کا گلہ گھونٹ دے۔۔
"آپ بےحس ہیں می۔۔میں سب کو بتا دوں گی۔۔"
وہ اپنی نم آنکھوں کو مسلتی پلٹنے لگی تھی جب شازل نے ایک جھٹکے سے اس کا گلہ دبوچتے اس کے کان کے پیچھے موجود نس کو دباتے اسے تیزی سے بےہوش کر دیا تھا۔
نورے کے نازک وجود کو اپنی باہوں میں جھولتے دیکھ کر اس نے اپنا ماتھا مسلا تھا۔اس کا لیکچر فری تھا تبھی اسے تیزی سے باہوں میں اٹھاتے وہ گراونڈ کے پچھلے حصے سے ہوتا پارکنگ لاٹ تک سب کی نظروں سے چھپتا پہنچا تھا اسے گاڑی کی بیک سیٹ پر لیٹاتے وہ اسے اپنے اپارٹمنٹ میں لے گیا تھا۔
نورے کو اٹھانے کی وجہ سے اس کے زخم سے خون رسنے لگا تھا اسے مجبورا یونیورسٹی سے آف لینا پڑا تھا نورے کو بیڈ روم میں لیٹاتا روم کو لاک کر گیا تھا۔اس نے حیدر کو کال کی تھی۔اس نئی مصیبت سے جان کیسے چھڑائی جائے اسے سمجھ نہیں آرہی تھی۔
اپنی بینڈیج چینج کرتا وہ گہرا سانس بھرتا لاونچ میں موجود صوفے پر ڈھے گیا تھا۔نورے کے بارے میں سوچتے اس نے اپنا ماتھا مسلا تھا۔وہ لڑکی مسلسل اس کے کاموں کو خراب کرنے میں لگی ہوئی تھی۔
"ڈیم اٹ۔۔۔"
اس نے غصے میں شیشے کے ٹیبل سے واس اٹھا کر سامنے دیوار پر دے مارا تھا۔وہ یہ کام جتنا صفائی سے کرنا چاہ رہا تھا وہ اتنا ہی لوگوں کی نظروں میں آرہا تھا۔
"ایکسکیوز می۔۔یہاں پولیس کیا کر رہی ہے کچھ ہوا ہے؟"
اس نے ایک لڑکی کو روکتے پوچھا تھا۔
"ایک دن پہلے چئیر پرسن کو کسی نے قتل کردیا اس کی وجہ سے یونیورسٹی میں سب سے پوچھا جارہا ہے۔۔"
لڑکی جواب دیتی گزر گئی تھی۔نورے نے اپنے چہرے پر آتے بالوں کو پیچھے ہٹایا تھا۔اس کے ذہن میں شازل کا مشکوک رویہ اور اس کی باتیں آئی تھیں۔
چلتے چلتے وہ ایک دم رک گئی تھی۔حیرت کی زیادتی سے اس کی آنکھوں کی پتلیاں پھیل گئی تھیں۔اسے چند منٹ لگے تھے سمجھنے میں۔۔
وہ لب کاٹتی اس کے آفس کی جانب بڑھ گئی تھی۔
"افف شاید اس آدمی نے مارا ہو ضروری تو نہیں شازل اسے مارے۔۔"
اس کے ذہن میں بےنام شخص آیا تھا جس نے اس پر حملہ کیا تھا۔وہ اپنا شک دور کرنا چاہتی تھی تبھی ناک کرتی اس کے آفس میں داخل ہوئی تھی۔
گرے کلر کے شلوار قمیض میں بازوں کے کف موڑے وہ کرسی پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلا رہا تھا جب نورے کو دیکھتے اس کے ہاتھوں کی حرکت تھمی تھی نظریں اٹھا کر اس نے نورے کی جانب دیکھا تھا جو عجیب نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"آپ نے چئیر پرسن کو قتل کیا ہے۔۔؟"
اس نے شازل کو اپنی جانب دیکھتے ہی پوچھ ڈالا تھا۔شازل جبڑے بھینچتا ایک دم کھڑا ہوا تھا۔
شازل کے چہرے کے تاثرات اس کا شک سچا ثابت کر گئے تھے اس کا دل زورسے دھڑکا تھا۔خوف سے ہلکے ہلکے اس کے ہاتھ کانپنے لگے تھے۔
"آ۔۔آپ قاتل ہیں۔۔"
وہ پیچھے ہٹتی شازل کی طرف دیکھ کر اس بار اونچی آواز میں چیخی تھی۔
"شٹ اپ۔۔"
وہ ایک ہی جست میں اس کے پاس پہنچتا منہ پر سختی سے ہاتھ جما گیا تھا۔پولیس ابھی بھی یونیورسٹی میں لوگوں سے بیان لے رہی تھی اگر اس کی آواز باہر چلی جاتی تو ناجانے کیا ہوجاتا۔۔
نورے نے اپنے منہ پر گرفت محسوس کرتے اس کے ہاتھ پر اپنے تیز ناخن چبھوئے تھے۔شازل نے لب بھینچتے غصے سے غضب ناک نظروں سے مقابل کو گھورا تھا اس کے ہاتھ سے خون کی ایک باریک سی لکیر نکلی تھی۔
اس نے جھٹکے سے نورے کو دھکا دے کر چھوڑا تھا۔وہ لڑکھڑاتی دیوار سے جالگی تھی۔
"جاو جاکر بتا دو سب کو۔۔میں بھی دیکھتا ہوں تم کیا کرسکتی ہو۔۔"
چبھتا لہجہ ، سلگتا انداز وہ طیش میں سرخ پڑ گیا تھا۔دل کر رہا تھا مقابل کا گلہ گھونٹ دے۔۔
"آپ بےحس ہیں می۔۔میں سب کو بتا دوں گی۔۔"
وہ اپنی نم آنکھوں کو مسلتی پلٹنے لگی تھی جب شازل نے ایک جھٹکے سے اس کا گلہ دبوچتے اس کے کان کے پیچھے موجود نس کو دباتے اسے تیزی سے بےہوش کر دیا تھا۔
نورے کے نازک وجود کو اپنی باہوں میں جھولتے دیکھ کر اس نے اپنا ماتھا مسلا تھا۔اس کا لیکچر فری تھا تبھی اسے تیزی سے باہوں میں اٹھاتے وہ گراونڈ کے پچھلے حصے سے ہوتا پارکنگ لاٹ تک سب کی نظروں سے چھپتا پہنچا تھا اسے گاڑی کی بیک سیٹ پر لیٹاتے وہ اسے اپنے اپارٹمنٹ میں لے گیا تھا۔
