Professor Khan Episode 4 Season 2 by Zanoor Writes Complete Episode
Professor Khan
Zanoor Writes
Season 2
Episode 4
(Series 2 in Professor Shah Novel)
Zanoor Writes
Season 2
Episode 4
(Series 2 in Professor Shah Novel)
نورے اینڈ شازل سپیشل 😍🔥❣️
وہ اپنی بلیک شرٹ کے کف فولڈ کرتا سیڑھیاں اتر کر نیچے آتا خاموشی سے ڈائینگ ٹیبل پر محب خان کے بالکل مخالف سمت میں کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا۔آج اس نے معمول کے برعکس بلیک شرٹ اور پینٹ پہنی ہوئی تھی۔ساتھ بلیک جیکٹ اور بکھرے بال۔۔وہ نہایت ہینڈسم اور خوبرو لگ رہا تھا۔۔محب خان نے اپنے اپنے چہرے کے سامنے سے اخبار ہٹاتے اپنے صاحبزادے کو دیکھا تھا۔
"بیٹا تمھارا یہاں باپ بھی بیٹھا ہے ؟"
انھوں نے طنزیہ انداز میں بولا تھا۔
"مورننگ ڈیڈ۔۔"
وہ چائے کا کپ ہونٹوں سے لگاتا بھاری آواز میں بولا تھا۔ساری رات وہ جاگتا رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی آنکھیں سرخ دکھائی دے رہی تھیں۔۔
"تمھاری گاڑی پر یہ کارنامہ کس نے سر انجام دیا ہے۔۔"
وہ سر ہلاتے پوچھنے لگے تھے۔شازل نے لب بھینچ کر دانت کچکچائے تھے۔
"ویسے جس نے بھی لکھا ہے بالکل سچ لکھا ہے تمھارے بارے میں۔۔"
وہ اس کے چہرے کے اتاو چڑھاو دیکھ کر مسکراہٹ دبا کر بولے تھے۔گل خان نے ان کی طرف دیکھتے سر نفی میں ہلاتے انھیں چپ رہنے کا کہا تھا۔
"بالکل صحیح کہا آپ نے میں پاگل ، غنڈا اور سنکی ہی ہوں۔۔۔آپ کو یہ فخر سے سب کو بتانا چاہیے۔۔"
وہ چائے کا کپ ختم کرتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"ایسا تم نے ابھی تک کوئی کام ہی نہیں کیا جس پر مجھے فخر محسوس ہو۔۔"
محب خان کی بات پر غصے سے اس کی رگیں پھول گئی تھیں۔۔گل خان نے ملامتی نظروں سے محب خان کو دیکھا تھا۔
"اگر آپ مجھے مجبور نہ کرتی میں کبھی اس گھر میں دوبارہ قدم نہ رکھتا۔۔"
وہ سپاٹ نظروں سے اپنی ماں کو دیکھتا لمبے لمبے ڈھگ بھرتا نکل گیا تھا۔
"شازل۔۔؟"
وہ آوازیں دیتی رہ گئی تھیں لیکن ہر بار کی طرح وہ غصے سے بھرا نکل گیا تھا۔
"جانے دو اسے گل۔۔جو کرتا ہے کرنے دو۔۔۔ وہ اب اپنے فیصلے خود لیتا ہے۔۔"
وہ سرد آواز میں بولتے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔گل ایک نظر ان پر ڈالتی چائے کا خالی کپ اٹھا کر کچن میں چلی گئی تھیں۔۔
"بیٹا تمھارا یہاں باپ بھی بیٹھا ہے ؟"
انھوں نے طنزیہ انداز میں بولا تھا۔
"مورننگ ڈیڈ۔۔"
وہ چائے کا کپ ہونٹوں سے لگاتا بھاری آواز میں بولا تھا۔ساری رات وہ جاگتا رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی آنکھیں سرخ دکھائی دے رہی تھیں۔۔
"تمھاری گاڑی پر یہ کارنامہ کس نے سر انجام دیا ہے۔۔"
وہ سر ہلاتے پوچھنے لگے تھے۔شازل نے لب بھینچ کر دانت کچکچائے تھے۔
"ویسے جس نے بھی لکھا ہے بالکل سچ لکھا ہے تمھارے بارے میں۔۔"
وہ اس کے چہرے کے اتاو چڑھاو دیکھ کر مسکراہٹ دبا کر بولے تھے۔گل خان نے ان کی طرف دیکھتے سر نفی میں ہلاتے انھیں چپ رہنے کا کہا تھا۔
"بالکل صحیح کہا آپ نے میں پاگل ، غنڈا اور سنکی ہی ہوں۔۔۔آپ کو یہ فخر سے سب کو بتانا چاہیے۔۔"
وہ چائے کا کپ ختم کرتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"ایسا تم نے ابھی تک کوئی کام ہی نہیں کیا جس پر مجھے فخر محسوس ہو۔۔"
محب خان کی بات پر غصے سے اس کی رگیں پھول گئی تھیں۔۔گل خان نے ملامتی نظروں سے محب خان کو دیکھا تھا۔
"اگر آپ مجھے مجبور نہ کرتی میں کبھی اس گھر میں دوبارہ قدم نہ رکھتا۔۔"
وہ سپاٹ نظروں سے اپنی ماں کو دیکھتا لمبے لمبے ڈھگ بھرتا نکل گیا تھا۔
"شازل۔۔؟"
وہ آوازیں دیتی رہ گئی تھیں لیکن ہر بار کی طرح وہ غصے سے بھرا نکل گیا تھا۔
"جانے دو اسے گل۔۔جو کرتا ہے کرنے دو۔۔۔ وہ اب اپنے فیصلے خود لیتا ہے۔۔"
وہ سرد آواز میں بولتے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔گل ایک نظر ان پر ڈالتی چائے کا خالی کپ اٹھا کر کچن میں چلی گئی تھیں۔۔
"مجھے جاننا ہے وہ شخص کب تک واپس آئے گا۔۔اور عسکری مجھے شام تک یہ سب پتا چل جانا چاہیے۔۔تم جو کرنا چاہتے ہو کرو اس کے اکاونٹس ، سیم یا لوکیشن کسی بھی طرح ٹریس کرو۔۔اگر وہ یہاں نہ آیا میں اسے اس کے گھر میں گھس کر کام تمام کردوں گا۔۔لیکن اب مجھ سے صبر نہیں ہورہا۔۔"
وہ جلد بازی کر رہا تھا۔گھر سے باہر نکلتے ہی اس نے عسکری کو کال ملائی تھی جو ایک بہت ہی ہنر مند ہیکر تھا اور خان کے ساتھ کام کر رہا تھا۔
"تم جلد بازی میں سارا پلان خراب کردو گے۔۔"
عسکری نے اسے وارن کیا تھا۔
"وہ کب تک واپس آئے گا اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔۔اور مجھ میں مزید برداشت نہیں تم جانتے ہو اس کے بعد مزید لوگ بھی بیٹھے ہیں جن کا ہر روز سانس لینا مجھے اپنے اوپر ایک بوجھ محسوس ہو رہا ہے۔۔"
وہ سرد آواز میں بولا تھا۔اپنی گاڑی کو دیکھ کر اس نے لبب بھر بھینچ لیے تھے۔آج وہ اس گاڑی میں نہیں جاسکتا تھا یہ تو اسے پتا تھا۔گارڈ کو اسے واش کروانے کا حکم دیتا وہ گراج میں کھڑی اپنی ہیوی بائیک پر پڑا کپڑا ہٹا چکا تھا۔
کافی عرصے سے اس نے بائیک کا استعمال نہیں کیا تھا۔مگر آج تو کرنا پڑنا ہی تھا۔گارڈ کو ہاتھ کے اشارے سے بائیک پر کپڑا مارنے کا بولتا وہ سائیڈ پر ہوکر عسکری کی بات سننے لگا تھا۔
"ان سب کی موت بدتر ہوگی تم فکر مت کرو میں تمھارے ساتھ ہوں۔۔ہماری ٹیم تمھارے ساتھ ہے۔۔تم بس جلد بازی مت کرو۔۔"
