Professor Khan Episode 7 (Part-1) Season 2 by Zanoor Writes

Professor Khan
Zanoor Writes 
Episode 7 (Part 1) 
(Series 2 in Professor Shah Novel)

 دن تیزی سے گزرنے لگ گئے تھے۔نورے کی ٹھوڑی کا زخم بھی کافی حد تک ٹھیک ہوچکا تھا۔سونیا کو واپس کلاس میں دیکھ کر نورے کو شدید غصہ آیا تھا۔اس کی وجہ سے ٹھوڑی پر اس کے نشان پڑ گیا تھا۔

کالے سمپل سے سوٹ اور ریڈ دوپٹے میں کالے سینڈل پہنے وہ معمول سے ہٹ کر تیار ہوئی تھی۔آج شازل نے ان کے ٹیسٹ واپس کرنے تھے۔جو پچھلے ہفتے لیے تھے۔

نورے نے کچھ لکھا تو تھا نہیں اس لیے امید تھی زیرو نمبر ملیں گے۔۔

"سب سے زیادہ مارکس سونیا کے ہیں اور کم نورے کے ہیں۔۔"
نورے سونیا کا نام سن کر ایک دم تپ اٹھی تھی۔اسے امید نہیں تھی وہ چالاک لومڑی اتنی لائق بھی ہوسکتی ہے۔۔سب کو اپنی جانب مڑ مڑ کر دیکھنے پر اس نے غصے سے آنکھیں گھمائیں تھیں۔

"تم یہ کوئیز پانچ بار لکھ کر لاو گی نورے۔۔"
اس کے سامنے زورسے کوئیز کا پیپر رکھتے وہ سنجیدگی سے بولا تھا۔نورے نے منہ بگاڑ کر پیپر کو دیکھا تھا اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا یہ پانچ بار لکھنے کا پڑھائی میں شروع سے ہی نکمی تھی تبھی اس نے ایک چھوٹی یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا کہ آسانی سے بنا پڑھے پاس ہوجائے گی مگر اسے کیا پتا تھا شازل جیسے سنکی سے اس کا سامنا ہوگا۔

"اوکے پروفیسر۔۔"
وہ لب کاٹتی زبردستی مسکرا کر بولی تھی۔شازل نے اس کی مصنوعی مسکراہٹ پر اسے گھور کر دیکھا تھا۔بدلے میں وہ ائبرو اچکا کر اسے دیکھنے لگی تھی جیسے پوچھ رہی ہو کوئی مسئلہ ہے۔۔

اپنا سر جھٹک کر شازل آگے بڑھ گیا تھا۔سونیا کو اس کا ٹیسٹ واپس دیتے اس نے چند تعریفی الفاظ بولے تھے جس سے سونیا تو خوشی سے جھوم اٹھی تھی مگر نورے جل اٹھی تھی۔

غصے سے اپنے ہاتھ میں موجود پین کو زور سے دباتے اس نے پیچھے مڑ کر جلتی آنکھوں سے شازل کو دیکھا تھا جو سونیا کو ٹیسٹ پکڑاتا آگے بڑھ گیا تھا۔

سونیا نے طنزیہ مسکراتے نور کو ونک کیا تھا جس پر وپ جل بھن پی اٹھی تھی۔اپنا ٹیمپر لوز ہوتے دیکھ کر وہ تیزی سے اپنا بیگ لیتی پیپر کو مڑوڑ کر اپنے ہاتھ میں پکڑتی تیزی سے کلاس سے نکل گئی تھی۔

اگر وہ کچھ دیر مزید اندر رکتی تو شاید سونیا کے بال نوچ لیتی۔۔۔اس کا ہاتھ بےساختہ اپنی ٹھوڑی پر موجود نشان پر گیا تھا جس سے اسے شدید نفرت ہوگئی تھی۔اسے وہ شدید برا لگتا تھا۔
خود پر قابو کرتی وہ لائبریری میں اپنی اسائمنٹ بنانے چلی گئی تھی۔سونیا سے اپنا بدلہ لینے کا بھی وہ اپنے ذہن میں پختہ ارادہ بنا چکی تھی۔ 