نورے کو اٹھانے کی وجہ سے اس کے زخم سے خون رسنے لگا تھا اسے مجبورا یونیورسٹی سے آف لینا پڑا تھا نورے کو بیڈ روم میں لیٹاتا روم کو لاک کر گیا تھا۔اس نے حیدر کو کال کی تھی۔اس نئی مصیبت سے جان کیسے چھڑائی جائے اسے سمجھ نہیں آرہی تھی۔
اپنی بینڈیج چینج کرتا وہ گہرا سانس بھرتا لاونچ میں موجود صوفے پر ڈھے گیا تھا۔نورے کے بارے میں سوچتے اس نے اپنا ماتھا مسلا تھا۔وہ لڑکی مسلسل اس کے کاموں کو خراب کرنے میں لگی ہوئی تھی۔
"ڈیم اٹ۔۔۔"
اس نے غصے میں شیشے کے ٹیبل سے واس اٹھا کر سامنے دیوار پر دے مارا تھا۔وہ یہ کام جتنا صفائی سے کرنا چاہ رہا تھا وہ اتنا ہی لوگوں کی نظروں میں آرہا تھا۔
"تم پاگل ہو شازل اسے کیوں اٹھا لائے یہاں صاف انکار کردیتے۔۔"
حیدر نے شازل کی ساری بات سنتے سر افسوس سے جھٹکا تھا۔
"مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا میں اسے بےہوش نہ کرتا تووہ پاگل لڑکی جاکر سب کو بتادیتی۔۔"
وہ اپنے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑتا غصے سے سرخ ہوچکا تھا۔
"اب کیا کرو گے؟ تم اسے یہاں ہمیشہ قید نہیں رکھ سکتے۔۔اور اسے آزاد چھوڑنا تمھارے لیے اچھا نہیں۔۔"
حیدر نے کھڑا ہوتے شازل سے کہا تھا جو خود سخت جھنجھلایا ہوا تھا۔
"میں اس سے نکاح کرلوں گا۔۔وہ اپنے شوہر کو کبھی جیل نہیں بھجوائے گی۔۔"
شازل نے پرعزم انداز میں کہا تھا۔حیدر نے جھٹکے سے اس کی طرف مڑتے اس کے چہرے کو دیکھا تھا۔
"تمھارا دماغ خراب ہوگیا ہے ؟ تم اس کے ساتھ زبردستی نکاح کرو گے؟"
حیدر حیرت کی زیادتی سے پوچھ رہا تھا۔اسے شازل کی باتوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔
"ہاں پاگل کردیا ہے اس لڑکی نے مجھے۔۔جہاں جاتا ہوں یہ مصیبت سر پر سوار ہوکر پہنچ جاتی ہے۔۔الجھن ہونے لگی ہے مجھے۔۔دل کرتا ہے اس کا گلا دبا دو۔۔"
وہ ایک دم کھڑا ہوتا چیخا تھا۔حیدر اس کا غصہ دیکھتا پریشان ہوگیا تھا۔
وہ ابھی شازل کو کوئی جواب دیتا اس سے پہلے ہی ایک کمرے سے نورے کی آوازیں آنے لگی تھیں۔
"شازل۔۔نکالیں مجھے یہاں سے۔۔"
وہ دروازے پر ہاتھ مارتی بری طرح تلملا رہی تھی شازل نے ضبط سے آنکھیں بند کی تھی۔۔جب اس کی اگلی بات نے اس کا میٹر شاٹ کر دیا تھا۔
"میں سب کو بتا دوں گی آپ قاتل ہیں۔۔"
وہ غصے میں بنا سوچے سمجھے بولی تھی۔
وہ لمبے لمبے ڈھگ بھرتا اس کمرے کی طرف جانے لگا تھا جہاں وہ بند تھی۔
"شازل کالم ڈاون تم غصے میں کچھ غلط کردو گے۔۔"
حیدر نے اسے روکنے کے لیے اس کو کندھے سے تھاما تھا۔
"مجھ سے دور رہو۔۔"
وہ جھٹکے سے حیدر سے اپنا بازو چھڑواتا کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔دروزہ کھولتے اس کی نظر بنا دوپٹہ کے کھڑی نورے پر پڑی تھی۔
بنا کچھ سوچے سمجھے اس نے نورے کو گلے سے پکڑ کر دیوار سے لگاتے اس کے گلے پر پریشر ڈالا تھا۔۔نورے اس افتاد پر بوکھلا گئی تھی۔خوف کی ایک سرد لہر اس کے اندر سرایت کرگئی تھی۔
"میں نے کہا تھا میرے ضبط کو مت آزماو۔۔لیکن تمھارے اس خالی دماغ میں کوئی بات گھستی ہی نہیں۔۔بہت شوق ہے نہ تمھیں میرے معاملے میں ٹانگ اڑانے کی اس کی کیا سزا ہوگی یہ میں تمھیں آج بتاوں گا۔۔"
اس کے گلے پر دباو ڈالتا وہ بری طرح بےقابو ہوا تھا۔نورے کو اپنا سانس بند ہوتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔اس نے بےساختہ شازل کے بازو کو پکڑا تھا۔
"م۔۔مجھے سس۔۔سانس۔۔"
وہ بولتے ہوئے اکھڑے سانس لینے لگی تھی۔حیدر نے نورے کا سرد چہرہ اور پھولی سانس دیکھ کر تیزی سے شازل کو پکڑ کر جھٹکے سے نورے سےدور کھینچا تھا۔
نورے اپنے گلے پر ہاتھ رکھتے دیوار سے ٹیک لگاتے زمین پر بیٹھتی چلی گئی تھی۔گہرے سانس لیتی وہ اپنا سانس بےحال کرنے لگی تھی۔اپنے گلے میں اٹھتا درد محسوس کرکے اس کی پلکیں بھیگ گئی تھی اسے امید نہیں تھا شازل ایسا بھی کرسکتا تھا۔
"شازل تم اسے جان سے مار دو گے۔۔خودکو ٹھنڈا کرو۔۔"
حیدر نے اسے بری طرح جھنجھوڑا تھا۔شازل نے حیدر کی بات سنتے اپنے بالوں کو جکڑتے گہرا سانس لیا تھا۔اس کی نظر بےساختہ دیوار سے لگی کانپتی ہوئی نورے پر گئی تھی۔اس کا بےنیاز حولیہ دیکھتے شازل نے حیدر کی طرف نظر ڈالی تھی جو نورے کو ہی دیکھ رہا تھا۔
