Professor Khan Episode 7 (Part-2) Season 2 by Zanoor Writes

Professor Khan

Zanoor Writes
Episode 7(Part 2) 
(Series 2 in Professor Shah Novel)

 "تم جاو جاکر اپنے ہاتھ دھو کر خون صاف کرکے آو"
شازل نے کال بند کرکے فون ٹیبل پر پھینکتے نورے سے کہا تھا۔جو ساکت سی بیٹھی تھی۔

"آئی ایم سو سوری۔۔ میری وجہ سے آپ کو چوٹ لگی۔۔ آپ میری وجہ سے تکلیف میں ہیں۔۔"
وہ شازل کی جانب جھکتی نم آنکھوں سے بولی تھی کالے نین کٹوروں میں پانی بھرنے لگا تھا۔اسے معاملے کی سنگینی کا احساس ہو رہا تھا۔

شازل نے دھیرے سے اپنا ہاتھ اٹھاتے اس کے گال پر بہتا آنسوصاف کیا تھا۔
"مجھے کچھ نہیں ہوگا۔۔"
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا بولا تھا۔

"وعدہ کریں مجھ سے۔۔ آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔۔"
وہ اس کا ہاتھ تھامتی کانپتی آواز میں بولی تھی۔وہ اس کی بند ہوتی آنکھیں دیکھ کر سفید پڑنے لگی تھی۔

"تمھیں میری بات کا یقین کیوں نہیں آتا۔۔ پاگل ہو تم۔۔"
وہ آخر میں بڑبڑاتا آنکھیں موند گیا تھا۔

"شازل۔۔۔ش۔۔شازل۔۔"
وہ گھبراتی رونے لگی تھی۔اسے کھو دینے کے احساسسے دل بند ہوا محسوس ہونے لگا تھا۔تیزی سے اٹھ کر اس کے چہرہ تھپتھپاتی وہ اسے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔

اچانک اپارٹمنٹ کا دروازہ کھلا تھا عسکری اپنے دوست کے ساتض بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا تھا شازل کے اوپر جھکی کسی لڑکی کو چیختے دیکھ کر اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔

"پیچھے ہٹیں یہ ڈاکٹر ہے انھیں دیکھنے دیں۔۔"
عسکری نے اونچی آواز میں روتی ہوئی نورے سے کہا تھا جو تیزی سے پیچھے ہٹ گئی تھی۔

"اسے میرے ساتھ روم میں لے کر چلو۔۔"
ڈاکٹر دانیال نے زخم دیکھتے تیزی سے عسکری کو کہا تھا جو اس کی مدد کرتا جلدی سے شازل کو تھامتا اس کے بیڈ روم کی طرف لے گیا تھا۔

نورے بھی تیزی سے چلتی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑی تھی۔

"پ۔۔پلیز انھیں بچا لیں۔۔ یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔۔"
وہ روتی ہوئے بول رہی تھی۔عسکری نے مڑ کر ایک سرسرہ نظر اس پر ڈالی تھی۔دانیال تیزی سے بلڈ کی بوتل شازل سے اٹیچ کرتا اس کے زخم کا معائینہ کرنے لگا تھا۔

"مجھے سٹیچیز دوبارہ لگانے پڑیں گے۔۔"
دانیال نے بتاتے ہوئے تیزی سے اپنا بیگ کھول کر ٹیبل پر رکھا تھا۔عسکری اس کی مدد کر رہا تھا۔اس کے سٹیچیز کھولتے دانیال نے اچھے سےزخم صاف کرتے اس کے دوبارہ سٹیچیز لگائے تھے۔۔

نورے ان دونوں کے جواب نہ دینے پر خاموشی سے شازل پر نظریں گاڑھے آنسو بہانے لگی تھی۔اپنے فون کی بیل اسے کہیں دورسے آتی ہوئی محسوس ہورہی تھی مگر وہ ساکت و جامد کھڑی بس شازل کو دیکھ رہی تھی۔

"مجھ کچھ میڈسنز چاہیے عسکری مجھے فورا وہ لاکر دو۔۔"
ڈاکٹر دانیال نے تیزی سے ایک کاغذ پر کچھ چیزیں لکھ کر دی تھیں۔عسکری نے اس پرچی کی تصویر اپنے ایک ساتھی کو سینڈ کی تھی۔شازل اب کافی حد تک سٹیبل تھا۔