 شازل لیکچر دیتا کلاس سے نکل آیا تھا نورے کا یوں بےدھڑک کلاس سے نکل جانا اسے شدید غصہ دلاتا تھا۔وہ اپنا سر جھٹکتا اپنے آفس کی جانب بڑھ گیا تھا۔آج یونیورسٹی میں معمول سے زیادہ ہلچل تھی جس کی وجہ سے وہ بخوبی واقف تھا۔یونیورسٹی کا چئیر پرسن جو واپس آرہا تھا۔

جس لمحے کا وہ اتنے دنوں سے انتظار کر رہا تھا وہ بلآخر آہی گیا تھا جس پر اس کی رگوں میں موجود بدلے کی آگ کچھ مزید جوش سے بھڑکنے لگی تھی اس کا آج کا پورا پلان تھا۔چئیر پرسن کے آتے ہی اس کا کام تمام کرنے کا۔۔

اسے بس رات کا ہی انتظار تھا۔چئیر پرسن کے واپس آتے ہی سب کی ان کے ساتھ میٹنگ تھی۔وہ بھی اس میٹنگ میں شامل تھا۔چئیر پرسن وقار محمود کو ہنستے دیکھ کر وہ اپنا ضبط آزما رہا تھا۔

بس چند گھنٹے مزید وہ جلد ہی اس شخص کی سانسیں بند کرنے والا تھا۔سب کے چئیر پرسن سے ملنے پر اسے بھی مجبور اس گھٹیا شخص سے ہاتھ ملانا پڑا تھا۔خود کو بےحد درجہ نارمل رکھتے وہ مسکرا کر ملا تھا جبکہ آنکھیں ضبط کی شدت سے سرخ پڑ رہی تھی۔

میٹنگ ختم ہوتے ہی وہ وہاں سے نکلتا اپنے شیڈیول کے مطابق کلاس لیتا واپس چلا گیا تھا۔گاڑی میں بیٹھتے وہ اپنے اپارٹمنٹ میں گیا تھا۔وہاں سے کپڑے بدلتا بلیک ٹراوزر اور شرٹ پہن کر بلیک ماسک سے اپنا چہرہ ڈھانپتا اپنی گنز کو بوٹ اور جیکٹ میں چھپاتے وہ وہاں سے اپنی ایکسٹرا کار لے کر نکلا تھا۔رات کے سائے ہر جانب چھا گئے تھے۔

اس نے ٹائم دیکھتے عسکری کو کال ملائی تھی۔

"عسکری کام شروع کرو۔۔"
اس نے بلوٹوتھ اپنے کان میں لگاتے عسکری سے کہا تھا ساتھ ہی اپنی گاڑی یونیورسٹی کے پچھلی سائیڈ پر چھوٹی سی گلی میں کھڑی کرتا وہ اس کی نیچی سی دیوار سے پھلانگ کر اندر گیا تھا۔

"میں نے سلیپنگ گیس ایکٹیو کردی ہے وہ بےہوش ہے۔۔"
عسکری نے اسے بتایا تھا کچھ دنوں پہلے شازل نے ہی ایک چھوٹی سی ڈیوائس چئیرپرسن کے آفس میں لگائی تھی جس سے سلیپنگ گیس نکلتی تھی۔

"اس ایڈیٹ نے ہمارا کام آسان کردیا ڈرنک کرنے کے لیے وہ پہلے ہی اپنے پیون کو منا کر چکا تھا اسے ڈسٹرب نہ کیا جائے۔۔"
عسکری نے ہنس کر شازل کو بتایا تھا جو یونیورسٹی میں موجود سٹوڈنٹس سے چھپ کر چئیر پرسن کے آفس کی طرف جارہا تھا۔

"اوکے۔۔میں پہنچ گیا ہوں آفا کے قریب تم کیمرے سے ارد گرد کا خیال رکھو اور چوکنا رہو۔۔"
شازل دھیرے سے بولتا ادھر ادھر دیکھتا ہاتھوں پر گلفس ڈال کر تیزی سے اس کے آفس میں کھولتا داخل ہوچکا تھا۔آفس کو اندر سے لاک کرتے شازل تیزی سے قدم اٹھاتا اس کے قریب گیا تھا۔

اس کا نیند میں ڈوبے سکون دار چہرے کو دیکھ کر شازل کو شدید طیش آیا تھا دوسروں کو بےسکون کرکے وہ کتنے مزے سے سو رہا تھا۔