اسے ایک دم نئے سرے سے غصہ آیا تھا جسے وہ چاہ کر بھی سمجھ نہیں پایا تھا۔
"گیٹ لاسٹ حیدر۔۔"
وہ اپنی مٹھیاں بھینچتا بولا تھا حیدر نے اپنا سر نفی میں ہلایا تھا۔
"پرامس می یو ول نوٹ ڈو اینی تھنگ۔۔"
حیدر نے سنجیدگی سے کہا تھا۔شازل نے دھیرے سےسر ہلایا تھا۔حیدر ان دونوں پر ایک نظر ڈالتا خاموشی سے نکل گیا تھا۔
شازل نے آگے بڑھتے زمین پر گرا سفید دوپٹہ ہٹایا تھا۔
"دور رہیں مجھ سے۔۔"
وہ نم پلکیں اٹھا کر شازل کو اپنی جانب آتا دیکھ کر چیخی تھی۔شازل اس کے قریب آتا دوزانوں بیٹھ گیا تھا۔
"آپ ب۔۔بہت بےحس ہیں۔۔"
وہ چیخی تھی۔شازل کی نظر بےساختہ اس کی صاف شفاف گردن پر موجود اپنی انگلیوں کے نشان پر گئی تھی۔اس نے بےساختہ ہاتھ نورے کی طرف بڑھایا تھا۔جس پر وہ بری طرح دبکی تھی۔اسے لگا تھا شازل دوبارہ اس کا گلہ دبانے لگا ہے۔۔
شازل نے اپنے ہاتھ میں موجود دوپٹہ خاموشی سےاس کے سر میں اوڑھ دیا تھا۔نورے نے دوپٹی محسوس کرتے حیرت سے شازل کو دیکھا تھا۔
"تم نے صحیح کہا میں بہت بےحس ہوں اس دنیا نے مجھے ایسا بنا دیا ہے۔۔اور جس کے لیے تم مجھ سے لڑ رہی ہو وہ سفید چادر میں چھپا ایسا کالا بھیڑیا تھا جو ناجانے کتنی زندگیوں کو برباد کرچکا تھا۔۔اگر مجھے موقع ملے گا میں اسے پہلے سے بھی کئی زیادہ تکلیف دہ موت دوں۔۔"
وہ نورے کی آنکھوں میں دیکھتا دھیرے سے اپنا ہاتھ اس کی گردن کی جانب لے گیا تھا۔اس کی انگلیوں کا لمس اپنے گلے پر محسوس کرتے وہ اس کا ہاتھ بری طرح جھٹک گئی تھی۔
"مجھے چھوئیں مت۔۔"
وہ غصے سے بولی تھی اسے شازل کی کوئی بات نہیں سننی تھی۔شازل نے لب بھینچتے اپنی مٹھی کو زور سے بند کرلیا تھا۔
"اچھا جاو منہ دھو کر آو تمھیں تمھارے گھر چھوڑ آوں۔۔لیکن ایک بات یاد رکھنا نورے تم نے اگر میرے بارے میں کسی کو بھی بتایا تواس کی قیمت تمھاری فیملی ادا کرے گی۔۔میں اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ختم کردوں گا۔۔"
شازل کی بات سنتے وہ خاموشی سے اٹھ کر واشروم کی طرف بڑھ گئی تھی۔
حیدر نے شازل کی ساری بات سنتے سر افسوس سے جھٹکا تھا۔
"مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا میں اسے بےہوش نہ کرتا تووہ پاگل لڑکی جاکر سب کو بتادیتی۔۔"
وہ اپنے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑتا غصے سے سرخ ہوچکا تھا۔
"اب کیا کرو گے؟ تم اسے یہاں ہمیشہ قید نہیں رکھ سکتے۔۔اور اسے آزاد چھوڑنا تمھارے لیے اچھا نہیں۔۔"
حیدر نے کھڑا ہوتے شازل سے کہا تھا جو خود سخت جھنجھلایا ہوا تھا۔
"میں اس سے نکاح کرلوں گا۔۔وہ اپنے شوہر کو کبھی جیل نہیں بھجوائے گی۔۔"
شازل نے پرعزم انداز میں کہا تھا۔حیدر نے جھٹکے سے اس کی طرف مڑتے اس کے چہرے کو دیکھا تھا۔
"تمھارا دماغ خراب ہوگیا ہے ؟ تم اس کے ساتھ زبردستی نکاح کرو گے؟"
حیدر حیرت کی زیادتی سے پوچھ رہا تھا۔اسے شازل کی باتوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔
"ہاں پاگل کردیا ہے اس لڑکی نے مجھے۔۔جہاں جاتا ہوں یہ مصیبت سر پر سوار ہوکر پہنچ جاتی ہے۔۔الجھن ہونے لگی ہے مجھے۔۔دل کرتا ہے اس کا گلا دبا دو۔۔"
وہ ایک دم کھڑا ہوتا چیخا تھا۔حیدر اس کا غصہ دیکھتا پریشان ہوگیا تھا۔
وہ ابھی شازل کو کوئی جواب دیتا اس سے پہلے ہی ایک کمرے سے نورے کی آوازیں آنے لگی تھیں۔
"شازل۔۔نکالیں مجھے یہاں سے۔۔"
وہ دروازے پر ہاتھ مارتی بری طرح تلملا رہی تھی شازل نے ضبط سے آنکھیں بند کی تھی۔۔جب اس کی اگلی بات نے اس کا میٹر شاٹ کر دیا تھا۔
"میں سب کو بتا دوں گی آپ قاتل ہیں۔۔"
وہ غصے میں بنا سوچے سمجھے بولی تھی۔
وہ لمبے لمبے ڈھگ بھرتا اس کمرے کی طرف جانے لگا تھا جہاں وہ بند تھی۔
"شازل کالم ڈاون تم غصے میں کچھ غلط کردو گے۔۔"
حیدر نے اسے روکنے کے لیے اس کو کندھے سے تھاما تھا۔
"مجھ سے دور رہو۔۔"
وہ جھٹکے سے حیدر سے اپنا بازو چھڑواتا کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔دروزہ کھولتے اس کی نظر بنا دوپٹہ کے کھڑی نورے پر پڑی تھی۔
بنا کچھ سوچے سمجھے اس نے نورے کو گلے سے پکڑ کر دیوار سے لگاتے اس کے گلے پر پریشر ڈالا تھا۔۔نورے اس افتاد پر بوکھلا گئی تھی۔خوف کی ایک سرد لہر اس کے اندر سرایت کرگئی تھی۔