"میں نہیں جانتا آپ کون ہیں لیکن شازل کے اٹھنے سے پہلے آپ کو میں یہاں سے جانے نہیں دوں گا۔۔اگر اپنے گھر میں کسی کو بتانا چاہتی ہیں تو فورا بتا دیں۔۔"
عسکری نے روتی ہوئی نورے کے سامنے کھڑے ہوتے سرد لہجے میں کہا تھا۔نورے نے آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھا تھا۔وہ گھر والوں کو کیا بتائے گی۔۔

"میرے سامنے کال کریں اور ہوشیاری کرنے کی کوشش بھی مت کیجیے گا۔۔"
اپنی گن نکالتے عسکری نے نورے کو وارن کیا تھا۔وہ لڑکھڑاتی ہوئی ایک نظر شازل پر ڈالتی تیزی سے اپنے فون کی جانب بڑھ گئی تھی۔

اس نے ڈرائیور سے کال کر اسے واپس جانے کا بولتے اسے یہ کہا تھا وہ آج رات اپنی دوست کے گھر رک رہی ہے۔۔ڈرائیور سے افرحہ کا نمبر لیتے اس نے افرحہ سے بات کی تھی۔

"بھابھی میں آج رات اپنی فرینڈ کی طرف رک رہی ہوں آپ پلیز بھائی کو سنبھال لیں۔۔"
اس نے شاہزیب سے اسی وجہ سے بات کرنے سے گریز کیا تھا وہ جانتی تھی وہ سو سوال کرے گا۔۔

"اچھا کوئی خاص وجہ یا ویسے ہی رک رہی ہو؟"
افرحہ نے پریشانی سے پوچھا۔

"وہ بھابھی کل ہماری پریزینٹیشن پے بس اس کی تیاری کر رہے ہیں آپ فکر مت کریں۔۔"
اس نے عسکری پر نظر ڈالتے افرحہ کو تسلی دلوائی تھی۔افرحہ اسے گڈ لک وش کرتی فون بند کر گئی تھی۔

"اس روم میں چلی جائیں۔۔"
عسکری نے اسکے فون بند کرنے کے بعد اسے شازل کے ساتھ والے روم میں جانے کا کہا تھا۔

"نہیں میں شازل کے پاس رکوں گی۔۔"
وہ سر نفی میں ہلاتی بولی تھی۔عسکری نے سرد آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔اپارٹمنٹ کی بیل ہونے سےاسے پتا چل گیا تھا اس کا ساتھی میڈسن اور باقی چیزیں کے آیا ہے۔۔وہ ایک نظر نورے پر ڈالتا تیزی سے دروازے کی جانب بڑھ گیا تھا۔اپنے ساتھی سے ساری چیزیں لیتا وہ اسے واپس بھجواتا دروازے کو اندر سے پاسورڈ لاک لگاچکا تھا تاکہ نورے بھاگ نہ سکے۔۔وہ نورے پر بنا نظر ڈالے تیزی سے روم میں چلا گیا تھا۔

وہ عسکری کے پیچھے شازل کے روم میں جانے لگی تھی لیکن عسکری اس کے منہ پر دروازہ بند کر چکا تھا اسے نورے پر بالکل بھی بھروسہ نہیں تھا۔

نورے پریشان سی دروازے کے ساتھ موجود دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھی۔اس کی نظروں کے سامنے بار بار شازل کا چہرہ آرہا تھا اپنی سوچوں میں گم ناجانے کب اس کی آنکھ لگ گئی اسے پتا ہی نہ چلا تھا۔ 

 صبح پانچ بجے اس کی آنکھ کھلی تھی۔دانیال کی وجہ سے وہ کافی حد تک بہتر محسوس کر رہا تھا۔دانیال نے اسے آرام کرنے کا کہا تھا مگر وہ نہیں مانا تھا اس نے عسکری کو اشارہ کرتے دانیال سے پین کلر میڈسن کا ہوچھ کر وہ کھالی تھیں۔۔وہ جانتا تھا چئیر پرسن کا قتل ہوا ہے اگر وہ نہ گیا تو سب کا شک اس پر جائے گا تبھی اسے مجبورا آج جانا پڑنا تھا وہ اچانک جوب نہیں چھوڑ سکتا تھا۔