"چٹاخ۔۔"
ایک زوردار تھپڑ اس کے دائیں گال پر مارتے شازل نے اسے جگانے کی کوشش کی تھی۔اس گیس کا اثر بس آدھے گھنٹے ہی رہنا تھا۔

چئیر پرسن وقار محمود نے نیند سے بھری سرخ آنکھیں کھولتے ناسمجھی سے شازل کو دیکھا تھا جس نے ایک اور زوردار تھپڑ اس کے منہ پر جڑ دیا تھا۔

"ک۔۔کون ہو تم ؟"
دھیرے دھیرے ہوش میں آتے وقار نے پوچھا تھا۔

"تمھاری موت۔۔"
انتہائی سرد لہجے میں جواب دیا گیا تھا۔وقار محمود کے ہوش اڑ گئے تھے۔اس نے تیزی سے چیخنے کی کوشش کی تھی جب شازل نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے ایک انجیکشن اپنی جیب سے نکالتے اس کے بازو میں چبھو دیا تھا۔

"ی۔۔یہ کیا کیا تم نے۔۔؟"
شازل کے ہاتھ ہٹانے پر وقار محمود بےجان لہجے میں بولا تھا اسے اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔اپنا جسم بےجان محسوس کرکے وہ سفید پڑنے لگا تھا۔

"بہت بری موت دوں گا تمھیں۔۔"
شازل نے اس کے منہ پر ٹیپ لگاتے سرد لہجے میں بولتے اپنی جیکٹ سے سگریٹ نکال کر لائیٹر سے جلائی تھی۔

وقار محمود کی آنکھیں پھیل گئی تھی جب شازل نے جلتی سیگریٹ اس کے گال پر رکھ کر مسلی تھی وہ بری طرح تڑپ اٹھا تھا وہ چیخنا چاہتا تھا لیکن اس کا گلا ٹپ نے گھونٹا ہوا تھا۔

شازل نے سگریٹ کو جگہ جگہ اس کے چہرے پر مسلا تھا۔اس کے چہرے پر نشان دیکھ کر اسے سکون سا مل گیا تھا۔ختم ہوئی سیگریٹ کو بجھاتے وہ واپس جیب میں ڈالتا دوسری سیگریٹ نکال چکا تھا۔

"اس سیگریٹ سے کچھ یاد آیا۔۔دو سال پہلے کے تمھارے کرتوت۔۔"
شازل کے بولنے پر وقار محمود کے سامنے ایک معصوم سی لڑکی کا چہرہ آیا تھا جو تکلیف سے سسکتی اس سے رحم کی بھیک مانگ رہی تھی۔۔

"تمھارے چہرے سے لگ رہا ہے تمھیں یاد آگیا ہے میں کس کی بات کر رہا ہوں۔۔"
شازل نے اسکا منہ دبوچتے کہا تھا۔اس کے چہرے کے اڑے رنگ نے اس پر بہت کچھ آشکار کر دیا تھا۔

"میں تمھاری جان بخش دوں گا مجھے بس یہ جاننا ہے تمھارے ساتھ کون کون تھا۔"
شازل نے سرد لہجے میں اس کی آنکھوں میں دیکھتے پوچھا تھا۔
وقار محمود نے تیزی سے سر ہلایا تھا۔

"اگر چیخنے کی کوشش کی تو بھیجا اڑا دوں گا۔۔"
شازل نے کھینچ کر اس کے چہرے سے ٹیپ ہٹاتے کہا تھا۔اپنی گن وہ اس کے سر پر تان چکا تھا۔

"ایس ایس پی فراز شیخ ، ایم این اے شفیق رضوان ا۔۔اور اس کا بھتیجا فیاض ب۔۔بس باقی ایک اور شخص تھا م۔۔مگر میں اسے نہیں جانتا و۔۔وہ آخر میں آیا تھا۔"
وقار محمود نے تیزی سے بتایا تھا۔

"چھ لوگ تھے تم لوگ۔۔۔تم نے مجھے صرف تین لوگوں کا نام بتایا ہے۔۔"
شازل نے گن اس کے ماتھے میں زور سے مارتے کہا تھا۔

"م۔۔مجھے باقیو کا نہیں پتا میں جلدی واپس چلا گیا تھا۔۔"
اس نے جھٹ سے جواب دیا موت کے سائے سر پر منڈلاتے دیکھ کر اس کا سانس سوکھنے لگا تھا۔