عسکری کی بات نے اسے تھوڑا ٹھنڈا کیا تھا۔ورنہ محب خان کی باتوں سے آنے والے غصے نے اس کا میٹر شارٹ کر دیا تھا۔
"اوکے مگر یہ پتا کرواو وہ کب تک واپس لوٹے گا۔۔"
شازل نے جوابا بولتے کال کٹ کردی تھی۔موبائیل اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ڈالتے اس نے ہیلمیٹ پکڑ کر پہنتے اپنی بائیک سٹارٹ کی تھی۔گارڈ کو کار واش کروانے کے بارے میں ایک بار مزید بولتا وہ اپنی بائیک لیتا وہاں سے تیزی سے نکل گیا تھا۔
وہ جلد بازی کر رہا تھا۔گھر سے باہر نکلتے ہی اس نے عسکری کو کال ملائی تھی جو ایک بہت ہی ہنر مند ہیکر تھا اور خان کے ساتھ کام کر رہا تھا۔
"تم جلد بازی میں سارا پلان خراب کردو گے۔۔"
عسکری نے اسے وارن کیا تھا۔
"وہ کب تک واپس آئے گا اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔۔اور مجھ میں مزید برداشت نہیں تم جانتے ہو اس کے بعد مزید لوگ بھی بیٹھے ہیں جن کا ہر روز سانس لینا مجھے اپنے اوپر ایک بوجھ محسوس ہو رہا ہے۔۔"
وہ سرد آواز میں بولا تھا۔اپنی گاڑی کو دیکھ کر اس نے لبب بھر بھینچ لیے تھے۔آج وہ اس گاڑی میں نہیں جاسکتا تھا یہ تو اسے پتا تھا۔گارڈ کو اسے واش کروانے کا حکم دیتا وہ گراج میں کھڑی اپنی ہیوی بائیک پر پڑا کپڑا ہٹا چکا تھا۔
کافی عرصے سے اس نے بائیک کا استعمال نہیں کیا تھا۔مگر آج تو کرنا پڑنا ہی تھا۔گارڈ کو ہاتھ کے اشارے سے بائیک پر کپڑا مارنے کا بولتا وہ سائیڈ پر ہوکر عسکری کی بات سننے لگا تھا۔
"ان سب کی موت بدتر ہوگی تم فکر مت کرو میں تمھارے ساتھ ہوں۔۔ہماری ٹیم تمھارے ساتھ ہے۔۔تم بس جلد بازی مت کرو۔۔"
عسکری کی بات نے اسے تھوڑا ٹھنڈا کیا تھا۔ورنہ محب خان کی باتوں سے آنے والے غصے نے اس کا میٹر شارٹ کر دیا تھا۔
"اوکے مگر یہ پتا کرواو وہ کب تک واپس لوٹے گا۔۔"
شازل نے جوابا بولتے کال کٹ کردی تھی۔موبائیل اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ڈالتے اس نے ہیلمیٹ پکڑ کر پہنتے اپنی بائیک سٹارٹ کی تھی۔گارڈ کو کار واش کروانے کے بارے میں ایک بار مزید بولتا وہ اپنی بائیک لیتا وہاں سے تیزی سے نکل گیا تھا۔
آج آسمان صاف تھا سورج کی کرنیں ہر طرف پھیلی ہوئی تھیں۔نورے گاڑی کا شیشہ نیچے کیے ونڈو سے آتی ٹھنڈی ہوا اور خوشگوار موسم سے محظوظ ہو رہی تھی۔
اسے کل شازل کی گاڑی کے ساتھ کیا گیا سلوک یاد کرکے ایک دم ہنسی آئی تھی۔پھر رات کا خواب اور اس کے غصے کا سوچ کر اس نے ہنسی روکتے اپنے لب کاٹے تھے۔
اشارے پر گاڑی رکتے ایک بائیک ہوا کی تیزی سے اس کے قریب آکر رکی تھی۔اس نے فورا نظریں اٹھا کر بائیک پر سوار شخص کو گھور کر دیکھا تھا جس کی تیزی نے اس کے بال بکھیر دیے تھے۔۔
کسی کی نظروں کو محسوس کرتے شازل نے مڑ مر پیچھے دیکھا تھا۔بلیک ہیلمٹ پہنے زرا سا گردن موڑتے نورے پر نظر پڑتے ہی اس کے ماتھے پر بل پڑ گئے تھے۔۔
نورے اس کی شکل دیکھنے سے قاصر تھی تبھی اسے پتا نہیں چلا بائیک پر سوار کوئی اور نہیں اس کی جان کا دشمن شازل خان تھا جو غصے سے اسے گھور رہا تھا۔
"ایسے کیا گھور رہے ہو ؟ ٹھرکی انسان کبھی کوئی لڑکی نہیں دیکھی۔۔؟"
وہ غصے سے بولی تھی۔شازل اسے جواب دینے لگا تھا جب ایک اشارا کھل گیا تھا۔اسے بعد میں ایک ہی بار مزا چکھانے کا سوچتا وہ بائیک کے ہینڈلز پر گرفت مضبوط کرتا بائیک کو ریس دیتا تیزی سے وہاں سے نکل گیا تھا۔
"آپ میرا منہ کیا دیکھ رہیں ہے سامنے دیکھ کر گاڑی چلائیں۔۔"
وہ ڈرائیور کو اپنی طرف دیکھتے ڈپٹتے ہوئے بولی تھی۔ڈرائیور نے گڑبڑا کر فورا اپنی نظروں کو سیدھا کر لیا تھا۔
اسے کل شازل کی گاڑی کے ساتھ کیا گیا سلوک یاد کرکے ایک دم ہنسی آئی تھی۔پھر رات کا خواب اور اس کے غصے کا سوچ کر اس نے ہنسی روکتے اپنے لب کاٹے تھے۔
اشارے پر گاڑی رکتے ایک بائیک ہوا کی تیزی سے اس کے قریب آکر رکی تھی۔اس نے فورا نظریں اٹھا کر بائیک پر سوار شخص کو گھور کر دیکھا تھا جس کی تیزی نے اس کے بال بکھیر دیے تھے۔۔
کسی کی نظروں کو محسوس کرتے شازل نے مڑ مر پیچھے دیکھا تھا۔بلیک ہیلمٹ پہنے زرا سا گردن موڑتے نورے پر نظر پڑتے ہی اس کے ماتھے پر بل پڑ گئے تھے۔۔
نورے اس کی شکل دیکھنے سے قاصر تھی تبھی اسے پتا نہیں چلا بائیک پر سوار کوئی اور نہیں اس کی جان کا دشمن شازل خان تھا جو غصے سے اسے گھور رہا تھا۔
"ایسے کیا گھور رہے ہو ؟ ٹھرکی انسان کبھی کوئی لڑکی نہیں دیکھی۔۔؟"
وہ غصے سے بولی تھی۔شازل اسے جواب دینے لگا تھا جب ایک اشارا کھل گیا تھا۔اسے بعد میں ایک ہی بار مزا چکھانے کا سوچتا وہ بائیک کے ہینڈلز پر گرفت مضبوط کرتا بائیک کو ریس دیتا تیزی سے وہاں سے نکل گیا تھا۔
"آپ میرا منہ کیا دیکھ رہیں ہے سامنے دیکھ کر گاڑی چلائیں۔۔"
وہ ڈرائیور کو اپنی طرف دیکھتے ڈپٹتے ہوئے بولی تھی۔ڈرائیور نے گڑبڑا کر فورا اپنی نظروں کو سیدھا کر لیا تھا۔
کلاس میں داخل ہوتے نورے کی نظر اونچی آواز میں ہنستی ایک لڑکی کی طرف گئی تھی اس نے پہلے کبھی اسے یہاں نہیں دیکھا تھا یقینا وہ ایک نئی لڑکی تھی۔۔اور اپنے سٹائل سے کافی موڈرن بھی لگ رہی تھی۔
نورے آنکھیں گھماتی لاسٹ پر جاکر بیٹھ چکی تھی۔اسے اس لڑکی کی اونچی آواز لاسٹ تک سنائی دے رہی تھی۔
کلاس کا ٹائم ہوتے ہی سب ایک دم سیدھا ہوگئے تھے۔شازل کا لیکچر تھا اس لیے سب مودب طریقے سے بیٹھے ہوئے تھے۔