وہ دانیال کو واپس بھجوا چکا تھا۔عسکری سے بھی سارا معاملہ ڈسکس کر چکا تھا۔عسکری اسے نورے کا بھی بتا چکا تھا۔وہ اسے واپس بھجوا چکا تھا۔

تیزی سے فریش ہوتا وہ بلیک شلوار قمیض پہنتا تیار ہوچکا تھا۔روم سے باہر نکلتے اس کی نظر نورے پر پڑی تھی۔جو دیوار سے ٹیک لگائے سو رہی تھی۔وہ کتنی معصوم لگ رہی تھی۔اس کے گال پر سوکھے آنسووں کے نشان دیکھ کر اس کا ہاتھ بےساختہ نورے کے گال کی طرف گیا تھا۔اس کے ٹھنڈے ہاتھ کے لمس کو محسوس کرتے نورے نے مندی مندی سے آنکھیں کھولی تھیں۔۔

شازل کو اپنے اوپر جھکے دیکھ کر اس کی آنکھیں پٹ سے کھل گئی تھیں۔۔شازل نے اس کے اٹھنے پر اپنا ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹا لیا تھا۔

"آپ ٹھیک ہیں۔۔"
اس نے اوپر سے نیچے تک شازل کو بغور دیکھتے پریشانی سے پوچھا۔

"جاو جاکر فریش ہوجاو میں تمھیں تمھارے گھر چھوڑ کر آوں۔۔"
شازل کے جواب نہ دینے پر اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔۔

"آپ پہلے میرے سوال کا جواب دیں آپ ٹھیک ہیں۔۔"
وہ ضدی لہجے میں پوچھ رہی تھی۔۔

"تمھیں کس اینگل سے میں ٹھیک نہیں لگ رہا ؟ فضول سوال بولنے سے بہتر ہے میری بات چپ چاپ مان لیا کرو۔۔"
وہ سرد نگاہوں سے نورے کو گھورتے ہوئے بول رہا تھا۔نورے لب بھینچ کر ایک نظر اس پر ڈالتی تیزی سے فریش ہونے چلی گئی تھی۔

نورے کے فریش ہونے کے بعد وہ اسے لیتا روانہ ہوا تھا۔گاڑی میں گہری خاموشی تھی نورے نظریں جھکائے اپنی سوچوں میں گم تھی۔

شازل کی سپاٹ آواز نے گاڑی میں موجود گہری خاموشی کو توڑا تھا۔

"تم نے کل مجھے یونیورسٹی میں نہیں دیکھا تھا۔۔اس بارے میں اگر تم نے کسی کو بھی بتایا تو تمھارے گھر والوں کے ساتھ جو میں کروں گا اس کی ذمہ دار تم خود ہوگی۔۔"
نورے نے آنکھیں پھیلا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔

"ک۔۔کیوں؟"
نورے نے دھیمی آواز میں پوچھا تھا۔

اس نے گاڑی ایک جھٹکے سے روکتے نورے کو بازو سے کھینچتے اپنے قریب کیا تھا۔
"جو بات میں ایک بار بول دوں اسے فورا دماغ میں بٹھا لیا کرو۔۔یہ فضول سوال پوچھ کر میرا دماغ مت گھمایا کرو۔۔"
شازل کی غصے سے بھری آواز سن کر اور اس کی سخت گرفت اپنے بازو پر محسوس کرتے اس کے منہ سے بےساختہ سسکی نکلی تھی۔

"میں سب کو بتاوں گی آپ جو کرنا چاہتے ہیں کرلیں۔۔"
وہ اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کرتی تیز لہجے میں بولی تھی۔مقابل کی دھمکیوں نے اسے طیش دلا دیا تھا۔وہ بھی نورے میر شاہ تھی کہاں پیچھے ہٹنے والی تھی۔

شازل اس کی بات پر مسکرایا تھا۔اچانک اس کا بازو چھوڑتے اس نے نورے کا چہرہ دبوچتے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔

"میرے ضبط کو مت آزماو۔۔ تمھارے ساتھ کچھ غلط ہوجائے گا۔۔"
وہ اس کے چہرے کو دبا کر چھوڑتا سرد آواز میں بولا تھا۔

"آوٹ۔۔"
وہ اس کے گھر پر نظر ڈالتا غرایا تھا۔نورے ایک نظر اس پر ڈالتی خفگی بھری ایک نظر اس پر ڈالتی باہر نکل گئی تھی۔اگر وہ زخمی نہ ہوتا تو شاید وہ کچھ الٹا سیدھا ضرور کرتی۔۔

"مجھے بالکل پسند نہیں آیا نورے تمھارا کسی کے گھر رکنا۔۔آئیندہ کے بعد ایسا کبھی مت کرنا۔۔"
وہ اپنے کمرے میں جارہی تھی جب شاہزیب نے اسے روکا تھا۔اس کی بات سنتے اس نے بےساختہ لب کاٹے تھے۔

"میں آئیندہ خیال رکھوں گی۔۔"
وہ سر ہلا کر بولتی اپنے روم میں چلی گئی تھی۔اس وقت وہ بس اپنا مائینڈ کول کرنا چاہتی تھی۔رات کے واقعہ یاد کرکے اس کا یونیورسٹی جانے کا بھی دل نہیں کر رہا تھا تبھی اس نے یونیورسٹی جانے کا ارادہ ترک کرتے آرام کرنے کا سوچا تھا۔

"نورے تمھاری آج پریزینٹیشن ہے تم نے یونی نہیں جانا؟"
اس کا یونیورسٹی کا ٹائم ہوتے دیکھ کر افرحہ اس کے کمرے میں آئی تھی۔

"نہیں بھابھی و۔۔وہ سر نے آج کینسل کردی ہے اب کل ہے۔۔"
وہ ایک پل کو گھبراتی فورا خود کو سنبھالتی ہوئی بولی تھی۔

"اوکے تم تھکی ہوئی لگ رہی ہو ریسٹ کرو۔۔"
نورے پر ایک نظر ڈالتی وہ چلی گئی تھی اپنی جان بچ جانے پر اس نے شکریہ ادا کیا تھا۔ 

 شازل کے یونیورسٹی جانے پر اسے چئیر پرسن کی ڈیتھ کی خبر ملی تھی جس پر اس نے اندر سے مسکراتے باہر سے حیرانی و پریشانی کا مظاہرہ کیا تھا۔

اس حادثے کے باعث سب ٹیچرز کے بیان لیے جارہے ہیں تھے۔جو رات کو یونیورسٹی میں موجود تھے۔وہ سکون میں تھا چونکہ وہ گارڈز کے مطابق چار بجے ہی گھر جاچکا تھا۔اس نے ڈین کے کہنے پر کلاسزز لیں تھیں۔۔یونیورسٹی میں ہرجگہ چئیر پرسن کے قتل کی خبر پھیل چکی تھی۔شازل مسرور سا سارے لیکچرز لیتا واپس گھر آگیا تھا نورے کی غیر موجودگی پر اس نے زیادہ دھیان نہیں دیا تھا وہ جانتا تھا کل کے واقعات نے اس کو اچھا خاصا تھکا دیا تھا۔

اپنے اپارٹمنٹ میں واپس آکر اس نے ڈاکٹر دانیال کو کال کر اہنی بینڈیج چینج کرنے کے لیے بلایا تھا پین کلرز وہ واپس آتے ہی لے گیا تھا۔

بینڈیج چینج کرنے کے بعد اس نے عسکری سے بات کی تھی۔
"مجھے وہ شخص ہر حال میں چاہیے اس سے میں اپنے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لوں گا۔۔"
وہ عسکری سے بولا تھا۔جبکہ اصل وجہ تو نورے تھی وہ اسے کسی خطرے میں نہیں دیکھ سکتا تھا جب اس خطرے کی وجہ بھی وہ خود ہو۔۔