شازل نے تیزی سے اس کا گریبان پکڑتے تیزی سے اس کے منہ پر مکے مارے تھے۔اس کا دل کر رہا تھا مقابل کا دل نوچ لے جس نے کسی کی معصومیت کو نوچ لیا تھا۔

"ت۔۔تم نے کہا تھا تم مجھے چھوڑ دو گے۔۔"
وہ تکلیف سے بلبلاتا بولا تھا۔

"تجھ جیسا وحشی بھیڑیا مجھ جیسے لوگوں کے ہاتھوں سے مڑنے کے لیے ہوتے ہیں۔۔تو نے سوچ بھی کیسے لیا میں ایک ریپسٹ کو معاف کردوں گا جو کسی کا قاتل ہے۔۔"
وہ اپنی گن سے اس کے سر پر دیوانوں کی طرح وار کرتا دھاڑا کرتا بولا تھا۔کانوں میں ایک میٹھی سی کھنکتی آواز کئی دور سے اسے آتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔وحشت سے غصے میں آتے اس نے ٹیبل پر زور سے اس کا سر مارا تھا۔

وقار محمود کا جسم بےجان ہونے لگا تھا۔

"شازل بس کام ختم کرو اب نکلو یہاں سے کوئی بھی اس طرف آسکتا ہے۔۔"
عسکری کی آوازسن کر شازل نے تیزی سے گن پر سائلنسر لگاتے اس کے سر پر رکھ کر ایک کے بعد کئی گولیاں اس کے اندر اتارتے اس کو ختم کردیا تھا۔سکون کی ایک لہر اسے اپنے اندر اترتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ 

 "مس اٹھیں۔۔لائبریری بند کرنے کا وقت ہوگیا ہے۔۔"
کسی کے بلانے پر نورے کی آنکھ کھلی تھی جھٹ سے سیدھا ہوتے اس نے ارد گرد دیکھا تھا۔اپنے سامنے کھڑے لائبریرین کو دیکھ کر اسے یاد آیا تھا وہ یہاں اسائمنٹ بناتے ہوئے سوگئی تھی۔

"اوہ۔۔شٹ مجھے پتا نہیں چلا۔۔"
وہ تیزی سے اپنی چیزیں سمیٹ کر بیگ میں ڈال کر اٹھ کر باہر نکل گئی تھی۔

ڈرائیور کو کال کرتی وہ فریش ہونے کے لیے واشروم میں آگئی تھی۔فریش ہوکر باہر نکلتے وہ تیزی سے باہر کی جانب بڑھ رہی تھی جب سامنے آتے شخص کو دیکھ کر وہ ساکت ہوئی تھی۔وہ اسے جانتی تھی وہ شخص ہی شازل کے بارے میں بات کرتا تھا اسی نے اس کے چہرے پر تھپڑ بھی مارے تھے۔

وہ تیزی سے گھبراتی دوسری طرف موجود راہداری کہ طرف بھاگی تھی اسے ایسا لگ رہا تھا وہ شخص اس کے یچھے آرہا ہے۔۔تیزی سے بھاگتے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا وہ شخص اسی کے پیچھے آرہا تھا۔

شازل جو کام نبٹا کر تیزی سے باہر نکلتا راہداری سے گزر رہا تھا۔نورے سیدھے اس میں آتی ٹکرائی تھی۔

"ہیلپ می۔۔"
وہ اپنے سامنے کالے لباس میں ملبوس شخص کی شکل دیکھے بغیر بولی تھی۔شازل نے نورے کو دیکھتے سامنے دیکھا تھا۔جہاں کوئی شخص اپنا چہرہ ماسک میں چھپائے کھڑا تھا۔

نورے نے نظر اٹھا کر ماسک کے پیچھے سے نظر آتی گہری نیلی آنکھوں کو دیکھا تھا وہ تو اسے کئی دور سے بھی پہچان سکتی تھی۔

"ش۔۔شازل۔۔"
وہ دھیمی آواز میں بولی تھی۔شازل نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تھا۔مقابل کو گن نکالتے دیکھ کر اس نے اپنی حیرت پر قابو پاتے اسے تیزی سے اپنے پیچھے کیا تھا جب مقابل کھڑے شخص کی گن سے نکلتی گولی سیدھی اس کے پیٹ میں لگی تھی۔