"میں نے کہا تھا میرے ضبط کو مت آزماو۔۔لیکن تمھارے اس خالی دماغ میں کوئی بات گھستی ہی نہیں۔۔بہت شوق ہے نہ تمھیں میرے معاملے میں ٹانگ اڑانے کی اس کی کیا سزا ہوگی یہ میں تمھیں آج بتاوں گا۔۔"
اس کے گلے پر دباو ڈالتا وہ بری طرح بےقابو ہوا تھا۔نورے کو اپنا سانس بند ہوتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔اس نے بےساختہ شازل کے بازو کو پکڑا تھا۔
"م۔۔مجھے سس۔۔سانس۔۔"
وہ بولتے ہوئے اکھڑے سانس لینے لگی تھی۔حیدر نے نورے کا سرد چہرہ اور پھولی سانس دیکھ کر تیزی سے شازل کو پکڑ کر جھٹکے سے نورے سےدور کھینچا تھا۔
نورے اپنے گلے پر ہاتھ رکھتے دیوار سے ٹیک لگاتے زمین پر بیٹھتی چلی گئی تھی۔گہرے سانس لیتی وہ اپنا سانس بےحال کرنے لگی تھی۔اپنے گلے میں اٹھتا درد محسوس کرکے اس کی پلکیں بھیگ گئی تھی اسے امید نہیں تھا شازل ایسا بھی کرسکتا تھا۔
"شازل تم اسے جان سے مار دو گے۔۔خودکو ٹھنڈا کرو۔۔"
حیدر نے اسے بری طرح جھنجھوڑا تھا۔شازل نے حیدر کی بات سنتے اپنے بالوں کو جکڑتے گہرا سانس لیا تھا۔اس کی نظر بےساختہ دیوار سے لگی کانپتی ہوئی نورے پر گئی تھی۔اس کا بےنیاز حولیہ دیکھتے شازل نے حیدر کی طرف نظر ڈالی تھی جو نورے کو ہی دیکھ رہا تھا۔
اسے ایک دم نئے سرے سے غصہ آیا تھا جسے وہ چاہ کر بھی سمجھ نہیں پایا تھا۔
"گیٹ لاسٹ حیدر۔۔"
وہ اپنی مٹھیاں بھینچتا بولا تھا حیدر نے اپنا سر نفی میں ہلایا تھا۔
"پرامس می یو ول نوٹ ڈو اینی تھنگ۔۔"
حیدر نے سنجیدگی سے کہا تھا۔شازل نے دھیرے سےسر ہلایا تھا۔حیدر ان دونوں پر ایک نظر ڈالتا خاموشی سے نکل گیا تھا۔
شازل نے آگے بڑھتے زمین پر گرا سفید دوپٹہ ہٹایا تھا۔
"دور رہیں مجھ سے۔۔"
وہ نم پلکیں اٹھا کر شازل کو اپنی جانب آتا دیکھ کر چیخی تھی۔شازل اس کے قریب آتا دوزانوں بیٹھ گیا تھا۔
"آپ ب۔۔بہت بےحس ہیں۔۔"
وہ چیخی تھی۔شازل کی نظر بےساختہ اس کی صاف شفاف گردن پر موجود اپنی انگلیوں کے نشان پر گئی تھی۔اس نے بےساختہ ہاتھ نورے کی طرف بڑھایا تھا۔جس پر وہ بری طرح دبکی تھی۔اسے لگا تھا شازل دوبارہ اس کا گلہ دبانے لگا ہے۔۔
شازل نے اپنے ہاتھ میں موجود دوپٹہ خاموشی سےاس کے سر میں اوڑھ دیا تھا۔نورے نے دوپٹی محسوس کرتے حیرت سے شازل کو دیکھا تھا۔
"تم نے صحیح کہا میں بہت بےحس ہوں اس دنیا نے مجھے ایسا بنا دیا ہے۔۔اور جس کے لیے تم مجھ سے لڑ رہی ہو وہ سفید چادر میں چھپا ایسا کالا بھیڑیا تھا جو ناجانے کتنی زندگیوں کو برباد کرچکا تھا۔۔اگر مجھے موقع ملے گا میں اسے پہلے سے بھی کئی زیادہ تکلیف دہ موت دوں۔۔"
وہ نورے کی آنکھوں میں دیکھتا دھیرے سے اپنا ہاتھ اس کی گردن کی جانب لے گیا تھا۔اس کی انگلیوں کا لمس اپنے گلے پر محسوس کرتے وہ اس کا ہاتھ بری طرح جھٹک گئی تھی۔
"مجھے چھوئیں مت۔۔"
وہ غصے سے بولی تھی اسے شازل کی کوئی بات نہیں سننی تھی۔شازل نے لب بھینچتے اپنی مٹھی کو زور سے بند کرلیا تھا۔
"اچھا جاو منہ دھو کر آو تمھیں تمھارے گھر چھوڑ آوں۔۔لیکن ایک بات یاد رکھنا نورے تم نے اگر میرے بارے میں کسی کو بھی بتایا تواس کی قیمت تمھاری فیملی ادا کرے گی۔۔میں اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ختم کردوں گا۔۔"
شازل کی بات سنتے وہ خاموشی سے اٹھ کر واشروم کی طرف بڑھ گئی تھی۔
سارے راستے نورے نے اس کی طرف نہیں دیکھا تھا۔شازل نے گاڑی اس کے گھر باہر روکی تھی۔نورے چند منٹ بیٹھی رہی تھی اسے لگا تھا وہ کچھ بولے گا اس سے معافی مانگے گا مگر وہ تو پتھر کا بت بنے ساکت بیٹھا تھا نہ اس کی جانب دیکھ رہا تھا نہ ہی کچھ بول رہا تھا۔
"اگر تم یہ سوچ رہی ہو میں معافی مانگوں گا تو یہ تمھاری بہت بڑی غلط فہمی ہے۔۔"
اس کی جانب دیکھے بنا شازل سرد آواز میں بولا تھا۔
نورے لب بھینچ کر زور سے دروازہ بند کرتے باہر نکلی تھی جب سامنے کھڑے شاہزیب کو دیکھ کر وہ ٹھٹھک کر رک گئی تھی۔
شاہزیب سخت نظروں سے کبھی نورے اور کبھی شازل کی جانب دیکھ رہا تھا۔
نورے نے کچھ بولنے کے لیے لب وا کیے تھے جب شاہزیب کی سرد آواز نے اسے خاموش کروا دیا تھا۔
"اندر جاو۔۔"