"اوکے باس۔۔ویسے اس شخص کی شکل کیمرے میں واضح ہوچکی ہے۔۔میں رات کو باقی سارے کیمرے بھی یونیورسٹی سے ہٹوا چکا ہوں۔۔اب میں اس آدمی کے بارے میں ہی سرچ کر رہا ہوں بےفکر رہو دو دن میں اسے ڈھونڈ نکالوں گا۔۔تم یہ بتاو تمھاری پیاری سٹوڈنٹ کیسی ہے؟"
عسکری کے نورے کے بارے میں پوچھنے پر اس کی سوچوں کا رخ اس کی جان. مڑ گیا تھا۔

"شٹ اپ فضول بکواس مت کیا کرو۔۔"
اس نے ڈانٹ کر عسکری کو چپ کروایا تھا جب اچانک اپارٹمنٹ میں ہوتی بیل کو سنتا وہ عسکری کی کال کاٹتا دروازے کی جانب بڑھ گیا تھا۔دروازہ کھولتے اس کا سامنا حیدر سلطان سے ہوا تھا۔

"تم یہاں کیا کر رہے ہو۔۔؟"
شازل نے ماتھے پر بل ڈالے پوچھا تھا۔

"اندر آنے دو گے یا یہاں ہی شروع ہوجاوں۔۔؟"
حیدر نے سرد آہ خارج کرتے پوچھا۔شازل نے اسے سائیڈ پر ہٹ کر اندر آنے کی جگہ دی تھی۔

"تم نے وقار کا قتل کیا ہے نہ۔۔؟"
حیدر نے اس کی جانب مڑتے پوچھا تھا۔شازل نے بےتاثر انداز میں اس کی جانب دیکھا تھا۔

"تم کیا بول رہے ہو مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہی۔۔"
وہ بور انداز میں بولتا کاوچ پر بیٹھ گیا تھا۔

"تم مجھے بےوقوف نہیں بنا سکتے شازل۔۔"
حیدر نے چڑ کر سنجیدگی سے کہا تھا۔اس کا لاپرواہ انداز اسے غصہ دلا رہا تھا۔

"اچھا۔۔"
شازل نے ایل ای ڈی چلاتے کہا تھا۔حیدر گہرا سانس بھرتا اس کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔

"کیا تمھیں اسے مار کر سکون مل گیا شازل؟"
حیدر نے سنجیدگی سے پوچھا۔

"ہاں بہت زیادہ۔۔یہ ہی سننا چاہتے تھے نہ ؟ میں نے ہی مارا ہے اسے۔۔ میں ہر اس شخص کو ختم کردوں گا جو اس کام میں شامل تھا۔"
وہ حیدر کی جانب مڑتا سرد لہجے میں غرایا تھا۔

"اوکے پھر مجھے بھی مدد کرنے دو۔۔ میں بھی تمھارا ساتھ دینا چاہتا ہوں تمھارے کام آنا چاہتا ہوں۔۔"
حیدر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہا تھا۔

شازل نے گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیتے سوچا تھا۔

"اوکے مگر تم ویسا ہی کرو گے جیسا میں کہوں گا۔۔"
اس نے حیدر کو وارن کیا تھا جس پر وہ سر ہلا گیا تھا۔

"میں ابھی جاب نہیں چھوڑ سکتا اس لیے جاب کرنے کے ساتھ مجھے نیکسٹ ٹارگٹ پر کام کرنا پڑے گا اس میں تمھاری ہیلپ چاہیے ہوگی۔۔"
وہ پرسوچ نگاہوں سے ٹی وی پر چلتے پروگرام کو دیکھتا بولا تھا۔

"تم جو کہو گے میں کروں گا شازل۔۔"
حیدر کے مضبوط لہجے میں بولنے پر اس نے ہنکار بھرا تھا۔۔ 

 روحان ٹائم دیکھتا اپنے روم میں ریسٹ کرنے جارہا تھا جب اس کا دل ایک آخری نظر دانین پر ڈالنے کا کیا تھا۔وہ اپنے الجھے بالوں میں ہاتھ پھیرتا سیڑھیاں چڑھتے اس کے کمرے میں گیا تھا۔

دھیرے سے دروازہ کھولتے اس نے اندر جھانکا تھا۔کمرے میں لائٹ بلب جل رہا تھا۔وہ بنا آواز پیدا کیے اندر داخل ہوتا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا دانین کے پاس گیا تھا۔جو آنکھیں بند کیے کمفرٹر کو زور سے تھامے ہوئے تھی۔