نورے اپنا موبائل نکال کر چلانے لگی تھی۔شازل خان کے روم میں داخل ہوتے ہی اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تک نہ تھا۔
"افف۔۔۔یار یہ کتنا ہینڈسم پروفیسر ہے۔۔میرا دل کر رہا ہے ابھی اس سے شادی کرلوں۔۔"
اپنے سے کچھ آگے بیٹھی سونیا نامی لڑکی کی باتوں نے نورے کو سر اٹھانے پر مجبور کر دیا تھا۔ سر اٹھا کر اس نے سامنے دیکھا تھا۔
شازل پر نظر پڑتے ہی اس کو اپنا دل ایک رکتا اور پھر تیزی سے دھڑکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ بلیک شرٹ اور پینٹ میں وہ چمک رہا تھا۔ اس کے چہرے پر چھائے سخت تاثرات اس کی پرسنیلٹی کو مزید ابھار رہے تھے۔ نورے کو اس سے بیڈ بوائز والی وائیبز آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ ۔
شازل نے نورے کو اپنی جانب دیکھتے اسے گھور کر دیکھا تھا۔نورے نے مسکراہٹ دباتے اسے اپنی ائبرو اچکاتے جیسے اس کے گھورنے کی وجہ پوچھی تھی۔
سونیا نے شازل کی نظریں پیچھے دیکھ کر پیچھے مڑتے دیکھا تھا۔ نورے پر نظر پڑتے اس کے ماتھے پر بل ہڑ گئے تھے۔ اپنی دوست کی آواز سنتی وہ سیدھی ہوئی تھی۔
شازل نے لب بھینچتے اپنی نظریں اس سے ہٹا لی تھیں۔ ۔اس کی جرت پر شازل خان کو زیادہ حیرت نہیں ہوئی تھی۔ اسے پتا چل گیا تھا نورے کے پاس دماغ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔۔۔
لیکچر آف ہوتے ہی شازل نے نورے کو روکا تھا۔
"اس لیکچر کے بعد مجھے میرے آفس میں ملیے گا مس نورے۔۔"
وہ جبڑے بھینچ کر بولا تھا۔
"آپ کو کوئی بات کرنی ہے تو یہاں ہی کرلیں پروفیسر نیکسٹ میرا کوئی لیکچر نہیں فری۔۔"
وہ بہانہ بناتے ہوئے بولی تھی۔جانتی تھی مقابل انتہائی شاطر ہے یقینا کل کا بدلہ لینے کے لیے اسے آفس بلا رہا ہے۔۔
"میرے پاس آپ کا شیڈیول ہے مس نورے نیکسٹ لیکچر آپ کا فری ہے۔۔سو ڈونٹ میک لیم ایکسکیوزیز۔۔"
وہ سٹوڈنٹس کو دیکھتا قدرے مودب انداز میں بولا تھا۔نورے مرتی کیا نہ کرتی سر ہلا کر تیزی سے وہاں سے نکل گئی تھی۔
"سر۔۔۔آئی ہیو آ کویسچن۔۔"
سونیا نے کلاس خالی ہوتے دیکھ کر اس کے ٹیبل کے قریب جاتے ہوئے کہا۔۔
"جو بھی کویسچن ہے کل پوچھیے گا۔۔"
وہ اپنی چیزیں اٹھاتا بنا سونیا کی جانب دیکھے نکل گیا تھا۔پیچھے سونیا جل کر رہ گئی تھی۔
نورے آنکھیں گھماتی لاسٹ پر جاکر بیٹھ چکی تھی۔اسے اس لڑکی کی اونچی آواز لاسٹ تک سنائی دے رہی تھی۔
کلاس کا ٹائم ہوتے ہی سب ایک دم سیدھا ہوگئے تھے۔شازل کا لیکچر تھا اس لیے سب مودب طریقے سے بیٹھے ہوئے تھے۔
نورے اپنا موبائل نکال کر چلانے لگی تھی۔شازل خان کے روم میں داخل ہوتے ہی اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تک نہ تھا۔
"افف۔۔۔یار یہ کتنا ہینڈسم پروفیسر ہے۔۔میرا دل کر رہا ہے ابھی اس سے شادی کرلوں۔۔"
اپنے سے کچھ آگے بیٹھی سونیا نامی لڑکی کی باتوں نے نورے کو سر اٹھانے پر مجبور کر دیا تھا۔ سر اٹھا کر اس نے سامنے دیکھا تھا۔
شازل پر نظر پڑتے ہی اس کو اپنا دل ایک رکتا اور پھر تیزی سے دھڑکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ بلیک شرٹ اور پینٹ میں وہ چمک رہا تھا۔ اس کے چہرے پر چھائے سخت تاثرات اس کی پرسنیلٹی کو مزید ابھار رہے تھے۔ نورے کو اس سے بیڈ بوائز والی وائیبز آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ ۔
شازل نے نورے کو اپنی جانب دیکھتے اسے گھور کر دیکھا تھا۔نورے نے مسکراہٹ دباتے اسے اپنی ائبرو اچکاتے جیسے اس کے گھورنے کی وجہ پوچھی تھی۔
سونیا نے شازل کی نظریں پیچھے دیکھ کر پیچھے مڑتے دیکھا تھا۔ نورے پر نظر پڑتے اس کے ماتھے پر بل ہڑ گئے تھے۔ اپنی دوست کی آواز سنتی وہ سیدھی ہوئی تھی۔
شازل نے لب بھینچتے اپنی نظریں اس سے ہٹا لی تھیں۔ ۔اس کی جرت پر شازل خان کو زیادہ حیرت نہیں ہوئی تھی۔ اسے پتا چل گیا تھا نورے کے پاس دماغ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔۔۔
لیکچر آف ہوتے ہی شازل نے نورے کو روکا تھا۔
"اس لیکچر کے بعد مجھے میرے آفس میں ملیے گا مس نورے۔۔"
وہ جبڑے بھینچ کر بولا تھا۔
"آپ کو کوئی بات کرنی ہے تو یہاں ہی کرلیں پروفیسر نیکسٹ میرا کوئی لیکچر نہیں فری۔۔"
وہ بہانہ بناتے ہوئے بولی تھی۔جانتی تھی مقابل انتہائی شاطر ہے یقینا کل کا بدلہ لینے کے لیے اسے آفس بلا رہا ہے۔۔
"میرے پاس آپ کا شیڈیول ہے مس نورے نیکسٹ لیکچر آپ کا فری ہے۔۔سو ڈونٹ میک لیم ایکسکیوزیز۔۔"
وہ سٹوڈنٹس کو دیکھتا قدرے مودب انداز میں بولا تھا۔نورے مرتی کیا نہ کرتی سر ہلا کر تیزی سے وہاں سے نکل گئی تھی۔
"سر۔۔۔آئی ہیو آ کویسچن۔۔"
سونیا نے کلاس خالی ہوتے دیکھ کر اس کے ٹیبل کے قریب جاتے ہوئے کہا۔۔
"جو بھی کویسچن ہے کل پوچھیے گا۔۔"
وہ اپنی چیزیں اٹھاتا بنا سونیا کی جانب دیکھے نکل گیا تھا۔پیچھے سونیا جل کر رہ گئی تھی۔
پیلے رنگ کے سمپل سے کرتے اور ٹروزر میں کندھے پر شال ڈالے وہ مردہ قدموں کے ساتھ چلتی شازل کے آفس تک گئی تھی۔اسے پتا تھا کہ شازل نے اسے ڈانٹنا ہے اور کیا پتا وہ اسے گولی سے ہی اڑا دے۔۔
"یاالله بس اس بار مجھے بچا لینا۔۔ مجھے اس غنڈے پر بالکل بھی بھروسہ نہیں کیا پتا غصے میں مجھے گن سے اڑا دے۔۔"
وہ اپنے خشک ہونٹ تر کرتی بڑبڑائی تھی۔
"سارا دن یہاں کھڑے رہ کر دعائیں مانگنے سے اچھا ہے اپنے الٹے کاموں کی سزا لے لو۔۔"
شازل جو کب سے کسی کا پرچھاواں دروازے کے پاس دیکھ رہا تھا۔وہ دروازہ کھولتا اسے دعائیں مانگتا دیکھ کر لب بھینچ کر طنزیہ انداز میں بولا تھا۔