اس کے لہجے کی سختی پر وہ تیزی سے بنا مڑے اندر بھاگ گئی تھی۔
"واٹ آ سرپرائز شاہزیب۔۔"
گاڑی سے باہر نکلتے شازل طنزیہ انداز میں بولا تھا۔شاہزیب کی نظر شازل پر پڑتے ہی غصے سے اس کی رگیں پھول گئی تھیں۔
"شٹ اپ۔۔"
شاہزیب دھاڑا تھا۔غصے سے مٹھیاں بھینچتا وہ شازل کی جانب بڑھا تھا۔اس نے شازل کا گریبان پکڑنا چاہا تھا جب شازل نے درمیان میں ہی اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔
"اپنی حد میں رہو۔۔"
شازل دانت پیستا سرد لہجے میں بولا تھا۔۔
"میری بہن سے دور رہو۔۔"
شاہزیب اپنا ہاتھ چھڑواتا غصے میں غرایا تھا۔
"مجھے روک سکتے ہو تو روک لو۔۔"
شازل نے تپا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔ شاہزیب اس کے منہ پر شدت سے مکہ مارنا چاہتا تھا۔
"اس سے دور رہو شازل۔۔"
شاہزیب کی بات پر وہ طنزیہ مسکراتا گاڑی کی جانب بڑھ گیا تھا۔شاہزیب اپنی مٹھیاں بھینچتا غصے سے سرخ آنکھیں لیے اندر بڑھ گیا تھا۔
وہ نورے سے بات کرنا چاہتا تھا مگر ول جانتا تھا غصے میں وہ کچھ غلط کرجائے گا تبھی اس نے پہلے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کا سوچا تھا۔
"اگر تم یہ سوچ رہی ہو میں معافی مانگوں گا تو یہ تمھاری بہت بڑی غلط فہمی ہے۔۔"
اس کی جانب دیکھے بنا شازل سرد آواز میں بولا تھا۔
نورے لب بھینچ کر زور سے دروازہ بند کرتے باہر نکلی تھی جب سامنے کھڑے شاہزیب کو دیکھ کر وہ ٹھٹھک کر رک گئی تھی۔
شاہزیب سخت نظروں سے کبھی نورے اور کبھی شازل کی جانب دیکھ رہا تھا۔
نورے نے کچھ بولنے کے لیے لب وا کیے تھے جب شاہزیب کی سرد آواز نے اسے خاموش کروا دیا تھا۔
"اندر جاو۔۔"
اس کے لہجے کی سختی پر وہ تیزی سے بنا مڑے اندر بھاگ گئی تھی۔
"واٹ آ سرپرائز شاہزیب۔۔"
گاڑی سے باہر نکلتے شازل طنزیہ انداز میں بولا تھا۔شاہزیب کی نظر شازل پر پڑتے ہی غصے سے اس کی رگیں پھول گئی تھیں۔
"شٹ اپ۔۔"
شاہزیب دھاڑا تھا۔غصے سے مٹھیاں بھینچتا وہ شازل کی جانب بڑھا تھا۔اس نے شازل کا گریبان پکڑنا چاہا تھا جب شازل نے درمیان میں ہی اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔
"اپنی حد میں رہو۔۔"
شازل دانت پیستا سرد لہجے میں بولا تھا۔۔
"میری بہن سے دور رہو۔۔"
شاہزیب اپنا ہاتھ چھڑواتا غصے میں غرایا تھا۔
"مجھے روک سکتے ہو تو روک لو۔۔"
شازل نے تپا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔ شاہزیب اس کے منہ پر شدت سے مکہ مارنا چاہتا تھا۔
"اس سے دور رہو شازل۔۔"
شاہزیب کی بات پر وہ طنزیہ مسکراتا گاڑی کی جانب بڑھ گیا تھا۔شاہزیب اپنی مٹھیاں بھینچتا غصے سے سرخ آنکھیں لیے اندر بڑھ گیا تھا۔
وہ نورے سے بات کرنا چاہتا تھا مگر ول جانتا تھا غصے میں وہ کچھ غلط کرجائے گا تبھی اس نے پہلے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کا سوچا تھا۔
"عسکری مجھے نورے میر شاہ کے بارے میں ساری انفارمیشن چاہیے۔۔"
اس نے فلیٹ واپس آتے ہی عسکری کو کال کی تھی۔
"اوکے باس۔۔لیکن یہ کیا چکر ہے تم اور لڑکیوں کے بارے میں انفارمیشن لے رہے ہو۔۔؟"
وہ ہنس کر بولتا شازل کو تپ چڑھا گیا تھا۔
"شٹ اپ جو کہا ہے ویسا کرو۔۔"
شازل کے سختی سے بولنے پر عسکری نے اپنی ہنسی دبائی تھی۔
"تمھیں آج گھر جانا چاپیے انکل آنٹی پریشان ہورہے ہوں گے۔۔"
عسکری نے ایک دم سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
"بس فریش ہوکر وہاں ہی جارہا ہوں تمھیں جو کام کہا ہے وہ کام کرو۔۔"
شازل اسے جواب دیتا فریش ہونے چلا گیا تھا۔
چائے بنا کر پیتا وہ وہاں سے گھر کے لیے نکل گیا تھا۔
"مل گیا آج صاحبزادے کو گھر آنے کا وقت ؟"
محب خان نے اسے آتے ہی طنز کیا تھا۔شازل نے آنکھیں گھمائی تھی۔
"میں تو بہت مصروف تھا لیکن سوچا آپ کو اپنا دیدار کروا دوں۔۔آپ میرا چہرہ دیکھنے کے لیے ترس رہے ہوں گے۔۔"
وہ لب دباتا طنزیہ انداز میں بولا تھا۔ محب خان کے ہونٹ ہلکے سے اوپر اٹھے تھے۔
"محب شازل کو کچھ مت بولیں۔۔ میرا بچہ ابھی گھر آیا ہے۔۔اسے سکون سے بیٹھنے دیں۔۔"
گل خان نے محب خان کو چپ کروا دیا تھا جس پر شازل نے سکون کا سانس بھرا تھا۔