شازل نے تیزی سے اپنی گن نکالتے اس کے ہاتھ پر نشانہ لیا تھا۔گن اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گری تھی۔وہ شازل کی طرف دیکھتا تیزی سے اپنا ہاتھ پکڑتا گن اٹھا کر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرنے لگا تھا جب شازل نے اس کی ٹانگ میں گولی چلائی تھی۔

اپنے زخم پر زور سے نورے کے بازوں کی گرفت محسوس کرکے اس نے سختی سے اپنے لب بھینچ لیے تھے۔وہ اس کے ساتھ لگی کپکپارہی تھی۔شازل نے تیزی سے اسے بازو سے پکڑتے اپنے سامنے کیا تھا۔اس کا بازو تھامتے وہ تیزی سے وہاں سے نکلا تھا۔اسے اس وقت دوسرے آدمی کو مارنے سے زیادہ یہاں سے نکلنے کی جلدی تھی کسی بھی وقت وقار محمود کے قتل کی نیوز یونیورسٹی میں پھیل سکتی تھی۔

نورے ساکت سی اس کے ساتھ کھینچی چلی جارہی تھی۔اپنے ہاتھ پر کچھ گلا محسوس کرکے اس کی نظر بےساختہ اپنے بازو پر گئی تھی۔کسی انہونی کے احساس سےاس کا دل تیزی سے دھڑکا تھا۔لیکن اندھیرے کی وجہ سے وہ دیکھنے سے قاصر تھی۔

یونیورسٹی کا پچھلا گیٹ کھلا دیکھ کر اس نے شکر ادا کیا تھا۔وہ تیزی سے نورے کو نکلتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا۔تکلیف سے اس کے ماتھے پر پسینہ چمکنے لگا تھا۔

"ہیلو۔۔عسکری ایک کام کرو۔۔ایک آدمی کو یونیورسٹی بھیجو بیک سائیڈ پر جہاں جہاں اگر خون گرا ہے تواسے صاف کروا دو فورا۔۔"
عسکری نے اس کی بات سنتے ان کی ٹیم کے دوسرے بندے کو کال کی تھی جو یونیورسٹی میں ہی موجود تھا شازل اسے راہداری کا بھی بتا چکا تھا۔

"خون۔۔"
باہر سے آتی ہلکی سی روشنی میں وہ اپنا سرخ بازو دیکھ کر چیخی تھی۔شازل نے ایک نظر اس پر ڈالتے گاڑی سٹارٹ کی تھی۔

"ش۔۔شازل۔۔"
وہ جھٹکے سے شازل کی جانب مڑی تھی جو سختی سی سٹئیرینگ ویل کو پکڑے تکلیف سے اپنے لب بھینچے بیٹھا تھا۔

"ایک لفظ بھی مت بولنا۔۔"
وہ غصے میں دھاڑا تھا۔نورے اس کے چیخنے پر ڈرتی گاڑی کے دروازے سے چیخ کر بیٹھ گئی تھی۔اسے شازل سے شدید خوف محسوس ہو رہا تھا جبکہ اس کی چوٹ کا سوچ کر بےحد پریشانی بھی ہورہی تھی۔اپنے جذباتوں کی اسے بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ 

 گاڑی بلڈنگ کی پارکنگ لاٹ میں روکتے وہ تیزی سے باہر نکلا تھا۔نورے جو گاڑی میں بیٹھی تھی اس کے خاموشی سے جانے پر وہ بھی تیزی سے نکلتی اس کے پیچھے چل پڑی تھی۔

اس کے قدموں کی آہٹ سن کر وہ تیزی سے قدم اٹھاتا لفٹ کی جانب بڑھ گیا تھا۔نورے بھی تیزی دے چلتی لفٹ میں اینٹر ہوگئی تھی۔

مطلوبہ فلور پر پہنچ کر وہ نورے کا ہاتھ پکڑتا اسے کھینچ کر تیزی سے اپنے اپارٹمنٹ کے پاس لے گیا تھا۔اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے اس نے تیزی سے اپنی جیکٹ اتار کر پھینکی تھی۔

لاونچ میں موجود صوفے پر بیٹھتے اس نے دروازے کے پاس ساکت کھڑی نورے کی جانب دیکھتے اپنی شرٹ کے بٹن کھولنا شروع کیے تھے۔ماسک اتار کر وہ ٹیبل پر پھینک چکا تھا۔