"م۔۔میں نے کیا ایسا کونسا کام کردیا جو آپ مجھے سزا دیں گے۔؟"
وہ شازل کے اچانک بولنے پر جہاں ڈر گئی تھی۔وہاں ہی اچانک سیدھی ہوتی مضبوط آواز میں بولی تھی۔
شازل کے تاثرات بدلے تھے۔اس نے دائیں بائیں دیکھتے اسے بازو سے پکڑ کر آفس کے اندر کھینچ کر دروازہ تیزی سے بند کر دیا تھا۔
اس کی حرکت پر وہ بری طرح گھبرائی تھی۔شازل کا غصہ سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھ کر اس کا سانس خشک ہوا تھا۔
"تم نے کل میری کار پر وہ سب بکواس لکھی تھی نہ؟"
وہ غصے سے اس کے گرد بازو ٹکائے اس پر جھکا پوچھ رہا تھا۔
"کونسی کار؟"
اس نے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے پوچھا۔۔شازل نے گھور کر اس تیز لڑکی کو دیکھا جو معصوم شکل بنائے کسی کو بھی دھوکا دے سکتی تھی مگر وہ شازل خان تھا کسی کے جھانسے میں آسانی سے نہیں آتا تھا۔
"مجھ سے جھوٹ بولنے کی کوشش بھی مت کرو۔۔"
وہ اس کے پیچھے موجود دیوار پر زور سے ہاتھ مارتا اسے ڈرانے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس کا غصہ دیکھ کر نورے کی حالت خراب ہوئی تھی۔پھر اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا تھا۔جس پر اس نے فورا عمل کیا تھا۔
"دور ہٹیں میرا دل خراب ہو رہا ہے۔۔"
نورے نے منہ پر ہاتھ رکھتے گھٹی گھٹی آواز میں کہا تھا۔
شازل اس کی حالت دیکھتا کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹا تھا۔اسے اس لڑکی پر رتی برابر بھی یقین نہیں تھا کیا پتا وہ پاگل اس پر ہی قے کر دیتی۔۔
نورے نے منہ سے ہاتھ ہٹاتے قے کرنے کے انداز میں اس کی طرف منہ کرتے اوک لیے تھے۔
"یہ کیا کر رہی ہو پاگل لڑکی ؟ دوسری طرف منہ کرو۔۔"
وہ منہ بگاڑتا پیچھے ہٹنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔غصے کی جگہ اب اس کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات تھے۔
"اب میں قے کو روک نہیں سکتی۔۔آپ کا دل کرے تو میری سانس بھی روک دیں۔۔"
وہ منہ جھکا کر کھانستی ہوئی اپنی ہنسی دبا کر بولی تھی۔اسے تنگ کرنے کا ایک الگ ہی مزا آرہا تھا۔
"تم۔۔ پاگل ہو فورا واشروم میں جاو۔۔"
وہ پیچھے ہٹتا ہوا بولا تھا۔دل تو کر رہا تھا اسے دھکا دے کر آفس سے باہر پھینک دے۔۔
"نہیں یہ آپ کی وجہ سے ہوا ہے میں آپ کے ساتھ ہی رہوں گی۔۔"
اس کو بازو سے پکڑتے چہرہ نیچے جھکائے وہ دبی آواز میں بولی تھی۔ اس کی ہنسی روکنے کی وجہ سے چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔شازل کے تاثرات بگڑے تھے۔
"میرا بازو چھوڑو۔۔"
وہ اس سے اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا مگر نورے نے خاصہ زور سے اس کے کرتے کو انگلیوں میں دبوچا ہوا تھا۔
"نہیں آپ مجھے اس حالت میں اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔۔"
وہ ہنسی روکتی اس کے بازو پر مزید گرفت مضبوط کر رہی تھی۔
شازل نے اس کے ناچھوڑنے پر تنگ آتے جھک کر اپنے بوٹ میں چھپی گن نکالی تھی۔نورے جو نیچے جھکی ہوئی ہنسی چھپا رہی تھی اسے شازل نے دیکھ لیا تھا۔اسے پتا چل گیا تھا وہ اسے تنگ کر رہی ہے جبکہ گن دیکھ کر نورے کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔۔
"ہاں اب بتاو۔۔نہیں جانے دو گی ؟"
اس نے گن نورے کے سر پر رکھی تھی۔نورے نے سر اٹھاتے اسے جھٹکے سے چھوڑا تھا۔
"کیا ہوا ؟ ڈر گئی ؟"
اس نے طنزیہ انداز میں نورے کی طرف قدم بڑھاتے پوچھا تھا۔
"آپ پ۔۔پاگل ہیں بات بات پر گن نکال کر بیٹھ جاتے ہیں انسانوں کی طرح زبان سے بھی مسئلہ حل کر لیا کریں۔۔"
وہ خشک حلق تر کرتی پیچھے کو ہٹتی دوبارہ دیوار سے جالگی تھی۔
"اس گن پر سائلنسر لگا ہوا ہے تم پر چلاوں گا تو کسی کو بھی خبر نہیں ہوگی۔۔"
وہ گن اس کے ماتھے پر رکھتا طنزیہ مسکرا کر بولا تھا۔بلیک ڈریس میں وہ کوئی ڈیول ہی لگ رہا تھا۔
"آہہ۔۔۔"
وہ اچانک شازل کو دیکھتی منہ ہاتھوں میں چھپا کر اونچا اونچا رونے لگی تھی۔شازل اس کی حرکت پر ایک دم حیران ہوتا اپنا سر نفی میں ہلاتا پیچھے ہٹا تھا۔اس کی ایکٹنگ دیکھ کر وہ اش اش کر اٹھا تھا۔
"فورا نکل جاو یہاں سے۔۔۔اس سے پہلے میرا دماغ گھوم جائے اور میں تمھارا گلا دبا دوں۔۔۔"
وہ غصے سے گہرے گہرے سانس لیتا بولا تھا۔نورے نے ہولے سے انگلیاں اپنے چہرے سے ہٹاتے اس کا غصے سے سرخ چہرہ دیکھا تھا۔
"میری شکل اگر دیکھ لی ہوتو جاو یہاں سے۔۔اور خبردار جو مجھے دوبارہ ٹھرکی یا کچھ اور کہا۔۔"
اس کی بات سنتی وہ تیزی سے باہر نکل گئی تھی مگر اس کی آخری بات پر وہ تھوڑا کنفیوز ہوگئی تھی۔پھر اچانک اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا تھا اسے صبح بائیک والا لڑکا یاد آیا اس کی ڈریسنگ اور شازل کی ڈریسنگ یاد کرکے اس نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا تھا۔
"یہ لڑکی۔۔مجھے پاگل کرکے چھوڑے گی۔۔"
گن دوبارہ اپنے بوٹ میں چھپاتے اسے اچھے سے پینٹ سے کور کرتے اس نے اپنے لیے ایک چائے منگوائی تھی۔سگریٹ کی ڈبیا اپنی پاکٹ سے نکالتے اس نے ایک سگریٹ نکال کر سلگائی تھی۔سگریٹ کے دھواں ساتھ اسے اپنا غصہ بھی کم ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔
اور پیون کےچائے لانے کے بعد چائے پی کر اسے سکون مل گیا تھا۔
"یاالله بس اس بار مجھے بچا لینا۔۔ مجھے اس غنڈے پر بالکل بھی بھروسہ نہیں کیا پتا غصے میں مجھے گن سے اڑا دے۔۔"