اس کے معصوم چہرے پر نظر ڈالتے اسے چھونے کی خواہش شدت سے اس کے دل میں اٹھی تھی۔اس کا ہاتھ بےساختہ اس کے چہرے کی جانب بڑھا تھا۔ایک دم اپنا سر جھٹکتے اس نے خودکو روکا تھا۔

خودپر قابو پاتا وہ واپس پلٹنے لگا تھا جب دانین کی سسکی سن کر وہ ایک دم ساکت ہوگیا تھا۔جھٹکے سے پیچھے مڑتے اس نے دانین کو دیکھا تھا۔جو آنکھیں بند کیے کچھ بڑبڑائی رہی تھی۔

"ن۔۔نہیں چچ۔۔چھوڑ دو م۔۔مجھے۔۔آہہہہ۔۔۔"
وہ بیڈ پر حرکت کرتی نائٹ مئیر دیکھ رہی تھی۔روحان نے تیزی سے آگے بڑھتے اس کو کندھے سے تھام کر زور سے ہلایا تھا۔

"دانین۔۔۔ہوش میں آو۔۔۔ تم خواب دیکھ رہی ہو۔۔"
اس کے وجود کو جھنجھوڑتا وہ اونچی آواز میں بول رہا تھا۔

"دانین۔۔"
اس کے پکارنے پر دانین نے جھٹکے سے آنکھیں کھول کر گہرے سانس لینا شروع کیے تھے۔روحان کو دیکھتے اس نے بےساختہ روحان کا ہاتھ تھام لیا تھا۔

"و۔۔وہ روحان م۔۔مجھے بچا لیں۔۔"
وہ اس کی شرٹ مٹھی میں جکڑتی بری طرح سسک رہی تھی۔اس کی آنکھوں سے نکلتے آنسووں روحان کو ساکت کرگئے تھے۔۔

"پل۔۔پلیز انھیں کہییں۔۔کہیں میرا پیچھا چھوڑ دیں۔۔"
وہ روحان کو جھنجھوڑتے ہوئے التجا کر رہی تھی۔روحان نے بےساختہ اس کے گرد حصار باندھتے اسے خود میں بھیبچ لیا تھا۔

"میرے ہوتے ہوئے تمھیں کوئی چھو بھی نہیں سکتا۔۔ یہ روحان مصطفی کا وعدہ ہے دانین خان سے۔۔"
اس کی کمر سہلاتے وہ اسے تسلی دے رہا تھا۔دانین اس کے سینے میں منہ چھپائے بری طرح سسک رہی تھی۔اس کی بات سنتی اس کی آنکھوں سے بےشمار آنسو نکلے تھے۔

"پرامس۔۔"
اس نے روحان کے سینے سے چہرہ ہٹاتے اس کے سامنے اپنی چھوٹی سی ہتھیلی پھیلائی تھی۔

"پرامس۔۔آج سے بعد تمھاری حفاظت کی ذمہ داری میری ہے۔۔میرے ہوتے ہوئے کوئی تمھارے قریب بھی نہیں آپائے گا۔۔"
وہ اس کا ہاتھ تھامتا دوسرے ہاتھ سے اس کی نم آنکھیں صاف کرتا اس کی کانچ سی آنکھوں میں جھانک کر بولتا اسے آس دلا گیا تھا۔

نم آنکھوں سے مسکراتے دانین نے سر ہلایا تھا۔اسے یقین تھا روحان اسے کچھ نہیں ہونے دے گا۔۔

"اب تم سو جاو۔۔ میں یہاں ہی ہوں۔۔"
وہ دانین کو سونے کا بولتا بیڈ سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس پڑے ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا۔دانین اس کی جانب دیکھتی خاموشی سے لیٹ گئی تھی۔اس کی موجودگی سے ہی وہ خود کو بےحد محفوظ کر رہی تھی۔ آنکھیں بند کرتی وہ جلد ہی سو گئی تھی۔روحان اس کی جانب دیکھتا کرسی سے ٹیک لگائے ہی سو گیا تھا۔

 جاری ہے۔