"یہاں بےوقوفوں کی طرح کھڑے رہنے سے اچھا ہے اپنے ہاتھ پاوں چلاو۔۔سامنے موجود روم کے واشروم میں فرسٹ ایڈ کٹ پڑی ہے وہ نکال کر لاو۔۔"
وہ تیز لہجے میں بولا تھا۔نورے اس کی آواز سنتی تیزی سے کمرے کی جانب بھاگی تھی۔

وہ اپنی شرٹ ہٹاتا اپنے زخم کو دیکھنے لگا تھا جس سے خون تیزی سے نکل رہا تھا۔نورے کے کٹ لانے کے بعد وہ سیدھا ہوا تھا۔

اس کا برہنہ سینے دیکھتی وہ گھبرا کر اپنا چہرہ جھکا گئی تھی۔

"آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔۔"
وہ اس کے زخم پر نظر ڈالتی منہ پر بےساختہ ہاتھ رکھتی کپکپاتی آواز میں بولی تھی۔شازل نے اسے نظر انداز کرتے ایک سرد آہ خارج کی تھی۔

"ادھر آو۔۔"
شازل نے انگلیوں کے اشارے سے اسے اپنے قریب بلایا تھا۔نورے فورا اس کے قریب گئی تھی۔

"میری انگلیاں زخم کے اندر نہیں جارہی تمھاری انگلیاں باریک ہیں۔۔ان کا استعمال کرو اور گولی کو ٹٹول کر باہر نکالو۔۔"
اس کی بات سنتے نورے کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔اس نے تیزی سے سر نفی میں ہلایا تھا۔

"م۔۔مجھ سے یہ نہیں ہوگا۔۔"
وہ لب کاٹتے بولی تھی۔

"شٹ اپ یہ سب تمھاری وجہ سے ہوا ہے تم ہی اب اس کا علاج کرو گی۔۔"
اس کی کلائی پکڑ کر شازل نے سخت لہجے میں کہا تھا۔وہ پریشانی سے کانپنتی آہستہ سے زمین پر جھکی تھی۔اسے پتا تھا یہ سب اسی کی وجہ سے ہوا ہے۔۔

شازل نے اسے دیکھتے اس کے ہاتھ پکڑتے باریک گلوز پہنائے تھے۔

"جلدی کرو۔۔"
شازل کے بولنے پر اس نے تیزی سے اپنی انگلیاں اس کے زخم کے اندر ڈالی تھیں۔۔زورسے آنکھیں میچ کر وہ محسوس کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔گولی کی طرح کچھ محسوس کرکے اس نے باہر کی جانب کھینچا تھا۔

شازل تکلیف سے لب بھینچ کر زور سے صوفے کی پشت کو تھام کر ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔اس کے گولی نکالنے پر وہ تیزی سے سیدھا ہوتا سپرٹ سے زخم صاف کرتا سوئی میں دھاگا ڈال کر بنا نورے پر نظر ڈالے اپنے زخم کو بند کرنے لگا تھا۔

نورے گولی ٹیبل پر پھینکتی منہ کھولے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھ رہی تھی۔جس کا چہرہ تکلیف سےسرخ پڑا ہوا تھا مگر ایک بھی آواز اس کے لبوں سے نہیں نکلی تھی۔ اس کی ہمت کی داد دیتی وہ ساکت نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

خون کی کمی کی وجہ سے اسے چکر آنے لگے تھے۔اس نے اپنا سر تھامتے سٹیچیز لگانے کے بعد عسکری کو کال ملائی تھی۔اس دوران وہ نورے کو مکمل نظر انداز کر چکا تھا۔

"مجھے خون کی ضرورت ہے کسی بھروسے مند ڈاکٹر کو فورا میرے اپارٹمنٹ پر بھیجو۔۔"
عسکری نے اس کی بات پر بنا کوئی سوال پوچھے تیزی سے اپنے ایک دوست کو کال کی تھی جو لوکل ہوسپٹل میں ڈاکٹر تھا۔اسے شازل کے بلڈ گروپ کا بتاتے وہ خود اسے لیتا اپارٹمنٹ آیا تھا۔اسے شازل کی فکر ہورہی تھی۔یونیورسٹی میں ان کا کام مکمل ہوچکا تھا۔جس کے بعد اب اسے شازل کی فکر تھی۔

 جاری ہے۔۔