وہ اپنے خشک ہونٹ تر کرتی بڑبڑائی تھی۔
"سارا دن یہاں کھڑے رہ کر دعائیں مانگنے سے اچھا ہے اپنے الٹے کاموں کی سزا لے لو۔۔"
شازل جو کب سے کسی کا پرچھاواں دروازے کے پاس دیکھ رہا تھا۔وہ دروازہ کھولتا اسے دعائیں مانگتا دیکھ کر لب بھینچ کر طنزیہ انداز میں بولا تھا۔
"م۔۔میں نے کیا ایسا کونسا کام کردیا جو آپ مجھے سزا دیں گے۔؟"
وہ شازل کے اچانک بولنے پر جہاں ڈر گئی تھی۔وہاں ہی اچانک سیدھی ہوتی مضبوط آواز میں بولی تھی۔
شازل کے تاثرات بدلے تھے۔اس نے دائیں بائیں دیکھتے اسے بازو سے پکڑ کر آفس کے اندر کھینچ کر دروازہ تیزی سے بند کر دیا تھا۔
اس کی حرکت پر وہ بری طرح گھبرائی تھی۔شازل کا غصہ سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھ کر اس کا سانس خشک ہوا تھا۔
"تم نے کل میری کار پر وہ سب بکواس لکھی تھی نہ؟"
وہ غصے سے اس کے گرد بازو ٹکائے اس پر جھکا پوچھ رہا تھا۔
"کونسی کار؟"
اس نے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے پوچھا۔۔شازل نے گھور کر اس تیز لڑکی کو دیکھا جو معصوم شکل بنائے کسی کو بھی دھوکا دے سکتی تھی مگر وہ شازل خان تھا کسی کے جھانسے میں آسانی سے نہیں آتا تھا۔
"مجھ سے جھوٹ بولنے کی کوشش بھی مت کرو۔۔"
وہ اس کے پیچھے موجود دیوار پر زور سے ہاتھ مارتا اسے ڈرانے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس کا غصہ دیکھ کر نورے کی حالت خراب ہوئی تھی۔پھر اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا تھا۔جس پر اس نے فورا عمل کیا تھا۔
"دور ہٹیں میرا دل خراب ہو رہا ہے۔۔"
نورے نے منہ پر ہاتھ رکھتے گھٹی گھٹی آواز میں کہا تھا۔
شازل اس کی حالت دیکھتا کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹا تھا۔اسے اس لڑکی پر رتی برابر بھی یقین نہیں تھا کیا پتا وہ پاگل اس پر ہی قے کر دیتی۔۔
نورے نے منہ سے ہاتھ ہٹاتے قے کرنے کے انداز میں اس کی طرف منہ کرتے اوک لیے تھے۔
"یہ کیا کر رہی ہو پاگل لڑکی ؟ دوسری طرف منہ کرو۔۔"
وہ منہ بگاڑتا پیچھے ہٹنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔غصے کی جگہ اب اس کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات تھے۔
"اب میں قے کو روک نہیں سکتی۔۔آپ کا دل کرے تو میری سانس بھی روک دیں۔۔"
وہ منہ جھکا کر کھانستی ہوئی اپنی ہنسی دبا کر بولی تھی۔اسے تنگ کرنے کا ایک الگ ہی مزا آرہا تھا۔
"تم۔۔ پاگل ہو فورا واشروم میں جاو۔۔"
وہ پیچھے ہٹتا ہوا بولا تھا۔دل تو کر رہا تھا اسے دھکا دے کر آفس سے باہر پھینک دے۔۔
"نہیں یہ آپ کی وجہ سے ہوا ہے میں آپ کے ساتھ ہی رہوں گی۔۔"
اس کو بازو سے پکڑتے چہرہ نیچے جھکائے وہ دبی آواز میں بولی تھی۔ اس کی ہنسی روکنے کی وجہ سے چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔شازل کے تاثرات بگڑے تھے۔
"میرا بازو چھوڑو۔۔"
وہ اس سے اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا مگر نورے نے خاصہ زور سے اس کے کرتے کو انگلیوں میں دبوچا ہوا تھا۔
"نہیں آپ مجھے اس حالت میں اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔۔"
وہ ہنسی روکتی اس کے بازو پر مزید گرفت مضبوط کر رہی تھی۔
شازل نے اس کے ناچھوڑنے پر تنگ آتے جھک کر اپنے بوٹ میں چھپی گن نکالی تھی۔نورے جو نیچے جھکی ہوئی ہنسی چھپا رہی تھی اسے شازل نے دیکھ لیا تھا۔اسے پتا چل گیا تھا وہ اسے تنگ کر رہی ہے جبکہ گن دیکھ کر نورے کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔۔
"ہاں اب بتاو۔۔نہیں جانے دو گی ؟"
اس نے گن نورے کے سر پر رکھی تھی۔نورے نے سر اٹھاتے اسے جھٹکے سے چھوڑا تھا۔
"کیا ہوا ؟ ڈر گئی ؟"
اس نے طنزیہ انداز میں نورے کی طرف قدم بڑھاتے پوچھا تھا۔
"آپ پ۔۔پاگل ہیں بات بات پر گن نکال کر بیٹھ جاتے ہیں انسانوں کی طرح زبان سے بھی مسئلہ حل کر لیا کریں۔۔"
وہ خشک حلق تر کرتی پیچھے کو ہٹتی دوبارہ دیوار سے جالگی تھی۔
"اس گن پر سائلنسر لگا ہوا ہے تم پر چلاوں گا تو کسی کو بھی خبر نہیں ہوگی۔۔"
وہ گن اس کے ماتھے پر رکھتا طنزیہ مسکرا کر بولا تھا۔بلیک ڈریس میں وہ کوئی ڈیول ہی لگ رہا تھا۔
"آہہ۔۔۔"
وہ اچانک شازل کو دیکھتی منہ ہاتھوں میں چھپا کر اونچا اونچا رونے لگی تھی۔شازل اس کی حرکت پر ایک دم حیران ہوتا اپنا سر نفی میں ہلاتا پیچھے ہٹا تھا۔اس کی ایکٹنگ دیکھ کر وہ اش اش کر اٹھا تھا۔
"فورا نکل جاو یہاں سے۔۔۔اس سے پہلے میرا دماغ گھوم جائے اور میں تمھارا گلا دبا دوں۔۔۔"
وہ غصے سے گہرے گہرے سانس لیتا بولا تھا۔نورے نے ہولے سے انگلیاں اپنے چہرے سے ہٹاتے اس کا غصے سے سرخ چہرہ دیکھا تھا۔
"میری شکل اگر دیکھ لی ہوتو جاو یہاں سے۔۔اور خبردار جو مجھے دوبارہ ٹھرکی یا کچھ اور کہا۔۔"
اس کی بات سنتی وہ تیزی سے باہر نکل گئی تھی مگر اس کی آخری بات پر وہ تھوڑا کنفیوز ہوگئی تھی۔پھر اچانک اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا تھا اسے صبح بائیک والا لڑکا یاد آیا اس کی ڈریسنگ اور شازل کی ڈریسنگ یاد کرکے اس نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا تھا۔
"یہ لڑکی۔۔مجھے پاگل کرکے چھوڑے گی۔۔"
گن دوبارہ اپنے بوٹ میں چھپاتے اسے اچھے سے پینٹ سے کور کرتے اس نے اپنے لیے ایک چائے منگوائی تھی۔سگریٹ کی ڈبیا اپنی پاکٹ سے نکالتے اس نے ایک سگریٹ نکال کر سلگائی تھی۔سگریٹ کے دھواں ساتھ اسے اپنا غصہ بھی کم ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔
اور پیون کےچائے لانے کے بعد چائے پی کر اسے سکون مل گیا تھا۔
وہ کافی دیر سے ڈرائیور کے آنے کا انتظار کر رہی تھی حس کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔اس کی کلاس پانچ بجے ختم ہوئی تھی اور اب سات بج رہے تھے۔وہ اسے کال بھی ملا چکی تھی مگر اس کا نمبر بزی جارہا تھا۔وہ خود گھر جانے کا سوچ رہی تھی پھر اچانک اس کا دل ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا میں ایک چکر لگانے کا کیا تھا۔
یہ ہی سوچتی وہ اپنی فیورٹ جگہ گراونڈ کے پیچھے درختوں سے بھری جگہ پر گئی تھی وہاں ہلکی ہلکی روشنی تھی۔اس کو اندھیرے سے وحشت محسوس ہوئی وہ واپس مڑتے جانے لگی تھی جب اس دن والے شخص کو اس نے ایک بار پھر اونچی آواز میں کال پر بات کرتے سنا تھا۔
وہ شازل کا نام سنتے ایک دم اشتیاق سے اس کی بات سننے لگی تھی۔
"وہ شازل پاگل ہے بس اسے غصہ کرنا ہی آتا ہے۔۔آپ فکر نہ کریں کسی کو آپ کا پتا نہیں چلے گا۔۔جی جی بس اس کے آنے کی دیر ہے۔۔ہاں یہاں کسی کو میرے بارے میں نہیں پتا۔۔"
اس کے کال ختم ہونے پر نورے تیزی سے وہاں سے جانے لگی تھی جب اچانک پاوں مڑنے پر وہ زور سے نیچے گر گئی تھی۔
وہ آدمی جھٹکے سے نورے کی طرف مڑا تھا۔فورا سے اپنا فون بند کرتے وہ لمبے لمبے ڈھگ بھرتا نورے کی طرف آنے لگا تھا۔نورے ہاتھوں کے بال پیچھے ہٹتی تیزی سے اٹھ کر بھاگنے لگی تھی مگر پاوں سے اٹھنے والی تکلیف اسے چلنے نہیں دے رہی تھی۔
اس آدمی نے نورے کے قریب پہنچتے اس کو بالوں سے دبوچا تھا۔
"تم نے میری باتیں سنیں ہیں؟ سچ سچ بتا دو کب سے کھڑی ہوں یہاں ؟"
اس آدمی نے غصے سے بولتے ہوئے پوچھا تھا۔نورے اپنے بالوں کے کھینچے جانے پر شدید تکلیف میں تھی۔اس نے مڑ کر بنا جواب دیے اس آدمی کے ہاتھ پر زور سے اپنے ناخن گاڑھ دیے تھے۔
اس آدمی کی گرفت ڈھیلی پڑی تھی۔نورے تیزی سے اسے دھکا دیتی وہاںسے بھاگی تھی۔لیکن اس کی سپیڈ اتنی تیز نہیں تھی کہ وہ اس سے پیچھا چھڑوا سکتی۔۔
اس آدمی نے اب کی بار اس کے بالوں کو پکڑ کر اسے نیچے گرایا تھا۔
"سالی۔۔۔ گالی**** مجھے چمکا دینے کی کوشش کر رہی تھی۔ابھی چھکاتا ہوں تجھے مزا۔۔"
وہ اپنی گرفت میں مچلتی نورے کے چہرے پر تھپڑ مارتا بولا تھا۔
"ہیلپ۔۔پلیز کوئی ہے۔۔"
نورے کو اپنے منہ میں خون کا ذائقہ محسوس ہوا تھا وہ منہ جھکائے چیخ مارتی اونچی آواز میں چیخی تھی۔
اس آدمی نے تیزی سے نورے کا منہ پکڑنا چاہا تھا مگر وہ منہ گھٹنوں میں دیے زور سے چیخنے لگی تھی۔اس کی یہ کوشش کامیاب گئی تھی۔شازل جو وہاں سے گزرتا ہوا شارٹ کٹ راستے سے پارکنگ لاٹ میں جارہا تھا اس کی چیخ پر فورا رکا تھا۔
اس نے تیزی سے اپنی گن باہر نکالی تھی۔۔
وہ آدمی اس کے چیخنے پر گھبراتا ہوا وہاں سے بھاگ گیا تھا۔شازل کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ وہاں سے غائب ہوچکا تھا۔
ملجگے اندھیرے میں کسی لڑکی کو زمین پر بیٹھے چیختے دیکھ کر شازل نے اپنی گن والا ہاتھ کمر کے پیچھے کیا تھا۔
"آر یو کریزی ؟ چیخ کیوں رہی ہو؟"
شازل کی آواز سن کر اس نے بھیگی آنکھیں اٹھاتے اسے دیکھا تھا۔
"نورے ؟"
وہ اس کی بکھری حالت دیکھ کر ماتھے پر بل ڈالے تیزی سے اس کے قریب گیا تھا۔اپنی جیکٹ اتارتے اس نے تیزی سے نورے کے کندھے پر ڈالی تھی۔
"و۔۔وہ آ۔۔آپ"
شوک سے اس سے کچھ بولا نہیں جارہا تھا۔شازل کی نظر اس کے ہونٹ پر گئی تھی جس سے خون نکل رہا تھا جبکہ اس کے گال پر سرخ نشان تھے۔
"یہ کس نے کیا ؟"
اس نے بےتاثر انداز میں اس کے قریب پاوں کے بل بیٹھتے ہلکے سے اس کی گال پر انگوٹھا پھیرتے پوچھا تھا۔جبکہ اس کی حالت اسے غصہ دلا رہی تھی جسے اس نے بمشکل قابو کیا ہوا تھا۔
"و۔۔وہ آپ کے بارے میں بات کر رہا تھا۔۔م۔۔میں نے سن لیا تھا۔۔"
وہ اپنی نم پلکیں جھپک کر اسے دیکھتے بولی تھی۔
"کون ؟"
شازل نے اپنا رومال نکالتے دھیرے سے اس کے ہونٹ سے نکلتا خون صاف کیا تھا۔نورے نے تکلیف سے آنکھیں بند کی تھیں۔
"م۔۔میں نہیں جانتی۔۔"
وہ آنکھیں میچ کر بولتی شازل کو بےحد معصوم لگی تھی۔
"اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟ تمھیں آف نہیں ہوگیا تھا۔۔؟"
اس نے ماتھے پر بل ڈالے پوچھا۔
"ڈرائیور لینے نہیں آیا تھا۔۔"
وہ اس سے دور ہٹتی اپنے ہاتھوں کی پشت سے صاف نرتی ہوئی بولی تھی۔اچانک اس کا موبائل رنگ ہوا تھا۔وہ کچھ دور گرا ہوا تھا۔نورے نے خاموشی سے اٹھتے موبائل اٹھایا تھا اسے ڈرائیور کی کال آرہی تھی۔
"تھینک یو مگر مجھے اس کی ضرورت نہیں۔۔"
وہ اپنی شال ٹھیک کرتی شازل کو اس کی جیکٹ پکڑا چکی تھی۔
"ہم کل اس بارے میں بات کریں گے نورے اور تم مجھے بتاو گی وہ آدمی کیا بات کررہا تھا۔"
شازل کی بات کا جواب دیے بنا وہ تیزی سے قدم اٹھاتی وہاںسے چلی گئی تھی۔گھر آکر وہ تیزی سے اپنے کمرے میں گھس گئی تھی اس نے کسی کو آج کے بارے میں نہیں بتایا تھا اور نہ ہی وہ کمرے سے باہر نکلی تھی۔اپنے گال پر آونٹمنٹ لگاتی وہ سونے کے لیے لیٹ گئی تھی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
یہ ہی سوچتی وہ اپنی فیورٹ جگہ گراونڈ کے پیچھے درختوں سے بھری جگہ پر گئی تھی وہاں ہلکی ہلکی روشنی تھی۔اس کو اندھیرے سے وحشت محسوس ہوئی وہ واپس مڑتے جانے لگی تھی جب اس دن والے شخص کو اس نے ایک بار پھر اونچی آواز میں کال پر بات کرتے سنا تھا۔