"شازل میرے بچے کیا ہوا ہے تمھارا چہرہ اتنا زرد کیوں ہے طبیعت تو ٹھیک ہے؟"
گل خان تیزی سے اٹھتی شازل کے پاس گئی تھیں۔اس نے دھیرے سے شازل کے گال پر ہاتھ رکھا تھا جب اس کا تپتا ہوا گال محسوس کرکے اس کی آنکھیں پھیل گئی تھی۔
"تمھیں تو بہت تیز بخار ہے شازل۔۔ محب پلیز جلدی سے کسی ڈاکٹر کو بلائیں۔۔"
گل خان کے پریشانی سے بولتے محب خان نے ڈاکٹر کو کال ملائی تھی۔
"موم میں بالکل ٹھیک ہوں تھوڑی دیر بس ریسٹ کرنا چاہتا ہوں۔۔"
"مجھے کسی ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے۔۔"
وہ جھنجھلا کر بولا تھا گل خان کا ہاتھ پکڑتے اس نے پیار سے بوسہ لیتے اپنی انکھوں سے لگایا تھا۔
"ڈاکٹر بس کچھ دیر تک پہنچ جائے گا گل اسے کمرے میں لے جاو۔۔"
محب خان ظاہر نہیں کر رہے تھے لیکن وہ بھی شازل کے لیے اچھا خاصا پریشان ہوگئے تھے۔۔ایک ہی تو بیٹا تھا ان کا چاہے جتنے بھی اختلافات ہوتے وہ ان کو اپنی جان سے بڑھ کر پیارا تھا۔
شازل نے بولنے کے لیے لب وا کیے تھے جب گل کی نم آنکھیں اور محب خان کا تنا ہوا چہرہ دیکھ کر وہ خاموش ہی رہا تھا۔
"جب ڈاکٹر آئے اسے روم میں بھیج دیجیے گا۔۔"
وہ نرم لہجے میں بولتا اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔اسے زخم کی وجہ سے بخار ہوگیا تھا۔یہ تو ہونا ہی تھا وہ ریسٹ جو نہیں کر رہا تھا۔
اس نے فلیٹ واپس آتے ہی عسکری کو کال کی تھی۔
"اوکے باس۔۔لیکن یہ کیا چکر ہے تم اور لڑکیوں کے بارے میں انفارمیشن لے رہے ہو۔۔؟"
وہ ہنس کر بولتا شازل کو تپ چڑھا گیا تھا۔
"شٹ اپ جو کہا ہے ویسا کرو۔۔"
شازل کے سختی سے بولنے پر عسکری نے اپنی ہنسی دبائی تھی۔
"تمھیں آج گھر جانا چاپیے انکل آنٹی پریشان ہورہے ہوں گے۔۔"
عسکری نے ایک دم سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
"بس فریش ہوکر وہاں ہی جارہا ہوں تمھیں جو کام کہا ہے وہ کام کرو۔۔"
شازل اسے جواب دیتا فریش ہونے چلا گیا تھا۔
چائے بنا کر پیتا وہ وہاں سے گھر کے لیے نکل گیا تھا۔
"مل گیا آج صاحبزادے کو گھر آنے کا وقت ؟"
محب خان نے اسے آتے ہی طنز کیا تھا۔شازل نے آنکھیں گھمائی تھی۔
"میں تو بہت مصروف تھا لیکن سوچا آپ کو اپنا دیدار کروا دوں۔۔آپ میرا چہرہ دیکھنے کے لیے ترس رہے ہوں گے۔۔"
وہ لب دباتا طنزیہ انداز میں بولا تھا۔ محب خان کے ہونٹ ہلکے سے اوپر اٹھے تھے۔
"محب شازل کو کچھ مت بولیں۔۔ میرا بچہ ابھی گھر آیا ہے۔۔اسے سکون سے بیٹھنے دیں۔۔"
گل خان نے محب خان کو چپ کروا دیا تھا جس پر شازل نے سکون کا سانس بھرا تھا۔
"شازل میرے بچے کیا ہوا ہے تمھارا چہرہ اتنا زرد کیوں ہے طبیعت تو ٹھیک ہے؟"
گل خان تیزی سے اٹھتی شازل کے پاس گئی تھیں۔اس نے دھیرے سے شازل کے گال پر ہاتھ رکھا تھا جب اس کا تپتا ہوا گال محسوس کرکے اس کی آنکھیں پھیل گئی تھی۔
"تمھیں تو بہت تیز بخار ہے شازل۔۔ محب پلیز جلدی سے کسی ڈاکٹر کو بلائیں۔۔"
گل خان کے پریشانی سے بولتے محب خان نے ڈاکٹر کو کال ملائی تھی۔
"موم میں بالکل ٹھیک ہوں تھوڑی دیر بس ریسٹ کرنا چاہتا ہوں۔۔"
"مجھے کسی ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے۔۔"
وہ جھنجھلا کر بولا تھا گل خان کا ہاتھ پکڑتے اس نے پیار سے بوسہ لیتے اپنی انکھوں سے لگایا تھا۔
"ڈاکٹر بس کچھ دیر تک پہنچ جائے گا گل اسے کمرے میں لے جاو۔۔"
محب خان ظاہر نہیں کر رہے تھے لیکن وہ بھی شازل کے لیے اچھا خاصا پریشان ہوگئے تھے۔۔ایک ہی تو بیٹا تھا ان کا چاہے جتنے بھی اختلافات ہوتے وہ ان کو اپنی جان سے بڑھ کر پیارا تھا۔
شازل نے بولنے کے لیے لب وا کیے تھے جب گل کی نم آنکھیں اور محب خان کا تنا ہوا چہرہ دیکھ کر وہ خاموش ہی رہا تھا۔
"جب ڈاکٹر آئے اسے روم میں بھیج دیجیے گا۔۔"
وہ نرم لہجے میں بولتا اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔اسے زخم کی وجہ سے بخار ہوگیا تھا۔یہ تو ہونا ہی تھا وہ ریسٹ جو نہیں کر رہا تھا۔
"نورے مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔"
شاہزیب دروازہ ناک کرتا نورے کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔
نورے نے اس کی آواز سنتے تیزی سے اپنا دوپٹہ اچھے سے گردن پر اوڑھ لیا تھا۔شازل کی انگلیوں لے نشان اس کی گردن پر ابھی بھی واضح تھے۔