وہ شازل کا نام سنتے ایک دم اشتیاق سے اس کی بات سننے لگی تھی۔
"وہ شازل پاگل ہے بس اسے غصہ کرنا ہی آتا ہے۔۔آپ فکر نہ کریں کسی کو آپ کا پتا نہیں چلے گا۔۔جی جی بس اس کے آنے کی دیر ہے۔۔ہاں یہاں کسی کو میرے بارے میں نہیں پتا۔۔"
اس کے کال ختم ہونے پر نورے تیزی سے وہاں سے جانے لگی تھی جب اچانک پاوں مڑنے پر وہ زور سے نیچے گر گئی تھی۔
وہ آدمی جھٹکے سے نورے کی طرف مڑا تھا۔فورا سے اپنا فون بند کرتے وہ لمبے لمبے ڈھگ بھرتا نورے کی طرف آنے لگا تھا۔نورے ہاتھوں کے بال پیچھے ہٹتی تیزی سے اٹھ کر بھاگنے لگی تھی مگر پاوں سے اٹھنے والی تکلیف اسے چلنے نہیں دے رہی تھی۔
اس آدمی نے نورے کے قریب پہنچتے اس کو بالوں سے دبوچا تھا۔
"تم نے میری باتیں سنیں ہیں؟ سچ سچ بتا دو کب سے کھڑی ہوں یہاں ؟"
اس آدمی نے غصے سے بولتے ہوئے پوچھا تھا۔نورے اپنے بالوں کے کھینچے جانے پر شدید تکلیف میں تھی۔اس نے مڑ کر بنا جواب دیے اس آدمی کے ہاتھ پر زور سے اپنے ناخن گاڑھ دیے تھے۔
اس آدمی کی گرفت ڈھیلی پڑی تھی۔نورے تیزی سے اسے دھکا دیتی وہاںسے بھاگی تھی۔لیکن اس کی سپیڈ اتنی تیز نہیں تھی کہ وہ اس سے پیچھا چھڑوا سکتی۔۔
اس آدمی نے اب کی بار اس کے بالوں کو پکڑ کر اسے نیچے گرایا تھا۔
"سالی۔۔۔ گالی**** مجھے چمکا دینے کی کوشش کر رہی تھی۔ابھی چھکاتا ہوں تجھے مزا۔۔"
وہ اپنی گرفت میں مچلتی نورے کے چہرے پر تھپڑ مارتا بولا تھا۔
"ہیلپ۔۔پلیز کوئی ہے۔۔"
نورے کو اپنے منہ میں خون کا ذائقہ محسوس ہوا تھا وہ منہ جھکائے چیخ مارتی اونچی آواز میں چیخی تھی۔
اس آدمی نے تیزی سے نورے کا منہ پکڑنا چاہا تھا مگر وہ منہ گھٹنوں میں دیے زور سے چیخنے لگی تھی۔اس کی یہ کوشش کامیاب گئی تھی۔شازل جو وہاں سے گزرتا ہوا شارٹ کٹ راستے سے پارکنگ لاٹ میں جارہا تھا اس کی چیخ پر فورا رکا تھا۔
اس نے تیزی سے اپنی گن باہر نکالی تھی۔۔
وہ آدمی اس کے چیخنے پر گھبراتا ہوا وہاں سے بھاگ گیا تھا۔شازل کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ وہاں سے غائب ہوچکا تھا۔
ملجگے اندھیرے میں کسی لڑکی کو زمین پر بیٹھے چیختے دیکھ کر شازل نے اپنی گن والا ہاتھ کمر کے پیچھے کیا تھا۔
"آر یو کریزی ؟ چیخ کیوں رہی ہو؟"
شازل کی آواز سن کر اس نے بھیگی آنکھیں اٹھاتے اسے دیکھا تھا۔
"نورے ؟"
وہ اس کی بکھری حالت دیکھ کر ماتھے پر بل ڈالے تیزی سے اس کے قریب گیا تھا۔اپنی جیکٹ اتارتے اس نے تیزی سے نورے کے کندھے پر ڈالی تھی۔
"و۔۔وہ آ۔۔آپ"
شوک سے اس سے کچھ بولا نہیں جارہا تھا۔شازل کی نظر اس کے ہونٹ پر گئی تھی جس سے خون نکل رہا تھا جبکہ اس کے گال پر سرخ نشان تھے۔
"یہ کس نے کیا ؟"
اس نے بےتاثر انداز میں اس کے قریب پاوں کے بل بیٹھتے ہلکے سے اس کی گال پر انگوٹھا پھیرتے پوچھا تھا۔جبکہ اس کی حالت اسے غصہ دلا رہی تھی جسے اس نے بمشکل قابو کیا ہوا تھا۔
"و۔۔وہ آپ کے بارے میں بات کر رہا تھا۔۔م۔۔میں نے سن لیا تھا۔۔"
وہ اپنی نم پلکیں جھپک کر اسے دیکھتے بولی تھی۔
"کون ؟"
شازل نے اپنا رومال نکالتے دھیرے سے اس کے ہونٹ سے نکلتا خون صاف کیا تھا۔نورے نے تکلیف سے آنکھیں بند کی تھیں۔
"م۔۔میں نہیں جانتی۔۔"
وہ آنکھیں میچ کر بولتی شازل کو بےحد معصوم لگی تھی۔
"اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟ تمھیں آف نہیں ہوگیا تھا۔۔؟"
اس نے ماتھے پر بل ڈالے پوچھا۔
"ڈرائیور لینے نہیں آیا تھا۔۔"
وہ اس سے دور ہٹتی اپنے ہاتھوں کی پشت سے صاف نرتی ہوئی بولی تھی۔اچانک اس کا موبائل رنگ ہوا تھا۔وہ کچھ دور گرا ہوا تھا۔نورے نے خاموشی سے اٹھتے موبائل اٹھایا تھا اسے ڈرائیور کی کال آرہی تھی۔
"تھینک یو مگر مجھے اس کی ضرورت نہیں۔۔"
وہ اپنی شال ٹھیک کرتی شازل کو اس کی جیکٹ پکڑا چکی تھی۔
"ہم کل اس بارے میں بات کریں گے نورے اور تم مجھے بتاو گی وہ آدمی کیا بات کررہا تھا۔"
شازل کی بات کا جواب دیے بنا وہ تیزی سے قدم اٹھاتی وہاںسے چلی گئی تھی۔گھر آکر وہ تیزی سے اپنے کمرے میں گھس گئی تھی اس نے کسی کو آج کے بارے میں نہیں بتایا تھا اور نہ ہی وہ کمرے سے باہر نکلی تھی۔اپنے گال پر آونٹمنٹ لگاتی وہ سونے کے لیے لیٹ گئی تھی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
"شاہزیب اس منحوس شخص نے مجھے فیل کردیا ہے۔۔"
وہ شاہزیب کے سینے میں منہ دیے روتے ہوئے بولی تھی۔تھوڑی دیر پہلے اس کا رزلٹ آیا تھا اور وہ ایک سبجیکٹ میں فیل ہوگئی تھی۔اور وہ سبجیکٹ رحمان کا تھا۔
"اس کو لگتا ہے اپنی جان پیاری نہیں۔۔اور خبرادار جو تم نے ایک معمولی سے رزلٹ پر آنسو بہائے۔۔فورا اپنی آنکھیں صاف کرو۔۔"
شاہزیب نے رحمان کا سوچتے لب بھینچ کر افرحہ کے آنسو صاف کیے تھے۔
"شاہزیب میری پورے سمسٹر کی محنت تھی۔"
وہ اپنی آنکھیں صاف کرتی بولی تھی۔شاہزیب کو یونیورسٹی میں داخل ہونے کی پرمیشن نہیں تھی جب سے اس نے رحمان کو مارا تھا اس کا یونیورسٹی میں داخلہ ممنوع تھا۔ڈرائیور ہی اسےچھوڑ کر اور لے کر آتا تھا۔
"اگر آپ اپنا غصہ کنڑول کرلیتے تو آج ایسا نہ ہوتا۔۔"
وہ منہ پھولا کر بولی تھی۔شاہزین نے اس کے چہرے پر ہاتھ رکھتے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔
"اگر کسی نے بھی تمھاری طرف گندی نظروں سے دیکھنے کی کوشش کی اس کی آنکھیں نکال لوں گا۔۔میں اپنی محبت کی طرف کسی کو آنکھ بھر کر دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔۔تمھارے معاملے مجھ میں کنٹرول نام کی کوئی چیز نہیں ہے افرحہ شاہزیب میر حاتم شاہ۔۔"