"تم کار میں کیا کر رہی تھی شازل کے ساتھ؟"
وہ سخت لہجے میں پوچھ رہا تھا۔
"وہ پروفیسر ہیں میرے۔۔ایکچولی مجھے چکر آرہے تھے اور ڈرائیور کال پک نہیں کر رہا تھا ت۔۔تو وہ گھر چھوڑ گئے۔۔"
نورے نے نے انگلیاں مسلتے جھوٹ کا سہارا لیا تھا۔شازل مے اسے گہری نظروں سے دیکھا تھا وہ اتنا بےوقوف بھی نہ تھا جتنا اسے نورے نے سمجھ لیا تھا۔
"آئیندہ کے بعد ایسا کچھ بھی ہوا تو تم مجھے کال کیا کرو گی کسی بھی انجان شخص سے دوبارہ لفٹ مت لینا۔۔"
شاہزیب سنجیدگی سے بولا تھا۔نورے نے جھٹ سے گردن ہلا دی تھی۔
"اوکے۔۔"
وہ نظریں جھکائے منمنائی تھی۔وہ سخت جھنجھلائی ہوئی تھی اور اس وقت صرف آرام کرنا چاہتی تھی۔شاہزیب ایک نظر اس پر ڈالتا چلا گیا تھا۔
وہ شاہزیب کے جاتے ہی روم لاک کرکے بیڈ پر گر گئی تھی۔سارے دن کی تھکاوٹ اور رونے کی وجہ سے وہ جلد ہی سو گئی تھی۔
شاہزیب دروازہ ناک کرتا نورے کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔
نورے نے اس کی آواز سنتے تیزی سے اپنا دوپٹہ اچھے سے گردن پر اوڑھ لیا تھا۔شازل کی انگلیوں لے نشان اس کی گردن پر ابھی بھی واضح تھے۔
"تم کار میں کیا کر رہی تھی شازل کے ساتھ؟"
وہ سخت لہجے میں پوچھ رہا تھا۔
"وہ پروفیسر ہیں میرے۔۔ایکچولی مجھے چکر آرہے تھے اور ڈرائیور کال پک نہیں کر رہا تھا ت۔۔تو وہ گھر چھوڑ گئے۔۔"
نورے نے نے انگلیاں مسلتے جھوٹ کا سہارا لیا تھا۔شازل مے اسے گہری نظروں سے دیکھا تھا وہ اتنا بےوقوف بھی نہ تھا جتنا اسے نورے نے سمجھ لیا تھا۔
"آئیندہ کے بعد ایسا کچھ بھی ہوا تو تم مجھے کال کیا کرو گی کسی بھی انجان شخص سے دوبارہ لفٹ مت لینا۔۔"
شاہزیب سنجیدگی سے بولا تھا۔نورے نے جھٹ سے گردن ہلا دی تھی۔
"اوکے۔۔"
وہ نظریں جھکائے منمنائی تھی۔وہ سخت جھنجھلائی ہوئی تھی اور اس وقت صرف آرام کرنا چاہتی تھی۔شاہزیب ایک نظر اس پر ڈالتا چلا گیا تھا۔
وہ شاہزیب کے جاتے ہی روم لاک کرکے بیڈ پر گر گئی تھی۔سارے دن کی تھکاوٹ اور رونے کی وجہ سے وہ جلد ہی سو گئی تھی۔
وہ صبح اٹھنے کے بعد ایک بار بھی نیچے نہیں گئی تھی۔اسے رات روحان کے کہے گئے الفاظ یاد آرہے تھے۔ساتھ اپنی باتوں پر غصہ بھی اسے نائیٹ مئیرز آتے تھے۔
جس پر وہ کافی حد تک قابو پاچکی تھی لیکن جب سے خون کو دیکھ کر اس کا پینک اٹیک ٹریگر ہوا تھا تب سے وہ بھیانک خواب واپس آنے لگے تھے۔
ملائکہ کے ناشتہ دے جانے کے بعد وہ کھڑکی کے پاس بیٹھ گئی تھی باہر کا منظر دیکھتے وہ اپنا سر کھڑکی سےٹکا گئی تھی۔باہر ہلکی ہلکی سنو فال ہورہی تھی۔جو دیکھتے ہی دیکھتے تیز ہونے لگی تھی اس کا دل بےساختہ سنو فال سے کھیلنے کا چاہا تھا تبھی بنا سوچے سمجھے تیزی سے اٹھتی وہ نیچے بھاگنے لگی تھی۔
اسے اتنی تیزی سے نیچے آتے دیکھ کر روحان بری طرح چونکا تھا۔
"کہاں جارہی ہو دانین۔۔"
اس نے آواز دے کر دانین کو روکا تھا۔دانین معصوم منہ بناتی اس کی جانب مڑی تھی۔
"میں بیک یارڈ جا رہی ہو سنو فال ہورہی ہے۔۔"
وہ خوشی سے چمکتی آنکھوں کے ساتھ بولی تھی۔
"ایسے جاو گی تو ٹھنڈ لگ جائے گی جاو اپنا کوٹ اور گلوز پہن کر آو۔۔"
روحان اس کے ڈریس پر نظر ڈالتا بولا تھا اسے آسانی سے ٹھنڈ لگ سکتی تھی۔
"اوکے پھر میں باہر جاسکتی ہوں؟"
اس نے روحان کی طرف پر امید نگاہوں سےدیکھا تھا جس پر اس نے جھٹ سے سرہلا دیا تھا وہ تیزی سے واپس اوپر اپنے کمرے میں بھاگی تھی۔اپنا کوٹ اور گلوز پہنتی وہ واپس نیچے آتی باہر نکل گئی تھی۔
روحان اس کے پیچھے چلتا باہر نکل گیا تھا۔دانین کو باہیں پھیلائے گھومتے دیکھ کر وہ مسکرا اٹھا تھا۔
دانین کی اچانک اس پر نظر پڑی تھی وہ ایک دم رک گئی تھی۔روحان نے اسے ائبرو اچکا کر دیکھا تھا۔دانین نے نیچے جھکتے برف کا گولا بناتے روحان کی طرف پھینکا تھا جو سیدھا اس کے منہ پر لگا تھا روحان نے برف چہرے سے ہٹاتے دانین کو دیکھا تھا جو ہنس رہی تھی۔
اس کی کھنکتی ہنسی کو سن کر وہ مسمرائز ہوا تھا اس کے ہونٹوں پر بھی ایک گہری مسکراہٹ بکھری تھی۔اس نے بھی نیچے جھکتے برف کا چھوٹا سا گولا بنا کر دانین کی طرف اچھالا تھا جو سیدھا اس کے سر پر بجا تھا۔دانین نے ہنسی روکتے روحان کو دیکھا تھا جو دوسرا گولا بنا رہا تھا۔دانین تیزی دے بیک یارڈ میں بھاگنے لگی تھی روحان اس کے پیچھے پیچھے تھا۔