وہ مضبوط لہجے میں ہر لفظ پر زور دے کر بولا تھا۔
"یہ ایگزام تم دوبارہ سمر میں دے دینا اب ٹینشن لینے لی ضرورت نہیں اور اس گھٹیا شخص سے دور رہنا۔۔"
شاہزیب وارننگ والے انداز میں بولا تھا۔افرحہ نے اس کی بات پر سر ہلایا تھا۔اسے خود بھی رحمان پر شدید غصہ آرہا تھا۔دل کر رہا تھا اس کے بال نوچ لے جس نے اس کے ساتھ ناانصافی کی تھی۔
شاہزیب کے سمجھانے پر وہ تھوڑا پرسکون ہوتی اس کے کندھے پر سر ٹکا گئی تھی۔شاہزیب نے محبت سے اس کے گرد بازو پھیلا لیے تھے۔
وہ شاہزیب کے سینے میں منہ دیے روتے ہوئے بولی تھی۔تھوڑی دیر پہلے اس کا رزلٹ آیا تھا اور وہ ایک سبجیکٹ میں فیل ہوگئی تھی۔اور وہ سبجیکٹ رحمان کا تھا۔
"اس کو لگتا ہے اپنی جان پیاری نہیں۔۔اور خبرادار جو تم نے ایک معمولی سے رزلٹ پر آنسو بہائے۔۔فورا اپنی آنکھیں صاف کرو۔۔"
شاہزیب نے رحمان کا سوچتے لب بھینچ کر افرحہ کے آنسو صاف کیے تھے۔
"شاہزیب میری پورے سمسٹر کی محنت تھی۔"
وہ اپنی آنکھیں صاف کرتی بولی تھی۔شاہزیب کو یونیورسٹی میں داخل ہونے کی پرمیشن نہیں تھی جب سے اس نے رحمان کو مارا تھا اس کا یونیورسٹی میں داخلہ ممنوع تھا۔ڈرائیور ہی اسےچھوڑ کر اور لے کر آتا تھا۔
"اگر آپ اپنا غصہ کنڑول کرلیتے تو آج ایسا نہ ہوتا۔۔"
وہ منہ پھولا کر بولی تھی۔شاہزین نے اس کے چہرے پر ہاتھ رکھتے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔
"اگر کسی نے بھی تمھاری طرف گندی نظروں سے دیکھنے کی کوشش کی اس کی آنکھیں نکال لوں گا۔۔میں اپنی محبت کی طرف کسی کو آنکھ بھر کر دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔۔تمھارے معاملے مجھ میں کنٹرول نام کی کوئی چیز نہیں ہے افرحہ شاہزیب میر حاتم شاہ۔۔"
وہ مضبوط لہجے میں ہر لفظ پر زور دے کر بولا تھا۔
"یہ ایگزام تم دوبارہ سمر میں دے دینا اب ٹینشن لینے لی ضرورت نہیں اور اس گھٹیا شخص سے دور رہنا۔۔"
شاہزیب وارننگ والے انداز میں بولا تھا۔افرحہ نے اس کی بات پر سر ہلایا تھا۔اسے خود بھی رحمان پر شدید غصہ آرہا تھا۔دل کر رہا تھا اس کے بال نوچ لے جس نے اس کے ساتھ ناانصافی کی تھی۔
شاہزیب کے سمجھانے پر وہ تھوڑا پرسکون ہوتی اس کے کندھے پر سر ٹکا گئی تھی۔شاہزیب نے محبت سے اس کے گرد بازو پھیلا لیے تھے۔
"عادل۔۔۔عادل۔۔"
اس نے چیخ چیخ کر عادل کو اٹھایا تھا جو گہری نیند میں سو رہا تھا۔۔
"ہاں ہاں کیا ہوا؟"
وہ بجلی کی تیزی سے اٹھ کر بیٹھتا پوچھنے لگا تھا اس نے ناسمجھ نظروں سے بریرہ کو دیکھا تھا۔رات کی ڈیوٹی کی وجہ سے اب وہ اچھا خاصا تھکا ہوا تھا۔
"تم نےکل وعدہ کیا تھا آج میرے ساتھ والک پر جاو گے۔"
وہ کمر پر ہاتھ ٹکاتی بولی تھی۔عادل نے گھور کر اسے دیکھا تھا۔۔
"مجھے نہیں یاد میں نے یہ کب کہا تھا اور تمھیں کیا ضرورت ہے اتنی ٹھنڈ میں والک کرنے کی؟"
اس نے نیند میں ڈوبی آواز میں پوچھا تھا۔
"میں موٹی ہورہی ہوں عادل۔۔۔تمھیں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔۔"
وہ پل میں ایموشن ہوگئی تھی۔عادل اس کی نم آنکھیں دیکھ کر گھبرا گیا تھا۔
"میری جان تمھیں کس نے کہہ دیا تم موٹی ہوگئی ہو؟"
وہ اس کا نازک سراپا دیکھتا حیرت سے پوچھنے لگا۔
"میں نے ویٹ کیا تھا پورا پانچ کے جی بڑھ گیا ہے۔۔"
وہ نم آنکھوں سے ہریشان سی بولی تھی۔عادل نے اسے نرمی سے پکڑ کر اپنے قریب کرتے اس کا ماتھا چوما تھا۔
"اچھا تم پریشان نہ ہو دو منٹ دو میں فریش ہوجاوں پھر چلتے ہیں۔۔"
عادل کے جواب پر وہ خوش ہوگئی تھی عادل اٹھ کر فریش ہونے چلا گیا تھا۔وہ عادل کی جگہ پر بیٹھی بیٹھی کب سوگئی اسے پتا ہی نہیں چلا۔۔عادل نے فریش ہوکر جب اسے سوتے دیکھا تو اپنا سر جھٹک نر اسے جگانے کی بجائے وہ خود بھی لیٹ گیا تھا۔شدید تھکاوٹ کی وجہ سے بریرہ کو باہوں میں بھرے وہ جلدی سو گیا تھا۔
اس نے چیخ چیخ کر عادل کو اٹھایا تھا جو گہری نیند میں سو رہا تھا۔۔
"ہاں ہاں کیا ہوا؟"
وہ بجلی کی تیزی سے اٹھ کر بیٹھتا پوچھنے لگا تھا اس نے ناسمجھ نظروں سے بریرہ کو دیکھا تھا۔رات کی ڈیوٹی کی وجہ سے اب وہ اچھا خاصا تھکا ہوا تھا۔
"تم نےکل وعدہ کیا تھا آج میرے ساتھ والک پر جاو گے۔"
وہ کمر پر ہاتھ ٹکاتی بولی تھی۔عادل نے گھور کر اسے دیکھا تھا۔۔
"مجھے نہیں یاد میں نے یہ کب کہا تھا اور تمھیں کیا ضرورت ہے اتنی ٹھنڈ میں والک کرنے کی؟"
اس نے نیند میں ڈوبی آواز میں پوچھا تھا۔
"میں موٹی ہورہی ہوں عادل۔۔۔تمھیں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔۔"
وہ پل میں ایموشن ہوگئی تھی۔عادل اس کی نم آنکھیں دیکھ کر گھبرا گیا تھا۔
"میری جان تمھیں کس نے کہہ دیا تم موٹی ہوگئی ہو؟"
وہ اس کا نازک سراپا دیکھتا حیرت سے پوچھنے لگا۔
"میں نے ویٹ کیا تھا پورا پانچ کے جی بڑھ گیا ہے۔۔"
وہ نم آنکھوں سے ہریشان سی بولی تھی۔عادل نے اسے نرمی سے پکڑ کر اپنے قریب کرتے اس کا ماتھا چوما تھا۔
"اچھا تم پریشان نہ ہو دو منٹ دو میں فریش ہوجاوں پھر چلتے ہیں۔۔"
عادل کے جواب پر وہ خوش ہوگئی تھی عادل اٹھ کر فریش ہونے چلا گیا تھا۔وہ عادل کی جگہ پر بیٹھی بیٹھی کب سوگئی اسے پتا ہی نہیں چلا۔۔عادل نے فریش ہوکر جب اسے سوتے دیکھا تو اپنا سر جھٹک نر اسے جگانے کی بجائے وہ خود بھی لیٹ گیا تھا۔شدید تھکاوٹ کی وجہ سے بریرہ کو باہوں میں بھرے وہ جلدی سو گیا تھا۔
جاری ہے۔۔