دانین نے بھی تیزی سے جھکتے گولا بنا کر پیچھے مڑتے اس کی جانب اچھالنا چاہا تھا جب وہ پیچھے مڑتی زمین پر موجود برف پر گر گئی تھی۔
"دانین۔۔تم ٹھیک ہو؟"
روحان نے پریشانی سے پوچھا تھا جبکہ دانین نے مسکراتے ہوئے برف میں مزے سے ہاتھ پیر چلانا شروع کیے تھے۔روحان اس کے بچوں جیسی حرکت کرتے دیکھ کر اس کے ساتھ ہی برف پر لیٹ گیا تھا۔ہلکی ہلکی برف آسمان سے گرتی ان کے چہروں پر گر رہی تھی۔
وہ کافی دیر ایک دوسرے کے ساتھ خاموشی سے سنو فال انجوائے کرتے رہے تھے۔ٹھنڈ زیادہ بڑھتی دیکھ کر روحان دانین کو زبردستی ہاتھ سے پکڑ کر اندر لے گیا تھا جو اندر جانے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔
اندر پہنچتے وہ منہ بنا کر روحان کو دیکھتی اپنے کمرے میں بھاگ گئی تھی۔اس کا ناراض چہرہ دیکھ کر روحان کے ہونٹ مسکرا اٹھے تھے اس کا یوں اپنے جذبات روحان پر آشکار کرنا اسے بہت خاص ظاہر کرتا تھا۔
جس پر وہ کافی حد تک قابو پاچکی تھی لیکن جب سے خون کو دیکھ کر اس کا پینک اٹیک ٹریگر ہوا تھا تب سے وہ بھیانک خواب واپس آنے لگے تھے۔
ملائکہ کے ناشتہ دے جانے کے بعد وہ کھڑکی کے پاس بیٹھ گئی تھی باہر کا منظر دیکھتے وہ اپنا سر کھڑکی سےٹکا گئی تھی۔باہر ہلکی ہلکی سنو فال ہورہی تھی۔جو دیکھتے ہی دیکھتے تیز ہونے لگی تھی اس کا دل بےساختہ سنو فال سے کھیلنے کا چاہا تھا تبھی بنا سوچے سمجھے تیزی سے اٹھتی وہ نیچے بھاگنے لگی تھی۔
اسے اتنی تیزی سے نیچے آتے دیکھ کر روحان بری طرح چونکا تھا۔
"کہاں جارہی ہو دانین۔۔"
اس نے آواز دے کر دانین کو روکا تھا۔دانین معصوم منہ بناتی اس کی جانب مڑی تھی۔
"میں بیک یارڈ جا رہی ہو سنو فال ہورہی ہے۔۔"
وہ خوشی سے چمکتی آنکھوں کے ساتھ بولی تھی۔
"ایسے جاو گی تو ٹھنڈ لگ جائے گی جاو اپنا کوٹ اور گلوز پہن کر آو۔۔"
روحان اس کے ڈریس پر نظر ڈالتا بولا تھا اسے آسانی سے ٹھنڈ لگ سکتی تھی۔
"اوکے پھر میں باہر جاسکتی ہوں؟"
اس نے روحان کی طرف پر امید نگاہوں سےدیکھا تھا جس پر اس نے جھٹ سے سرہلا دیا تھا وہ تیزی سے واپس اوپر اپنے کمرے میں بھاگی تھی۔اپنا کوٹ اور گلوز پہنتی وہ واپس نیچے آتی باہر نکل گئی تھی۔
روحان اس کے پیچھے چلتا باہر نکل گیا تھا۔دانین کو باہیں پھیلائے گھومتے دیکھ کر وہ مسکرا اٹھا تھا۔
دانین کی اچانک اس پر نظر پڑی تھی وہ ایک دم رک گئی تھی۔روحان نے اسے ائبرو اچکا کر دیکھا تھا۔دانین نے نیچے جھکتے برف کا گولا بناتے روحان کی طرف پھینکا تھا جو سیدھا اس کے منہ پر لگا تھا روحان نے برف چہرے سے ہٹاتے دانین کو دیکھا تھا جو ہنس رہی تھی۔
اس کی کھنکتی ہنسی کو سن کر وہ مسمرائز ہوا تھا اس کے ہونٹوں پر بھی ایک گہری مسکراہٹ بکھری تھی۔اس نے بھی نیچے جھکتے برف کا چھوٹا سا گولا بنا کر دانین کی طرف اچھالا تھا جو سیدھا اس کے سر پر بجا تھا۔دانین نے ہنسی روکتے روحان کو دیکھا تھا جو دوسرا گولا بنا رہا تھا۔دانین تیزی دے بیک یارڈ میں بھاگنے لگی تھی روحان اس کے پیچھے پیچھے تھا۔
دانین نے بھی تیزی سے جھکتے گولا بنا کر پیچھے مڑتے اس کی جانب اچھالنا چاہا تھا جب وہ پیچھے مڑتی زمین پر موجود برف پر گر گئی تھی۔
"دانین۔۔تم ٹھیک ہو؟"
روحان نے پریشانی سے پوچھا تھا جبکہ دانین نے مسکراتے ہوئے برف میں مزے سے ہاتھ پیر چلانا شروع کیے تھے۔روحان اس کے بچوں جیسی حرکت کرتے دیکھ کر اس کے ساتھ ہی برف پر لیٹ گیا تھا۔ہلکی ہلکی برف آسمان سے گرتی ان کے چہروں پر گر رہی تھی۔
وہ کافی دیر ایک دوسرے کے ساتھ خاموشی سے سنو فال انجوائے کرتے رہے تھے۔ٹھنڈ زیادہ بڑھتی دیکھ کر روحان دانین کو زبردستی ہاتھ سے پکڑ کر اندر لے گیا تھا جو اندر جانے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔
اندر پہنچتے وہ منہ بنا کر روحان کو دیکھتی اپنے کمرے میں بھاگ گئی تھی۔اس کا ناراض چہرہ دیکھ کر روحان کے ہونٹ مسکرا اٹھے تھے اس کا یوں اپنے جذبات روحان پر آشکار کرنا اسے بہت خاص ظاہر کرتا تھا۔
جاری ہے۔۔